قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ملتان میں میڈیا سے گفتگو
11 جون 2019
لوگوں کے ذہن کو تقسیم کرنے کی لیے کہ لوگوں کی رائے اس طرف چلی جائے۔ زرداری صاحب کی گرفتاری اور پھر آج حمزہ شہباز صاحب کی گرفتاری یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جو موقع محل کے اعتبار سے اور ٹائمنگ کی حوالے سے اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ وہ ایک ناکام بجٹ کو لوگوں کی ردعمل سے بچانے کے کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن ملک کی معیشت کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں حکومت ڈوب رہی ہے میں کہتا ہوں نہیں ریاست ڈوب رہی ہیں اور ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ریاست کو بچائے اس کا تحفظ کریں اور ریاستی ادارے بھی اس بات کو سوچیں کہ اس قسم کی حکومت جو ہے اس کو سہارا دینا یہ شاید ملک کے لیے مفید نہ ہوں۔
ہم جو بھی تجویز لا رہے ہیں وہ ملکی مفاد میں لا رہے ہیں ریاست کے مفاد میں لا رہے ہیں اور میں یہ بات بھی یہاں مینشن کردوں آپ حضرات کے موجودگی میں۔۔۔۔۔ کہ بہت ہو چکا اور تم نے جو دہشت گردی ، دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ اور جنگ کے نام پر جو بیانیہ 17 ، 18 سال سے بیچا ہے اب اس کی مارکیٹنگ اور سیلنگ (فروخت) بند کر دینی چاہیے اب مزید یہ فرسودہ ہوچکا ہے۔
اور کب تک آپ بھیڑیے کے منہ میں ہمشیہ مذہبی دنیا ، مذہبی طبقہ ، مدارس ، داڑھی ، پگڑی کو ان کے منہ دے کر سیاست کرتے رہو گے ؟
اور دنیا کو باور کراتے رہو گے کہ ہم کوئی بہت مقبول قسم کے کام کر رہے ہیں؟
میرے خیال میں سب کچھ دنیا بھر میں بھی مصنوعی ہے یہ جو دہشت گردی ہے یہ تخلیق کی گئی ہے اس کو انجینئر کیا گیا ہے۔
اور اس تصور کے ساتھ ، کہ امریکہ بھی پوری دنیا میں اپنے فوجی موجودگی کے لیے اور عسکری موجودگی کے لئے جواز پیدا کر سکے اور اسی کو کاپی کرتے ہوئے ہمارے ملک کے جو اسٹیبلشمنٹ ہے اس نے بھی اپنے عسکری قوت کو ملک کے ہر کونے میں پہنچانا اور کنٹرول حاصل کرنا۔۔۔۔۔
آواز سنسر کر دی گئی
اس میں کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں ملک کے اندر بھی ہمارا نظام کمزور ہوتا جارہا ہے۔
ایک مستحکم نظام کے لئے ضروری ہے کے ایک سنجیدہ حکومت وجود میں آئے ، جائز حکومت وجود میں آئے ، عوام کی منتخب کردہ حکومت وجود میں آئے۔
اس طرح جعلی حکومتوں سے ملک نہیں چلا کرتے۔
نااہلی ثابت ہو چکی ہے نا اہلی اس حد تک ثابت ہو چکی ہے کہ اب تو یہ لوگ کوئی اس (حکومت) پر یہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے کہ وہ ایک ڈھیلا اٹھا کر کسی جگہ پر رکھ سکے تاکہ راستہ صاف کر سکے۔
انتہائی نااہل حکومت اس وقت ملک کی اندر ہے جتنے دن اس کو مل رہے ہیں اتنے ہی ہم قرضوں کے نیچے دبتے چلے جا رہے ہیں۔
اس وقت ہمارا روپیہ جو ہے ڈالر کے مقابلے میں 153 کو کراس کر رہا ہے یہ کیا معیشت ہے ہمارے ملک کی؟
یہ وہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے میں اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس بھی 19 جون کو اسلام آباد میں طلب کر چکا ہوں۔
اور انشاء اللہ اسی جون کے آخری عشرہ میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو بھی ممکن بنایا جائے گا میں انشاءاللہ 15 جون تک اسلام آباد پہنچوں گا اور ملک کے مقتدر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ رابطے بھی ہونگے مشاورت بھی ہوگی اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔
سوال:- کیا کوئی نیا لائحہ عمل طے کیا جائے گا کوئی روڈ میپ بنایا جائے گا؟
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھئے یہ سب جب بیٹھتے ہیں آخر وہ ملک کے سیاسی رھبر ہے اتنے لوگ جب اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ بڑے سوچ سمجھ کر آنے والے مستقبل کو طے کرتے ہیں۔
ہم تو بطور جمعیت علماء اسلام کے 13 ملین مارچ ہم کر چکے ہیں اور اس کے اندر جو عوام کی شراکت ہے وہ بالکل جیسے آپ حضرات نے مظفر گڑھ میں دیکھا پورے ملک میں ہر جگہ اس طرح کا انسانوں کا سمندر امڈ آیا۔
ہم نے اپنے بیانیہ کو تبدیل نہیں کیا جو بیانیہ تمام سیاسی جماعتوں نے پچھلے سال 25 جولائی کی جعلی الیکشن کے ایک ہفتہ کے اندر اندر طے کیا تھا اس بیانیہ کو ہم نے زندہ رکھا ہے۔
اس حکومت نے آتے ہی جو ملکی نظریاتی شناخت پر ، اور نظریاتی شناخت پر حملے کئے ہیں اور جو آئینی لحاظ سے طے شدہ مذہبی معاملات تھے ان پر جب حملے کئے ہیں ان کو بھی لے کر ہم میدان میں آئے ہیں اور ہمارا یہ سلسلہ وہ جاری رہے گا آل پارٹیز کانفرنس اپنی طور پر چلتی رہی گی لیکن ہماری جو ملین مارچ کا سلسلہ ہے وہ اپنی طور پر برقرار رہے گا۔
سوال :- مولانا آپ اسلام آباد کی طرف کب مارچ کررہے ہیں؟
مولانا فضل الرحمن صاحب:- ابھی ہم نے فیصلہ کیا ہے 15 جولائی کو کوئٹہ میں ہوگا اور 21 جولائی کو پشاور میں ، اس کے بعد اگلا ہمارا قدم اسلام آباد کی طرف ہوگا۔
سوال : مولانا اس پر مذہبی جماعتوں کا بھی کوئی اتحاد سامنے آرہا ہے حکومت سے نمٹنے کیلئے اس سے حکومت کو نقصان ہوگا، معیشیت کو نقصان ہوگا اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے.
مولانا فضل الرحمٰن :- جب 120 دن کا دھرنا دے رہے تھے تو اس وقت کس کو نقصان ہورہا تھا ؟
چین کے صدر کو روکا انہوں نے اور کوئی ساٹھ ارب سے زیادہ کی یہاں انویسٹمنٹ کے راستے انہوں نے روکے ہیں انہوں نے۔
بعد میں پھر چیختے رہے، روتے رہے ہیں۔ اور پھر جلدی جلدی میں انہوں نے پشاور کے لئے ایک پیکج دیا بی آر ٹی کا۔ جس کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
آج جو چور ڈاکو تھے انہوں نے ملتان میں ، لاہور میں، اسلام آباد میں میٹرو بسیں چلائیں ہیں وہ بڑی کامیابی کے ساتھ جارہی ہیں جبکہ پشاور کھنڈر بن چکا ہے۔
اور اگر تیس ارب سے ایک منصوبہ مکمل ہونا تھا، ایک سو دس ارب پہ جا کے پہنچ گیا ہے اور ابھی تک کھنڈر ہے
اور عجیب صورتحال یہ بنی ہے کہ
سوال:- جو حکومتی اتحادی ہیں اختر مینگل صاحب کی جماعت ، آپ نے ان سے کوئی رابطہ کیا ہے کہ وہ اپوزیشن میں آ جائیں یا اتحاد کا حصہ ہوں۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- مینگل صاحب جو ہے، مینگل صاحب۔ تھوڑا سا ایک دھکا لگے گا تو اپوزیشن میں پڑے ہو گے ایک دھکے کی ضرورت ہے اس کو
سوال :- مولانا صاحب ابھی تھوڑی دیر پہلے حکومت کی ترجمان جو ہے فردوس عاشق اعوان نے آپ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ اسلام آباد کے بجائے اسلام کی طرف جائے اسلام آباد نہ آئے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- اللہ تعالی ان کو اسلام کی طرف متوجہ کر لے تو یہ بھی بڑی بات ہے، (مسکراہٹیں)
اگر میری حرکت سے ان کی زبان پر یہ جملہ ہی آ گیا ہے تو میرے خیال میں یہ میری اچیومنٹ ہے۔ قہقہے
سوال :- حکومت نے جسٹس عیسی کے خلاف ریفرنس بھیجا ہے اور وکلاء تحریک چلانے جارہے ہیں تو آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- اس صورتحال پر ہماری بڑی قریب ترین ایک نظر ہے اور ان سے ہم رابطے میں بھی آنا چاہیں گے ان کا موقف ہم سمجھنا چاہیں گے۔
اور میرے خیال میں یہ معاملہ جو وکلاء کی تمام کمیونٹی کا ہے، وکلا کی کمیونٹی وہ سیاستدانوں کو بھی اعتماد میں لے اس حوالے سے ، تا کہ ان کے موقف کو سمجھیں اور جو بہتر راستہ ہو۔
اگر انہوں نے رابطہ کیا اور وہ سمجھے کہ ہمیں پورے ملک کے اندر اس مسئلے پر ہمیں تائید حاصل کرنی چاہیے تو یقینا ہم ان کو اپنی تائید دیں گے۔
سوال :- ریاستی اداروں کی طرف سے پشتون تحفظ تحریک کے لئے طاقت کے استعمال کی بات کی جا رہی ہے کیا کہے گے آپ اس پر؟
مولانا فضل الرحمن صاحب :- دیکھئے طاقت کا استعمال کبھی کامیاب نہیں ہوا ہے طالبان کے خلاف طاقت کا استعمال ہوا آج بھی طالبان ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔
آج بھی قبائلی علاقوں میں اور ہمارے سیٹل ایریا کے علاقوں میں وہ پھیل رہے ہیں اور اسی طرح فوج بھی ساتھ ساتھ پھیل رہی ہے، ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہیں ہیں ہمارے علاقوں میں۔
تو ہمیں توکوئی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔ ہزار بار یہ دعوی کرنے کے باوجود کہ امن قائم ہوچکا ہے، قبائلی علاقوں میں امن قائم ہوچکا ہے پھر دوبارہ کیوں بگڑ جاتا ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ایک مصنوعی قسم کا دعوی ہوتا ہے حقائق ایسے نہیں زمینی،
اس لئے میں کہتا ہوں بیانیہ جو ہے سارے کا سارا فرسودہ ہو چکا ہے ازسرنو ایک نیا بیانیہ پاکستان کو طے کرنا ہوگا اور ہمیں ابھی پاکستان کی معیشت کی طرف دیکھنا ہوگا جب تک ہم ایک معاشی حوالے سے ایک نیا اکنامک ایکشن پلان نہیں بنائیں گے اور پرانا جو نیشنل ایکشن پلان جو صرف مذہبی دنیا کو ٹارگٹ کرنے کے لئے تھا تو اس کو تبدیل نہیں کریں گے تب تک ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
سوال :- مولانا صاحب عمران خان نے ابھی ایک بیان دیا ہے ابھی مزید آنے والے دنوں میں کچھ مزید کرپٹ لوگ گرفتار ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب: سب سے بڑے کرپٹ تو وہ خود ہے، اخلاقی کرپٹ ہے۔ ان کے جنسی تعفن سے جو بدبو پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔وہ کیا ہے؟
ایسے لوگ، ہماری تو غیرت کا سوال ہے کہ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے اس بدبودار کردار کو ہم اپنے اوپر برسراقتدار دیکھ رہے ہیں جی۔
لہذا وہ اپنے انجام کی اب فکر کرے کسی دوسرے کے انجام کے بارے میں بات نہ کرے۔ خود اپنے انجام کو سوچے کہ آنے والے دنوں میں اس کا انجام کیا ہونا ہے۔
سوال :- مولانا صاحب کہا جارہا ہے کہ آپ کی اور شاہد خاقان عباسی صاحب کی باری آنی والی ہے حکومتی بینچوں کی طرف سے ، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مولانا فضل الرحمن صاحب :- کس حوالے سے
صحافی :- گرفتاری کے حوالے سے
مولانا فضل الرحمن صاحب :- بھئی سیاستدان کبھی گرفتاری سے نہیں گھبراتا۔ گرفتاریاں سیاست کا حصہ ہوتی ہیں اور اگر کوئی سیاستدان یہ سمجھتا ہے کہ میری ساری زندگی گرفتاری سے محفوظ رہے تو پھر وہ سیاست کا دعوی بھی نہ کرے۔
ہم یہ حالات دیکھ چکے ہیں، یہ راستے ہمارے دیکھے بھالے ہیں اور یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
سوال :- فوج کے جانب سے جو دفاعی بجٹ میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے آپ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک مثبت اقدام ہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- کیا ؟
سوال :- فوج کے جانب سے جو دفاعی بجٹ میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے آپ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک مثبت اقدام ہے آپ کے جانب سے تنقید کی جاتی تھی۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- میرے خیال میں ابھی اس کو اور ذرا جانچنا ہوگا صرف زبانی بات سے کب بات نہیں بنی۔
سوال :- سر جماعت اسلامی کہہ رہی ہے کہ جتنے بھی اے پی سی میں فیصلے ہوتے ہیں وہ ہم ان سے بالکل بے خبر ہیں، نہ ہمیں بلایا گیا اور نہ
مولانا فضل الرحمن صاحب: نہیں ہم ان کو بلائیں گے اور بڑی اہمیت کے ساتھ بلائیں گے بڑی عزت کے ساتھ بلائیں گے ان شاءاللہ
سوال :- الطاف حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- مجھے اس کا علم ابھی نہیں ہے۔
سوال :- اچھا مولانا صاحب۔ عید کے بعد اپوزیشن نے تحریک چلانی تھی، نیب نے تحریک شروع کر دی اپنی، اس کو آپ کن الفاظ میں ۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمن صاحب :- لگتا ایسا ہی ہے کہ نیب نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کرا لی ہے
صحافی: تھینک یو سر.
ایک تبصرہ شائع کریں