حافظ مومن خان عثمانی
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے نتائج کو الیکشن کے چند دن بعد ہی مسترد کردیا تھا اور اسے انجینئرڈ الیکشن قرار دے کر اس کے خلاف ایوان نہیں میدان کا نعرہ مستانہ بلند کیا تھا، کہ اب فیصلے غلامی کے جھکڑے ہوئے ایوان میں نہیں بلکہ میدان میں ہوں گے، کیونکہ ایوان عوام کی نمائندگی نہیں کرتے ان میں بیٹھی ہوئے اکثریت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آئی اور جب ایوان عوام کی نمائندگی سے خالی ہوں وہ جعلی ایوان ہیں اور جعلی ایوان ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتے، اس قسم کے ایوان ملک وقوم کی ابتری، تباہی، انتشار اور افلاک کا سبب ہی بنیں گے، ایسے ایوانوں میں بیٹھنے سے چند لوگ تو مستفید ہوسکتے ہیں، ان کو مراعات و آسائشیں تو مل سکتی ہیں، مگر ملک وقوم کے لئے یہ ایک دردناک عذاب سے کم نہیں ہوں گے، اس لئے جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس عاملہ نے الیکشن کے فوراً بعد 8 فروری کے انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میدانوں کی طرف نکلنے کا اعلان کیا کہ ایوان سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے اب عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقتدر قوتوں کو بتایا جائے گا کہ تم انتخابی نتائج تو تبدیل کرسکتے ہو مگر عوام کی ذہنیت کو تبدیل نہیں کرسکتے، تم بیلٹ بکس تو چرا سکتے ہو مگر عوامی ذہنوں سے ہماری محبت نہیں نکال سکتے، اس سلسلہ کا سب سے پہلا اجلاس 20 اپریل کو عوامی اسمبلی کے نام سے پشین بلوچستان میں منعقد ہوا جس میں بلوچستان کی عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے نادیدہ قوتوں کی آنکھیں کھول دیں کہ عوامی طاقت اب بھی جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ہے، عوام کے دل اب بھی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ دھڑک رہے ہیں، ان کے دل ودماغ پر اب بھی مولانا کی حکومت ہے اور گزشتہ الیکشن کے نتائج حقائق کے بالکل برعکس ہیں، مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ میدان کی بازی جیتی ہے، ربع صدی پیچھے جاکر تاریخ کامطالعہ کریں تو آپ کو صاف نظر آجائے گا کہ نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا کے حالات نے کروٹ لی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر جو حالات پیدا ہوئے پھر رفتہ رفتہ وہ جس نہج پر پہنچے اور ملک کا مستقبل مخدوش نظر آنے لگا، مذہبی لوگوں کی اکثریت بندوق اور بارود کی طرف بڑھنے لگے، قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں نوجوان جنگجویانہ کاروائیوں کی طرف قدم اٹھانے لگے تو معلوم ہورہا تھا کہ کسی بھی وقت ملک آگ اور شعلوں کی لپیٹ میں آجائے گا، عوام اور ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہو جائیں گے، آئین وقانون سے بغاوت کے سائے ملک کے چاروں کونوں میں منڈلاتے ہوئے نظر آنے لگے، مذہبی نوجوانوں کو اشتعال میں لانے کے لئے باجوڑ مدرسہ کے بعد لال مسجد و جامعہ حفصہ کا دل ہلا دینے والا سانحہ بھی کرایا گیا، جس سے مذہبی نوجوانوں کے غیظ و غضب کو خوب بھڑکایا گیا قریب تھا کہ ملک بھر کے مذہبی طبقات آئین وقانون سے بغاوت کا اعلان کردیں، لیکن مذہبی طبقہ کے اس غیظ و غضب کو اگر کسی نے ٹھنڈا کرکے انہیں مملکت پاکستان کا وفادار اور