مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ بنوریہ عالمیہ کے طلبہ و علماء سے خصوصی خطاب 4 مئی 2024


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا جامعہ بنوریہ عالمیہ کے طلبہ و علماء سے خصوصی خطاب 

4 مئی 2024

الحمدلله رب العلمین وصلواة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه و من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا۔ الفتح-28۔ صدق الله العظيم

جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم، نائب مہتمم، اساتذہ کرام، ذمہ داران اور تمام طلباء عزیز، میرے بزرگو، دوستو، میرے بھائیو! یہ میرے لیے سعادت ہے کہ ایک علمی مرکز میں طلباء اور اساتذہ کے ماحول میں چند لمحات آپ کے ساتھ بیٹھنے کو نصیب ہو رہے ہیں، اللہ تعالی ہماری اس حاضری کو قبول فرمائے اور چونکہ یہ دینی علوم کا ایک مرکز ہے طلباء بھی یہاں دینی علم حاصل کرتے ہیں، اساتذہ کرام بھی دین کا علم ان کو دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ انوار و برکات کا مرکز ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہمارے یہ مدارس جن علوم کی حفاظت کر رہے ہیں اس کا اپنا ایک پس منظر ہے، اس کی اپنی ایک تاریخ ہے، اور علوم دینیہ کی حفاظت کا یہ طویل سلسلہ پونے دو سو سال تو تقریباً اب پورے ہو رہے ہوں گے کہ علم کا یہ سلسلہ جو دیوبند کی بستی کے ایک مسجد جو چھتا کے نام سے مشہور تھی وہاں سے جو کام شروع ہوا اور کس طرح وہ کرہ ارض میں پھیلا اس کو اللہ کی جانب سے قبولیت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کوئی اور تعبیر اس کی نہیں کی جا سکتی، پھر اس کی حفاظت کے لیے ان کی قربانیاں ایک طویل جدوجہد، آج اگر ہمارے پاس یہ روشنی موجود ہے اور اس کے رہنمائی میں ہم آنے والے مستقبل کا سفر متعین کرتے ہیں تو یہ وہی روشنی ہے جس کی شمع قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے روشن کی تھی اور آج وہ ایک نئی رِتابہ بلکہ خورشید انور بن کر پوری دنیا کو اپنی کرنیں بانٹ رہا ہے اور ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اکابر پر خصوصی کرم فرمائے انہوں نے جو کچھ کیا ہے ہمارے لیے کیا ہے اور ہم ان کے احسان مند ہیں اور ہمیں اس پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

انگریز نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا اور علی گڑھ میں اپنی نگرانی میں سکول قائم کیا تو چار چیزیں انہوں نے نصاب سے نکال دی تھی ایک قرآن کی تعلیم، ایک حدیث کی تعلیم، ایک فقہ کی تعلیم اور چوتھی ہے فارسی زبان، فارسی زبان برصغیر کی سرکاری زبان تھی اس زمانے میں، ان کو حفاظت دینے کے لیے دیوبند میں مدرسہ قائم کیا گیا اور جو نصاب بھی بنایا گیا وہ انہی علوم کی حفاظت کے لیے بنایا گیا، پورے برصغیر میں ان کے نصاب کے مدرسے بھی ہیں اور ہمارے نصاب کے مدرسے بھی ہیں، جہاں وہ ہیں وہاں ہم بھی ہیں، ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں ہم ہوں گے اور وہ نہیں ہوں گے لیکن ان علوم کی حفاظت کے لیے جو نظام قائم کیا گیا، آج ایک نیا دور آگیا ہے اور اس نئے دور میں پھر عالمی قوتیں دینی مدارس کے کردار کو ختم کرنے کے لیے متحرک ہیں، ایک مفروضے کی بنیاد پر کہ جی دنیا میں دہشت گردی ہے اور دہشت گردی پیدا ہوتی ہے مذہبی تعلیم سے، یہیں سے شدت پیدا ہوتی ہے، یہیں سے جذباتی لوگ نکلتے ہیں، پھر آخر میں جا کر وہ بندوق اٹھا لیتے ہیں، ریاستوں میں فساد پیدا کرتے ہیں، ایسا ہے نہیں اور اگر ایسا ہے تو یہ ان ہی کی خواہش ہے تاکہ کہیں پر بھی اگر عسکریت پیدا ہو اور مذہب کے نام پر فائدہ ہو تو فوراً اس کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دے کر عالمی قوتیں اپنی فوج وہاں پہنچا سکیں اور جواز پیدا کر سکیں اور ایسے واقعات اگر کہیں پر ہوتے ہوں تو اسی کو بنیاد بنا کر ہمارے اداروں کو بند کرنا، ان کو تالے لگانا، اس کے لیے ایک جواز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میرے بھائیوں 1400 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اسلام کی پوری تاریخ اسی کشمکش سے بھری ہوئی ہے ہر زمانے میں اسلام اور اہل اسلام کسی نہ کسی ایک امتحان میں پڑے ہیں لیکن اللہ جس کی حفاظت کرتا ہے سو ہزار کشمکش سے نکل کر بھی اسلام آج بھی محفوظ ہے، قرآن و حدیث کے علوم آج بھی محفوظ ہیں، اور یہ آخری دین ہے اللہ رب العزت نے حتمی طور پر اعلان کر دیا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آج میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا ہے وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے، ہمارے اکابر نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ دین باعتبار تعلیمات و احکامات کی مکمل ہے مزید نئے تعلیمات اور نئے احکامات اب نہیں آئیں گے، مبدہ اب ہمارے سامنے ہے اور جب دین مکمل ہو گیا ہے تو فرمایا وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کر دی یعنی اِتمام نعمت، اتمام نعمت کا جو فرد کامل ہے خارج میں وہ اس دین کا اقتدار ہے اس کی حاکمیت ہے جب تک یہ دین حاکم نہیں بنتا تو پھر صرف ہم عبادات پر گزارا کرتے رہیں گے، کچھ معاشرتی اخلاقی معاملات میں ہم اس سے رہنمائی لیں گے لیکن فرد کامل اگر اس دین کا ہے تو اس کے اتمام کی تعبیر کیا ہوگی وہ اس کا اقتدار ہے، وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا اور اسلام کو میں نے تمہارے لیے بطور نظام حیات کے پسند کیا ہے، ہمارے اکابر نے ہر پہلو سے اور ہر شعبے میں اس مقصد کے لیے کام کیا ہے چاہے علم کا میدان ہو چاہے دعوت کا میدان ہو چاہے سیاست کا میدان ہو تاریخ بھری پڑی ہے، میں سیاست اور نظام حکومت پر ایک عالم دین کی کتاب پڑھ رہا تھا تو انہوں نے خود لکھا ہے کہ کوئی پانچ سو تک کی کتابیں سیاست کے موضوع پر میں نے مطالعہ کئیں ہیں، یعنی تاریخی اسلام میں ہمارے اکابر علماء انہوں نے جو محنت کی ہے یہ نہیں کہ کوئی ایک دو کتابیں موجود ہیں لیکن اُس زمانے میں اِس مقصد کو ریاستی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی تھی، ریاست بھی اس ضرورت کو تسلیم کرتی تھی کہ قرآن کے علوم ہونے چاہیے، حدیث کے علوم لوگوں کے پاس ہونی چاہیے رہنمائی ہونی چاہیے، فقہ پر آئمہ نے کتنا کام کیا ہے یہ علوم محفوظ ہیں اور یہ ہماری نئی نسلوں تک پہنچنے چاہیے لیکن آج ایسی بات کرنا ایسی مجلس محفل میں تو ایک عجوبہ سا لگتا ہے اچھا اسلام کا معنی یہ ہے کہ وہ حکومت بھی کرے گا! تو اسلام کو ایک بالاتر نظام کے طور پر ثابت کرنا یہ ایک عملی زندگی کا نام ہے اور آپ تو نظام کی بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے تو پھر آپ کے قانون پر کسی دوسرے قانون کو بالاتر سمجھنا اس کی اجازت کبھی ہوسکتی ہے؟

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرْفَعُوٓاْ أَصْوَٰتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ ٱلنَّبِىِّ وَلَا تَجْهَرُواْ لَهُۥ بِٱلْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَٰلُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ۔ (الحجرات-2) 

اعمال ضائع ہو جائیں گے آپ کے، آج بھی روضہ شریف پر جو حجاج جاتے ہیں ہر چند کے وہاں بہت لوگوں کا رش ہوتا ہے لیکن سناٹا چھایا ہوتا ہے، ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ میری آواز اونچی نہ ہو جائے یہاں پر، ادب گاہیز سے جہاں آپ کی آواز پر آواز اونچی کرنے کی اجازت نہیں ہے وہاں آپ کے نظام پر کسی دوسرے نظام کو بالاتر قرار دینے کی اجازت کب ہو سکتی ہے! لیکن اب یہ بات پہلے ہم تو تسلیم کریں، ہمارے مدارس میں ابھی تک ہمارے اپنے طلباء اور اپنے نوجوانوں کو یہ تعلیم نہیں دی جا رہی، پھر عوام میں تو بعد میں جائیں گے، تو بنیادی چیز یہ ہے کہ جس چیز کو انبیاء کرام (علیہم السلام) نے اہمیت دی ہے، جس چیز کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہمیت دی ہے اور آپ کے انہی تعلیمات کو خلفائے راشدین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے اہمیت دی ہے، صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے اہمیت دی ہے آج عملاً ہمارے پاس وہ چیز کیوں نہیں ہے؟ خلافتِ راشدہ کا نام لیتے ہیں، خلافت راشدہ پر فدا ہونے کی بھی ہم بات کرتے ہیں، کسی خلیفہ راشد کے خلاف کوئی بے ادبی، گستاخی کا مرتکب ہو جائے ہمارا خون جوش کرتا ہے لیکن کیا ہم نے ایک دفعہ بھی یہ سوچا ہے کہ خلافتِ راشدہ کوئی تبرک کا نام ہے یا باقاعدہ ایک عملی نظام کا نام ہے! اس کو بھی تو سوچنا پڑے گا، اور جب میں ایسی باتیں کرتا ہوں اپنے نوجوان نسل سے تو مجھے یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ شاید مدرسے کے جو اساتذہ کرام اور انتظامیہ والے ہیں وہ میری تقریر کا اثر زائل کرنے پر بھی کچھ وقت لگاتے ہوں گے، تو سیاست شرعیہ کیا ہے؟ مملکت کا نظام اس کے لیے تدبیر اس کا انصرام یہ وہ تقاضے ہیں جو ہماری اصل ضرورت ہے، یہ جو علم ہے اس کو ہم حاصل کرتے ہیں یہ تو رجال کار تیار کرنے والی بات ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں کہ پانچ باتیں اسلام کی بنیاد ہیں، اب پانچ باتیں جن پر کہ اسلام کی بِنا کھڑی کی گئی ہے، اسلام کی عمارت کھڑی کی گئی ہے، ہم نے ان پانچ باتوں کو اسلام کہہ دیا جب کہ وہ تو اساس ہے وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے، تو یہ بنیاد تو اسی لیے حاصل کی جاتی ہے کہ اس بنیاد کے اوپر عمارت کھڑی کرنی ہے، اسلام اور اس کے حاکمیت یہ دونوں جڑواں ہیں، یہ تو چیزیں ہیں اسلام ہوگا تو حاکم ہوگا اور حاکم وہی ہوگا جو اسلام ہوگا، تو اس اعتبار سے ہمیں اپنی ترجیحات بھی معلوم ہونی چاہیے ہمارے اکابر نے بڑی محنت کی ہے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں، اور یہی اسلام ہے تو حریت ہے اگر اسلام نہیں تو غلامی ہے، میں کسی زمانے میں یورپ کے ملک میں گیا ہوا تھا تو میرے جو میزبان تھے وہ ذرا آزاد خیال قسم کے لوگ تو ایسی مزاحیہ مجھے کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ لوگ مسجد میں بیٹھ کر صبح سے شام تک ایک ہی سبق ہمیں پڑھاتے ہیں، بندگی اور بندگی اور اللہ کی بندگی اور اللہ کی بندگی اور بندگی اور بندگی تو یہ غلامانہ ذہنیت تو آپ ہمیں دیتے ہیں اور پھر روڈ اوپر نکل کر آپ لوگ آزادی کی بات بھی کرتے ہیں، تو ہمارے معاشرے میں جو عبدیت کا تصور ہے اور بندگی کا تصور ہے اور غلامی کا تصور ہے یہ تو علماء کرام ہمیں دیتے ہیں، اب عجیب سا سوال تو ان کے دماغ میں آگیا کیا کر سکتے ہیں، تو میں نے کہا کہ یہ بات نہیں ہے آپ سمجھے نہیں ہیں اس چیز کو، ہم بات کرتے ہیں اللہ کی بندگی کی، اب اس کی مثال ہم اپنے خاندان میں لیتے ہیں خاندان میں ہمارا ایک باپ ہوتا ہے خاندانی زندگی میں ہمارا ایک باپ ہوتا ہے ایک باپ، جس طرح خاندان میں ہمارا باپ ایک ہے کہ جو ہمارے ظاہری تخلیق کا سبب بنا ہے اسی طرح کائنات کا خالق بھی ایک ہے اب گھر میں جو آپ کا باپ ہے جس کے سبب سے آپ دنیا میں آئے ہیں، جو اولاد اپنے والد کی فرمانبردار ہو اس کا ہر حکم مانتا ہو اپنے والد کی زمین پہ محنت کرتا ہو، اپنے والد کے کارخانے کو چلاتا ہوں، اس کے دفتر کو چلاتا ہوں، اس کی دکان پہ بیٹھتا ہو، ہمارے معاشرے میں والد کی جگہ کام کرنا چاہے زمین میں ہو چاہے کارخانے میں ہو چاہے دفتر میں ہو جہاں بھی ہو اس کو ہم مزدور اور ملازم نہیں کہا کرتے، اس اولاد کو ہم اپنی جائیداد کا مالک کہاں کرتے ہیں، ہاں بہت سے معاشی مجبوری ایسی آجاتی ہیں کہ ہم ایک طاقتور کے سائے میں جانا پڑتا ہے اور اس کے جا کر پھر ہم ان کی نوکری بھی کرتے ہیں ہمیں ملازم بھی کہا جاتا ہے سرونٹ بھی کہا جاتا ہے اور جو بھی نام معاشرے میں مشغول ہیں وہ سارے ہمارے اوپر منتخب ہو جاتے ہیں، تو اسی طرح جو قومیں ایک اللہ خالق کائنات کی اطاعت کرتی نظر آئے وہی قومیں آزاد قومیں کہلاتی ہے، اور جو انسانوں کے نظام کے تابع زندگی گزارتے ہیں وہ غلام قومیں کہلاتی ہے لہٰذا اسلام اللہ کا دین ہے اور اللہ کے دین کی پیروی کرنا یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے معاشرے میں ہم اپنے باپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور وہ ہمارے لیے حسن ہوتا ہے اس پہ اولاد کی تعریف کی جاتی ہے بہت فرمانبردار بچہ ہے ماشاءاللہ اپنے باپ کے کسی حکم کو نہیں ٹالتا اپنے باپ کے اشارے پر عمل کرتا ہے یہ تو حسن ہے معاشرے کا انسانیت کا تو اگر کوئی قوم وہ اپنے رب کی اطاعت کرتے ہوئے نظر آئے تو اس قوم کا حسن ہوتا اس کی آزادی کی علامت ہے، تو ہمارے اکابر اور ہمارے دین نے بھی یہ آزادی اور اسی کے تحت ایک معاشرے کو تشکیل دینا ہے اور اس پر ہمیں اس کو نصاب میں ہمیں اس کو جگہ دے دینی چاہیے کہ اخلاقی پہلو بھی ہم مکمل سمجھیں، وہ شخصیت ہوتی ہے لیکن یہ شخصی زندگی سے آگے بڑھ کر مملکتی نظام کے حوالے سے ہمارے پاس ایک نظام کا نقشہ ہونا چاہیے، تب آپ کے اندر ایک تحریک پیدا ہوگی کہ میں نے یہ جو کچھ پڑھا ہے یہ تو میں نے ایک بہت بڑے مقصد کے لیے پڑھا ہے پھر یہ نہیں کہ ہم پھر بعد میں کہیں محراب تلاش کر رہے ہو کوئی حجرہ تلاش کر رہے ہو کوئی درس و تدریس کے لیے منت سماجت کر رہا ہوں، وہ ٹھیک ہے اپنی جگہ پر لیکن یہ مقصد زندگی تو نہیں ہونا چاہیے، تو بہرحال آپ طالب علم ہیں، نوجوان ہیں، آپ کل کے معمار ہیں، کل کی ذمہ داری آپ نے لینی ہیں اور اس حوالے سے کچھ احساس ذمہ داری کے تحت میں نے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں اگر چہ میں سوچ رہا تھا کہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکوں گا طبعیت کمزور ہے لیکن اللہ نے کچھ توفیق دے دی اور شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات، اس مقصد کے لیے اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین 

اختتامی دعا

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

کراچی: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا جامعہ بنوریہ عالمیہ میں طلباء اور اساتذہ کرام سے خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, May 5, 2024


0/Post a Comment/Comments