قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کراچی میں سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب 22 فروری 2019


قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کراچی میں سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب

 22 فروری 2019
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين و على آله و صحبه و من تبعهم بإحسان إلى يوم عظيم
امابعد
فأعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ. صدق الله العظيم
آج جس موضوع پہ اس تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم ، ہم آہنگ کر رہے ہیں اس دور کے وسائل کو ، جدید دور کے وسائل کو ، ابلاغیات کو موثر بنانے میں یقینا اس کا ایک بہت بڑا کردار ہے اور ہم اس کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتے۔
شریعت کے احکامات میں تو تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ لیکن شریعت کے احکامات کو اس کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے ہر دور کے جدید وسائل کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور جس کو ہم دور کی ترقی سے تعبیر کرتے ہیں وہ وسائل کے اعتبار سے ترقی ہوتی ہے اور اس کو بدعت نہیں کہا جاتا۔
میرے محترم دوستوں ! لوگوں تک ایک بات کو پہنچانا ، دین اسلام سے پہلے اس کے وسائل کیا تھے ؟ کم از کم ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس کا زیادہ ادراک نہیں ہے۔ لیکن دین اسلام کے آغاز میں اور جب تک وسائل کی کمی تھی۔ لوگوں تک ایک بات پہنچانے کے لئے اس وقت کے وسائل استعمال ہوئے۔
آگ جلائی گئی دور دور تک لوگوں نے دیکھا کہ کچھ مسئلہ ہے وہ اس کی تفتیش پر لگ جاتے تھے ڈھول بجائے جاتے تھے۔ تا کہ پبلک تک ایک بات پہنچ پائے اور بعد میں لوگوں تک آواز پہنچانے کے لئے اذان کا آغاز ہوا۔
تا کہ اللّٰہ کے گھر کی طرف دعوت دی جائے اللّٰہ کی عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے۔
لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے اور یہ مشاہدات سے بھی ثابت ہے۔ کہ اسلام دین فطرت ہے قرآن کریم میں جو کچھ ہے اور جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے قرآن کی جو تفسیر اور تشریح بیان کی ہے۔ کائنات میں وہی حق اور وہی سچ ہے۔
قرآن نے دنیا کو چیلنج کیا ہے کہ اس جیسا کلام لے کر آؤ۔ اور آج تک پوری دنیا قرآن کریم کے اس چیلنج کو قبول نہیں کر سکی۔ لیکن شیطانی قوتیں جب وہ دین کے اور اللّٰہ کے پیغام کی حقانیت کو رد نہیں کر سکتے۔ تو پھر اللّٰہ کا جو پیغام لانے و شخصیت ہے اس کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیتے ہیں۔
چنانچہ سب سے پہلے شیطانی وسوسے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے شروع ہوئے۔ اتنی دور سے اللّٰہ کا پیغام لے کر آ رہا ہے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت سے جگہوں پر شیطانی لوگ گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اس میں وسوسے ڈال رہے ہیں ان کے الفاظ کو تبدیل کر رہے ہیں۔ روئے زمین تک پہنچتے پہنچتے اس میں تبدیلی آ چکی ہو گی۔
تو رب العزت ﷻ نے خود اس کا دفاع کیا۔ فرمایا " إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (19) ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (20) مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ (21) "
اس کلام کو کسی عام آدمی کا کلام مت سمجھو۔ یہ انتہائی محترم شخصیت کی بات ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں وضاحت فرما دی۔ اور کمزور نہیں کہ کوئی اس سے امانت چھین جائے " ذِي قُوَّةٍ " اور اس کی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ " عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ " عرش والے کے پاس وہ رہتا ہے۔ اس کا جوار اس کو حاصل ہے۔
تنہا نہیں آ رہا۔ حفاظتی دستے ساتھ ساتھ آ رہے ہیں۔ " مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ " اور پھر اپنی جبلت اور طبیعت میں بھی اس کی امانت ہے۔
جب اس کی ذات میں اور اس کے ماحول میں یہ سارے انتظامات کر لئے جائے۔ پھر اس کے بعد اس کلام کے بارے میں شک و شبہ کی بات۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے شیطانی وسوسوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اور جب یہاں یہ پروپیگنڈہ ناکام ہو گیا اور اس پہ وہ ناکام ہو گئے۔ تو پھر جناب رسول اللّٰہ ﷺ کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ کہ یہ جو اتنا فصیح و بلیغ کلام پیش کر رہے ہیں تو عرب معاشرے میں شعر و شاعری اور ادب کا ماحول تھا۔
بڑے بڑے ادیب ، بڑے بڑے شاعر اس زمانے میں۔۔۔۔۔۔ مقابلے ہوتے تھے۔ تو یہ بھی کوئی شاعر ہی ہے۔ اور آپ ﷺ کے جو معجزات ہیں۔ یہ کوئی جادو گری ہو گی۔
یہاں پہ بھی اللّٰہ کے پیغام کو ، اللّٰہ کے دین کو وہ جھٹلا نہیں سکتے۔ تو اس کو دنیا تک پہنچانے والی شخصیت کو لوگوں کے دل ودماغ میں مجروح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چنانچہ اللّٰہ رب العزت ﷻ نے یہاں بھی دفاع کیا۔ وہی الفاظ ہیں۔ " إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ " انتہائی محترم شخصیت کی بات ہے اس کو عام بات مت سمجھو۔
" وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ (41) وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (42) تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ "
نہ وہ شاعر ہیں اور نہ وہ جادوگر ہیں جو بھی فرما رہے ہیں وہ اللّٰہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔
آج بھی دین کی بات کرنے والا ، اس کی جس طرح کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اور جس طرح ہمارا میڈیا قوم اور امت کے سامنے ایسے لوگوں کو جس غلط انداز کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
آپ حضرات ذرا سوچیں ، کہ ایسی ابتلاء صرف آپ اور ہم پر نہیں آتی۔ اس سے حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی گزر چکے ہیں اور اس سے جناب رسول اللّٰہ ﷺ بھی گزر چکے ہیں۔ ہم تو پھر بھی انسان ہیں عام امتی ہیں گنہگار امتی ہیں۔ خواہشات نفس کی اتباع کر لیتے ہیں۔ ملائکہ کی صورت میں خواہشات نفس ہیں ہی نہیں۔
اور پیغمبر اسلام کی صورت میں خواہشات ان کی تابع ہیں وہ کبھی خواہشات کے تابع نہیں گئے۔
آج بھی پروپیگنڈا کی بنیاد پر تصویر کا رخ ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں بھی ایسا ہوا اور یہ تعلیم آج بھی امت کے لئے اسی طرح محفوظ ہے۔
کہ جب کوئی نیا مسئلہ لوگ سنتے۔ کوئی امن کی بات آئی ، کوئی خوف کی بات آئی ، کوئی جنگ کی بات آئی یکدم ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ آج تو یوں ہوا ہے آج تو یوں ہوا ہے۔ آپ کو پتا ہے آج ایسا ہوا ہے۔
اللّٰہ رب العزت ﷻ نے اس انداز سے پروپیگنڈا کرنے سے آپ کو روکا ہے۔ اور پھر آپ کو یہی تعلیم دی ہے کہ آپ کے جو پیغمبر ہیں یا پھر آپ کے جو قائدین ہیں۔
اولی الامر ہیں یہ معاملات ان کے پاس لے جایا کرو۔ ان سے معلوم کر لو کہ اس قسم کی خبریں آ رہی ہیں پھیل رہی ہیں۔ اصل چیز کیا ہے۔
وہ پھر کوئی حکم نکال کر آپ کو بتا دیں گے۔ وہ آپ کو کوئی پالیسی دے سکے گے۔ اس حوالے سے حقائق سے آپ کو آگاہ کر سکے گے۔
اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت میں اس قسم کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اور اللّٰہ رب العزت وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرما رہے ہیں۔
تو آج کے دور میں کیا آپ کے لئے اور ہمارے لئے ضروری نہیں ہے؟
اور پھر آج کے سوشل میڈیا پہ بس ایک بات پھینک دو۔ اور پھر ساری دنیا اس پہ لگ جاتی ہے اور اس پر بحث کر رہی ہوتی ہے۔ اور کچھ پتا نہیں لگتا کہ اس کا سرا کہاں ہے اور اس کا پیر کہاں ہے۔
اتنا جھوٹ پھیلتا ہے۔ اور کوئی خدا کا خوف بھی نہیں ہوتا۔ عمدا ایسا کرتے ہیں۔ اگر یہ شیطانی قوتیں اللّٰہ کی وحی میں تردد پیدا کرنے سے باز نہیں آتے۔ تو آج آپ کی اور میری بات میں وہ تردد پیدا نہیں کریں گے؟
کیا آج وہ جھوٹ نہیں بولے گے؟ تو اس اعتبار سے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا " كَفَى بِالْمَرْء كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ "
ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات دوسروں تک پہنچائے۔
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت ہے جناب رسول اللّٰہ ﷺ سے " نہی رسول اللّٰہ ﷺ عن قیل وقال "
کسی نے یہ بات کہی ہے اس نے یہ بات کہی ہے یہ چیزیں چھوڑ دو۔ یہ غیر سنجیدگی ہے یہ علم کے تقاضے نہیں ہیں۔
یہ سوائے معاشرے میں تردد پیدا کرنے۔۔۔۔۔ انتشار پیدا کرنے۔۔۔۔۔ اضطراب پیدا کرنے۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو اس اعتبار سے آج بھی ہم نے اس محاذ کو دین اسلام۔۔۔۔۔ اپنی جماعت کے نظریات جو قران و حدیث سے اخذ کئے گئے ہیں۔
معروضی مسائل پر جب مشاورت سے ایک رائے قائم ھو جاتی ھے تو پھر وحی کا دروازہ بند ھو جاتا ھے وحی کا دروازہ بند ھے۔ مشورے کا دروازہ قیامت تک کھلا ھے۔
تو جب جماعتیں اپنے شورائی نظام کی بنیاد پر باہمی مشاورت کے ساتھ قران و حدیث کی روشنی میں معروضی حالات پر بھی ایک رائے بنا لیتی ھیں۔
تو وہاں پر بھی ہمیں اس کی اشاعت کرنی چاہئے ،ہم تو انتظار ہی نہیں کرتے اس بات کا۔۔۔۔
دل میں بات آئی اور پھینک دی یہ بالکل ایسا ہی ھے پرانے زمانوں میں لوگ جس طرح محلے کی بیٹھکوں میں بیٹھتے تھے اور محلے کی بیٹھکوں میں ٹائم پاس کرنے کیلئے گپیں مارتے تھے۔
اور جس کے منہ میں جو تبصرہ آیا جو کمنٹس آئے پاس کردئے اور اس کو انجوائے کرتے تھے۔
وہ بیٹھک آج آپ کا سوشل میڈیا ھے۔جو جس کے دل میں آئے اس نے اپنی بات پھینک دی۔۔۔ بے سروپا قسم کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہاں پر ایک بہت بڑا امتحان ھے کہ آپ نے اپنی سنجیدگی کو کیسے برقرار رکھنا ھے آپ نے ایسے موقع پر اپنی بات کن الفاظ کے ساتھ مرتب کرکے دینی ھے۔
اسلام کی تاریخ میں، رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں کافروں نے، منافقین نے گستاخیاں بھی کی ھے گالیاں بھی دی خلفاء راشدین کو گالیاں ملی ھے اجلاء صحابہ کو گالیاں ملی ھے آپ احادیث کا پورا مجموعہ تلاش کرلیں گالیوں والی خبر آپ کو کہیں نہیں ملے گی اہمیت ہی نہیں دی اس کو ۔۔۔۔۔ ذخیرہ احادیث کا حصہ ہی نہیں بن سکی وہ ۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر ہمارے اور آپ کے ریکارڈ پر مخالفین کی گالیوں کیلئے جگہ کیوں ھونی چاہئے ؟۔۔۔۔۔۔
حاضرین مجلس کی تالیاں
میرے محترم دوستوں! ہم نے دنیا کی سیاست کو بھی سمجھنا ھے
سیاست تدبیر و انتظام کا نام ھے انبیاء کی وراثت ھے جس طرح ہم مسجد کے مصلے کو پیغمبر کی وراثت سمجھتے ھے جس طرح ہم منبر رسول کو رسول کی وراثت سمجھتے ھے صل اللہ علیہ والہ وسلم
اور وہاں پر ہم اس ضابطے کو امپلیمنٹ کرتے ھے اس ضابطے کی تطبیق کرتے ھے وہاں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ " العلماء ورثة الأنبياء "
مسجد کے مصلے پر لغاری صاحب کھڑے ھوکر تو دکھائیں۔
حاضرین مجلس کے قہقہے اور تالیاں
مولوی صاحب چھوڑے گے اس کو؟۔۔۔۔ یہ پیغمبر کی وراثت ھے اور میں اس کا وارث ھو تم کون ھوتے ھو یہاں کھڑے ہونے والے؟......
انیق صاحب جیسا علمی آدمی ۔۔۔۔۔ اوریا مقبول جیسا انکا مطالعہ یقیناً ۔۔۔۔۔ میں اعتراف کرتا ھوں انکا مطالعہ مجھ سے زیادہ ھے
حاضرین مجلس کی تالیاں
لیکن سوسائٹی اپنی اصطلاح میں ان کو عالم دین نہیں کہتی تو پھر اس کو مصلے پر بھی نہیں چھوڑتی اور ناظرہ قران پڑھا ھو اگر داڑھی رکھ لے پگڑی باندھے اور مولوی صاحب بن جائے تو امام بن جاتا ھے۔
حاضرین مجلس کی تالیاں
تو پھر منصب سیاست ۔۔۔۔۔۔۔۔منصب خلافت۔۔۔۔۔۔ منصب امامت یہ بھی تو انبیاء کرام کی وراثت ھے
" وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ۔ "
آج کل کہتے ھے موروثی سیاست ۔۔۔۔۔۔موروثی سیاست کا لفظ مغرب آیا ہوا ھے جہاں نسب نامہ ختم ھو چکا ھے تو جہاں نسب نامہ ختم ھو جائے وہاں ان کو حق پہنچتا ھے کہ وہ موروثی سیاست کا انکار کر دیں
حاضرین مجلس کی تالیاں
لیکن جہاں جتنا مقدس نسب ھو گا اور پورے سب سے زیادہ مقدس اور پاک نسب انبیاء کرام کا ھے
نبوتیں مورثی طور منتقل نہیں ھوئی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انبیاءکی سنت ہے ہم کس جاہلانہ تصورمیں پھنس گۓ ہیں ؟۔۔۔۔۔ توحضرت ابراہیم علیہ السلام اللّٰہ کے پیغمبر تھے " انی جاعلک للناس اماما " تمام انسانیت کا میں تمہیں امام بناتا ہوں بشری فطرت کےمطابق آپ نےفرمایا " قال ومن ذریتی " میری اولاد کو بھی یہ شرف عطا فرما۔
دیکھیں اللّٰہ نےضابطہ دے دیا "قال لاینال عہدی الظالمین " اگر آپ کے راستے پہ نہیں ہو گا اور آپ کے نظریے اور عقیدے کے ساتھ کمنٹمنٹ نہیں ہو گی تو پھر اس کو یہ منصب نہیں دیاجاسکتا۔
پھر حضرت نوح کی اولاد ہے اللّٰہ کو پکار رہا ہے یہ میرا بیٹا ہے اور آپ کا وعدہ سچا ہے اللّٰہ نےفرمایا " إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ " یہ آپ کا بیٹا ہے لیکن اس نےکمنٹمنٹ توڑ دی ہے۔ آپ کی راہ اختیارنہیں کی اب آپ اس کو اپنا وارث مت کہیں۔۔۔
اس حوالےسے دیکھیں میں بات یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ حضرت ابراہیم کہ جس نے ساری زندگی شرک کےخلاف لڑتےہوۓ گزاری۔ توحید کا درس دیتے رہے ایک اللّٰہ کی طرف بلاتے رہے۔ بندےاور رب کےدرمیان جوڑ پیدا کرتے رہے بت توڑتے رہے اس کی پاداش میں آگ میں پھینک دیے گۓ تمام مراحل سے گزرنے کے بعد جب ان میں کامیاب ہو گۓ۔۔۔۔
اور اللہ نے آپ کو امامت عطا کر دی اب ترجیحات تبدیل ہو گئیں اثر ترجیحات کا ہوتا ہے اب وہی موحد اعظم۔۔۔۔وہی قاطع شرک۔۔۔۔۔ وہی بتوں کو توڑنے والا۔۔۔۔۔ انسانیت کا منصب امامت سنبھالنے کے بعد اس کا لب و لہجہ فورا تبدیل ہو جاتا ہے۔
ذمہ داریوں کےحوالہ سے ترجیحات تبدیل ہو گئی۔ " وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ " اب یہ وہ چیزہے کہ مملکتی زندگی میں نماز بھی فرض ہے روضہ بھی فرض ہے عبادات فرض ہیں ہیں۔
لیکن عبادات اس کی پابندی یہ اجتماعی نظام میں اللّٰہ کی نیابت کے لئے اہلیت کا نام ہے۔ اگر کسی شخص کے اندر عبادات نہیں ہے اور اس کی شخصی زندگی میں اللّٰہ کے سامنے بندگی اور عبودیت نہیں ہے۔ تو وہ اس کے اجتماعی نظام میں اللّٰہ کا خلیفہ بننے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتا۔
مسئلہ بنیادی یہ ہے اور آپ سیاست کریں گے مملکت کے نظام پر بحث کرے گے۔ تو پھر آپ کے مدنظر ہونا یہ ہو گا کہ آپ اس ملک کے انسانی حقوق کا تحفظ کریں۔
ہم لفظ امن کو استعمال کرتے ہیں تین حروف کا لفظ ہے امن ۔۔۔۔ لیکن امن یہ تمام تر انسانی حقوق کے تحفظ کا نام ہے۔ اور تمام تر انسانی حقوق اس کا محور تین چیزیں ہیں۔
انسان کی جان ، انسان کا مال اور انسان کی عزت و آبرو۔۔۔۔ اور دنیا جہان کے تمام قوانین ۔۔۔ خواہ کسی بھی حوالے سے ہوں۔ وہ ان تینوں کے تحفظ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
جان کے حقوق کیا ہیں۔۔ مال کے حقوق کیا ہیں۔۔ عزت و آبرو کے حقوق کیا ہیں۔۔ اس کا تحفظ کیسے ممکن ہو گا اس کی تلافی کیسے ممکن ہو گی۔۔
حقدار کے اگر حق کی تلفی ہوتی ہے تو پھر آپ اس کے حق کو کیسے پہنچائے گے؟ تمام قوانین اس بنیاد پر بنتے ہیں۔
