15 مئی 2024
آپ حضرات سوالات شروع کریں
سوال: سب سے پہلے سر یہ کہ یہاں پر کل سے صحافیوں کو یہ بتایا گیا کہ یہاں پر باقاعدہ پریس کانفرنس ہے حالت مخالف یہ ہے کہ سر ایک صحافی کی بیٹھنے کے لیے یہاں پر کوئی جگہ نہیں رکھی گئی متعدد بار آپ کے آنے سے پہلے ہم یہاں آئے کہ ہمیں بیٹھنے کی مناسب جگہ دی جائے تاکہ یہاں پر ہم بیٹھ کر سوالات کر سکے۔
جواب: آپ کا مطالبہ صحیح ہے إن شاءاللہ آئندہ کے لیے باقاعدہ بندوبست کیا جائے گا۔
سوال: فائز عیسی صاحب نے شہباز شریف صاحب سے ملاقات کی کچھ بتائیں گے وہ کیا پیغام لے کر گئے اور کیا پیغام لے کر آئے؟
جواب: اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے میرے خیال میں ان کے اپنے حلقے کے بیس پچیس زمیندار آئے تھے وہاں کا کوئی پرابلم تھا تو اس کے لیے وہ شائد گئے تھے ان کے ساتھ
سوال: مولانا صاحب تحریک انصاف تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن خود آپ کی طرف دیکھ رہی ہے پھر آپ کیسے رسپانس دیں گے؟
جواب: بھئی وہ تو ارادہ رکھتی ہے ہم تو شروع کر چکے ہیں جی ہم سے اپنی بات کرونا ہمارا میرے خیال میں آپ کی نظر میں کوئی حیثیت وقعت نہیں ہے ساری زندگی خسارے میں رہوگے جب تک اس ذہن کے ساتھ رہو گے۔
سوال: پیپلز پارٹی کی پوزیشن اس وقت کیسے دیکھ رہے ہیں انہوں نے آئینی عہدے لے لیے گورنر بھی لے لیے اور اس کے بعد بھی جو ہے مہنگائی اس قدر زیادہ ہے دیگر معاملات ہیں اور وہ بھی اس میں الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس پر وہ جو سامنے
جواب: حضرت جس طرح کے الیکشن کے نتائج سامنے آئے ہیں اس پر بڑا دو ٹوک موقف صرف جمعیت علماء اسلام کا سامنے ہے اور ہم نے جس طرح 2018 میں دھاندلی کے خلاف موقف لیا تھا ہم آج بھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے حالانکہ ہمیں دعوت بھی دی گئی بار بار ہمارے پاس تشریف بھی لائے لیکن ہم نے کہا جی اسی مینڈیٹ کے ہوتے ہوئے پچھلی دفعہ ہم نے دھاندلی کہا آج کیسے قبول کر سکتے ہیں جی، تو صاف ظاہر ہے جی کہ اس وقت بھی کوئی پی ٹی آئی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں تھی اگر ہم کوئی اپنے پرائے والی سیاست کرتے تو آج ہم مسلم لیگ کے ساتھ حکومت میں شریک ہو جاتے ہیں تعلقات بھی اچھے ہیں اور لمبی جدوجہد بھی ہم نے مل کر کی ہے، اس وقت جو حکومت ہے وہ حکومت مجھے نہیں لگتا کہ ڈیلیور کر سکے گی اور حالات بھی ایسے نہیں ہے کہ جس طرح کی اسمبلی ہے یہ انتہائی کمزور اسمبلی ہے اور حکومت بھی میں تو نہیں سمجھتا کہ کوئی اکثریت حکومت کر رہی ہے بلکہ مسلم لیگ کی تعداد حکومت کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی جو ہے وہ حکومت کا حصہ نہیں ہے بس یہ ہے کہ حکومتی بینچوں میں بیٹھی ہوئی ہے اور کبھی تکلیف ان کو محسوس ہوئی تو پھر ان کی مرضی تکلیف دور کرے یا تکلیف میں اضافہ کرے۔
سوال: دبئی میں اربوں ڈالر کی زمینیں اور پراپرٹی خریدی گئی سیاست دانوں کے نام پر، آپ کا اپنا نام اس میں نہیں ہے۔
جواب: کبھی کسی زمانے میں میرا نام آیا ہے؟ پوری تاریخ دیکھ لے جی اور آج تک میں اگر الیکشن میں کاغذات نامزدگی جمع ہوتا ہے تو مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ کورٹ کا نقشہ کیا ہوتا ہے زندگی بھر عدالت سے اللہ تعالی نے بچایا ہے اور اللہ تعالی آخرت میں بھی بہتری کرے گا ان شاءاللہ
سوال: مولانا صاحب آج سے تین سال پہلے آپ نے ایک لانگ مارچ کیا تھا بڑا عظیم لانگ مارچ تھا آپ سے گفتگو ہوئی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ ہم کچھ رزلٹ لے کے واپس آئیں گے پھر آپ نے اسلام آباد میں پڑاؤ کیا اور پھر خالی ہاتھ واپس آئے اس یقین دہانی پہ کہ تین سال قبل جو فروری آئے گا اس میں باجوہ صاحب نے آپ کو یقین دہانی کروائی کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی جس کے اوپر آپ واپس آئے لیکن اس طرح سے نہیں ہوا اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے آپ کے ساتھ جو ہے جو آپ کا لانگ مارچ تھا اس کے اندر اسٹیبلشمنٹ کی ایک قسم کی رضامندی شامل تھی مگر ابھی یہی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بغیر اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے کوئی تحریک جو ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا تو یہ جو آپ اپنی تحریک اب چلا رہے ہیں دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بغیر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آپ اس میں کامیاب ہو پائیں گے؟
جواب: میرے خیال میں اس قسم کی ذہنیت کو ختم کرنا ہے سوال تو آپ کو اتنا لمبا ہے کہ مجھ سے لیکن اس ذہن کو ختم کرنا ہے کہ کیا ہم ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے رضامندی کے بغیر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے، کیا ہمارا ہر الیکشن ان کی مدد سے ہوگا، کیا ہمارے ہر الیکشن کا نتیجہ ان کی مرضی سے ہوگا، اس کے خلاف جنگ لڑنی ہے اور اگر قوم نہیں اٹھے گی اور قوم اپنے اس ووٹ کو تحفظ نہیں فراہم کرے گی تو پھر ہم مسلسل غلامی کی طرف جا رہے ہیں اور ایک سرکاری محکمہ وہ ہمارا حاکم ہو اور ہم جو آئین میں حکمران کہلاتے ہیں پارلیمنٹ جو حکمران کہلاتی ہے وہ ماتحت ادارے کی شکل اختیار کر لے، یہ چیز کسی بھی قیمت پر ہمیں قابل قبول نہیں ہے، اب ہم اپنے جماعت کے طور پر ہم نے اب تک تین عوامی اسمبلیاں کی ہیں اور عوام کا جو اس پہ ردعمل تھا بہت ہی حوصلہ افزا تھا اور ان شاءاللہ آپ یکم جون کو مظفرگڑھ میں بھی اسی طرح کا عوام کا ایک ردعمل دیکھیں کہ کس طرح وہ اس جلسے میں آتے ہیں اور یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنا موقف جو ہے وہ دنیا کے سامنے بھیج رہے ہیں اور ان شاءاللہ اس میں ہم کوئی کمی نہیں دکھائیں گے ان شاءاللہ۔
سوال: موجودہ حکومت کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں حکومت ہے ہی نہیں بس کچھ لوگوں کو اچھے اچھے مناصب مل گئے ہیں اس کو انجوائے کرتے رہیں گے باقی کچھ نہیں ہے۔
سوال: مولانا صاحب آپ نے ہمیشہ ایک مفاہمت کی سیاست کی ہے اور آپ کے نام کو اس وجہ سے قابل قدر نظر سے دیکھا جاتا ہے ابھی کوئی مستقبل میں ہے اس طرح کا کچھ کہ آپ دوبارہ نون لیگ کے ساتھ مفاہمت کریں؟
جواب: دیکھیے یہ لفظ مفاہمت ہے تو اچھا لفظ برا لفظ تو نہیں ہے لیکن جب اپنے ہی چھوڑ کے چلے جائیں تو پھر یہ ہے وہ وقت کے ہم اپنے موقف پہ ڈٹے رہیں اور ان شاءاللہ قوم ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی ان شاءاللہ اور اس ملک میں ظاہر ہے کہ ہم تو جب جمہوریت پہ یقین رکھتے ہیں جب آئین کا ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے تو پھر آئین کو بالادست ہونا چاہیے آئینی اداروں کو بالادست ہونا چاہیے یہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جو ہے وہ ملازم بھی ہو اور وہ حاکم بھی ہو بیک وقت دو چیزیں نہیں ہو سکتی۔
سوال: مولانا صاحب بڑی باتیں ہو رہی ہیں اسلام آباد میں کہ پی ٹی آئی دوبارہ جو ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہی ہے بات چیت کرنے جا رہی ہے کس نظر سے دیکھتے ہیں اگر تحریک انصاف اس ڈگر پہ چلتی ہے تو یہ جس طرح تحریک چلانے جا رہے ہیں آپ، کامیاب تحریک نظر نہیں آتی۔ دوسرا صحافی مولانا صاحب تھوڑا ہولڈ کیجیے گا ابھی تھوڑی دیر پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا 190 ملین پاؤنڈ میں عمران خان کی ضمانت لکھ دی گئی ہے اس فیصلے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جوب: عدالت کا فیصلہ ہے اس کو اختیار حاصل ہے اس میں میں خود مدعی نہیں ہوں اس کے خلاف
سوال: لیکن اندرون خانہ آپس میں مفاہمت چل رہی ہے اسلام آباد میں
جواب: اندرون خانہ اگر آپ کے پاس کوئی معلومات ہو تو مجھے بھی فراہم کر دیں میں شکر گزار رہوں گا۔
سوال: مولانا صاحب اگر آپ الیکشن جیتتے تو پھر صحیح تھا الیکشن؟
جواب: میں پچھلی دفعہ نہیں جیتا تھا اب کے جیتا ہوں یہ بات مدنظر رہے۔
سوال: مولانا صاحب آپ کے شہر سے وزیراعلی اور گورنر کے پی بنائے گئے ہیں اتنا اہم شہر آپ کا ہو گیا کیا کہیں گے اس کے اوپر
جواب: میرے خیال میں میری خوش قسمتی ہے کہ میرا مد مقابل جو ہے وہ دونوں بڑے منصب لے رہا ہے اور ایک صوبے کا گورنر وزیراعلی میرے حلقے سے ہے جو جیتے نہیں ہیں لیکن بس ہیں۔
سوال: اچھا مولانا صاحب جب یہ حکومت سازی ہو رہی تھی جنرل الیکشن کے بعد کسی سٹیج پہ آپ کو صدر پاکستان کی آفر ہوئی تھی؟
جواب: صدر پاکستان کا آفر نہیں ہوا کرتی جی یہ غلط بات ہے کہ میں ایسی پولیٹکس کروں کہ جس میں ہم آفرز کی بنیاد پر چیزیں قبول کرے گی جی، کون ہوتا ہے جو مجھے صدارت کا آفر کرتا ہے کون ہوتا ہے جو مجھے وزیراعظم کا آفر کرتا ہے ہوتا کون ہے جو مجھے وزیراعلی کا آفر کرتا ہے عوام اگر مجھے ووٹ دے گی اور میں اس پوزیشن میں ہوں تو میں صدر بھی بنوں گا میں وزیراعظم بھی بنوں گا میں چیف منسٹر بھی بنوں گا اور وہ میرا آئینی اور قانونی استحقاق ہوگا اور اسی اثاث پر ہم یہ اس سیاست میں حصہ لے رہے ہیں کہ یہ ہمارا استحقاق بنے اور یہ کہ پانچ سیٹوں کے ساتھ میں کہوں کہ اب میں صدر بن جاؤں یہ کوئی میری سیاست تو نہیں ہو سکتی پھر جی۔
سوال: کسانوں کا بڑا ایشو چل رہا ہے کسانوں کو آپ اس تحریک میں اپنے ساتھ لے کے چلے گے کیونکہ کسانوں کو اس دفعہ بہت زیادہ ظلم کیا گیا کسان بیچارہ سڑکوں پہ آگیا ہے۔
جواب: کسان کے ساتھ ہم شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور قدم قدم پر ان کے ساتھ ہیں بہت مظلوم ہے اس وقت، خاص طور پر پنجاب کا جو کسان ہے یعنی آپ کے پاس اگر 45 لاکھ ٹن گندم موجود ہے پھر آپ نے 35 لاکھ ٹن کیوں منگوایا جو کہ اوپر سے آپ کا موسم بھی برداشت کا آرہا ہے اور پاکستان کا اپنا گندم بھی آئے گا تو کدھر جائے گا یہ لہذا عام کسان کے ساتھ جو ظلم کیا گیا ہے اس وقت اس کا پوچھ گچھ بھی ہونا چاہیے نا یعنی صرف یہ تو نہیں کہ کسان پر ظلم ہو گیا اب کسان کے رونے میں ہم ان کے ساتھ شریک ہو جائے کسان کے احتجاج میں ہم ان کے ساتھ شریک ہو جائیں جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے ان کا محاسبہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔
سوال: مولانا صاحب جس طرح آپ جا رہے ہیں پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں یہ بتائیے کہ سر ماضی کے تناظر میں آپ کیا اچیو کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: حضرت جو ہمارے مطالبے ہیں کہ ازسر نو الیکشن ہو، حکومت مستعفی ہو جائے اور فوج الیکشن سے دور رہے کسی ایجنسی کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہوگا الیکشن کو اتنا بدنام کر دیا ہے کہ اس کو الیکشن کہنا ہی ناجائز ہے جہاں پر امیدواروں سے کروڑوں کروڑوں روپے لیے جاتے ہوں جہاں ایک ایک صوبے سے اربوں اربوں روپے لے کے چلے جاتے ہوں جہاز بھر بھر کے جا رہے ہوں اسمبلیاں بک رہی ہیں اور کینڈیڈیٹس بیچارے در بدر ہیں تو یہ الیکشن ہوتا ہے جی ہم مطمئن ہوں گے اس بات پر کہ ہاں ہم واقعی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور ہم کیا ملک کے اندر ایک وی آئی پی کا اس وقت سٹیٹس رکھتے ہیں اس حوالے سے ہمارا موقف بڑا واضح ہے اور ہم جو کچھ کہہ چکے ہیں ان شاءاللہ اسی جگہ پہ معاملات کو پہنچائیں گے کہ معاملات ٹھیک ہو جائے ملک کے۔
سوال: مولانا صاحب عالمی جو سیاست ہے اس پہ بھی آپ کی بڑی گہری نظر ہے آج سے دو روز قبل انڈیا نے ایران کی چابہار جو پورٹ ہے اس کا دس سال کے لیے جو ہے وہ یہ اس کا قبضہ لیا ہے 10 سال ایگریمنٹ ہوا ہے آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ امریکہ نے ہمیں تو منع کیا پابندی کی وجہ سے کہ آپ کی گیس لائف لائن آگے نہیں جا سکتے نہیں کر سکتے اس دور میں انڈیا کا دس سال کے لیے معاہدہ
جواب: حضرت ایک تلخ سوال ہے جو آپ نے کیا ہے اور دکھ ہوتا ہے انسان کو، نکلے ہم سری نگر کو لینے کے لیے ہاتھ سے جا رہا ہے مظفرآباد، یہ پولیٹکس ہے ہماری ہم نے چین جیسے دوست کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ کیا میگا پروجیکٹس کے حوالے سے اور اس نے پاکستان کو پرایارٹی دی گرم پانی تک پہنچنے کے لیے اور بین الاقوامی تجارت کے شاہراہ پاکستان کو قرار دیا انہوں نے ہم نے ان کو کیا جواب دیا آج پاکستان میں تمام میگا پروجیکٹ بند کر دیے گئے ہیں وہ جو ڈیڑھ سال کی حکومت تھی اس پہ بھی جو پروجیکٹ اناؤنس ہوئے تھے ابھی تک اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کیونکہ کیا بنے گا کیا وہ ہمارے اگلے بجٹ میں آئیں گے یا نہیں آئیں گے تو یہ ساری صورتحال ہے کہ آپ کا افغانستان کے ساتھ بھی جھگڑا اور ظاہر ہے جی کہ ہمارے اوپر تو یہ لوگ زورآور ہیں ناحق پر ہوتے ہوئے بھی آپ کو کہنا پڑے گا کہ تم حق پر ہو نتیجہ کیا نکلے گا کہ واخان کے راستے سے افغانستان چین کے ساتھ ڈائریکٹ ہو جائے گا پاکستان سے بے نیاز ہو جائے گا اور ہلمند کے راستے سے ڈائریکٹ ہو جائے گا ایران کے ساتھ اور چا بہار میں جا کے پہنچ جائے گا جی تو یہ جو گھاٹے کے ہم سودے کر رہے ہیں اس وقت چھ سات مہینوں سے چمن بارڈر کے اوپر لوگ بیٹھے ہیں دھرنا دیے ہوئے کہ ان کو متبادل روزگار نہیں دیا جا رہا اور ادھر سے انہوں نے افغانستان کے ساتھ جو لوکل تجارت ہوتی تھی اس کے راستے بند کر دیا ہے اس وقت انگور اڈا کے اوپر جو وانا سے جاتا ہے افغانستان میں راستہ ہے وہاں پر لوگوں نے دھرنا دیا ہوا ہے غلام خان کے اوپر جو میرانشاہ سے جاتا ہے خوست کی طرف وہاں لوگوں نے دھرنے دیے ہوئے ہیں آپ کے جمرود پر لوگوں نے دھرنے دیے ہوئے ہیں تو ہم نے تو ان کو باقاعدہ بریف کیا تھا کہ پاکستان کو اتنی بڑی اپورچونٹی مل رہی ہے آنے والے مستقبل میں کہ اگر یہ سی پیک خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان کے ژوب سے لے کر گوادر تک جاتا ہے تو نو گیٹ ویز ہیں جو پاکستان کو افغانستان کے راستے سے وسطی ایشیا کا راستہ دکھاتے ہیں اور پورے وسطی ایشیا جو ہیں آپ کی تجارتی آماجگاہ بن جاتی لیکن ہم اسی افغانستان کے ساتھ معاملات میں الجھ رہے ہیں سرحدات ہم نے بند کر دیے ہیں اگر مسئلہ دہشتگردوں کا ہے کیا چین کو یہ اعتراض نہیں ہے کہ اولڈ ترکستان کی جو تحریک ہے اس کے لوگ افغانستان میں ہیں اور ان کے لوگ جو ہے وہاں چین میں جو کاروائیاں کرتے ہیں یہ شکایت تو چین کو بھی ان سے ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کی جو مارکیٹ ہے اس پر چین قبضہ کر رہا ہے روس وہاں قبضہ کر رہا ہے اور ہم اتنے پڑوسی ہوتے ہوئے اور 20 سال تک ہم نے جس امید پر طالبان کو غلاف کے نیچے سپورٹ دیا آج سب کچھ ہم ضائع کر رہے ہیں ہمارے پاس صرف لڑائی کی صلاحیت ہے جب ملک کو ترقی دینے کی دماغ ختم ہو چکا ہے کیا ملک کی ترقی کے پہلو جو ہے وہ ہم نے نظر انداز کر دیے ہیں صرف لڑنے کا فیصلہ رہ گیا ہے یہ اس لیے کہ جب اپ کا با اختیار ادارہ جنگجو ادارہ ہوگا اور جس کی تربیت دشمن سے لڑنے کی ہوگی وہ کبھی بھی آپ کی سیاسی قیادت نہیں کر سکتا وہ کبھی بھی اپ کی معاشی قیادت نہیں کر سکتا اس کا یہ میدان ہی نہیں ہے سرے سے جی لہذا پاکستان اس وقت گھاٹے کا سفر کر رہا ہے اس کا گھاٹے کا مستقبل ہے اور وہ کیا جانے لیکن ہم اپنی آواز جو ہے اس حالت میں بھی۔
سوال: مولانا صاحب آپ کی جو تحریک ہے واقعی دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف ہے یا کسی کی ایکسٹینشن کے لیے یا کسی کی ایکسٹینشن کے لیے؟
جواب: یہ آپ کی صحافیانہ باتیں ہیں آپس میں گپ شپ لگایا کرو کبھی کوئی اپنے دفتر میں، مجھ جیسے آدمی سے یہ سوال نہ کیا کرو۔
سوال: حکومت اس مسلسل اسٹیبلش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ تجارت بہتر ہو رہی ہے معاشی اشاریہ جو ہے وہ بہتری کی جانب جارہے ہیں تو آپ اس پہ
جواب: دیکھیے حکومت ہو اس کا جاب ہوتا ہے اپنا جاب کا احسان ہم پہ نہ ڈالے انٹیلیجنس ہے تو اس کا جاب ہے اس کا کوئی ڈیپلومیٹ ہے تو ڈپلومیسی اس کا جاب ہے حکومت ہے تو حکومت اس کا جاب ہے تو یہ اتار چڑھاو اس کے معمول کے معاملات میں چلتا رہتا ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھنا ہے ہم نے کہ کیا آپ کے ملک میں ماضی کی کوئی ایسی پالیسیاں ہیں کہ جو ہم آگے لے جا کر اس سے ملک کو بچا کر طاقتور بنائیں کیا اج ہم نے کوئی طویل المدت ایسی پالیسی دی ہیں کہ ہم اپنا بجٹ آئی ایم ایف کے بغیر بنا سکیں گے ہمارا بجٹ اس وقت ایف اے ٹی ایف کے ہاتھ میں ہے ورلڈ بینک کے ہاتھ میں ہے انہی لوگوں نے آپ کے بجٹ بنانے ہیں اور ان کو سیکیور کر رہی ہے ہماری فوج، وہ تحفظ دے گی ان کو اور اسمبلی میں بس ہو گی اور قانون سازی کرے گی۔
سوال: اچھا مولانا صاحب ملک کے بہتر مفاد میں آپ عمران خان صاحب سے بھی مل سکتے ہیں ان کو شامل ہونے کی دعوت دے سکتے ہیں؟
جواب: دیکھیے ہر چیز باوقار انداز سے ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ دس بارہ سال ہم ایک دوسرے کے بڑے مد مقابل رہے ہیں اور ہمارے بڑے تحفظات ہیں اور ان کو اگر دور کیا جاتا ہے تو ہم سیاسی لوگ ہیں مذاکرات سے بھی انکار نہیں کریں گے اور مذاکرات کے لیے اگر ماحول بنتا ہے تو اس کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے ہم کوئی مستقل جھگڑے اور جنگ اور تلخیاں اس کو باقی رکھنا نہ ملک کے مفاد میں سمجھتے ہیں نہ ہمارے سوسائٹی کے مفاد میں ہے۔
سوال: آپ کی طرف سے ویلکم ہے عمران خان کے لیے تو یہ ذرا واضح کیجیے گا اگر آپ کو ضرورت پڑتی ہے یا
جواب: حضرت میرے پاس ان کے دو وفود آئے ہیں اس کے باوجود ان کے لوگ جو ہیں وہ مجھے مسلسل مل رہے ہیں چاہے آف دی ریکارڈ مل رہے ہیں یا میڈیا کے سامنے بھی مل رہے ہیں تو ملتے ہیں اور یہی گفتگو چل رہی ہے کہ ہم کس طرح آپس کی جو تحفظات ہیں ان کو دور کرنے کے لیے ماحول بنایا جائے۔
سوال: مولانا صاحب آپ اس وقت دھاندلی کے خلاف جو تحریک چلانے جا رہے ہیں آپ نے جو افغانستان کے حوالے سے آواز اٹھائی یا افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہیے کیا اس کا نشانہ بنایا گیا آپ کو جو الیکشن ہرایا گیا جس کے خلاف تحریک بھی چلانے جا رہے ہیں؟
جواب: یہ تو تجزیہ کرنا پڑتا ہے کیا افغانستان میں امارت اسلامیہ امریکہ کے لیے واقعی قابل قبول ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہر قیمت پر ان کو کمزور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کمزور کرنے کے لیے ان کے پاس پاکستان جیسا مفید ٹول اور نہیں ہے اسی طریقے سے اگر ہم حماس کی بات کرتے ہیں امریکہ اور مغرب کی نظر کو ایک دہشت گرد تنظیم ہے امارت اسلامیہ بھی ابھی تک ان کے نزدیک د ہشت گرد تنظیم ہے ابھی وہ بلیک لسٹ سے نہیں نکلے ہیں جی، اب جب میں ان کے پاس جاؤں گا اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کے لیے جاؤں گا یا میں جاؤں گا فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے میں جاؤں گا تو ان کی جو خارجہ پالیسی ہے یہ اس کے متصادم ہے تو ظاہر ہے کہ پاکستان کی سیاست پر جو امریکہ اثر انداز ہوگا تو یہ چیزیں جو ہے آپ اس کو تجزیہ کریں کہ کیا ہمیں نقصان پہنچانے میں ان کا بینیفٹ ہے یا نہیں ہے۔
سوال: مولانا صاحب حکومت بھی گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کر رہی ہے رانا ثناءاللہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو رہا ہونا چاہیے میاں محمد نواز شریف بھی یہی چاہتے ہیں تو اگر حکومت گرینڈ ڈائیلاگ کو اگے بڑھاتی ہے تو آپ اس کا حصہ بنیں گے یا صرف تحریک انصاف سے بات کریں گے؟
جواب: دیکھیے اس پہ ذرا وقت کا انتظار کرنا چاہیے ہر بات وقت سے پہلے کہنا ذرا مناسب نہیں ہوتا۔
سوال: مولانا صاحب ابھی آپ نے فرمایا کہ 10 12 سال کی تلخیاں تھی اب آپ سیاسی طور پر کہہ رہے ہیں کہ سیاسی لوگ دروازے کھلے رکھتے ہیں تو جو سب سے زیادہ پچھلے سات آٹھ سالوں میں آپ کی طرف سے الزام کہ یہ یہودی لابی ہے تو یہ سیاسی تلخیاں ختم ہوں گی تو آپ ان کو یہودی لابی سے مسلمان لابی میں کیسے دیکھیں گے؟
جواب: یہ بات ذہن میں رکھے اگر ہم نے برصغیر کی سیاست میں کسی کو انگریز کا ایجنٹ کہا ہے یا ہم نے عالمی سطح پر کسی کو امریکہ کا ایجنٹ کہا ہے تو یہ عنوان ہے یہ گالی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ جو عالمی سطح پر ایک ورلڈ وائڈ جو ایکنامک نیٹ ورک ہے اور اس کے اوپر جو جیوش کا ایک بالادستی ہے جب میں دیکھوں گا کہ میرے ملک کو بھی اس نیٹ ورک کے اندر ڈالا جا رہا ہے اور یہاں پر میں سود کے خاتمے کی بات کرتا ہوں اور میں مکمل طور پر عالمی سطح پر سودی نظام کے اندر جا رہا ہوں ان کی معیشت کے اصولوں کے مطابق چلوں گا تو اس سے میرا اختلاف ہوگا اب اس اختلاف کا عنوان اگر یہ ہے کہ یہودی ایجنٹ تو اس کو گالی کیوں کہا گیا اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں اگر میں کہتا ہوں کہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلم سٹیٹس پاکستان میں دینا یہ میرے تحفظات ہیں بجائے اس کے کہ آپ مجھے اس کے بدلے میں گالیاں دیں آپ مجھے مطمئن کریں میں پاکستان کا شہری ہوں میرے پیچھے کچھ لوگ ہیں ان کے ایک سوچ ہے ان کے تحفظات ہیں میں ان کے نمائندگی کر رہا ہوں اگر میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں مغربی تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے اور ہماری اسلامی اور مشرقی تہذیب جو ہے اس کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اس کے بدلے میں گالی دینے کی بجائے مجھ سے پوچھا جائے مجھ سے بات کی جائے سیاستدان کا کام یہی ہوتا ہے اگر میں نے آپ کے اوپر کوئی اعتراض کیا ہے یا آپ کے ساتھ میں کوئی ایک تحفظات کا اظہار کیا ہے تو اپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ یہ بات کہے کہ فضل الرحمان یہ بات آپ کیوں کر رہے ہیں مجھے تاکہ جب میں آپ کے ساتھ اپنی بات رکھوں تو آپ یا مجھے مطمئن کر سکیں اس بات پر کہ میں میرے ایجنڈا نہیں ہے یا یہ کہ یہ میرا ایجنڈا ہے اور آپ کے مفاد کے لیے ہے کچھ تو کرنا پڑے گا نا جی تو یہ چیزیں جو ہیں ان کو سیاسی طور پر ہم لے رہے ہیں اور آج جب ان کے لوگ آئے ہیں اگر یہ لوگ 12 سال پہلے بھی اتے تب بھی میرے یہی ایٹیٹیوڈ ہوتا اور اگر آج آئے ہیں تب بھی میرا وہی ایٹیٹیوڈ ہے۔
سوال: مولانا صاحب اس وقت جو عدالتی نظام چل رہا ہے آپ عدالتوں میں نہیں گئے پی ٹی آئی عدالتوں میں گئی ہے آپ سمجھتے ہیں کہ اب ضمنی الیکشن بھی ہو رہے ہیں اور آپ عوام سے رابطے میں ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتی نظام میں کوئی انصاف ملے گا جو لوگ عدالت میں گئے ہوئے ہیں الیکشن کے خلاف؟
جواب: حضرت ہمارے ہاں ساری چیزیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں کسی محکمے میں ایک اچھا افسر آگیا اس نے دو تین سال اس محکمے میں گزارے اور اچھی کارکردگی دکھائی وہ کمال کر دیا کمال کر دیا کمال کر دیا کوئی منسٹر اچھا آگیا ایک پارٹی کا منسٹر ہے بہت دیانت دار آدمی ہے اس نے اچھی کارکردگی دکھا دی ہم کہتے ہیں زبردست ہو گیا میری حکومت ہے دیکھو آپ نے کیا دیکھا جی یہ سب عارضی ہوتے ہیں جی عدالت بھی ایک جج آتا ہے وہ اپنی کارکردگی دکھاتا ہے ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اس کا معنی یہ نہیں کہ عدلیہ ٹھیک ہو گئی ہے وہ جج ٹھیک ہے مجموعی طور پر ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا ہماری عدلیہ قابل اعتماد ہے کیا آپ کی عدلیہ عدالت عظمی اس کا کوئی ایک فیصلہ دنیا کی دوسری دنیا میں جب وکیل پیش ہوتے ہیں ججوں کے سامنے اپنے ملکوں میں کیا آپ کے ملک کے عدالت کا کوئی فیصلہ بطور نظیر مثال پیش کیا جاتا ہے یہ بھی دیکھنا چاہیے نا جی، تو اگر پاکستان کے فیصلے اور عدالتوں کے فیصلے دنیا کہ کسی کورٹ میں بطور نظیر پیش نہیں کیے جاتے تو اس سے آپ اندازہ لگائے کہ مجموعی طور پر ہمارے ادارے کتنے گر چکے ہیں اور اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔
سوال:
جواب: اگر میں کہوں کہ نہیں کیا تو بھی حقیقت کے خلاف ہوگا اگر میں کہوں کیا ہے آپ کا اگلا سوال ہوگا کیا کہا اور کس نے کیا اور کیا کہا ہے۔
بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
اگر قوم نہیں اٹھے گی اور اپنی رائے کو عزت نہیں دے گی تو ہم مسلسل غلامی کی طرف جارہے ہیں۔ ازسر نو الیکشن ہو، فوج الیکشن سے دور رہے ہمارا مطالبہ ہے،اسمبلیاں جہاں بک رہی ہوں سیٹیں بیچی جارہی ہوں۔ اسے الیکشن کون کہتا ہے۔ ہم نے تین جلسے کئے ہیں، عوام کا ردعمل حوصلہ افزا ہے یکم جون کو مظفرگڑھ میں بھی آپ ہمارا تاریخ ساز جلسہ دیکھیں گے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی ملتان میں صحافیوں سے گفتگو
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, May 15, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں