چیئرمین نیب کے سیکنڈل پر قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی گفتگو
26 مئی 2019﷽
دیکھیں کل جو چیرمین نیب کے حوالے سے ایک چینل کے اوپر خبر بریک ہوئی تو ظاہر ہے کہ ہر شخص کی،، اس کے کردار کی ،، اس کی زندگی کی عزت نفس کی اس کی اپنی ایک حرمت ہوتی ہے۔
اور یقینا مجھے اس واقعے پر بہت دکھ ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔
کیونکہ کلپس کے ذریعے سے کسی ریکارڈنگ کی بنیاد پر جہاں کوئی دلیل موجود نہیں یا جہاں ثبوت موجود نہیں ہے۔ یا وہ کافی نہیں اس کے لئے،، تو پھر ہمارے ملک کے اعلی مناصب پر فائز لوگ ،، ہم ان سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن ان کی عزت و توقیر اپنی جگہ پر ہو اس کا ہمیں بھی ہر شخص کو لحاظ رکھنا ہوتا ہے۔
لیکن بہرحال نہ چاہتے ہوئے بھی ایک واقعہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے احتساب کا جو عمل ہے ملک کے اندر اس وقت ، نیب کے ادارے کے طور پر وہ اپنے احتساب کی صلاحیت ہی کھو بیٹھا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ میں تو اول روز سے نیب کے بطور ادارے کے حتی کہ جنرل مشرف کے زمانے سے اس کو ایک آمر کی ذہنیت کی تخلیق سمجھتا رہا ہوں۔
اور اس ادارے کو اس طرح سے برقرار رکھنے پر بھی میں نے کبھی اتفاق نہیں کیا۔ اور عملی طور پر بھی جب میں دیکھتا ہوں تو ہمیشہ یہ سیاستدانوں کے خلاف احتساب کے رویوں کے ساتھ نہیں بلکہ انتقام کے رویوں کے ساتھ ہمیشہ فعال رہتا ہے۔ اور کچھ لوگ ان سے یہ کام لے رہے ہوتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ دنیا اس پر متفق ہے کہ جہاں جس ملک میں متوازی عدالتی نظام ہو گا وہاں انصاف کے حصول میں مشکل ہو گا۔
بلکل اسی طرح اگر ملک کے اندر ہمارے ہاں پہلے سے موجود تفتیشی یا احتسابی ادارے موجود ہیں تو پھر ایک مستقل ادارہ احتساب کے نام پر وجود میں لانا، ظاہر ہے کہ یہ پھر کسی ایک آمرانہ ذہنیت کے مقاصد کی تکمیل تو کر سکتا ہے لیکن ایک جمہوری ماحول میں جمہوریت کو فروغ دینا یا معیشت کو فروغ دینا ۔۔۔۔۔
آج اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کی سیاست بھی کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے اور ملک کی معیشت بھی کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تو اس ادارے نے سیاسی انتقام کے نتیجے میں سیاست کو متاثر کیا ہے اور پھر اس کے طرز عمل اور روش کے ملک کے اندر پیسے کی گردش کو روک دیا ہے۔
لیکن خوبصورت نام کہ احتساب اور احتساب کی ضرورت ہوتی بھی ہے اور ہر زمانے میں بھی ہے۔ تو اس مقدس نام کو اس انداز کے ساتھ استعمال کرنا کہ جس سے احتساب کے ذریعے سے ملک کی سیاست بھی ڈوب جائے اور ملک کی معیشت بھی ڈوب جائے کیا معنی ہے اس چیز کا ؟
تو اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ادارہ ناکام ہو چکا ہے اور اس ادارے کی مزید کوئی افادیت موجود نہیں رہی ہے تو اب اس عمل کو ، اس ادارے کو منجمد کر دینا چاہیے۔
اور اس ادارے کی فعالیت کی کوئی افادیت موجود نہیں رہی ہے۔
ایک بات شئیر کرنا چاہتا ہوں پچھلے 5 سالہ دور میں صوبہ خیبرپختونخوا میں اسی تحریک انصاف کی حکومت تھی اور انہوں نے ہی وہاں ایک مستقل احتساب کمیشن بنایا۔
مستقل احتساب کمیشن کے عمل سے جس وقت خود وہ لوگ اور ان کے وزراء جس وقت اس کے شکنجے میں آئے۔ آپ کو یاد ہو گا انہوں نے اس وقت اس کے اختیار کم کر دئیے تھے۔
اس کے اختیار کم کرنے بعد اس کے چیرمین نے کہا کہ اب یہ کمیشن بے معنی ہو گیا ہے اور وہ مستعفی ہو گیا۔
آج دوبارا خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت قائم ہونے کے بعد انہوں نے وہ کمیشن ہی ختم کر دیا۔
آج یہاں پر جس وقت پھر یہ لوگ نیب کے شکنجے میں آنے لگ گئے اور نیب کے تیور بتا رہے تھے اس کے اشارات بتا رہے تھے کہ اب ان کے لوگ شکنجے میں آئے گے اس کے بعد اس سیکنڈل کے ذریعے جو نیب کا ان لوگوں نے حشر کیا یہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے۔
لہذا کریڈیبلبٹی ختم ہو گئی ہے ان لوگوں کے کردار کی ،، نہ وہ اپنے صوبے کے احتسابی کمیشن جو ان کے اپنے صوبائی اختیار کے تحت تھا وہاں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور جب یہاں پھر شکنجے میں آ رہے ہیں تو پھر آپ نے ان کے اخلاقی وجود کا ہی خاتمہ کر دیا ہے۔
لہذا ان اداروں کو فوری طور پر منجمد کر دینا چاہیے آئینی ادارے پہلے سے موجود ہیں عدالتیں موجود ہیں۔ تفتیشی ادارے موجود ہیں ایف آئی اے موجود ہے اور ایجنسیاں موجود ہیں۔
جب سارا عمل آئین کے تحت ہو سکتا ہے تو پھر ایسا ادارہ کہ جس پر لوگوں کے تحفظات ہوں حتی کہ پورے جمہوری ماحول کے تحفظات ہوں اس کے اوپر۔۔
تو اس پر میری رائے یہی ہے کہ مزید ملک کی معیشت کو تباہ نہ کیا جائے اور پیسے کو ذرا گردش میں آنے دیں پیسے کو مارکیٹ میں آنے دیں۔ لوگ پیسہ باہر نکال رہے ہیں تمام دفاتر جام بیٹھے ہیں فائلیں جام پڑی ہیں اور ہم تو بس کرپشن کو ختم کر رہے ہیں اور کرپشن کو ختم کرتے کرتے پتا نہیں ملک کا کیا کر دیں وہ لوگ۔۔۔
اللّٰہ اس ملک کی حفاظت فرمائے
تو یہ میرے تاثرات ہیں کہ وقت کے ساتھ ثابت ہو گیا ہے کہ نیب کے ادارے کا تجربہ چلنے والا نہیں ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں