جامعہ صفہ بلدیہ ٹاؤن کراچی سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب
31 دسمبر 2017
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين و على آله و صحبه و من تبعهم بإحسان إلى يوم عظيم
أما بعد
حضرات مولانا کرام ، طلباء عزیز ، میرے بزرگوں اور بھائیوں میرے لئے انتہائی سعادت اور انتساب کا موقع ہے۔
کہ مجھے آج یہاں دو خوشیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ ایک اپنے برخوردار کی دعوت ولیمہ میں شرکت اور دوسرا جامعہ صفہ میں آپ حضرات کی ، طلباء کی اور قرآن پاک کو حفظ کرنے والے ہزاروں بچوں کو، جنہوں نے لہلہاتے ہوئے قرآن کریم کے حفظ کا منظر دکھایا۔
یقینا میرے لئے یہ خوشی کا مرحلہ ہے۔ رب العزت ہماری اس حاضری کو اور آپ حضرات کے ساتھ اس ملاقات کو اور اس اجتماع کو قبول فرمائے۔
شرکاء کی بلند آواز آمین
صفہ کے حوالے سے مجھے ایک اسلام سے ایک تعارف ہے اور اس سے میری ایک نسبت ہے۔
کیونکہ ہم کامیاب تو نہ ہو سکے لیکن جمیعت علماء اسلام کے دوستوں نے پورے ملک میں صفہ سکولز کا ایک بڑا نیٹ ورک بنانے کا پروگرام بنایا تھا۔
اور کافی شہروں میں اس کے افتتاحات بھی ہوئے۔ لیکن اسی سطح پر ادارہ چلا نہیں۔
لیکن آج مجھے جامعہ صفہ میں آنے پر یہ احساس ہوا کہ ہماری تمنا اللّٰہ نے پوری کی۔
بہرحال یہ ایک علمی ادارہ ہے جہاں قرآن پڑھا جاتا ہے پڑھایا جاتا ہے سمجھایا جاتا ہے۔
اور جیسا کہ آپ رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشاد ہے۔
ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون فيه كتاب الله و يتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة و غشيتهم الرحمة و حفتهم الملائكة و ذكرهم الله في من عنده.......
کہ اللّٰہ کے کسی گھر میں جب لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس میں وہ قرآن کو پڑھتے بھی ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ تو ایسے لوگوں پر اللّٰہ کا سب سے اولین انعام یہ ہوتا ہے کہ ان پر سکینہ نازل کر دیتے ہیں۔
سکینہ ، تسکین ، طمانیت ، اطمینان یہ ضد ہیں اضطراب اور پراگندگی کی
اور علماء فرماتے ہیں کہ سکینہ قلب کی اس حالت کا نام ہے اس کیفیت کا نام ہے جس وقت اس پر انوار کا نزول ہو رہا ہوتا ہے۔
تو ایسی مجالس جو قرآن کی تعلیم و تعلم کے لئے منعقد کی جائیں اولین نقد انعام اللّٰہ تعالیٰ کا اس پر سکینہ کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔
دوسرا نقد انعام کہ اس مجلس کو اللّٰہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔
اور تیسرا انعام یہ کہ ملائکہ اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں اور اس منظر کو دیکھ کر خوش و خرم ہوتے ہیں۔
اور اس احساس کے ساتھ خوش ہوتے ہیں کہ اچھا اس انسان کی تخلیق پر ہم نے اعتراض کیا تھا۔
قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها.......
اور یہ لوگ تو اللّٰہ کے ذکر میں مشغول ہیں اللّٰہ کو یاد کر رہے ہیں اس کی عبادت کے رہے ہیں۔
چوتھا انعام اللّٰہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر یہ کہ ان لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ اپنی مجلس اور اپنے ماحول میں یاد کرتا ہے۔
اگر ہم جیسا چھوٹا آدمی بادشاہوں کی مجلس میں خیر سے یاد کیا جائے۔
تو کس قدر ہمارے لئے باعث افتخار ہوتا ہے۔ ہم اس کو ایک بڑا اعزاز اپنے لئے سمجھتے ہیں۔
تو جب اللّٰہ جیسے شہنشاہ کے ماحول میں اللّٰہ ہمارا تذکرہ کرتا ہو۔
اس سے بڑھ کر اعزاز ہمارے لئے اور کیا ہو سکتا ہے؟
دنیا و مافیہا کی چیزیں اس کی ہمسری نہیں کر سکتی۔
پھر یہ جو ہمارے مدارس نے ، ہمارے علماء نے ، ہمارے طلباء نے ماحول پیدا کیا ہے۔
قرآن کریم کی تعلیم و تعلم کا اور درس و تدریس کا یہ اس قدر مبارک ماحول ہے کہ قوت بشری اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔
لیکن میرے محترم دوستوں اور بھائیوں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں آنکھیں دی جس سے ہم دیکھتے ہیں۔
ہماری آنکھوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے بصارت کی قوت رکھ دی ہے لیکن اگر ہماری اس بینائی کو اور بینائی کی اس قوت کو خارجی روشنی نصیب نہ ہو۔
سورج کی روشنی نہ ہو تو ہزار بینائی کی قوت ہو اچھی، ہزار بصارت کی مکمل طاقت کے ساتھ آپ کے لئے اندھیرہ ہے۔ آپ کو کچھ نظر نہیں آتا۔
ابھی یہ لائٹیں بجھا دی جائیں اچھے بھلے دیکھنے والے ، اس کو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔
اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی طاقت دی ہے عقل بہت بڑی راہنما ہے۔
اور عقل اتنی عظیم نعمت ہے کہ اس نعمت نے انسان کو تمام حیوانات اور جانداروں سے ممتاز کر دیا ہے۔
لیکن جب اس عقل کو وحی کی رہنمائی نہیں ملے گی تو عقل اندھی ہے۔
اس طرح آپ دنیا کو دیکھیں ، دانش گاہیں ہیں یونیورسٹیاں ہیں اور علم کے بڑے بڑے دعوے موجود ہیں۔
لیکن صرف ان کی اپنی عقل پر انحصار نے آج ان کی عقل کی افادیت کو ختم کر دیا ہے۔
ہم فیصلے کرتے ہیں دانشوروں کو بلاتے ہیں تھنک ٹینکس بناتے ہیں پوری دنیا کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس پر حکمرانی کا سوچتے ہیں اور پوری دنیا پر حکمرانی کا سوچنا ، اس کا اسلام سے اور مسلمانوں سے تعلق نہیں ہے۔
یہ فطرت اللّٰہ نے اولاد آدم میں رکھی ہے۔بنی آدم میں رکھی ہے۔
و لقد كرمنا بنى آدم و حملناهم في البر والبحر و رزقناهم من الطيبات......
یہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے شرف انسانیت کی تشریح کی ہے۔
و لقد كرمنا بنى آدم و حملناهم في البر والبحر و رزقناهم من الطيبات وفضلنھم ممن خلق تفضیلا۔۔۔۔۔
یہ ہے شرف انسانیت کی وہ تشریح کہ بحر و بر اس کو حاکم بناتے ہیں۔
پوری کائنات کی تمام پاکیزہ چیزیں اس کو عطا کر دی۔
یہ مقام ہے انسانیت کا ، اس فطرت کی بنیاد پر وہ پوری دنیا پر چھا جانا چاہتا ہے۔
اس پر حکومت کرنا چاہتا ہے اس کا اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔
لیکن اگر اس خواہش کو ، اس تدبر کو وحی کی راہنمائی نہیں ملتی تو پھر اسی طرح دنگا و فساد پوری دنیا میں ہو گا۔
جو بے اطمینانی ، عدم سکون اجتماعی طور پر انسانی معاشرے میں آ چکا ہے۔
یہی پھر اس کے نتائج نکلیں گے ، یہی نتائج نکلیں گے اور کیا نتائج ہو گے ؟ کس کا شکوہ ہم کریں؟
بڑی آسانی کی بات ہے کہ آپ صرف حکمرانوں کو ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں۔
بڑی آسان بات ہے ہم آئیڈیل باتیں کرتے ہیں بڑی معیاری قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔
اسلام کا ایک عظیم الشان معیاری تصور قائم کر لیتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کہتے ہیں مولوی صاحب تو یہ بکھرا ہوا ہے یہ بیچارہ دین سے ناواقف ہے۔
یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ جب تک وحی راہنما نہیں ہے۔
عقل بہت بڑی راہنما ہے تاہم اس کی راہنمائی کافی نہیں ہے۔
اس اعتبار سے اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کی جو ساخت بنائی ہے وہ دو طرح کی ہے۔
ایک انسان کی مادی ساخت ہے اور اس اعتبار سے اللّٰہ نے انسان کو مردو زن سے پیدا کیا۔پھر قبیلے بنائے قومیں بنائی۔
ياايها الناس إنا خلقناكم من ذكر و أنثى و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا.......
یہ بھی اللّٰہ کی تخلیق ہے یہ قبیلے بھی ہمیں اللّٰہ نے بنایا ہے۔
یہ زبانیں ، مختلف زبانیں اللّٰہ نے دی ہیں۔ یہ علاقے اور وطن کا اختلاف یہ بھی اللّٰہ نے ہمیں دیا ہے۔
پورے کرہ ارض میں پھیلایا ہے ہمیں تو اللّٰہ نے پھیلایا ہے۔
آیت
غالباً حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللّٰہ کا ترجمہ ہے
آپ سرائیکی ہیں نہ ؟ اور انہوں نے کہیں یہ لفظ سرائیکی سے لے لیا ہے۔
اور کھنڈایا ہم نے انسان کو
شرکاء کا جواب صحیح بات کی ہے۔
جس طرح کاشتکار دانے مٹھی میں لے کر یوں پھینک دیتا ہے نہ ، دانے بکھر جاتے ہیں جہاں جہاں پڑ جاتے ہیں۔
کھنڈایا ہم نے ، اس طرح اللّٰہ نے یہ سارے پیدا کئے۔
لہذا قومیت بھی اللّٰہ نے پیدا کی ہے۔ قبیلا بھی اللّٰہ نے پیدا کیا ہے۔ زبانوں کا اختلاف یہ بھی اللّٰہ نے پیدا کیا ہے۔
اللّٰہ کی نشانیوں میں سے ہے۔
تو یہ بھی انسان ہے قبیلہ ہے مادی قبیلا ہے جو تقسیم کو بھی قبول کرتا ہے۔
جغرافیائی تقسیم کو بھی قبول کرتا ہے۔
لیکن ایک روحانی قبیلہ ہے جو اللّٰہ نے ہی پیدا کیا۔ وہ عقیدے کا قبیلہ ہے وہ ایمان کا قبیلہ ہے۔
اور اس قبیلے کا نام بھی اللّٰہ نے ہی رکھا ہے ھو سما کم المسلمین
ہم نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔
اب یہ روحانی رشتہ اور قبیلا جو ہے یہ جغرافیائی تقسیم قبول نہیں کرتا۔
شرق و غرب کا مسلمان ایک ہے۔ انما المؤمنون اخوۃ
لفظ اخوت ایمان والوں کے لئے اللّٰہ نے استعمال کیا ہے۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے المسلم اخوہ المسلم فرمایا۔
مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے مہاجرین و انصار نے مواخات کیا۔ بھائی بھائی بنا دیا۔
یہاں تک کہ جس کی دو بیویاں تھی ایک کو طلاق دے دی اور مہاجر کے حوالے کر دی۔
یہ بھی اخوت ہے یہ بھی ایک برادری ہے۔ اور ہم الحمدللہ اس برادری میں جڑے ہوئے ہیں۔
اب برادری وہ بھی ہے برادری یہ بھی ہے۔ قومیت کا تصور کوئی قرآن کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔
ہاں جب کبھی مادیت اور روحانیت کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا ہو جائے۔
تو پھر وہاں ترجیح کس کو دی جائے گی؟ بہت سے لوگ ہیں۔ کہ ایسے مراحل پر وہ اپنی قومیت کو ترجیح دیتے ہیں۔
اپنی برادری کو ترجیح دیتے ہیں لیکن میرا قرآن جو مجھے سکھا رہا ہے۔ اس کی تعلیم اس سے مختلف ہے۔
قل إن كان آباؤكم و ابناءكم و اخوانكم و ازواجكم و عشيرتكم و أموال اقترفتموها و تجارة تخشون كسادها و مساكن ترضونها أحب إليكم من الله و رسوله وجهاد في سبيله فتربصوا حتى يأتي الله بأمره
شرکاء :- سبحان اللہ
تمام رشتے گنوا دئیے آپ کے ، باپ دادا کے رشتے، بیٹے پوتوں پڑ پوتوں کے رشتے، بھائیوں کے رشتے ، قبیلوں کے رشتے، ماں باپ کے رشتے ، کمایا ہوا مال ، کتنی ان سے فطری اور طبعی محبت ہوتی ہے؟
جن گھروں میں ہم رہتے ہیں اس گھر کی جھونپڑی ہو لیکن ہمیں کتنا پیارا ہے اور کتنا عزیز ہے۔
پھر اس کا اللّٰہ کے ساتھ مقابلہ ہے اللّٰہ تقاضا کچھ اور کرے اور یہ تقاضے کچھ اور کریں۔
اللّٰہ کا رسول تقاضا کچھ اور کرے یہ لوگ تقاضا کچھ اور کریں۔
تو پھر اس وقت فتربصوا حتى يأتي الله بأمره۔۔۔۔۔
اللّٰہ تعالیٰ دھمکی دیتا ہے۔ پھر میرے امر کا انتظار کرو۔
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ
وہاں رشتے ختم ، کتنا بڑا آپ کے اوپر اور ہمارے اوپر احسان ہے۔
کہ ہمیں اپنی ذات کی نسبت سے ایک قبیلہ بنا کر ہمارے اندر محبت پیدا کر دی۔
ہمارے اندر یکسانیت پیدا کر دی۔ یکجہتی پیدا کر دی ہم نے آج اس چیز کو سامنے رکھنا ہے۔
إن أكرمكم عند الله أتقاكم
