ڈیرہ اسماعیل خان میں عید ملن پارٹی سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب 9 جون 2019

ڈیرہ اسماعیل خان میں عید ملن پارٹی سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب

9 جون 2019
جناب صدر ! میرے شہر کے انتہائی محترم قابل قدر میرے بزرگوں ، دوستوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہر کے معززین۔۔۔۔
سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں اپنے جماعت کے ذمہ داران ، ہمارے بعض صحافی دوست ، وکلاء دوست کہ جن کی تجویز پر آپ کا یہ اجتماع منعقد ہوا۔ اور اس عید ملن پارٹی کی نسبت سے میں آپ تمام حضرات کو عید مبارک پیش کرتا ہوں۔
امت مسلمہ پر ہر سال خوشی کا ایک دن ، خوشی کا ایک تہوار آتا رہتا ہے۔ اور پوری امت مسلمہ یکساں جذبے کے ساتھ ، یکساں احساسات کے ساتھ اس دن کو مناتی ہے۔
اللّٰہ کرے ، ہمیشہ امن و سکون کے ساتھ امت کو بار بار یہ مبارک مہینہ اور عید کا مبارک موقع مہیا ہوتا رہے۔
میرے محترم دوستوں ! خوشیوں کے ان لمحات میں ، ہمارے گردوپیش میں خطرات کے اور خوف کے مہیب سائے بھی منڈلاتے رہتے ہیں۔
پوری امت مسلمہ بھی اس سے دوچار ہے اور ملت پاکستان بھی کئی عشروں سے اس سے دوچار ہے۔
اس احساس کے ساتھ کہ ہم اب ایک محفوظ امت نہیں رہے۔ اس احساس کے ساتھ کہ ہم اب ایک محفوظ قوم نہیں رہے۔ ہماری اجتماعی زندگی گزر رہی ہے۔
اس میں کیسے تبدیلیاں لانی ہیں ظاہر ہے کہ اس لئے ہمیں اپنی قومی زندگی کے خطوط کو ازسرنو استوار کرنا ہو گا۔
میں آج آپ کے اجتماع کی وساطت سے بڑے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں
کہ دہشت گردی ، دہشت گردی ، دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جنگ ، اور جنگ اب یہ بیانیہ فرسودہ ہو چکا ہے۔
اب ہماری سٹیٹ کو اور ریاست کو ازسرنو حقائق پر مبنی ایک بیانیہ تیار کرنا ہو گا۔
بہت ہوا ہے اس قوم کے ساتھ ، بہت ہو گیا ہے اس ملک کے ساتھ ، بہت ہو گیا ہے اس امت کے ساتھ،
کب تک امریکہ ہماری اس امت مسلمہ کو دہشت گردی کے نام پر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بلیک میل کرتا رہے گا۔
اور پوری اسلامی دنیا میں اپنی دفاعی اور عسکری موجودگی کے جواز کے لئے وہ دہشتگردی کا بیانیہ پیش کرتا رہے گا۔
کب تک ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور کب تک ہمارے ملک کی ریاست اپنی قوم کو بلیک میل کرنے کے لئے اور ملک کے چپے چپے پر اپنی موجودگی کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے یہ دہشتگردی ، دہشتگردی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کا یہ بیانیہ کب تک پیش کیا جاتا رہے گا۔
نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر ،،، قائد جمیعت مولانا فضل الرحمٰن زندہ باد کے نعرے
میں آج دس سال پہلے کے اس بیان کو دوبارا دہرانا چاہتا ہوں جس طرح پوری دنیا میں دہشتگردی کو پیدا کرنا ، دہشتگردی کو فروغ دینا ، دہشتگردی کے اسباب پیدا کرنا ، امت کو اشتعال دلانا ، یہ امریکہ کی بنیادی پالیسی رہی ہے ہماری سٹیٹ کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔
ہم بین الاقوامی سطح پر بنائے جانے والے کھیل اور ورلڈ گیم کو اپنے ملک میں امپلیمنٹ (نافذ) کرتے ہیں تو امپلیمنٹیشن اتھارٹی (نافذ کرنے والی قوت) ہماری اسٹیبلشمنٹ ہوا کرتی ہے۔
کب تک ہم حقائق کو چھپاتے رہے گے ؟ کیوں چھپاتے رہے گے ؟
میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ میں جس جماعت سے وابستہ ہوں اس جماعت کی دو سو سالہ تاریخ ، تین سو سالہ تاریخ یہ آزادی کے لئے قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔
مجھے پھر اپنی تاریخ کی طرف واپس لوٹنا ہو گا۔ مجھے ان رویوں کی طرف واپس جانا ہو گا۔ جن رویوں کے ساتھ میرے اسلاف نے اس سرزمین کی مٹی کو آزاد کرنے کے لئے انگریز استبداد سے جنگ لڑی تھی۔
میں آج بھی اپنے ملک کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ یا معاملات ٹھیک کر دو یا پھر ہمیں اپنے اسلاف کی تاریخ کی طرف واپس لوٹنا ہو گا۔
ہم اس سرزمین کو امریکی قبضے میں دینے کے لئے کسی اسٹیبلشمنٹ کی اتباع کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر ، سربکف سربلند دیوبند دیوبند
قائد جمیعت مولانا فضل الرحمٰن زندہ باد کے نعرے
افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت ہے ہمارے پڑوس کے ایک کٹھ پُتلی حکومت کے خلاف تو جہاد واجب ہے۔ اور میرے ملک کے اندر کٹھ پتلی کی حکومت کو ہم جائز حکومت تسلیم کر لیں؟
کم از کم یہ تو میرے بس میں ہے کہ میں اپنے ملک کی اس کٹھ پتلی حکومت کو ایک جائز حکومت کہنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔
مولانا فضل الرحمٰن زندہ باد
اب ناجائز حکومتوں کو ، جعلی حکومتوں کو ، خلائی حکومتوں کو مزید برداشت کرنا اس ملک کو غلامی کی طرف دھکیلنے کا سبب تو ہو سکتا ہے یہ ہماری خوشحالی کا سبب نہیں ہو سکتا۔
رہی سہی آزادی کو دوبارا غلامی میں تبدیل کرنا ، کیا اس کا نام ہے تبدیلی ؟
اگر رہی سہی ، ایک غریب آدمی کے گھر میں کچھ کھانے کو کچھ پونجی بچی ہوئی ہے۔ اس کو مہیا ہے آج وہ اس سے چھین لینا اس کو ہم تبدیلی کا نام دے رہے ہیں۔
کس چیز کی تبدیلی ؟ اگر ہمارے گھروں میں اور ہمارے محلوں میں کوئی حیا رہ گئی تھی جوانوں میں حیا رہ گئی تھی۔ آج ہماری ماؤں بہنوں کے سروں سے حیا کا دوپٹہ نوچ لینا۔ اور نوجوانوں کو آوارہ گردی کا راستہ دکھا دینا کیا اس کا نام ہے تبدیلی ؟
ہم اس تبدیلی کو مسترد کرتے ہیں ہم اس تبدیلی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہم اس تبدیلی کے خلاف جنگ لڑنا چاہتے ہیں جہاد کرنا چاہتے ہیں۔
نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر
لہذا ایک بڑے نئے جوش ، نئے ولولے کے ساتھ ہمیں میدان میں اترنا ہو گا۔ ڈیرے والوں ! مجھے فخر ہے اس بات پر کہ آپ نے ڈیرے کی سرزمین پر ملین مارچ کی میزبانی کی ہے۔
اور آپ نے اندازہ لگا لیا کہ عام آدمی کی سوچ اور اس کی تڑپ کیا ہے۔ ہم نے 13 ملین مارچ کئے ہیں اور ہر ملین مارچ عوامی سمندر ہوا کرتا تھا۔اب ہمیں آگے بڑھنا ہے آگے نہیں بڑھنا ، اب ہمیں آخری وار کرنا ہے۔
قائد تیرا ایک اشارہ ، حاضر ہے لہو ہمارا
اب ہمیں وار کرنا ہے اب آخری وار کرنا ہے۔
اور میں ملک کے خیرخواہ کی حیثیت سے ، اس سرزمین وطن کے ایک رضاکار سپاہی کی حیثیت سے درد دل کے ساتھ یہ بات کہنا چاھتا ہوں کہ ہماری بات کو سمجھو۔
ہم ملک کے وفادار ہیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ پاکستان کا جنرل اتنا ملک کا وفادار نہیں ہو سکتا جتنا میں اس ملک کا وفادار ہوں۔
نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر ، قائد جمیعت مولانا فضل الرحمٰن زندہ باد
پاکستان کے جرنیل نے ملک کو توڑا ہے میں نے اس ملک کو بچانے کی جنگ لڑی ہے۔ پاکستان کے جرنیل نے آئین کو توڑا ہے میں نے اس آئین کی بحالی کی جنگ لڑی ہے۔ پاکستان کی وفاداری میں ہم ان سے دو قدم آگے ہو سکتے ہیں پیچھے نہیں ہو سکتے۔
لہذا ہم جنگ نہیں چاہتے ہم ایک پیج پر آنا چاہتے ہیں ہم آج بھی دعوت دیتے ہیں کہ متنازعہ اقتدار کو ملک سے ختم کرو متنازعہ الیکشن کو ختم کرو۔ یہ کوئی الیکشن نہیں ہے جو قوم پر مسلط کئے گئے۔
میں تمام سیاسی جماعتوں سے بھی کہہ چکا ہوں اور آپ حضرات سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب الیکشن کے اگلے ہفتہ کے اندر اندر تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا موقف اور اپنا بیانیہ طے کیا۔
اور اس بیانیہ کا خلاصہ یہ تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ بدترین دھاندلی ہوئی۔ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ دوبارا الیکشن ہونے چاہیے اور ایک اتحاد وجود میں آیا اور اس اتحاد کا نام تھا الائنس فار دی فری اینڈ فئیر الیکشن۔ اب یہ بیانیہ طے تھا۔
ہم نے پبلک کے جذبات میں اس کو جگہ دینی ہے۔ تاکہ عام آدمی کا دل و دماغ اس کو قبول کرے اور رچ بس جائے۔
اور اس کی بنیاد پر تحریک کو آگے لے جانا تھا۔ لیکن میں نے کہا کہ اب اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حکومت سازی کے عمل میں شریک مت ہوں۔
اور حکومت سازی کے عمل میں شریک نہ ہونے کا آغاز یہاں سے کیا جائے کہ اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھایا جائے۔
لیکن جب ہم نے اسمبلیوں کا حلف اٹھا لیا۔ ہم حکومت سازی کے عمل میں شریک ہو گئے۔
تو ہم نے جو بیانیہ طے کیا تھا وہ عام آدمی کے دماغ سے محو ہو گیا۔ ہم نے اس کی بنیاد پر سفر نہیں کیا۔
ہم نے اس بنیاد پر قوم کو منظم نہیں کیا۔ ہم نے وزیراعظم کے الیکشن میں اختلاف کیا۔ ہم نے ملک کے صدارتی الیکشن میں اختلاف کیا۔ حزب اختلاف کو تقسیم کرنے کا ہم سبب بنے۔ آج ہم ایک نئے بیانیے کے منتظر ہیں۔ 
نیا بیانیہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہی ہو سکتا ہے کہ اب مہنگائی ، ملکی معیشت تباہ ہو گئی۔ میرے محترم دوستوں ! دنیا میں ریاستوں کی بقاء کی بنیاد دو چیزیں ہوا کرتی ہیں یا اس کی دفاعی قوت یا اس کی معاشی قوت۔
قبائلی ماحول میں جو دفاعی طاقت ایک ریاست کی بقا کا سبب بنتا ہے۔ لیکن تمدنی دنیا کے اندر ریاست کی بقاء کا سبب بن سکتا ہے تو اس کا معاشی استحکام بن سکتا ہے۔
سوویت یونین اگر ٹوٹا ہے دفاعی قوت کی بناء پر نہیں، بلکہ معاشی قوت کے ٹوٹنے پر اس کو ٹوٹنا پڑا۔
آج 40 سال سے میری اس سرزمین پر اور میرے اس بیلٹ پر خون بہہ رہا ہے۔ جہاں 40 سال تک خون بہتا رہے یہی چیزیں ہوا کرتی ہیں جو نئی جغرافیائی تشکیل دیا کرتی ہیں۔
خدا کے لئے کوئی عقل کے ناخن لو، روز تم ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیتے ہو اور ہم نے اس قسم کے فیصلوں کی بنیاد رکھی ہے۔ طالبان کے خلاف جنگ ، فساد ، جڑ سے اکھاڑنا ہے انتہاء پسندی کے خلاف جنگ ، جڑ سے اکھاڑنا ہے۔
آج میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں آپ ڈیرہ والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہ آپ کے ماحول میں ، آپ کے ضلع میں ، آپ کے شہر میں دہشتگرد اور دہشتگردی دوبارا تبدیل نہیں ہوئی؟ دوبارا قتل و غارت گری کا بازار گرم نہیں ہو رہا؟
بھتہ خوری نہیں پیدا ہو رہی؟ اور اغواء برائے تاوان نہیں ہو رہے؟
کیا کر رہے ہیں ہم لوگ ؟ ایک دفعہ پھر لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے زبردست کامیابیاں حاصل کر لی ہیں اور پھر اس کے بعد دوبارا وہ حالات پیدا کئے جاتے ہیں کس مقصد کے لئے؟
یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔ ہم درد دل سے ملک کے لئے بات کرتے ہیں۔ آج بھی بات کر رہے ہیں
اور ان شاءاللہ العزیز آنے والے دنوں میں ہم اپنے اس ہدف کو۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ تمام سیاسی پارٹیاں وہ اور کام پر لگ گئی لیکن متحدہ مجلس عمل کی جماعتوں کی تائید کے ساتھ جمیعت علماء اسلام نے اپنے اس بیانیہ کو جاری رکھا اور آج بھی وہ موقف زندہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کا موقف زندہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا موقف زندہ ہے۔