لیکن صرف اسلام واحد مذہب ہے اسلام واحد نظام ہے کہ جہاں قانون کا سلسلہ بعد میں شروع ہوتا ہے۔ ابتداء اخلاقیات سے ہوتی ہے۔
آپ ایک شخص سے قرضہ مانگتے ہیں وہ آپ کو قرضہ دیتا ہے۔ مدت پوری ہوتی ہے اب آپ نے قرضہ واپس کرنا ہے۔ تو اسلام ایک سے کہتا ہے کہ قرضہ وقت پر ادا کرنا۔
یہ اخلاقیات ہیں اگر آپ وقت پر نہیں ادا کر سکتے۔ تو دوسرے کو کہتا ہے کہ آپ مہلت دیں۔ " ان کانو ذو عذرۃ فنظرۃ ما تیسره " اگر مہلت کے باوجود بھی آپ ادا نہیں کر رہے۔ تو پھر اس فریق سے کہتا ہے کہ معاف کر دو۔
ایک فریق ادا نہیں کر رہا اور دوسرا معاف نہیں کر رہا۔ تو اب یہاں سے قانون شروع ہوتا ہے۔ قانون کا سفر یہاں سے شروع ہوتا ہے۔
ساری دنیا میں ابتداء قانون سے ہوتی ہے۔ دین اسلام واحد نظام ہے جس کا آغاز اخلاقیات سے ہوتا ہے۔ اور دنیا کے تمام نظاموں نے اگر اخلاقیات کے حوالے سے اور ایک منظم زندگی اور خوشحال زندگی کے حوالے سے اصول لئے ہیں تو وہ دین اسلام سے لئے ہیں۔
دانشور تسلیم کرتے ہیں اس بات کو۔۔۔ اور دوسری چیز خوشحال معیشت " رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ " فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَيْتِ (3)الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ " معاہدہ عمرانی ہے۔
تم میری عبادت کرو گے میں بدلے میں آپ کو یہ چیزیں دوں گا۔ یہ تو ہمارا ملک ہے نہ ؟ جہاں نہ آپ کو امن نصیب ہے اور جہاں نہ آپ کو معاشی خوشحالی نصیب ہے لیکن اس کے باوجود آپ پابند ہیں کہ سٹیٹ کو ضرور ٹیکس ادا کریں۔
یہ تو معاہدہ ہے میں آپ کو ٹیکس دوں گا تو آپ پھر میری خیر خواہی میں کیا کریں گے؟۔۔۔۔ اور ٹیکس دینا چاہیے لیکن کیوں نہیں دیا جا رہا پرابلم کہاں پہ ہے؟۔۔۔۔ ہم برصغیر کے لوگ ہیں۔
انگریز کے دور میں قوم جب اپنے آپ کو انگریز کا غلام سمجھتی تھی۔ تو انگریز کو وہ ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں ہو رہی تھی۔ تو میں جب انگریز کو ٹیکس دوں گا تو مجھے اس سے کیا فائدہ ہو گا؟۔۔۔۔
70 ،، 71 سال ہو گئے ہم نے پاکستان میں عام آدمی کے ذہن اور فکر کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ اور وہی عدم اعتماد جو فرنگی نظام پر اس قوم کو تھا آج پاکستان کے نظام پر بھی وہی عدم اعتماد بدستور برقرار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضرین مجلس کی تالیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نظام کیسے چلے گا؟۔۔۔۔۔ تو یہ دو بنیادی چیزیں ہیں۔
" وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ " یا بدامنی ہے اور یا بھوک ہے۔
" فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ " اور یہ فرد کی بات نہیں ہے۔ " وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ " قریہ کی بات کر رہا ہے۔
پوری آبادی کی بات کر رہا ہے۔ ایک فرد کی بات نہیں کر رہا ہے۔ جب اجتماعی نظام میں قوم نا شکری ہو جائے نافرمان بن جائے۔ کیونکہ اللّٰہ کا ایک نظام ہے دی ہوئی نعمت اللّٰہ واپس نہیں کرتے۔ اللّٰہ دیتا ہے بے حساب دیتا ہے۔
جس کو چاہے دیتا ہے جتنا چاہے دیتا ہے۔ تو واپس نہیں کرتا۔ لیکن تب واپس کرتا ہے " ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ "
تم اپنے بد اعمالیوں کی وجہ سے اور کفران نعمت کی وجہ سے جب اس کے مستحق قرار پاتے ہو تو تب پھر اللّٰہ تعالیٰ وہ نعمت چھین لیتا ہے اور " فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ " اور پھر اللّٰہ بھوک اور بدامنی کا مزہ چکھا دیتا ہے۔
یہ وہ بنیادی اساس ہیں اجتماعی زندگی میں۔۔۔۔ ملک اور قوم اور ملت کے لئے۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہیں کہ ہم نے آج 71 سال گزار دیے آج بھی ہماری معیشت بیرونی قرضوں پر ہے۔ آج بھی۔۔۔۔۔
میں تو خود معاشیات کا کوئی ماہر نہیں ہوں۔ لیکن جو سنتا ہوں اور تبصرے میں نے سنے ہیں اور ان لوگوں کے تبصرے میں نے سنے ہیں جو باقاعدہ حساب کتاب سے بات کرتے ہیں۔
کہ ان گزشتہ پانچ ، چھہ مہینوں میں ، ہم نے روز مرہ کے حساب سے 15 ارب روپے کے قرض لئے ہیں روز مرہ کے حساب سے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے تبدیلی آپ کی ؟ یہ ہے وژن۔۔۔ یہ ترقی۔۔۔ اس کو کہتے ہیں نہ یہ ترقی معکوس ہے۔
اہلوں سے نااہلوں کی طرف چلے جانا یہ تبدیلی ہے نہ، ہم ملک میں اعتماد نہیں پیدا کر سکتے ہیں۔
تو ظاہر ہے کہ سیاست دو طرح سے ہے۔ ایک خالصتاً فکری اور نظریاتی سیاست اور ایک اقتدار کی سیاست۔۔۔ ہمارا وطیرہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان کے سیاسی اور آئینی نظام میں فیصلہ کن قوت عوام کا ووٹ ہے تو پھر ہمیں عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا۔
عام آدمی کے مسائل کو سمجھنا ہو گا ان کی ضرورتوں کو ہم نے پورا کرنا ہو گا۔ ہمارے بہت سے علماء ہیں ہمارے ساتھی ہیں۔ اگر کوئی غریب آدمی ان کے پاس چلا جاتا ہے کہ جی میرا تھانے میں کام ہے۔ یا میرا کچہری میں مسئلہ ہے کسی دفتر میں مسئلہ ہے۔
تو آپ نے تو اسلام کو ووٹ دیا تھا یار۔۔۔۔ یہ تو تمہارے ذاتی مسائل ہیں۔ جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے عام آدمی کی مشکل کو دور کرنے اور مشکل میں عام آدمی کی مدد کرنے کو انتہائی فضیلت قرار دی ہے۔
چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ " اذا اراده الله بعبده خيرا يصرف حوائج الناس اليه " اللّٰہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں لوگوں کی ضرورتیں اس کی طرف متوجہ کر دیتے ہیں۔
حدیث میں آتا ہے جناب رسول اللّٰہ ﷺ فرماتے ہیں۔ " إنَّ للهِ خلْقًا خلقهم لحوائجِ النّاسِ، يفزعُ النّاسُ إليهم في حوائجِهم، هم الآمِنون " اللّٰہ کی ایک ایسی مخلوق بھی ہے۔ جس کو اللّٰہ نے پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ لوگوں کی ضرورتیں پورا کرے۔ اور لوگ لپکتے ہیں ان کی طرف اپنی ضرورتوں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے روز عذاب سے محفوظ رہے گے۔
اتنی عظیم فضیلت۔۔۔۔۔ عام آدمی کی ضرورتوں کو پورا کرنا۔۔۔۔۔۔ اس کی خدمت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان چیزوں کو دنیاوی چیز سمجھ لیا ہے۔
انگریز کے زمانے سے جب علی گڑھ میں مدرسہ قائم ہوا اور اس کے مقابلے میں دیوبند میں مدرسہ قائم ہوا۔ علم تقسیم ہوا اس وقت۔۔۔۔۔۔ دینی علم ، عصری علم ۔۔۔ یہ علم کو کس نے تقسیم کیا ؟؟؟؟ کون کہتا ہے کہ علم دو حصوں میں تقسیم ہے؟.۔۔۔۔۔۔۔۔
رب العزت نے تو علم کو علم ہی کہا " وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا " پہلی آیت میں اللّٰہ رب العزت نے انسان کے مقام کا تعین کیا۔ " وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً " یہ جو مقام خلافت اللّٰہ نے انسان کو عطا کیا۔
اس کے لئے جو وجہ فضیلت ہے " وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا " اگلی آیت میں ہے۔
تو خلافت کے لئے بھی علم چاہیے اور علم اگر قرآن علم ہے۔ تو اس میں تو حضرت نوح علیہ السلام کی لکڑی کا علم ہے۔ " وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا " وہ تو لکڑی کو کاٹ کاٹ کر بنا کشتی بنا رہے تھے۔ تو یہ دنیاوی علم ہے؟؟ ذکر قرآن کر رہا ہے نسبت پیغمبر کی طرف ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو " وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ " اور وہ صناعت ہے " صنع للبوس الکم " زرہیں بناتے تھے۔ اور معجزانہ طور پر لوہا آپ علیہ السلام کے لئے نرم ہو جاتا تھا۔
تو یہ آج دنیاوی مسئلہ ہے آج کی اسلامی دنیا میں پیغمبر کا علم دنیاوی ہے۔ ذکر قرآن کر رہا ہے اس کا۔۔۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام خود مطالبہ کر رہے ہیں "
قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ۔"
یہ حساب کتاب مجھے بہتر آتا ہے۔
خزانے کی حفاظت میں کر سکتا ہوں میرے حوالے کرو۔ آج اگر ہم ایک ماہر معیشت کو ملکی نظام حوالے کرتے ہیں۔ تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی دنیاوی اور عصری علم ہے۔ جو آج کے زمانے میں کسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ساری چیزیں ہم نے کیوں تقسیم کر لی؟۔۔۔۔۔۔۔
سیاست ۔۔۔۔۔۔ اقتدار کی سیاست ۔۔۔۔۔۔ بادشاہت تو سلیمان علیہ السلام پیغمبر بھی تھے اور اللّٰہ نے بادشاہت بھی عطا کی۔ بادشاہی کے سارے گر ان کو آتے تھے ہواؤں پر بھی ان کی حکومت تھی اور پانی پر بھی ان کی حکومت تھی۔
اگر یہ کوئی اتنا بڑا جرم ہے تو اللّٰہ تعالیٰ نے تو اسی اپنے پیغمبر کو یہ مقام عطا کیا۔ تو یہ اقتدار کی طلب کرنا اور اقتدار تک رسائی حاصل کرنا ، ہاں اقتدار ایک وسیلہ ہے اگر کوئی شخص اقتدار کو مقصد سمجھ لیتا ہے تو یہ غلط ہے۔
اور اگر کوئی شخص اقتدار کو مقصد تک پہنچنے کا راستہ سمجھ لیتا ہے تو یہ پھر بذات مطلوب ہے۔ اور آج کے زمانے میں ، جہاں آپ کے پاس صرف پانچ سال کا وقت ہوتا ہے اور وہ بھی ضروری نہیں ہے کہ آپ پورا کریں۔
اور نیا الیکشن آتا ہے تو پھر کوئی اور آ جاتا ہے۔ تو ایسے میں تو اقتدار تک پہنچنا ، کبھی بھی آپ اس کو انقلاب سے تعبیر مت کریں۔
اس محاذ پر ہماری جو جہدوجہد ہے۔ جس نصب العین اور مقاصد کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے نظام میں اس اقتدار تک پہنچنا بھی جہدوجہد کا ہی حصہ ہوا کرتا ہے۔ اس کو نہ منزل کہتے ہیں نہ اقتدار کہتے ہیں نہ انقلاب کہتے ہیں۔
آپ کوشش کریں گے کہ اس طرح کی اقتدار میں ، کہ جب ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی۔ تو پھر اس کے بعد جناب فوج بھی ہے اور آئی ایس آئی بھی ہے اور آئی بی بھی ہے اور بیوروکریسی بھی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔
اور ان کے نرغے میں بیٹھ کر آپ نظام چلائیں گے۔ آپ بتائیں ، آپ اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں؟....... ہاں تنقید آپ پر ہی ہو گی (مسکراہٹ)
آج بھی یہی کہتے ہیں نہ ؟۔۔۔۔۔ اب دھاندلی کا مجرم کون ؟۔۔۔۔۔۔ ان سارے نقصانات کا اصل ذمہ دار کون ؟۔۔۔۔۔۔ لیکن کہتے ہیں ہمارا نام مت لو۔
جو سیاسی آدمی ہے اس کو تنقید کا نشانہ بناؤ ہمارا نام نہیں لینا۔
تو میں نے کہا کہ پھر ہماری حالت۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی مولوی صاحب نے مسئلہ بیان کیا محلے میں ، کہ بیوی جو ہے وہ اپنے خاوند کو کبھی بھی نام سے نہ پکارے۔ اب وہ نماز پڑھ رہی تھی اور اس کے خاوند کا نام تھا رحمت اللّٰہ ، تو جب سلام پھیرا تو " السلام علیکم نکے دا ابا ، السلام علیکم نکے دا ابا "
حاضرین مجلس کے قہقہے
کیونکہ خاوند کا تو نام لینا نہیں تھا۔ تو اب ہم بھی جناب نام نہیں لے سکتے۔
حاضرین مجلس کے قہقہے اور تالیاں
شریک مجلس :- نکے دا ابا تو کہہ سکتے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن :- ہاں ، نکے دا ابا (ہنسی)
تو یہ جو ہمارے ملک میں نکے دا ابا ہے۔
حاضرین مجلس کے قہقہے اور تالیاں
یہ اصل میں مسائل کی جڑ ہے۔
لیکن پھر بھی اگر میں اپنے دائرے سے۔۔۔۔ آئینی دائرے سے ۔۔۔۔ قانونی دائرے سے تجاوز کرتا ہوں۔ تو مجھے ساری دنیا کہے گی تم مجرم ہو۔۔۔ تم غلط ہو۔۔۔۔یہ ہو۔۔۔ وہ ہو۔۔۔ لیکن اگر طاقت ور قوت اپنے حلف سے تجاوز کرتی ہے تو وہاں پر اس پر تنقید کرنا جرم ہے۔
تو ہم بھی کہتے ہیں کہ جی ہم نہیں کریں گے یہ جرم ان شاءاللہ ۔۔۔۔۔ اس جرم کے ہم مرتکب ہو نہیں سکتے۔ تو اس صورتحال میں ہمیں ان حالات سے گزرنا ہے۔ اور جب آپ ہم پر اسمبلیوں کے دروازے بند کریں گے۔ چوری کے ووٹ سے حکومت کریں گے بیلٹ بکس چوری کریں گے صرف ووٹ نہیں۔۔۔۔ ایک جعلی قسم کی اسمبلی وجود میں لائیں گے ۔۔۔ جعلی حکمران وجود میں لائیں گے۔ ہمارے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے ؟۔۔۔۔ سوائے اس کہ ۔۔۔۔ کہ ہم دوبارہ عوام میں جائیں۔
ہمارے بڑی پارٹیاں ۔۔۔۔۔۔ بصد احترام۔۔۔۔۔ لیکن وہ مصلحتوں کی شکار ہوجاتی ہیں۔ تو ہم نے توکل علی اللہ بسمہ اللہ کر دی ہے۔ اور کراچی سے شروع کیا۔ لاہور گئے، سکھر آئے، مظفر گڑھ گئے ،ڈیرہ اسماعیل خان، پھر مردان میں ایک سے ایک بڑھ کر تا حد نظر انسانوں کا سمندر امڈ آتا ہے تاحد نظر۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دوربین لگا کر کوشش کی کہ میں آخری بندے کو دیکھ سکوں۔۔۔۔ نہیں دیکھ سکا
حاضرین کی تالیاں اور پرجوش نعرے
تو میرے محترم دوستوں ! اس صورتحال کو ہم نے سامنے رکھنا ہے.... لیکن کمپرومائز نہیں کرنا ہم نے اپنی آزادی کو, ہم آزاد قوم نہیں ہے نہ فکری لحاظ سے ہم آزاد ہیں. نہ سیاسی لحاظ ہم آزاد ہیں۔ نہ اقتصادی لحاظ سے ہم آزاد ہیں اور نہ دفاعی لحاظ سے ہم آزاد ہیں۔
1945 کی جنگ عظیم دوم کے بعد نوآبادیاتی نظام کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ یہ کہانی مک گئی۔ اب دنیا کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟۔۔۔۔۔ عالمی قوتیں تیسری دنیا کو ، پسماندہ دنیا کو کس طرح اپنے زیر نگیں رکھے ؟۔۔۔۔۔
تین وسیلوں سے۔۔۔۔۔ پہلا وسیلہ سیاسی اعتبار سے۔۔۔۔۔ دوسرا اقتصادی حوالے سے۔۔۔۔۔۔ تیسرا دفاعی حوالے سے۔۔۔۔
آپ کی جنرل اسمبلی آپ کی سلامتی کونسل و انسانی حقوق کمیشن ، جینیوا کنونشن یہاں پر بالا دستی ہے چند ممالک کی۔۔۔۔۔ اور وہ آپ کے فیصلے کرتے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے۔۔۔۔۔۔
آپ پاکستان ہے آپ کے پاکستان کا آئین ہے آپ کے پاکستان کا قانون ہے۔ لیکن اگر اس بین الاقوامی فورم پر کوئی ایک قانون صادر کیا گیا تو آپ کے ملک میں اس عالمی ادارے کا قانون موثر ہے اور اپنے ملک کا آئین اور قانون غیر موثر ہو جاتا ہے جب میرے ملک میں اور خود مختار وطن میں، میرا آئین اور میرا قانون غیر موثر ہوجائے اور بین الاقوامی ادارے کا قانون مجھ پر موثر ہو آپ بتائے کہ میں سیاسی لحاظ سے پھر کب آزاد ہوں؟۔۔
بڑے فخر سے کہتے ہیں ہم نے پاکستان میں حدوداللہ کا قانون اور حد زنا کا قانون ختم کر دیا ۔۔۔۔۔۔ قانون ختم کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ آپ قانون ختم کر دیں ایک یہ کہ آپ اس قانون پر عمل در آمد کا پروسیجر اور اس کا طریقہ کار اتنا مشکل بنا دیں کہ قانون پر عمل در آمد ممکن ہی نہ رہے۔ ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے۔۔۔۔۔
ابھی ناموس رسالت کے حوالے سے یہی بات پارلیمنٹ میں آئی نہ؟۔۔۔ اور باقاعدہ ترمیم لے کر آئے کہ اگر کسی نے کسی دوسرے پر توہین رسالت کا دعوی کیا اور ثابت نہ کرسکا تو جو سزا مدعا علیہ کی ہے وہی مدعی کی ہوگی۔
یہ دنیا جہان کے قانون کی دنیا میں ایک مذاق ہے مذاق۔۔۔۔ ایک آدمی کا باپ قتل ہوجاتا ہے 302 کا کیس ۔۔۔۔ مدعا علیہ پر ثابت ہوجاتا ہے اس کو پھانسی ملتی ہے لیکن باوجوہ وہ عدالت کو وہ ثبوت نہیں مہیا کر سکتا اور بالاخر عدالت اس کے کیس کو خارج کر دیتی یے تو اسکا معنی یہ کہ وہ پھانسی چڑھے۔۔۔
تو ایک ہے دعوی اور ایک ہے اس کا ثبوت ۔۔۔۔ دعوی سچا ہوتا ہے حقیقت پر مبنی ہوتا ہے لیکن بوجوہ وہ اس کے ثبوت کے تقاضے پورے نہیں کر پاتا۔۔۔
اب یہاں پر تو ہماری ہائیکورٹ نے باقاعدہ ہمیں حکم دیا تھا کہ آپ سائبر کرائم اور اس کے تحت ختم نبوت کا عقیدہ اور ناموس رسالت کے حوالے سے اس کی زبان کو اور واضح کردیں۔۔ اور واضح کیا۔۔۔۔۔ اور اگر یہ آجاتا اسمبلی میں ہم بھی اس کو مسترد نہ کرتے۔ ہم نے وہ مسودہ پڑھا تھا وہ ڈرافٹ پڑھا تھا ٹھیک تھا۔۔۔۔
لیکن انہوں نے کہا نہیں۔۔۔ اس کو بھی شامل کرو۔۔۔ جب ہم نے اس کو رد کر دیا تو پھر انہوں نے کہا کہ جی قانون ہی واپس کر دو بل ہی واپس کر دیا۔۔۔۔ پھر ضرورت ہی نہیں۔۔۔۔ اس قسم کے حربے استمال ہوتے ہیں۔
آج بھی مجھے اس بات سے کوئی اختلاف نہیں۔۔۔ کوئی اعتراض نہیں اس کے اوپر کہ عدلیہ نے آسیہ مسیح کے بارے میں کیا فیصلہ دیا ہے کن دلائل کی بنیاد پر دیا ہے اس کی آئینی وجوہ کیا ہیں اس کی قانونی وجوہ کیا ہیں۔ اس کی شہادتوں کی حقیقت کیا ہے۔ یہ اپنی جگہ پر ۔۔۔۔۔اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔
لیکن میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے اس فیصلے کیلئے بین الاقوامی دباؤ کہاں کہاں سے اور کس کس وقت آیا۔۔۔۔۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ میری عدالت آزاد نہیں ہے۔ وہ بین الاقوامی دباؤ میں فیصلے کرتی ہے۔
آج اقتصادی لحاظ سے ہم اپنے ملک کے وسائل کے مالک نہیں ہے۔ ہمارا پانی ، ہمارے جنگل ، ہمارے معدنیات ، ہماری زراعت اس حوالے سے اپنے وسائل پر انحصار کی طرف سفر کرنا 70 سال میں ہم نہیں کرسکے. تو ظاہر ہے کہ کوئی مالک ہے نہ ہمارا ؟۔۔۔ آئی ایم ایف ہمارا مالک ہے ورلڈ بینک ہے ایشین بینک ہے پیرس گروپ ہے لندن گروپ ہے قرضے دینے والے گروپ ہے۔ ساری زندگی اسی میں گزارنی ہے ؟۔۔۔۔۔۔ تو اس اعتبار سے ہمارے جو ہم عمر ممالک ہیں اس پورے ایشیاء میں وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں ؟۔۔۔۔۔۔
دفاعی لحاظ سے آپ بتائیں؟۔۔۔۔ معاہدات میں اور اس کے شکنجوں میں ہمیں کسا جاتا ہے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرو این پی ٹی پہ دستخط کرو۔۔۔۔ ایٹم بم تمھارا لیکن اس کو چلانے کا اختیار ہمارے پاس ہوگا۔۔۔۔
یہ وہ چیزیں ہے کہ جس کی بنیاد پر بین الاقوامی قوتیں آپ کو قبضے میں رکھتی ہے اور آپ کو آزادی نہیں دیتی تو پھر جب میں کہتا ہوں کہ چودہ اگست کو کس چیز کی بیناد پر منائے ؟۔۔۔۔۔ اوہو ہوووووو یہ تو غداری کی بات کر دی پاکستان کی آزادی کو نہیں مانتا۔
میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے جب تک پاکستان کی عوام اس ملک کے اقتدار کی مالک نہیں ہے۔ جب تک عوام اس ملک کے اقتدار کی تبدیلی کی مالک نہیں ہے اور جب تک اسٹیبشلمنٹ ہمارے ملک کی اقتدار کو پارلیمنٹ کو تبدیل کرتا ہے میں اس وقت تک اپنی آزادی کو آزادی تصور نہیں کرتا۔
حاضرین کی تالیاں اور پرجوش نعرے
یہ ہمارے ملک کے پرابلمز ہیں۔ آئیں ہم اس کو دور کریں اس کو حل کریں اس کو ختم کریں ان شکایتوں کو۔۔۔۔ ہم نے کوئی ڈنڈا سوٹا نہیں اٹھایا ہوا۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان کے اندر ریاست سے ٹکراؤ کو جرم کہا ہے۔
شریعت کے نام پر اگر کسی نے بندوق اٹھائی ہے ہم نے اس کو رد کیا ہے لیکن کیوں آپ معاشرے کو۔۔۔۔ نئے نوجوان کو ۔۔۔۔۔۔۔اگر معاشرے میں نوجوانوں کا ایک طبقہ بے راہ روی اختیار کرتا ہے آپ نے کیوں آنکھیں بند کی ہوئی ہیں؟۔۔۔۔۔
کہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے والا ایک نوجوان طبقہ اس ملک میں موجود ہے۔ جمیعت علماء کے صد سالہ پر چالیس سے پچاس لاکھ تک لوگ اگر اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ عوام میں اس کا کوئی اثر رسوخ ہو گا نہ ؟۔۔۔۔۔
اور ہر ایک کے پیچھے ایک تصور ہوتا ہے اگر تبلیغی اجتماع میں لوگ جاتے ہیں اس اجتماع کا اپنا تصور ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر جمیعت علماء کے جلسے اور اجتماعات میں لوگ آتے ہیں تو اسکے پیچھے اور ایک تعارف ہوگا۔ اسی تعارف سے لوگ آتے ہیں۔
آج اگر ملین مارچ میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں تو آخر پبلک کے اندر کوئی شے ہے نہ اس کی ؟۔۔۔۔ ہمارے ہاں تو نہ باجے ہوتے ہیں نہ باجیاں ہوتی ہے کہ انہیں دیکھنے کیلئے لوگ اکٹھے ہوجائے۔
حاضرین کی تالیاں اور قہقہے
اور ان کے بقول ہمارے ہاں تو قرآن کی تلاوت اور نعتیں پڑھنے والے بورنگ لوگ ہوتے ہیں۔
جن کے نزدیک یہ چیزیں بورنگ ہے اکتانے والی باتیں ہیں۔ اکتاہٹ آتی ہے ان چیزوں سے۔۔۔۔۔
ان نظریوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے۔ اور سوشل میڈیا والوں اس محاذ پر اپنی ذمہ داری کو سمجھو۔۔۔
یہ وہ جنگ ہے جو آپ نے لڑنی ہے۔
حاضرین کی طرف سے :- ان شاءاللہ
اور آپ نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ان شاءاللہ عوام میں ہمارا یہ سلسلہ جاری ہے اور عوام اور نئی نسل کو ہم اس کمٹمنٹ پر لائیں گے کہ وہ پاکستان میں اس طرح کے جبر کو قبول نہیں کریں گے۔۔۔ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم پاکستان کو اس جبر سے آزادی نہیں دلائیں گے۔۔۔۔
حاضرین کی تالیاں اور نعرے بازی
تو یہ وہ چیزیں ہے کہ جس کو مد نظر رکھ کر ہم نے اپنا سفر شروع کرنا ہے۔ یہ جدید چیزیں جو ہیں شائد میں اس میں اتنا زیادہ ایکسپرٹ نہیں ہوں لیکن نوجوانوں کا کام ہے وہ ان چیزوں کو جانتے ہیں اور اس حوالے سے جو ماہرین ہے آپ ان کی رہنمائی حاصل کریں اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔

 

0/Post a Comment/Comments