ترجیح تو وہاں ہمیں بتا دی۔ ان خطوط پر ہم نے اپنے آپ کو چلانا ہے تبھی تو امام بخاری جب اپنی کتاب کا آغاز کرتے ہیں تو بدء الوحی سے کرتے ہیں۔
باب کا عربی نام
اشارہ اس طرف ہے کہ تشکیل حیات انسانی کا مدار وحی پہ ہے۔ لہذا اگر عقل کو صحیح رخ دینا ہے۔ تو پھر ضروری ہے کہ اس کی رہنمائی اللہ کی وحی کرے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تعلیمات آپ کے سامنے رکھ دی۔
دو جلدیں آپ کے سامنے بھر دیں دی لیکن علم بھی تو ایک عمل ہے نہ ، علم بذات خود تاثیر ہے علم بھی تو عمل ہے۔ تو اس کی بنیاد بھی یہی رکھ دی۔ انما الاعمال بالنیات۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ کیونکہ نیت اعمال میں وزن پیدا کرتی ہے۔ اور آخر میں پھر یہی آپ کو بتایا۔
بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَأَنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ
تو یہ نیت ہے جو اعمال کے اندر وزن پیدا کرتی ہے اور اسی کی بنیاد پر قیامت کے روز اعمال تولے جائیں گے۔ یہ ہمارے مدارس کے اندر ان چیزوں کی تیاریاں ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا کو یہ تاثر دے دیا گیا ہے کہ یہاں پر کچھ عبادات ، نماز ، روزے ، کتاب شروع ہوتی ہے کتاب الطہارت سے اور پھر اس کے بعد کتاب الزکوۃ ہے کتاب الصوم ہے۔
تو شاید ہمارے علوم کا مدار یہی ہے۔ ہاں یہی ہے لیکن انسان مدنی طبع ہے۔ انسان کی جبلت اور اس کی فطرت میں مل جل کر رہنا ہے۔ اب جو انسان مدنی الطبع ہے اور مل جل کر رہتا ہے شہروں میں رہتا ہے دیہاتوں میں رہتا ہے۔ محلوں میں رہتا ہے ہے اپنا پڑوس رکھتا ہے تو پھر اس امر اجتماعی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ نے آپ کو نظام عطا کیا۔
اور اس امر اجتماعی کو ہم خلافت سے اور امامت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مقصود بالذات خلافت ہے۔ عبادت تو مقام خلافت تک پہنچنے کے لئے ایک سیڑھی ہے۔ لہذا اگر وہ منصب ہمیں بغیر عبادات کے مل جائے تو کیا بڑی بات ہے۔ لیکن یہ جہالت ہے۔ یہ گمراہی ہے۔
عبدیت گو کے انسان کی انفرادی زندگی کا عمل ہے۔ لیکن یہ سیڑھی نہیں ہے یہ اہلیت ہے جس کے اندر عبدیت نہیں وہ خلافت کے لئے نااہل ہے۔ وضو نہیں ہے تو نماز نہیں ہوتی۔ عبادت نہیں ہے بندگی نہیں ہے تو مقام خلافت آپ کو نہیں مل سکتا۔ آپ اس کے لئے نااہل ہو جاتے ہیں۔
لیکن آج پوری دنیا کی حکومتیں ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو عبادات سے دور رہتے ہیں۔ مذہب بیزار لوگ وہ دین اور مذہبی قوتوں کو طعن وتشنیع کرتے ہیں۔ ان چیزوں کا ہمیں سمجھنا ہو گا ہماری صفوں میں ہمیں یہی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔
اور ہمیں خود اپنی اصلاح اس چیز کے لئے کرنی ہوگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام داعی توحید تھے۔ شرک سے لڑ رہے تھے بتوں کو توڑ رہے تھے اس کی پاداش میں آگ میں پھینکے جا رہے تھے۔ لیکن جب تمام امتحانات سے گزرے اور امتحانات میں کامیاب ہوگئے۔
و اذا ابتلى ابراهيم ربه بكلمات فاتمهن قال إني جاعلك للناس اماما.......
اب جب مقامی امامت عطا ہو گیا تو وہ ہی ذات بابرکات ، وہی موحد اعظم وہی ذات
ملة ابيكم ابراهيم هو سماكم المسلمين......
اسی نسبت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ ذرا سامنے دیکھ لیں۔ کہ جب منصب امامت حاصل ہو گیا امامت عامہ ، امامت کبریٰ ، آپ کی گفتگو کا انداز یکدم بدل جاتا ہے۔ وہی توحید کی بات کرنے والے جب پوری انسانیت کی امامت کی ذمہ داری آپ کے اوپر آتی ہے۔ اب آپ کیا فرماتے ہیں۔
رب اجعل هذا بلدا آمنا و ارزق أهله من الثمرات......
آپ اللہ سے امن مانگ رہے ہیں امن کیا ہے انسانی حقوق ، جان کے حقوق کا تحفظ، مال کے حقوق کا تحفظ، عزت و آبرو کے حقوق کا تحفظ یہ محفوظ ہو جائیں۔ تمام ضابطہ حیات انسانی کا مجموعہ قوموں کے حوالے سے سے اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے اس امن کے گرد گھومتا ہے۔ اور پورا امن وہ ان تین انسانی حقوق کے گرد گھومتا ہے۔
اور دوسری چیز کے معیشت بہتر ہو جائے۔
ضرب الله مثلا قرية كانت آمنة مطمئنة يأتيها رزقها رغدا من كل مكان فكفرت بانعم الله فاذاقها الله لباس الجوع و الخوف۔۔۔۔۔
اس آبادی کا ذکر کے جس میں امن بھی ہے اور اطمینان بھی ہے۔ پورا سکون ہے جس کی علت کیا ہے معاشی خوشحالی ہے۔
يأتيها رزقها رغدا من كل مكان
اور جب اللہ تعالی کے ان نعمتوں کا انکار کیا۔ تو سزائے کیا دیں بھوک مسلط کردی اور خوف مسلط کردیا بدامنی مسلط کردی۔
آج آپ لوگ رو رہے ہیں ملک میں بے روزگاری ہے ملک میں بدامنی ہے۔ تو ذرا سوچنا پڑے گا کہیں ہم نے اللہ کی نعمتوں کا انکار تو نہیں کیا ؟ اور اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے اس کی وہی ہے اس کی وحی کی رہنمائی ہے۔ چناچہ یہ ایسی رہنمائی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
کہ جس کی خواہشات شخصی خواہشات ،بہیمی خواہشات وہ مغلوب ہو گئی۔ اور اللہ کا حکم غالب رہا فھو اکرم من الملائکہ ۔ وہ قدروقیمت میں ملائکہ سے بھی بلند تر ہے۔ اور جس نے اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا اور خواہشات کی تابعداری کرتا رہا۔ فھو اھون من البہائم۔ وہ جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے اولئک کاالانعام بل اذل۔ اولئک ھم الغافلون۔
یہ اللہ تعالی کی نعمتوں کے انکار کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ہم اس کی رہنمائی نہیں لیتے خلوت میں جلوت میں ہم اس کی نافرمانیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس پر ندامت نہیں ہوتی۔
یہ وہ چیزیں ہیں جس کو آج ہمارا مدرسہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے برکات و ثمرات یہ ہم نے پوری انسانیت کو دینے ہیں۔
و اما بنعمة ربك فحدث.......
پھر اس کو پھیلاؤ بھی نہ ، لوگوں تک پہنچانے ہیں۔
و ارزق أهله من الثمرات......
ثمر کہتے ہیں نتیجے کو ، تمام پالیسیوں کے اور تمام حساب کے اچھے اچھے نتائج ہمیں مہیا فرما۔ تو اس اعتبار سے ہم نے دین اسلام کے ان اصولوں کو سامنے رکھ کر کام کرنا ہے۔
باقی روزمرہ کے معاملات ہیں بیان بازی ہے میڈیا ہے اور پہلے تو ہم الیکٹرونک میڈیا کو روتے تھے۔ اب سوشل میڈیا آ گیا یہ اور فتنہ ہے۔ ہر شخص کے دل میں جو آیا وہ اس نے اس پر پھینک دیا کچھ پتہ نہیں ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں اس کے نتائج کیا ہونگے۔
تو یہ چیزیں حجت نہیں ہوتی یہ معروضی مسائل ہیں معروضی مسائل تو دنیا میں آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ تو اس اعتبار سے ہمیں اس نظریہ اور اصول کے تحت اپنی زندگی تیار کرنی ہوگی۔ آج آپ طالب علم ہے آج آپ اپنی عمارت خود کر رہے ہیں کل اپنے معاشرے کی تعمیر کرنی ہے۔ اس قابل تو اپنے آپ کو بنائی کہ کل کسی کی تعمیر کر سکو۔
اچھے معمار تو بن سکوں اور طالب علم کا تعلق تین چیزوں سے ہوتا ہے۔ طالب علم کا تعلق مدرسہ سے ہے طالب علم کا تعلق کتاب سے ہے طالب علم کا تعلق استاد سے ہے۔ مدرسہ آپ کی ماں ہے جو ایک طالب علم کو سات سال، آٹھ سال ،نو سال اپنے دامن میں رکھتی ہے۔
اس کو پالتی پوستی ہے کتاب یہ آپ کے رزق کا ذخیرہ ہے آپ کی خوراک ہے استاد آپ کا وہ باپ ہے جو اس خیر سے چن چن کر آپ کی استعداد کے مطابق آپ کو صبح کھلاتا ہے۔ ان تین چیزوں سے اکتساب فیض علامت ادب کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
مدرسہ ہے تو اس کا ادب و احترام مرتے دم تک ہے یہ ہمارا مادر علمی ہے۔ کتاب ہے تو اسکا پھر ادب و احترام ہے دائیں ہاتھ سے اٹھاؤ ہمیں تو سرہانہ نہیں ملتا تو ہم اس کی جگہ کے کتاب رکھ لیتے ہیں۔ یہ اس کے آداب ہیں استاد اس کا ادب و احترام ہے اس کے سامنے اونچا نہیں بولنا۔
لیکن ہماری زندگی کیا ہے کہ اگر ہماری کوئی رات فارغ ہوتی ہے شب جمعہ ہے تو وہ رات استاد کی غیبت سے گرم ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ مزہ میں استاد کی غیبت میں آتا ہے۔ تو پھر علوم میں برکت کہاں سے آئے گی۔
تو آداب میں نور ہے نیت میں وزن ہے۔ اور علم و عمل ، علم سکہ ہے اور اگر عمل اس کے مطابق نہیں ہے تو وہ سکہ کھوٹا ہے بازار میں جاؤ گے اس سے کچھ نہیں ملے گا۔
سکہ قیمتی بنے گا جب اس کے اوپر آپ عمل کریں گے۔ بازار میں تب کام آئے گا جب اس کے اوپر آپ عمل کریں گے۔ تو پھر پہلے علم ہے پھر اس کے لئے عمل ہے اور وہ عمل اس کے لیے اللہ کی رضا، نیت اچھی رکھنی ہے۔ اور پھر یہ جو ہماری علمی زندگی ہے جس سے بھی ہم استفادہ کر رہے ہیں۔ وہاں ہمیں آداب چاہیے آداب کے بغیر نہیں ہے۔
آداب
ياايها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله و رسوله......
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے نہیں بڑھنا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مسجد کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے۔ جب پتہ چلتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوگئے ہیں تو تب جاکر داخل ہوتے تھے کہ کہیں آپ سے پہلے داخل نہ ہو جاؤں۔
ياأيها الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي و لا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض أن تحبط اعمالكم وأنتم لاتشعرون.....
بے ادبی حبط اعمال کا سبب بنتا ہے۔ صرف آواز اونچی کرنا اور یہ آواز اونچی کرنا اس کو تو ہم صرف آداب میں سے لے لیتے ہیں۔ لیکن میں اس سے ایک اور چیز کا استنباط کرتا ہوں۔ کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفس آواز پر اپنی آواز کو چیک کرنا حبتہ ایمان کا سبب بنتا ہے۔ تو آپ کے قانون پر کسی دوسرے قانون کو بلند کرنا اس کا انجام کیا ہوگا۔
ہمیں ان حالات کا سامنا ہے ہمیں اس دنیا کے ساتھ کسارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ جو کہتے ہیں ہمارا نفس یہی سوچتا ہے چھوڑو یہ پرانی باتیں ہیں۔ ان حالات سے ہمارا مقابلہ ہوتا ہے اس محاذ پر ہم لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس محاذ پر آپ کے جو لوگ لڑ رہے ہیں ان کی قدر کیا کرو۔
یہ جس کرب اور جس امتحان کو عبور کر رہے ہوتے ہیں اس کو سامنے رکھو۔ اور یہ کام یہ انفرادی طور پر نہیں ہوتا یہ جماعت کا کام ہے۔
عليكم بالجماعة و الإطاعة
اور الجماعۃ سے پہلے علیکم کا لفظ ہے۔ تو تقدیم ما حقہ تاخیر لزوم پیدا کرتا ہے۔ جماعت سے وابستہ ہونا آپ کے اوپر لازم ہے لیکن جماعت کی بنیاد ایک جامع نظریہ ہوا کرتا ہے۔ جامع نظریہ امر کلی ہے۔ جزوی یا وقتی مسئلہ کسی سیاسی جماعت کی احساس نہیں بنا کرتا۔ اور یہی چیز اس کے حق یا باطل ہونے کی مدار ہے۔ اگر جامع نظریہ اس کا صحیح ہے تو ممکن ہے کسی جزوی مسئلے میں اس سے اجتہادی غلطی ہو بھی جائے۔
کسی وقتی مسئلے پر اس کا غلط فیصلہ بھی سامنے آجائے۔ اور آئے روز کبھی کبھی ہمارے فیصلے اخبارات اور ٹی وی پر آجاتے ہیں آپ لوگ اس پر ہمارا کیا حشر کر دیتے ہیں۔ بیڑہ غرق کردیا یہ کیا کہہ دیا۔
لیکن جب تک بنیادی نظریہ صحیح ہے ہمارے اکابر لکھتے ہیں کہ پھر جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا واجب ہے۔ اور اگر اس اسی نظریہ باطل ہے تو پھر کسی جزوی مسئلے پر اس جماعت کی رائے صحیح بھی ہوسکتی ہے۔ کسی معروضی اور وقتی مسئلے پر اس کا فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے۔
لیکن ایک باطل اساس کی بنیاد پر بننے والی جماعت جب اس کا کوئی اچھا فیصلہ آجاتا ہے جب اس کا لیڈر کوئی اچھی بات کر لیتا ہے۔ تو پھر ہم اپنے علماء اور طلباء کے ماحول میں اس کو سر پر چڑھا لیتے ہیں۔
لہذا اصول یاد رکھیں کہ جب تک کوئی جماعت حق عقیدے کے اوپر قائم ہے۔ کسی جزوی یا وقی مسئلے میں غلط فیصلہ اس جماعت سے لاتعلقی کی اجابت نہیں دے سکتا۔
اور جس جماعت کی اساس یا بنیاد باطل عقیدہ پر ہے کسی جزوی مسئلے اور وقتی مسئلے پر اچھا رائے دینا اس جماعت سے وابستگی کی اجازت نہیں دے سکتا۔
اس اصول کو مدنظر رکھیں۔ اگر اساس ٹھیک ہے درخت کی بنیاد ٹھیک ہے تنا ٹھیک ہے۔ تو کوئی ایک شاخ کچھ بھی ہو سکتی ہے ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ لیکن سایہ دار گھنا درخت اپنی جگہ پر کھڑا ہے اس کی افادیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے اوپر بہت سے اعتراض ہوتے ہیں تمہارے لوگوں کی فلانی تنظیم اور فلانی تنظیم اور یہ فرقہ پرست اور یہ تنظیم اور وہ تنظیم۔ تو اس سے مذہب کی نفی کیوں کی جاتی ہے۔
تو میں لوگوں کو مثال دیتا ہوں کہ اگر کسی علاقے سے دریا گزرتا ہے۔ تو اب جو دریا کا تصور ہے یہ مفید تصور ہے۔ اس کی افادیت ہے نہ ، اس علاقے کی آبادی کی علامت ہے نہ ، لیکن کبھی کبھی اسی دریا میں طغیانی آ جاتی ہے۔ طوفان آ جاتا ہے کنارہ ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ کبھی کبھی ، جگہ جگہ ، سال میں کبھی طغیانی آنا پشتہ ٹوٹ جانا ، فصلوں کو تباہ کر دینا ، کیا اس دریا کے وجود کی اور اس کی افادیت کی نفی کرتا ہے ؟
تو پھر ہمارے اندر نوجوانوں میں کبھی کبھی اس قسم کی طغیانی آتی جائے گی۔ آپ اس طغیانی کو نقصان کہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ جمیعت علماء کا سراسر نقصان ہے۔
تو اس اعتبار سے ہر چیز کی ایک اپنی افادیت ہوتی ہے اور اس کو اسی اصول پر ہمیں دیکھنا چاہیے۔ گھر بار ہے خاندان ہے ماں باپ ہے۔ ساری زندگی ماں باپ کی اطاعت کرنا واجب اور فرض ہے۔ کبھی کبھی گھر میں ماں باپ ساتھ بھی کسی مسئلہ پر الجھن آ جاتی ہے تو کیا اس سے ماں باپ کی افادیت ختم ہو جاتی ہے اس کا مقام گر جاتا ہے ؟ کبھی نہیں ،
وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہے تو اس اعتبار سے آپ نوجوانوں سے میں یہ ضرور درخواست کروں گا۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں ہمارے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں سے جس محاذ پر ہم جنگ لڑ رہے ہیں۔
کبھی آپ کہتے ہیں ہم نے مدارس کی جنگ لڑی کبھی آپ کہتے ہیں ہم نے مساجد کی جنگ لڑی کبھی آپ کہتے ہیں ہم نے پگڑی اور داڑھی کی جنگ لڑی۔ یہ کریڈٹ کبھی کبھی آپ ہمیں دیا کرتے ہیں مجھے اس بات کا پتا ہے۔
حاضرین مجلس :- مسلسل دیتے ہیں۔
آپ مسلسل دیتے ہیں ، اب چھوڑو جن کی زندگیاں کھپ گئی کالی داڑھیاں سفید ہو گئی۔ مغرب کی تہذیب سے لڑائی ہے ملک کی اندر ان قوتوں سے ہماری لڑائی ہے۔ لیکن اگر حکومت کہتی ہے کہ میں مولوی صاحب کو اور ہر مسجد کے امام کو دس ہزار روپیہ دوں گا۔ تو پھر ہم کہتے ہیں مت لو ، تمہارے لئے تباہ کن ہے۔
یہ زہر ہے مولوی صاحب کہتے ہیں کیوں زہر ہے؟ اچھا یہاں میرے اوپر تمہارا اعتماد ٹوٹ گیا نہ ، سب کچھ کرنے کے باوجود آج آپ کو ایک شخص گڑ میں زہر دے رہا ہے۔ اور میں آپ سے کہہ رہا ہوں مت کھاؤ اس کو ، تمہاری ہلاکت اس کے اندر ہے۔
تو آپ بحث شروع کر دیتے ہیں بتایا جائیں ہم کیوں نہیں لیں حرام ہے حلال ہے مکروہ ہے کس درجے میں ہے اور اس قسم کے سوالات آتے رہتے ہیں۔
بابا ! اعتماد کرنا ہے تو پھر اعتماد ، اعتماد ہوتا ہے۔ پھر جب ہم آپ سے کہتے ہیں یہ سب مت کرو ، یہ مدارس کے لئے تباہ کن ہے۔ اور میں اس اعتبار سے بھی اپنے موقف پر پورے اعتماد کے ساتھ ہوں اور مجھے اس سے طاقت ملتی ہے آج کا ہمارا موقف حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے دارلعلوم دیوبند سے لر کر آج تک مطابقت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
اور جزوی باتوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر اپنے غلط فیصلوں کو جواز مہیا کرنا یہ بھی تو ہمارا المیہ ہے۔ تو اس اعتبار سے جماعتوں کا اعتماد کرو ، اس کی قربانی اس کی جہدوجہد پر ، جس محاذ پر ، آپ یہاں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ وہاں محاذ پر آپ کے لئے لڑ رہے ہوتے ہیں۔
یہ ساری چیزیں مد نظر ہونی چاہیں۔ میں اتنی لمبی باتیں نہ کرتا لیکن مجھے لگا کہ کچھ گفتگو نے مجھے آمادہ کیا کہ میں اس پر کچھ تفصیلی روشنی تو ڈالوں۔ اور یہ اجماعی معنوں میں باتیں کہہ دی پتا نہیں ساتھیوں کے ذہن میں کیا کیا باتیں آتی رہی۔ تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ جس کی بنیاد پر ہم نے مل کر چلنا ہے۔
علماء نے مل کر چلنا ہے طلباء نے مل کر چلنا ہے دینی طبقے نے مل کر چلنا ہے۔ اور آج جب صف میں تمام مذہبی طبقہ ہے پھر جب مذہبی طبقات اکٹھے ہوتے ہیں۔ تو اس پہ کوئی اپنے عقیدے کو تحلیل نہیں کیا کرتا۔
لیکن قوموں کی ایک مشترک ضرورت ہوتی ہے اگر گاؤں میں ، محلے میں آگ لگ جائے تو پھر وہ محلہ اس لئے اس کی طرف دوڑتا ہے کہ آگ سب کو جلاتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں تو پیپلز پارٹی کا ہوں اور آگ تو لگی ہوئی ہے ایم کیو ایم کے گھر میں ، آگ جائے بھاڑ میں ، لگتی رہے ، یہ حماقت ہو گی یا نہیں؟
یا نیشنل پارٹی والے گھر میں آگ لگ جائے اور کہا جائے یہ تو نیشنل پارٹی کا ہے میری پارٹی کو تو نہیں ہے۔ کچھ چیزیں قدر مشترک ہوتی ہے ایک ہندو کے گھر میں بھی آگ لگ جائے تو ہمیں آگ کو بجھانا ہوتا ہے۔ ایک عیسائی کے گھر میں بھی آگ لگ جائے تو آپ جاتے ہیں اسے بجھاتے ہیں۔ تو یہ انسانی بنیادوں پر بھی کچھ چیزیں قدر مشترک ہوتی ہیں۔
اس محاذ پر جو لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں اس کی تدبیر ، اس کا تدبر پھر آپ نے ان پر چھوڑنا ہوتا ہے۔
اور تدبیر اور تدبر یہ دونوں لفظ اس کا معنی ایک ہی ہے۔ د ، ب ، ر یعنی
عربی
تمام کاموں کے انجام پہ نظر رکھنا، جب آپ کسی معاملے کے انجام پر نظر رکھیں گے تو ان کے تمام مقدمات اور ان کے ما ھوا علیہ کو دیکھیں گے جانچیں گے ، تو ظاہر ہے کہ اس کی استعداد ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے جو اس محاذ پر لڑ رہے ہوتے ہیں۔
تو اللّٰہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، اللّٰہ رب العزت ہماری راہنمائی فرمائے۔ ہمیں کامیابیوں سے سرفراز فرمائے۔ اور ہماری کوتاہیوں کو اللّٰہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں