قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا دارالعلوم الاسلامیہ تعلیم القرآن پلندری آزاد کشمیر میں درس بخاری شریف
29 جون 2019
بسم الله الرحمن الرحيم
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم.
و قول الله عز وجل
إنا اوحينا إلى نوح و النبيين من بعده
و بالسند المتصل قال الإمام الهمام محمد بن اسماعيل إبن ابراهيم إبن مغيرة إبن بردزبة حدثنا الحميدي قال حدثنا سفيان قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري قال أخبرني محمد بن ابراهيم التيمي أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه على المنبر يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما الأعمال بالنيات و إنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه........
صحیح بخاری کا مکمل نام الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللّٰہ ﷺ۔
امام صاحب اپنی کتاب کا آغاز بدء الوحی سے کرتے ہیں۔ اس بات پر متنبہ کرتے ہیں کہ تشکیل حیات انسانی کا مدار وحی پر ہے۔
اور یہ کہ وحی ایک کامل اور مکمل راہنما ہے۔ جو ہر طرح سے ستا و انحراف سے پاک اور مصفا ہے۔
عقل بھی راہنما ہے بہت بڑی راہنما ہے اور عقل ہی سے انسان کو تمام مخلوقات سے ممتاز کر دیتا ہے۔
عقل سے انسان پوری کائنات کی تسخیر کرتا ہے۔ اشیاء کا ادراک بمع اوصاف کرتا ہے۔
تو اس اعتبار سے عقل بہت بڑی راہنما ہے لیکن اس میں خطا و انحراف کا امکان ہوتا ہے۔
عقل متاثر ہوتی ہے عقل معطل ہو جاتی ہے۔
محبت غالب آ جائے تو عقل مغلوب ، غضب غالب آ جائے تو عقل مغلوب ، جنسی خواھشات غالب آ جائیں تو عقل مغلوب اور انسان ہلاکت کی طرف چلا جاتا ہے۔
لیکن وحی ہر حالت میں آپ کی ایسی راہنمائی کرتی ہے کہ جس میں ہلاکت کی جانب جانے کا تو امکان ہے نہیں بلکہ ہمہ وقت وہ آپ کو ہلاکت سے بچاتا ہے اور کامیابیوں کے راستے بتاتا ہے۔
انسان کے سامنے دو باتیں مد نظر ہونی چاہیں۔
ایک معاش اور دوسرا معاد
معاش کا تعلق دنیا سے ہے اور دنیوی زندگی کا نام ہے۔ معاد کا تعلق آخرت سے ہے اور آخرت کی کامیابی کا دارومدار دنیا کے اعمال پر ہے۔
جب انسان وحی کی راہنمائی میں زندگی گزارتا ہے تو پھر وہ آخرت کی کامیابیوں کو حاصل کرتا ہے۔ اخروی کامیابیوں کو حاصل کرتا ہے۔
اور جو شخص دنیا میں وحی کی راہنمائی سے خود کو بے نیاز کر دیتا ہے۔ محض عقل کا سہارا لیتا ہے۔
اور جب اپنی خواہشات اس پر غالب ہو جائیں تو اس وقت عقل کو معطل کر دیتا ہے۔
تو صرف دنیوی زندگی کی لذتیں تو وصول کر لیتا ہے لیکن اخروی دنیا کی لذتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
اس اعتبار سے امام صاحب نے اپنی کتاب کا آغاز نزول وحی اور وحی کی ضرورت اور وحی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے آغاز کیا۔
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم....
باب کا لفظ استعمال کیا ہے کتاب کا نہیں، کیونکہ کتاب ہمیشہ ابواب پر مشتمل ہوتی ہے۔
یہاں چونکہ ابواب موجود نہیں ہے ایک ہی باب ہے
باب كيف كان بدء الوحي
اب بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ کتاب کا آغاز امام بخاری نے بدء الوحی سے کیا ہے۔
لیکن علماء ایک اور تطبیق کرتے ہیں کہ جس طرح امام صاحب آخر میں کتاب لاتے ہیں کتاب التوحید
تو کتاب کا اختتام بھی ایک ایسے عنوان سے کرتے ہیں کہ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اعمال کی قبولیت کا مدار عقیدہ توحید پر ہے۔
اسی مناسبت سے وہ حضرات صحیح بخاری کا آغاز بھی کتاب الایمان سے قرار دیتے ہیں۔
تا کہ اول میں بھی اس بات پر تنبیہ ہو کہ اعمال اور اس کی قبولیت کا مدار ایمان پر ہے۔
اور آخر میں بھی اسی جانب اشارہ کر دیا تا کہ آخر میں بھی آپ جا کر اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ کامیابی کا مدار اور قبولیت کا مدار عقیدہ توحید اور ایمان پر ہے۔
حضرت عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ إنما الأعمال بالنيات
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اب ایک طرف بدء الوحی سے آغاز کیا کہ تشکیل حیات انسانی کا مدار وحی پر ہے۔
اور پھر حدیث باب لائے تو حدیث باب میں بھی آپ کی توجہ اسی طرف دی کہ جو بھی عمل شروع کرو پہلے نیت کی اصلاح کرو۔
چنانچہ جب آپ علم کی طرف نکلیں گھر کو چھوڑے تو علم کا حصول بھی ایک عمل ہیں تو وہاں پر بھی نیت اللہ کی رضا ہو نیت سے اعمال میں وزن پیدا ہوتا ہے۔
جس خشوع خضوع کے ساتھ آپ اعمال کریں گے اتنا ہی اس کے اندر وزن پیدا ہوگا اور اس لیے آخر میں پھر وزن اعمال کی حدیث میں لے آتے ہے۔
باب قول الله تعالى ونضع الموازين القسط ليوم القيامة ۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ
وزن پیدا ہوگا عمل کے اندر جتنا خشوع و خضوع ہوگا اور جتنا آپ کی نیت خالص ہوگئ تو یہاں آپ کو جب دوران تعلیم آپ مدرسے میں وقت گزاریں گے اور پھر اس کے بعد اپنی زندگی کی ہر شعبے میں جانا ہوتا ہے تو جہاں جہاں بھی اب جائیں گے پہلے سوچ لو کہ جو کام میں کر رہا ہوں یہ میں اللہ کے رضا کے لئے کر رہا ہوں
اگر علم حاصل کر رہا ہوں چاہے آپ مدرسے میں پڑھ رہے ہو چاہے کالج میں پڑھ رہے ہو چاہے کسی فن کو ،کیونکہ فنون کو آج ہم نے جو تقسیم کر دیا ہے اور عصری علوم اور دینی علوم اس میں جو ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم بھی بڑے شوق سے یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں یہ دینی علم ہے اور عصری علم ہے یہ تقسیم تو انگریز نے کیا تھا۔
اس کے لیے اس نے پہلا مدرسہ برصغیر میں علی گڑھ میں کھولا تھا اور اس نے دینی علم کی نفی کر دی تھی قرآن کو نصاب سے نکال لیا حدیث کو نصاب سے نکال دیا فقہ کے کو نصاب سے نکال دیا۔
اب آپ نے بتائیں کہ ایک شخص کے مسلمان ہے اور وہ کلمہ گو ہے اور اس کو یہ علم ہے کہ میں نے اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیم پہ گزارنی ہے تو پھر اس کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر دین اسلام کی اتباع میں میں نے اگر زندگی گزارنی ہے تو دین اسلام کے جو منابع ہے جہاں سے ہم دین کو اخذ کرتے ہیں وہ سب عربی میں ہیں.
قرآن عربی میں ہے حدیث عربی میں ہیں فقہ ہمارے تمام ائمہ مجتہدین نے بھی عربی میں تجویز کیا ہے اب جب ہماری بنیادیں ،ہماری اساس، ہماری منابع وہ عربی زبان کے ہو اور آپ کی تعلیم کے نظام سے عربی مکمل نکال دی جائے آپ بتائیے رہنمائی کیسے حاصل کرو گے ورنہ میں ذاتی طور پر علم کو علم سمجھتا ہوں یہ تقسیم علم کی یہ کس نے کی ہے کیوں کی ہے..؟
ہم حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا
اب یہ تو لکڑی کا کام ہے کشتی بناو ، بحری جہاز بناؤ تو پیغمبر کا عمل ہے پیغمبر کو دیا گیا علم ہے۔
اور اللہ تعالی نے باقاعدہ احکامات کے ذریعے سے وحی کا نزول بھی تو حضرت نوح سے کیا علی نبینا و علیہ السلام اسے پہلے تو انسانیت یہ چھوٹی تھی اس قابل نہیں تھی کہ اس کے طرف احکامات بھیجے جائے جب انسانیت اس عمر پر پہنچ گئی کہ اب وہ بڑی ہوگئی اب اس میں اتنی عقل آ گئی کہ اللہ کے احکامات کو سمجھ سکتا ہے تو پھر اللہ نے فرمایا إنا اوحينا إلى نوح و النبيين من بعده
اب انسانیت اس مقام پر پہنچ گئی کہ اب وہ اللہ کے احکامات کو وصول کر سکتی ہے اور اسکے احکامات کو سمجھنے کی استعداد اس کے اندر پیدا ہو گئی ہے اس سے پہلے کہ انبیاء کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ وحی تو وہ بھی آتی تھی۔ اس وقت کی انسانیت کی ضرورت کے تحت۔
لیکن احکامات کا جب نزول ہوا اور اللہ نے اپنے شریعت کا پابند بنایا انسانیت کو تو حضرت نوح کے بعد بنایا امام بخاری بھی بڑے زبردست آدمی ہے نا وحی کا آغاز کرتے ہے تو پوری وہی کتاب اللہ میں جہاں اسی مادے کی کوئی آیت اسے مل جاتی ہے مناسبت کی، تو فورا اخذ کرکے اس کو ترجمہ الباب میں لے آتے ہیں اس پر باپ کا قائم کر دیتے ہیں۔
تو جہاں آپ فرماتے ہے
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم.
وہاں آپ یہ بھی فرماتے ہیں و قول الله عز وجل
إنا اوحينا إلى نوح و النبيين من بعده
تو حضرت نوح سے آغاز کیا احکامات شرعا کے نزول کا انسانیت کو مخاطب کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل کیا تو بس ہم نے آپ پر دین مکمل کر دیا وحی مکمل ہوگئی۔
اس کے بعد کوئی وحی نہیں آئے گی اور جو یہ دعوی کرے گا اس کا معنی یہ ہے کہ وہ نصوص قطعیہ اور اصول شرعیہ سے انکار کرتا ہے اور یہی پھر اس کی تکفیر کا سبب بنتا ہے۔
تو فرمایا رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے( انما الاعمال بالنیات) اعمال کا دارومدار اور اس میں وزن پیدا کرنے کا دارومدار اور اللہ کے ہاں اس کے قدرومنزلت کا دارومدار وہ نیتوں پر ہے۔
فمن كانت هجرته إلى دنيا
جو شخص دنیا حاصل کرنے کا نیت کرے گا اس کو دنیا مل جائے گی.
اور کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ محبت ہے اسے نکاح کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس محنت میں لگ جاتا ہے تو عورت مل جائے گی۔
جس طرح کے ایک صحابی کسی خاتون سے شادی کرنا چاہتا تھا اور وہ خاتون ہجرت کر گئی یہ بھی پیچھے مدینے چلا گیا اور وہاں پر انہوں نے ان سے نکاح کر لیا اس کی طرف اشارہ کیا کہ جو عورت کے پیچھے آئے گا اس کو عورت مل جائے گی جو دنیا کے پیچھے جائے گا اس کو دنیا مل جائے گی اور جو اللہ کی دین کو حاصل کرے گا اس کی علم کو حاصل کرے گا اس کو اللہ کا دین اور اسکا علم مل جائے گا.
فهجرته إلى ما هاجر إليه........
جس چیز کی طرف آپ ہجرت کریں گے ملے گا وہی ، تو پہلے نیتیوں پر کنٹرول ہو جو نیت آپ نے کی، چاہے وہ آپ دنیا کی نیت کرتے ہیں ،چاہے وہ آپ آخرت کی نیت کرتے ہے یا عورت سے نکاح کا ،چاہے آپ پیسہ کمانے کی، جس چیز کی بھی آپ نیت کریں گے آپ کو وہی ملے گا۔
اب پیسہ آ بھی گیا تو کیا ہم پیسوں کو شریعت سے متصادم قرار دیں کہ شریعت کچھ اور ہے اور دین کچھ اور ہے یا ہم نکاح کو شریعت سے متصادم قرار دیں کہ نکاح دنیوی چیز ہے اور خالص دنیوی چیز ہے اور نکاح کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اگر نکاح دینوی چیز ہے پھر اس میں حکم شرعی کیوں ہے ؟ تو کیا ہر عورت سے آپ تعلق قائم کر سکتے ہیں لیکن نکاح کے بغیر تعلق حرام ہے نکاح کے ساتھ تعلق ، تعلق شرعی ہیں صرف متوجہ کرنا ہے آپ کو ، آپ معلم ہیں
مال پیسہ مادی چیز ہے لیکن وہ روح کے تزکیہ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ وسیجنبہا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکیٰ۔
مال ہے سبب تزکیہ کا ہے خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ مال ہے جب آپ اس کا صدقہ کریں گے تو آپ کے تزکیہ کا سبب بنتا ہے تطہیر کا سبب بنتا ہے
تو اس اعتبار سے جس شعبہ زندگی میں بھی آپ قدم رکھیں گے وہاں ان پہلوؤں کو ہمیں ٹٹولنا ہو گا۔
کہ اس میں امر شرعی کیا ہے اس میں اللّٰہ کو راضی کرنے کا پہلو کیا نکلتا ہے۔
تو یہ وہ تعلیم ہے آپ جب پوری انسانی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی تشکیل وحی کے ذریعے
جب آپ اپنے شخصی ایک عمل کو ایک عمل کا ارادہ کرتے ہیں تو اس میں پہلی چیز نیت ہے۔ نیت کو مدنظر رکھیں۔
امام صاحب نے دونوں کو اکٹھا کیا آغاز ہی یہاں سے کیا بدء الوحی اور شخصی اعمال میں ہر عمل کی ابتداء کا آغاز بھی انما الاعمال البنیات سے کرتے ہیں۔
تو آپ کا کتنا حکیمانہ انداز ہے کہ کس طریقے سے آپ نے آغاز کر کے ہم جیسے طالب علموں کو راہنمائی بخشی۔
ہم سب طالب علم ہیں میں بھی آپ کی طرح طالب علم ہوں کسی وقت میں بھی آپ کی طرح یہاں بیٹھتا تھا ایک دن آپ بھی یہاں آ کر بیٹھے گے۔
یہ جو کبھی کبھی ہم کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور تعریفوں کے بند باندھ دئیے جاتے ہیں۔
یہ سب غیر حقیقی چیزیں ہوتی ہیں میں بھی آپ کی طرح ایک طالب علم ہوں میں بھی آپ کی طرح ایک کارکن ہوں ہماری کوئی حیثیت نہیں۔
چند دن ہیں کوئی اچھے عمل کا موقع مل گیا اللّٰہ سے امید رکھنی چاہیے کہ اس پر ہمیں اچھے نتائج مہیا کریں۔
خطائیں بہت ہیں آپ دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے۔
حاضرین مجلس:- آمین
اور یہاں ہمارے بھائی اشفاق صاحب کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ حضرت رحمہ اللّٰہ کے خاندان کے فرد تھے۔
اور خود حضرت مولانا مفتی محمد یوسف خان صاحب رحمہ اللہ جنہوں نے اس مدرسہ کو قائم کیا اور پورے خطہ کشمیر میں آغاز کیا۔
بہت بڑے مجاہد اور ان کے رفقاء کار اور علماء اور تمام اکابر جو گزرے ہیں۔
اور آج جمیعت علماء اسلام جس محاذ پر کام کر رہی ہے۔
مولانا سعید صاحب نے کچھ اشارہ تو کیا۔
لیکن میں آپ کو اپنے زاویہ نظر سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ہر طبقے کے بارے میں معاشرے کے اندر ایک تاثر قائم کیا جاتا ہے۔
اور پھر ہم اس ذہنیت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
بسا اوقات کسی طبقے کے بارے میں ایک تاثر معاشرے میں عام کرنا اس میں ریاستی اداروں کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔
جب برصغیر میں ہمارے اکابر نے دیوبند کے قصبے میں مدرسہ کھولا۔
تو آپ جانتے ہیں کہ پورے برصغیر میں دو ہی مدرسوں کو فروغ ملا یا علی گڑھ مدرسے کو یا دیوبند مدرسے کو ، لیکن وہ سرکار کی چھتری کے نیچے اور یہ پرائیویٹ سیکٹر میں۔
یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی گاؤں میں سکول نہ ہوں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی گاؤں کے اندر مدرسہ نہ ہو اور مکتب موجود ہو۔
دونوں پھیلے اور خوب پھیلے۔
ندوۃ العلما بھی ایک ادارہ تھا پھیل نہیں سکا جامعہ ملیہ بھی ایک ادارہ تھا بڑا ادارہ تھا پھیل نہیں سکا۔
لیکن یہ دونوں پھیلے ہیں فروغ پایا ہے۔ شرق و غرب میں اس نے قبولیت حاصل کی ہے۔
اب اس اعتبار نے انگریز کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک تاثر دے دیا کہ مدرسہ میں پڑھنے والا یہ معاشرے کا حصہ ہی نہیں ہے۔
یہ ایک پسماندہ دنیا ہے غریب فقیر لوگ ہیں ان کا نہ کوئی روزگار ہے نہ کوئی معاش ہے نہ یہ معاشرے کے کوئی محترم لوگ ہیں۔
کمی قسم کے لوگوں کا انداز ان کے ساتھ اختیار کیا ان کا مذاق اڑایا ان کے والدین کو طعنے دئیے تم اپنے بیٹے کو تباہ کر رہے ہو کہاں لے جا رہے ہو۔
اور انتہائی کمزور ترین طبقے کے طور پر اس کو متعارف کروایا۔
وہی مدرسہ ، وہی مدرسے کا طالب علم آج اس نئی دنیا میں جب حکومت انگریز اسٹیبلشمنٹ کی نہیں ، حکومت امریکی اسٹیبلشمنٹ کی دنیا پہ ہے۔
آج ایک نیا تاثر عام کیا جا رہا ہے۔ مدرسہ یہ تو دہشتگردی کا مرکز ہے یہاں پڑھنے والے دہشتگرد ہیں۔
داڑھی اور پگڑی تو خطرے اور تشدد کی علامت ہے انتہا پسند یہاں رہتے ہیں۔
اب ایک نیا تاثر آپ کے بارے میں پھیلا دیا اس میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے وہ یہی کام کرتے ہیں۔
ہمارے ہی اکابر کی جماعتیں ہوتی ہیں ہمارے اکابر کی ایک جماعت تبلیغی جماعت ہے چھہ باتیں ذکر کرتی ہے۔
دین کی طرف ترغیب کی ایک تحریک ہے۔ کوئی غیر مسلم ہے تو اسلام کی برکات سے آگاہ کیا کوئی نماز نہیں پڑھتا تو نماز کی برکات سے آگاہ کیا۔
مسجد کی طرف آنے کی راہ اس کو برتی دین دار اس کو بنا دیا۔
اس حد تک کو دین کا کام ہو رہا ہے اس کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا تاثر یہ ہے کہ یہی دین کا کام ہے۔
ہر عام آدمی سمجھتا ہے کہ یہی دین کا کام ہے اس راستے میں نکلو تو اللّٰہ کے راستے میں ہو۔
جرنیل ریٹائر ہوتا ہے تو تبلیغی جماعت میں ، بیوروکریٹ ریٹائر ہوتا ہے تو تبلیغی جماعت میں ، بڑا جاگیردار وہ جاتا ہے تو تبلیغی جماعت میں ، صنعتکار جاتا ہے تو تبلیغی جماعت میں ، ہفتہ لگا لیا سہ روزہ لگا لیا یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ دین بس یہی ہے۔
لیکن اگر آپ ملک کے اندر اللّٰہ کے دین کا عادلانہ نظام برپا کرنے اور اعلائے کلمۃ اللہ اور اس کی اساس پر ایک شرعی نظام قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔
تو پھر جمیعت علماء کے بارے میں یہ تو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی ایک سیاسی جماعت ہے بس۔
یہ تاثر ہے اور یہ تاثر باقاعدہ ریاستی سطح پر بنایا جاتا ہے اسی پہ کام ہوتے ہیں۔
چنانچہ اسلام کے سیاسی نظام کو تو کوئی تسلیم ہی نہیں کر رہا ، مذہب اور سیاست کا کیا تعلق ہے ؟ اسلام اور سیاست کا کیا تعلق ہے ؟ اسلام اور ریاست کا کیا تعلق ہے؟
اور میں آپ حضرات کو بتا دوں ہمارے تاریخ اسلام کے اکابر نے اور ہمارے آئمہ نے 500 سے زیادہ کتابیں صرف سیاست کے اوپر لکھی ہیں۔
سیاست شرعیہ پر ، ضخیم کتابیں ، کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں ، مملکت کا نظام کیسے چلے گا۔
رسول اللّٰہ ﷺ کا اپنا عہد نبوی مذہب بھی تھا اور مذہب کی حاکمیت بھی تھی تمام خلافت راشدہ پورا نظام مذہب بھی تھا اور مذہب کی حکمرانی بھی تھی۔
جب اساس یہ ہے ہم کیسے اس اساس کا انکار کرتے ہیں سمجھ میں نہیں آتی۔
صرف اس لئے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اقتدار رہے اور نظریہ صرف طاقت کا حصول اور طاقت کا تسلط ہو اور اس کے پیچھے کوئی نظریہ نہ ہو۔
اور اگر نظریہ ہو تو پھر وہ سرمائے کا نظریہ ہو جاگیر کا نظریہ ہو۔
عدل و انصاف کا کوئی نظریہ نہ ہو نظم و نسق کا کوئی نظریہ موجود نہ ہو۔
تو جمیعت علماء اسلام یہ جماعت ہے جو اللّٰہ کے دین کامل کو مملکت کا نظام بنانے کی جہدوجہد کا نام ہے اور یہ اس کا بڑا عالی مقام ہے۔
لیکن ہمارا ٹکراؤ اس ریاستی نظام کے ساتھ ہے جو انگریز کے دور کا تسلسل ہے اس کا مزاج وہی انگریز کے زمانے کا ، اس کے طور طریقے وہی انگریز کے زمانے کے ہیں۔
ہاں ہمارے سامنے کھڑی شکلیں وہ زیادہ تر کلمہ گو لوگوں کی ہوتی ہیں۔
تو تصورات کا تصادم بدستور برقرار ہے۔
تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک بزرگ کی شہرت اور ہوتی ہے اب وہ ولی اللّٰہ ہے کسی مدرسے کے شیخ الحدیث کی شہرت ہوتی ہے وہ تو بہت بڑے مقام کا بندہ ہے۔
لیکن جمیعت علماء کے مقام پر اگر شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی فائز ہیں تو پھر ان کے گریبان کو کھینچوں ، ان کی ٹوپی کو زمین کے اوپر پھینک کر پاؤں تلے روندو۔ اس کے اوپر شراب پھینکو۔
پھر آپ کے انگریز کے دور کے سیاسی تصورات میں اس شخصیت کا جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا اور ایک سیاسی نظریہ رکھتا تھا پھر آپ نے اس کا عزت و مقام کیا رکھ دیا۔
کوئی قدر و منزلت پھر نہیں ہے۔
پھر عبد الکلام آزاد جیسی شخصیت کے سامنے ننگے ناچ کرتے ہو۔ اس کو جوتوں کا ہار پہناتے ہو۔ چونکہ وہ سیاسی محاذ پر ایک شخصیت ہے تو پھر اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں۔
یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ وہ ایک تاثر پھیلاتی ہے وہ ہمارے معاشرے کے افراد کے دلوں سے اس کی عزت و منزلت کو ختم کر دیتی ہے اس کی قدر و احترام کو ختم کر دیتی ہے۔
تو آج بھی وہ جنگ جاری ہے۔ آج بھی صورتحال وہی ہے لیکن الحمدللہ یہ ایک دن میں حاصل ہونے والی صلاحیت نہیں ہے۔
اس مقام تک پہنچنے کے لئے ایک محنت کرنی پڑتی ہے یکجا ہونا پڑتا ہے۔
اور ہماری کوشش یہ بھی ہے کہ ہم دلیل کی بنیاد پر آگے بڑھے طاقت کی بنیاد پر کسی ادارے سے تصادم کر کے نہیں۔
تو دلیل کی بنیاد پر تو اقوام متحدہ کا منشور بھی تسلیم کرتا ہے۔ جینیوا کا انسانی حقوق بھی ہمیں یہ حق دیتا ہے۔ ملک کا آئین بھی ہمیں حق دیتا ہے ملک کا قانون بھی ہمیں حق دیتا ہے۔
تو پھر ہمارا حق ہے کہ ہم دلیل کی بنیاد پر اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھائیں اپنا نظریہ ان کو بتائیں۔
لوگوں کو اس مقصد کی طرف متوجہ کریں کہ بھئی الیکشن بھی لڑو تو صرف نوکری اور گلی کوچے کی کوئی اصلاح کی اور کچھ اینٹیں رکھنے کا نام نہیں ہے۔
اس کے سامنے بھی ایک بڑا مقصد ہونا چاہیے اور مقصد وہ ہو گا تو پھر آپ کو اجر اور ملے گا لیکن مقصد وہ ہو گا تو اجر کوئی اور ملے گا۔
و إنما الأعمال بالنيات و إنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
و صلى الله تعالى على خير خلقه محمد و على اله وصحبه اجمعين۔
ایک تبصرہ شائع کریں