اور پاکستان کی جب نظریاتی شناخت پر حملہ کیا گیا۔ اور یہاں پر کبھی ختم نبوت کے مسئلے کو چھیڑا جاتا ہے کبھی قادیانی نیٹ ورک کو بڑے کھلے عام کام کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ کبھی ناموس رسالت کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں۔ کبھی ناموس رسالت کے مجرموں کو بین الاقوامی دباؤ پر عدالتوں سے بری کرایا جاتا ہے۔
اور پھر بڑے فخر کے ساتھ ہمارے حکمران کہتے ہیں۔ کہ جی وہ ملعونہ جو ہے وہ جلد ملک سے باہر چلی جائے گی۔ اور پھر پورے پروٹوکول کے ساتھ اسے جانے دیا جاتا ہے۔
اگر میرے اس ملک کے اندر جناب رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین کی مرتکب کو یہ عزت ملتی ہے۔ تو پھر ایسے حکمران کو میں قطعاً کوئی عزت دینے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔
جس حکمران کے ہاتھوں ، جس عدالت کے ہاتھوں میرے رسول اللّٰہ کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ نہ ایسی عدالت کی عزت کرتا ہو نہ ایسے حکمران کی عزت کرتا ہوں۔
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ
سب سے پہلے ہمارا نبی ہے۔
جس رسول اللّٰہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے لئے اونچی آواز سے بولنا جائز نہیں۔ ان کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ۔
جب پیغمبر کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرنا جائز نہیں۔ تو پھر ہم پیغمبر کے قانون پر کسی دوسرے قانون کو بالادستی دینا اس کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔
لہذا ناموس رسالت ہو یا قانون سازی ، اس کے لیے ہم نے قوم کو منظم کرنا ہے۔ ہم نے اس پبلک کو ، پاکستان کی عوام کو ایک نیا شعور دینا ہے۔ یہ گھسے پٹے بیانیے اب ختم کرو۔
جب تک تم دوسروں کے خلاف سازشیں کرتے رہو گے۔ اور انتہاء پسندی کا عنوان استعمال کرتے رہو گے۔کب تک علماء کے خلاف فورتھ شیڈول استعمال کرتے رہو گے۔
اور انتہاء پسندی کا عنوان استعمال کرتے رہو گے۔
جو فورتھ شیڈول کل تھانوں میں بستہ ب کے علاقے کے بدمعاشوں کے خلاف استعمال ہوا کرتا تھا۔
آج وہ قانون پاکستان کے علماء کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
شرم آنی چاہیے ، ان حکمرانوں کو بھی شرم آنی چاہیے اس انتظامیہ کو بھی شرم آنی چاہیے۔ جو اس قانون کو علماء کرام کے خلاف استعمال کرتا ہے۔
اور آپ کا کیا خیال ہے ہم کوئی اتنا چھوٹا سا ایجنڈا لے کر آئے ہیں کہ تمہارا فورتھ شیڈول ہمارا مسئلہ بنتا ہے۔
کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ
حیثیت کیا ہے تمہارے فورتھ شیڈول کی ؟ اس چیز کی ؟ ہم بہت بڑا ایجنڈا لے کر آئے ہیں۔
آج ہم نے اس ملک کو متحد رکھنا ہے۔ ہم تمام اداروں سے بھی کہنا چاہتے ہیں ہم درد دل کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک نئے بیانیہ کے ساتھ ملک کے مستقبل کا تعین کریں۔
ہم ان شاءاللہ ایک پیج پر تمام اداروں کو لے کر آگے بڑھنے کا لئے تیار ہیں۔ ہمارے موقف کو سمجھو اور ہمارے درد دل کو سمجھو۔ ہماری رائے کو سمجھو۔ ہم کوئی ایسے لوگ نہیں ہیں جو آپ سے کم ملک کو سمجھتے ہوں ہم آپ سے زیادہ ملک کو سمجھتے ہیں۔
ملکی سیاست کو آپ سے زیادہ سمجھتے ہیں بین الاقوامی سیاست کو آپ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔
صرف یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ میں طاقت ہے اور آپ طاقت کو عقل کہتے ہیں اور میں طاقت کو عقل ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔

 

0/Post a Comment/Comments