مملکت پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی یلغار۔ حافظ مومن خان عثمانی


مملکت پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی یلغار

حافظ مومن خان عثمانی

مملکت پاکستان نظریہ اسلام پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے معرض وجود میں آیاتھا، کلمہ اسلام کے نعرے نے ملک کی آزادی کے لئے عوام میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کیا تھا، جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان ومال اور عزتوں کی قربانی کی لازوال تاریخ رقم کی تھی، بانیانِ پاکستان نے ملک کے کونے کونے میں جاکر اسلام کے نام پر مسلمانانِ برصغیر سے مملکت پاکستان کے لئے قربانیوں کا مطالبہ کیا تھا جس پر مسلمانانِ ہند نے اپنا سب کچھ نچاور کرکے پاکستان کے نام سے ایک آزاد ملک حاصل کیا، مگر افسوس کہ پون صدی کے گزر جانے کے بعد بھی اس ملک کاوہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جس کے لئے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ لٹایا تھا، وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونا دور کی بات ہے اب تو مملکت پاکستان کو اس کے مقاصد سے بالکل الٹ بے، راہ روی، آزاد خیالی، فحاشی وعریانی، میرا جسم میری مرضی بلکہ اس سے بھی دس قدم آگے بڑھ کرہم جنس پرستی کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اس گھناؤنے فعل میں مغربی قوتوں کے گماشتوں کے ساتھ ساتھ مملکت پاکستان کی مقتدر قوتیں اور کچھ ادارے بھی برابر کے شریک ہیں، گزشتہ دور حکومت میں اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور تمام سرکاری تعلیمی اداروں کے دروازوں پر ہم جنس پرستوں کے ”لوگو“ پر مشتمل مختلف رنگوں کا ٹائٹل چسپاں کیا گیا، جو اس گندے فعل کی اشاعت وترویج کی ابتداء تھی،بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ”پریتم گیانی“ نامی شخص کی وہ درخواست ضرور دیکھی ہوگی جو اس نے 8 مئی2024 کو ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر کو دی تھی جس میں اس نے ببانگ دہل لکھا کہ ”میں یہاں ایبٹ آباد میں ہم جنس پرستوں کا ایک کلب قائم کرنا چاہتا ہوں جو اراکین اور غیر اراکین دونوں کے لئے کھلا رہے قدرتی طور پر اراکین کو مزید سہولیات دستیاب ہیں، یہ بہت سے ہم جنس پرستوں، ابیلنگیوں اور یہاں تک کہ خاص طور پر ایبٹ آباد اور ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے کچھ ہم جنس پرست لوگوں کے لئے ایک بڑی عملی سہولت اور وسیلہ بنے گا..... یہ ایسا مقام ہوگا جہاں ہم جنس پرست لوگ آزادانہ طور پر مل سکتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں اور دوسرے ہم جنس پرستوں کے ساتھ ہلکی پھلکی تازگی کا اشتراک کرسکتے ہیں.... آزادنہ طور پر میل جول بنیادی انسانی حق کا معاملہ ہے جو ملک کے آئین میں درج ہے اگر سنوکر کھیلنے میں دلچسپی رکھنے والے (کافی کم) لوگوں کے لئے ایک سنوکر کلب قائم کیا جاسکتا ہے، تو زمین پر ہم جنس پرستی میں دلچسپی رکھنے والے (زیادہ) لوگوں کے لئے ہم جنس پرستوں کا کلب کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ آئیے ہم سب متعصب پسماندہ، غیر مہذب وحشیوں کی بجائے انصاف پسند،روادار اور جدید لوگ بننے کی کوشش کریں.... اس کے بعد آپ کو کسی بھی وقت کلب کا دورہ کرنے کے لئے خوش آمدید کہا جائے گا اور وہاں ہونے والی سرگرمیوں کا خود مشاہدہ کریں“پہلے تو اس لوطی کی ذہنیت کا اندازہ لگائیں کہ چندبے غیرت لوطیوں کے علاوہ 24کروڑ پاکستان اور غیرت مند مسلمان اس لعین کو متعصب، پسماندہ، غیر مہذب اور وحشی نظر آتے ہیں اور لواطت کے جوہڑ میں چند گندے کیڑے اس کو انصاف پسند،روادار اور جدید دکھائی دیتے ہیں، لیکن اللہ بھلا کرے ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر کا جنہوں نے بڑے ادب واحترام کے ساتھ ”پریتم گیانی“ کے سرعام لواطت کے لئے اجازت مانگنے کی درخواست کو مسترد کردیا،چاہئے تو یہ تھا کہ ”پریتم گیانی“ نامی شخص کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا جاتا کہ اس کو کلمہ اسلام کے نام پر بننے والے اس نظریاتی ملک میں اس قسم کے گندے فعل کے لئے اجازت کیسے مانگی، لواطت اس روسیاہ کو اس گھناؤنے فعل کو سرعام کرنے کے لئے درخواست دینے کی جرات کیسے ہوئی،ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی دینداری کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے سرعام لواطت کی اجازت مانگنے والی درخواست کو بڑے ادب واحترام کے ساتھ مسترد کردیا ورنہ اگر وہ اجازت مرحمت فرما دیتے تو ایبٹ آباد کے لوگ ان کاکیا بگاڑ سکتے تھے، اگر کچھ سرپھرے ان کے خلاف آواز بلند کرتے تو وہ کسی یورپی ملک میں پناہ لینے کے لئے ویزہ لگوا کر رفو چکر ہو جاتے لیکن شاید اس طویل سوچ وبچار کی طرف ان کے ذہن کی رسائی نہیں ہوئی،ورنہ ان کے لئے کسی یورپی ملک میں قدم رنجہ ہونے کے لئے سنہری موقع تھا، اس شخص کی درخواست سے معلوم ہوتا ہے کہ ایبٹ آباد کی دھرتی پر یہ اکیلا نہیں اس کے ساتھ پوری گینگ ہے، جن کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ اب انہیں کلب کی ضرورت پیش آگئی ہے، ایبٹ آباد اور ہزارہ کی سرزمین پر اس قسم کے گھناؤنے فعل کی اجازت مانگنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کو درخواست ہزارہ بلکہ ملک بھر کے مسلمانوں کے لئے صرف لمحہ فکریہ نہیں بلکہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ غیرت مند مجاہدین کی سرزمین پر اس قسم کے غلیظ لوگ اپنے گندے معاملات اور اس قدر خطرناک جذبات کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، جو سرعام لواطت کی منڈی سجا کر ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھی اس کے مشاہدات کی دعوت دیتے ہوئے نہیں شرماتے، درخواست دہندہ نے سرزمین ایبٹ آباد پر غیرت کا جنازہ بڑے دھوم سے نکالنے کی کوشش کی تھی مگر ڈپٹی کمشنر کی طبع ناساز اس میں رکاوٹ بن گئی، وہ اس گروہ کی ہلکی پھلکی تازگی کے تبادلے میں دیوار بن گئے،ڈپٹی کمشنر صاحب نے صرف درخواست کو مسترد کرتے ہوئے بزعم خود اپنے فرض منصبی کو خوب نبھایا، لیکن نہ اس کو بلاکر پوچھا کہ اس نظریاتی مملکت خداد میں تمہیں یہ تعلیم کس نے دی، یہ غلاظت بھرا جذبہ کس نے سکھایا،تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ تم اس پاک سرزمین پر اس قسم کی بے حیائی اور بے غیرتی کو سرعام کرنے کی جسارت کرتے ہو، لیکن شاید یہ ٹیسٹ کیس تھا، یہاں ”پریتم گیانی“ اور اس کے گروہ کے چند افراد نہیں بلکہ ان کے پیچھے بہت بڑی اور منظم قوت ہے جو یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس درخواست پر سرزمین ایبٹ آباد کے باسیوں کا کیا ردعمل آتا ہے،یہاں کے مکینوں کے شرم وحیاء اور غیرت کا پیمانہ کس قدر ابھر تا ہے، یہاں کے مسلمان اس پر کس قدر مشتعل ہوتے ہیں؟ یہاں کے لوگ اس کو کس قدر سیریس لیتے ہیں، اس دفعہ تو ایک ”پریتم گیانی“ کی طرف سے درخواست آگئی اور ڈپٹی کمشنر صاحب نے خیر سے مسترد بھی کردی، کچھ عرصہ بعد اس کے نتائج دیکھیں کیا ہوتے ہیں؟ کتنے ”پریتم گیانی“ ایبٹ آباد کی سرزمین پر سامنے آتے ہیں اور ان کی درخواستوں پر کیا کاروائی ہوتی ہے؟دوسری طرف عالمی دجال امریکہ کی طرف سے 25جنوری 2024 سے مملکت پاکستان میں ہم جنس پرستوں ایک میوزیکل بینڈ مختلف تعلیمی اداروں میں اپنے پرفامنس کا مظاہرہ کرنے آیاہے یہ بینڈ یکم مئی 2024 کو لاہور سکول آف اکنامکس میں اپنے غلیظ فن کے جلوے دکھا چکا ہے، اس سے اگلے دن ہم جنس پرستوں کے اس بینڈ نے Gsیونیورسٹی میں اپنے گندے فن کا مظاہرہ کرنا تھا یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے اس بینڈ کو اجازت بھی مل چکی تھی بلکہ فی میل سٹوڈنٹس کو اس میں شرکت کا پابند بھی بنایا گیا تھا مگر ایک طلبہ تنظیم نے غیرت کاثبوت دیتے ہوئے اس کے خلاف ایمانی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کیا جس پر ہم جنس پرستوں کے اس امریکی ٹولے کو یہاں غلاظت پھیلانے کی جرات نہ ہوسکی، چار مئی کو اس بینڈ نے ملتان یونیورسٹی میں شرم وحیاء اور غیرت کا جنازہ نکالنا تھا لیکن کچھ صاحب ایمان طلبہ وطالبات نے یہاں اس ہم جنس پرست ٹولے کواس کے بنگ میں رنگ ڈالنے کی اجازت نہ دی اور اس بینڈ کو یہاں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، مگر امریکی قونصلیٹ لاہور نے ای میل کے ذریعے ملتان یونیورسٹی کی انتظامیہ کا شکریہ اداکرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ اس دفعہ اگر چہ بعض وجوہات کی بناپر ہم جنس پرستوں کا یہ شو نہ ہوسکا لیکن ہم یونیورسٹی کے مشکور ہیں کہ اس نے اپنا کیمپس ہمارے حوالے کردیا تھا، جلد ہم اس طرح کے پروگرامز کے ساتھ دوبارہ حاضرہوں گے، 10 مئی کو اس بینڈ نے آرٹس کونسل کراچی میں اپنے نجاست بھرے فن کا مظاہرہ کرنا تھا مگر جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر قاری محمد عثمان نے جمعیت علماء اسلام اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے وفد کے ساتھ آرٹس کونسل کے صدر سابق صوبائی وزیر سید احمد شاہ سے ملاقات کرکے مسلمانانِ کراچی کے جذبات سے انہیں آگاہ کیا اور کراچی کی سرزمین پر اس قسم کی بے غیرتی کے مظاہرے پر پابندی کا مطالبہ کیا جس پرسید احمد شاہ نے اس شو کو کینسل کرکے مسلمانانِ کراچی کو اس بے شرمی بے حیائی اور بے غیرتی سے بچا دیا، افسوس کی بات یہ ہے کلمہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اسلامی ملک کے اندر اس طرح کے لوگوں کو آنے کی اجازت کون دیتا ہے؟کونسا ادارہ ہے جو ملک وقوم کو اس بے غیرتی کی طرف دھکیلتا ہے اور اس قسم کے لوگوں کو ملک میں آنے اور یہاں کے نوجوان نسل کوتباہ کرنے کی اجازت دیتا ہے،کیا یہ لوگ اور یہ ادارے آئین پاکستان کے پابند نہیں؟ انہیں ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت کس نے دی ہے،کونسی قوتیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں، کونسے لوگ ہیں جو سرعام آئین پاکستان سے بغاوت کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں اس قسم کی بے راہ روی کو ترویج دے رہے ہیں؟ یہیں سے ملحد، زندیق، گستاخ رسول اور شعائر اسلام کا مذاق اُڑانے والے بدبخت پیدا ہوتے ہیں جن کی غلاظت دھونے کے لئے پوری قوم کو آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔


0/Post a Comment/Comments