آئین وقانون کا پابند بنائے رکھا اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ یہ ملک ہمارا ہے ہمارے اکابر کی بیش بہا قربانیوں سے وجود میں آیاہے، اس کا تحفظ بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے، ہم اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل چند جذباتی نعروں کی نذر نہیں کرسکتے، تو وہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی شخصیت تھی جنہوں نے میدان میں نکل کر میران شاہ سے لے کر کراچی اور گلگت سے لے کر گوادر تک ملک کے کونے کونے کا دورہ کرکے مذہبی نوجوانوں کو سمجھایا کہ پاکستان کے اندر ان حالات میں اسلحہ اٹھانا نہ ملک وقوم کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مذہبی طبقات اور دینی اداروں کے لئے فائدہ مند ہے، ہم سب کا مفاد اور ہم سب کی خیرو بھلائی اسی میں ہے کہ ہم آئین وقانون کے پابند ہوکر آئینی طریقہ سے نفاذ اسلام کے لئے جدوجہد کریں اور مدارس اسلامیہ کے اندر اپنے تعلیمی سلسلے کو برقرار اور محفوظ رکھیں، آپ نے پشاور، لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے علاوہ کئی دیگر مقامات پر تمام علماء ومشائخ اور دینی مدارس کے ذمہ داروں کو جمع کرکے ان کے سامنے حالات کاتجزیہ کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں رہنے کی بار بار تلقین کی اور اس جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ جذباتیت کاوہ ماحول آہستہ آہستہ سنجیدگی میں تبدیل ہوتا گیا، ملک میں جب خود کش حملوں کا سوال پیدا ہوا اور کچھ قوتوں نے اس کی حوصلہ افزائی شروع کی تو قائد جمعیت پھر میدان میں کود پڑے اور ملک کے تمام علماء کرام کو اس بات پر متفق کیا کہ پاکستان کے اندر خود کش حملے قطعاً حرام اور ناجائز ہیں، جب قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع ہوا اور وہاں کے قبائل میں اضطراب پھیل گیا لوگ بغاوت کی طرف بڑھنے لگے تو قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن ایک دفعہ پھر میدان میں آگئے اور قبائل کو جرگوں کے ذریعے سمجھایا کہ وہ مملکت پاکستان سے اپنی وفاداری کو برقرار رکھیں اور حکومت وقت بھی سمجھاتے رہے کہ وہ قبائل پر ظلم وستم کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنائے، گفتگو کرے، مذاکرات کرے، جمہوری طریقہ کار کو اپنا کر اپنے لوگوں پر بم اور بارود کی بارش کرنے سے باز رہے، نائن الیون کے بعد مولانا فضل الرحمن کی زندگی اسی میدانی جہد مسلسل سے عبارت ہے کہ جب بھی ملک وقوم پر کوئی افتاد پڑی ہے، اندرونی اور بیرونی طاقتوں کے ناعاقبت اندیش پالیسیوں نے جب بھی عوام میں اضطراب پیدا کیا ہے، جب بھی مذہبی طبقات میں بے چینی پھیلی ہے، جب بھی دینی مدارس پر کوئی آنچ آئی ہے، جب بھی اندرونی یا بیرونی خطرات سامنے آئے ہیں، تو مولانا فضل الرحمن میدان میں اُتر آئے ہیں، پرویز مشرف کے دور میں جب انڈیا کے ساتھ تعلقات نہایت ہی کشیدہ ہوگئے تو اس وقت بھی مولانا صاحب میدان میں کود گئے تھے اور اپنے ساتھ علماء کا ایک وفد لے کر دیوبند اور دہلی کے سفر پر تشریف لے گئے اور سرحدوں پر لگی ہوئی آگ کے شعلوں کو بجھانے میں کامیاب و کامران نظر آئے تھے، 2018ء کے الیکشن میں قوم کی رائے پر ڈاکہ ڈالا گیا تو مولانا صاحب نے ایسے حالات میں میدان سنبھالا کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں اور ان کی قیادت پر کپکپی طاری تھی، ان کی زبانوں پر خاموشی کے تالے لگے ہوئے تھے، آج بھی ملک وقوم پر پھر ایک افتاد پڑی ہے الیکشن کے نتائج چوری کرکے عوام کی رائے کو بلڈوز کردیا گیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جیتنے والے بھی پریشان نظر آئے اور کوئی پارٹی حکومت لینے کے لئے آمادہ نظر نہیں آئی اور یہ گھنٹی زبردستی کچھ لوگوں کے گلے میں باندھی گئی ہے، جس پر ان کے اپنے دوست بھی نالاں نظر آرہے ہیں، ہمارے ملک کے اندر انتخابات میں پیسے کا استعمال تو ہمیشہ ہوا ہے مگر اس دفعہ جس طرح پیسہ لٹایا اور پیسہ لوٹا گیا ہے اس کی مثال ماضی کے کسی الیکشن میں نہیں ملتی، پہلے تو چند منظور نظر افراد پر نظر کرم کی جاتی تھی مگر اس دفعہ پوری کی پوری اسمبلیوں کو سینے سے لگایا گیا ہے، 2 مئی 2024ء کو کراچی میں عوامی اسمبلی کا دوسرا عظیم الشان اجلاس ہوا، جس میں لاکھوں افراد کی شرکت نے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں کھلبلی مچادی، مولانا فضل الرحمن نے ایک بارپھر میدان کو ایسا سجادیا ہے کہ حکومتی محلات پر رعشہ طاری ہے، حکمرانوں کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ کسی طرح مولانا صاحب کو راضی کرلیا جائے چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے مگر مولانا صاحب کو جنرل ضیاء الحق کا مارشل لائی جبرو استبداد اور جنرل مشرف کا ظلم وبربریت نہیں جھکا سکا تو حافظ، شہباز اور زرداری ٹرائیکا انہیں کیسے جال میں پھنسا سکے گا، پشین اور کراچی میں عوامی سیلاب نے ثابت کردیا ہے کہ عوامی سیلاب اور 8 فروری کے الیکشن کے نتائج کے تناسب میں کوئی جوڑ نہیں، 9 مئی کو ”ایوان نہیں میدان“ کی عوامی اسمبلی کا تیسرا اجلاس پشاور کی سرزمین پر ہوگا، جہاں مونچھوں والی سرکار شہد کی بوتلوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں، پشاور کی عوامی اسمبلی کا فقید المثال اجتماع اسٹبلشمنٹ کی آنکھیں یقیناً کھول دے گا جہاں مسلسل چوتھی دفعہ اس صوبہ کی عوام کی رائے پر بے رحمانہ ڈاکہ ڈالا گیا ہے، آج اگر یہ صوبہ قرضوں کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا رویا جارہا ہے اور پورا صوبہ کھنڈرات کی صورت میں تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تویہ تسلسل کے ساتھ اس ڈاکہ زنی کا منطقی نتیجہ ہے جس کی سزا پختونخوا کی عوام بھگت رہی ہے، کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ مولانا فضل الرحمن اس لئے ناراض ہیں کہ انہیں صدارت کی کرسی نہیں ملی مگر اس قسم کی ذہنیت کو سمجھنا چاہئے کہ گذشتہ حکومت کے خلاف جب مولانا صاحب ساڑھے چار سال تک جدوجہد کرتے رہے اس وقت کونسی صدارت کی کرسی کی ناراضگی تھی آج اگر زرداری صاحب صدارت کی کرسی اور میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوکر حکمرانی کی مزے لوٹ رہے ہیں تو یہ مولانا فضل الرحمن کی ساڑھے چار سالہ محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے اگر اس وقت مولانا صاحب میدان میں نہ نکلتے تو آج دونوں بڑی کرسیوں والے اڈیالہ جیل میں عمران نیازی کی جگہ زنداں کی زینت بن کر ایک دوسرے کے ساتھ گلے مل کر آہ و زاریاں کرتے ہوئے نظر آتے مگر مولانا فضل الرحمن کی محنت کے پھل سے آج شہباز اور زرداری کے ساتھ حافظ جی بھی خالص گھی کے سوہن حلوے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں