رحیم یار خان: قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی مقامی صحافیوں کے ساتھ گفتگو
29 نومبر 2024
صحافی: آج کا جو کرنٹ ایشو چلا ہوا ہے اسلام آباد ڈی چوک والا، وہ عوام کے ذہنوں پر نقش ہے کہ کس کی بات پہ اعتبار کریں حکومت کی بات پہ اعتبار کریں اور یا پی ٹی آئی والوں کی بات پر اعتبار کریں۔ سوال تھوڑا سا سینیریو جہاں تک آپ سمجھتے ہے وہ بتائیں قوم جاننا چاہتی ہے۔
مولانا صاحب: دیکھیے میں جو بات اپنے لیے پسند کروں گا وہ دوسروں کے لیے بھی پسند کروں گا اگر میں اپنے لیے جلسہ کرنا مظاہرہ کرنا احتجاج کرنا اس کو اپنا ایک قانونی اور آئینی حق سمجھتا ہوں تو میں دوسرے کے لیے بھی اس حق کو تسلیم کروں گا جو ہوا برا ہوا ہے اور میں نے شدید الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے اور یہ صرف ایک اسلام آباد کا مسئلہ نہیں ہے اس کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا اور میں تو حکومت کو جہاں مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی ان پالیسیوں پر نظر ثانی کرے وہاں اب پی ٹی آئی بذات خود ایک تنظیم ہے اس کا اپنا ایک ڈیکورم ہے وہ اس ڈیکورم میں اپنا فیصلہ کرتے ہیں یہ ان کا اختیار ہے ہمارا تو کسی دوسری پارٹی میں مداخلت کا نہ تو یہ رویہ رہا ہے لیکن یہ ضرور میں ایک کارکن کی حیثیت سے مشورہ دے سکتا ہوں کہ وہ بھی اپنے احتجاجی طرز عمل پر نظر ثانی کریں اس میں بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ تو باقی جو ہوا غلط ہوا ہے زیادتی ہوئی ہے اور کارکن بڑا مخلص ہوتا ہے اس کو جب قیادت جو مقصد سامنے دے دیتی ہے نصب العین دے دیتی ہے تو پھر آنکھیں بند کر کے وہ اس کے پیچھے چل پڑتا ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ قیادت کو ساری صورتحال پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ احتجاج مظاہرہ یہ ایک حق ہے لیکن اس کے لیے سٹریٹیجی بنانا اس کے لیے حکمت عملی بنانا وہ بھی ایک ضروری امر ہوا کرتا ہے ہم نے تقریباً خود عمران خان کی حکومت میں پورے ملک کے اندر تو 14 ملین مارچ کیے اس کے بعد سب سے بڑا مارچ ہمارا آزادی مارچ تھا لیکن کہیں پر کوئی صورتحال ہمیں پیش نہیں ہونے دی مکمل سکون رکھا اطمینان رکھا امن و امان رکھا، نہ کوئی شیشہ ٹوٹا نہ کوئی دکان جلی نہ اس میں کوئی پتہ گرا نہ کوئی پھل گرا نہ کوئی گملہ ٹوٹا۔ تو پورے نظم و ضبط کے ساتھ اور انتہائی احتیاط کے ساتھ کیونکہ ملک ہم سب کا ہے اور یہ صرف فوج کا نہیں ہے یہ حکومت کا نہیں ہوتا اور آج ان کی حکومت ہے کل کسی اور کی حکومت ہو گی۔ ملک ہم سب کا ہے جتنے بڑے بڑے آپ کو لوگ نظر آتے ہیں بڑے بڑے شخصیات بڑے بڑے مناصب پر فائز لوگ ان کی جیب میں جو شناختی کارڈ ہے یہ عام کارکن کے جیب میں بھی وہی شناختی کارڈ ہے جس شناختی کارڈ پر وہ پاکستانی ہے اس شناختی کارڈ پر یہ بھی پاکستانی ہے۔ ہم انسانی حق کی بنیاد پر پاکستان میں برابری کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں ذمہ داریاں تقسیم ضرور ہیں لیکن ذمہ داریوں کو دبانے کے لیے عقلمندی چاہیے سنجیدگی چاہیے وقار چاہیے اور اس کو ایک بہتر تدبیر کے ساتھ ہمیں اگے بڑھانا چاہیے۔
صحافی: مولانا صاحب حکومت آئے روز صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے، مقدمات دے رہی ہے، اسلام آباد میں مطیع اللہ خان کو گرفتار کر لیا اس طرح کے روزانہ مختلف شہروں میں صحافیوں کو اٹھاتی ہے جو آواز اٹھاتا ہے اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: صحافت کی آزادی میں آپ ہمارے پوری تاریخ کو جانتے ہیں ہم نے ہمیشہ صحافیوں کی اور صحافت کی آزادی کی بات کی ہے آج بھی میرا یہی نظریہ ہے کہ اگر کوئی صحافی حکومت پر تنقید کرتا ہے یا کوئی ایسی خبر جاری کرتا ہے کہ جو اس کے ذہن میں صحیح ہے تو یہ اس کا ایک فرض منصبی ہے ہاں یہ کہ اگر حقائق کے خلاف بات کرتا ہے وہ کوئی خاص اپنے ایک ذہنیت اس کے، اب اس پر اگر کوئی گورنمنٹ ایکشن لیتی ہے تو اس کا موقع محل بھی ہونا چاہیے بعض وقت بعض اوقات ٹائمنگ کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ جس ٹائمنگ پر آپ ایکشن لے رہے ہیں کیا وہ واقعی مبنی بر انصاف ہے یا نہیں، مبنی بر حقیقت ہے یا نہیں ہے اور یہ سارے وہ چیزیں ہیں جس کو ہمیں اپنے لیول پر دیکھنا چاہیے۔
صحافی: کے پی میں گورنر راج کے حوالے سے خبریں زیر گردش ہے اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے گورنر راج جمہوریت کے روح کے منافی ہے۔ گورنر راج کی حمایت تو نہیں کی جا سکتی ہاں آئین گنجائش دیتا ہے ایسے ناگزیر حالات میں کہ جہاں، تو میں گورنر راج کی حمایت تو نہیں کروں گا لیکن اتنا ضرور کہتا ہوں کہ بلوچستان میں اور کے پی میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ امن و امان تباہ و برباد ہو چکا ہے اور افرا تفری ہے انارکی ہے مسلح گروہ جو ہیں رٹ ان کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت کی کوئی رٹ موجود نہیں ہے۔ فسادات ہو رہے ہیں۔ خون ریزیاں ہو رہی ہیں اور شاید رحیم یار خان کے لوگوں کو اللہ تعالی اسی طرح ٹھنڈی زمین عطا کرتی رہے اور یہاں امن رہے اور خوشحالی رہے آپ وہاں پر ان حالات کا تصور نہیں کر سکتے کہ کیا صورتحال ہے تو حکومت تو نہیں ہے وہاں پر، اور گورنر راج بھی اس وقت وہاں کا حل نہیں ہے۔ یہ بھی کچھ نہ کر سکے گا۔
صحافی: پھر حل کیا ہے؟
مولانا صاحب: جی دوبارہ الیکشن کرائیں عوام کے منتخب نمائندے آئیں دھاندلی سے پاک ہوں جس کی بھی حکومت بنے وہ پھر مسائل کے لیے آگے بڑھتے ہیں یہاں تو ہر ایم این اے منسٹر پبلک کے سامنے جانے سے ڈرتا ہے کیونکہ اس کا نمائندہ نہیں ہے۔
صحافی: دینی مدارس کا بل جو پارلیمنٹ نے پاس کیا لیکن پریذیڈنٹ ان پر سائن نہیں کر رہے تو تھوڑا بتائیں گے کہ وہ بل کیا ہے اور صدر صاحب اس پر سائن کیوں نہیں کر رہے اور سائن نہیں ہوگا تو پھر آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
مولانا صاحب: دیکھیے مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کرنی پڑ رہی ہے کہ دینی مدارس کے رجسٹریشن کا مسئلہ ہے دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کا مسئلہ ہے جو ایک زمانے سے بند کر دیے گئے اور تماشہ یہ ہے کہ بیان دے مارتے ہیں کہ اتنے مدارس بغیر رجسٹریشن کے چل رہے ہیں بھئی بغیر رجسٹریشن کے چل نہیں رہے ان کی درخواستیں آپ کے پاس موجود ہیں آپ رجسٹریشن کرتے نہیں ہیں ان کی، آپ بیرونی اداروں کے زیر اثر ہیں جو اسلام کی حقیقی تصویر نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور مدارس چونکہ وہ اسلام کی ایک حقیقی تصویر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں قرآن و حدیث کی تشریحات سند کے ساتھ امت کے سامنے پیش کرتے ہیں یہ جو جدت پسندی کا ایک رواج چل پڑا ہے کہ ہر نئی بات کہے تو لوگ تمہیں سمجھتے ہے کہ واقعی شاید اس آدمی کو وحی ہو گئی اس سے پہلے شائد کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ تو یہ چیزیں جو ہیں یہ گمراہی کی طرف لے جانے کے لیے ہے اور مدارس کا خاتمہ مغرب اور امریکہ کی ضرورت ہے ہمارے مسلمانوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمان مدارس کے ساتھ کھڑے ہیں تو اس بنیاد پر الیکشن سے پہلے جب میاں نواز شریف صاحب کی حکومت بنی تو ہم نے اس وقت ان کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ اس مسئلے کو حل کریں۔ اس پر ہم نے گفتگو کی مذاکرات کیے۔ پی ڈی ایم کے لیڈر شپ کے درمیان مذاکرات ہوئے یعنی حکومت میں جو اس وقت پیپلز پارٹی بھی تھی اس میں تمام پارٹیاں اور ایک اتفاق رائے سب کی موجودگی میں ہوا۔ اسمبلی میں آیا پیش ہو گیا اس کے باوجود وہ رک گیا اور نہیں پاس کیا جا سکا۔ کوئی بیچ میں آگیا ہوگا۔ اب جب دوبارہ یہ 26ویں ترمیم کا ماحول بنا تو ہم نے ان سے کہا کہ ایک بل ہے جس پر اتفاق رائے ہو چکا ہے اس کو بھی پاس کر دیں۔ تو پاس کر دیا، سینٹ سے پاس ہو گیا، قومی اسمبلی سے پاس ہو گیا پوری اتفاق رائے کے ساتھ پاس ہوا اور 26ویں آئینی ترمیم پر بھی دستخط ہو گئے اور اس ترمیم پر اس ایکٹ پر جو ہے دستخط نہیں ہو رہا ہے اس کے بعد حکومت جو ہے وہ کہیں اور ایکٹ لاچکی جو 26ویں ترمیم کی روح کیوں منافی تھی جس سے 26ویں ترمیم کی اتنی بڑی پریکٹس کی نفی ہوتی ہے لیکن اس پر تو فوراً دستخط ہو گئے جو متنازعہ ہیں جو پیپلز پارٹی کی نظر میں بھی ٹھیک نہیں ہے اور جس بل کے اوپر پانچ گھنٹے ہم نے بلاول ہاؤس کراچی میں مذاکرات کیں اور اگلے دن ہم نے پانچ گھنٹے میاں نواز شریف صاحب ادھر لاہور میں مذاکرات کیے اور پھر اس سے اگلے میں نے پی ٹی آئی میں سارے صورتحال کے بارے آگاہ کیا، یہ بل موجود تھا اس پر اتفاق رائے ہوا تو جس بل کے اوپر پیپلز پارٹی نے مسلسل اتفاق رائے کیا صرف وہی رہ گیا ہے کہ جس پر صدر صاحب کہتے ہیں کہ نہیں اس پر سوالات ہے، اعتراضات پیدا ہو سکتے ہیں یہ بدنیتی ہے اور ہم اس کو سنجیدہ لیں گے اس پر کوئی مہلت ہم نہیں دے سکیں گے ہم چونکہ اس حالات میں ملک متحمل نہیں ہے کہ ہم بڑے اضطراب کی طرف جائیں لیکن اگر بات نہیں بنتی تو پھر پورے ملک کے مدارس، پورے ملک کی جمعیت علماء، پورے ملک کی تنظیمات یہ سب اکٹھے ہو کر اپنا ایک احتجاج چاہے پوری قوت کے ساتھ ہو اسلام آباد جانے کے لیے تو ہم نے عندیہ دے دیا ہے اور اس کی حکمت عملی آنے والے حالات پر دیکھتے ہیں کہ حکومت اپنا رویہ تبدیل کرتی ہے یا نہیں۔ تو ہم اس کے لیے بھی ہم نے ہر بات پر، ہم معتدل لوگ ہیں۔ ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ بات چیت پہ یقین رکھتے ہیں۔ دلیل پہ یقین رکھتے ہیں۔ جب بات چیت بھی ہو گئی ہمارے دلائل بھی سنے گئے ان کے دلائل بھی سنے گئے ایک اتفاق رائے پر بھی ہم پہنچ گئے جب ایک دفعہ معاملہ طے ہو گیا یہ بھی ہم ان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ جب معاملہ طے ہو جاتا ہے تو پھر ہم پیچھے ہٹنے والے لوگ نہیں ہیں۔
صحافی: ایک تو پاڑا چنار میں دو سو سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں ایک تو یہ معاملہ، دوسرا اب پی ٹی آئی نے جا کر ڈی چوک پر جو ہے وہ اپنا جلسہ کیا ہے وہاں پر پروٹیسٹر جو تھے وہ جو مظاہرین تھے ان میں سے ایک نماز ادا کر رہا تھا دعا مانگ رہا تھا کنٹینر پر بیٹھ کر، اس جوان کو گرایا گیا نیچے، تو کیا کسی بھی جنگ میں بھی اسی طرح اجازت نہیں ہے نماز کی ادائیگی کہ وہ انہیں مکمل کرنے دیتے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: سب سے بڑا سوال تو یہی ہے نا کہ طاقت کے استعمال ہے پھر نہ دین کا لحاظ رہتا ہے نا اخلاق کا لحاظ رہتا ہے اور جہاں تک ہے آپ نے کرم ایجنسی کی بات کی ہے یقیناً یہ بہت ہی تشویش ناک صورتحال ہے اور میرے پاس شیعہ مکتب فکر کے اکابرین بھی آئے میرے پاس سنی مکتبہ فکر کے وہاں کے اکابرین بھی آئے ہیں۔ متعلقہ دوسرے لوگ بھی آئے ہیں یہ کوئی میرا خیال میں کوئی 20 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا کہ یہ جنگیں وہاں پر جاری ہیں اور ابھی ہم نے ایک میٹنگ کی تھی جس میں ہم ایک جرگہ تشکیل دینا چاہتے تھے اس کے لیے طریقے کار بنانا چاہتے تھے لیکن ابھی تو ہم نے بسم اللہ ہی کی تھی کہ اگلے روز پھر ایسے فسادات ہو گئے کہ ابھی اسی کا سلسلہ چل رہا ہے تو یہی وہ چیز ہے کہ جس کی طرف شاید جس تشویش میں میں یہاں آپ کے سامنے مبتلا ہوں اور مجھے تشویش ہے شاید میرے صوبے کی حکومت کو اس کا علم بھی نہیں ہے۔ اس سے لا تعلق ہو گئی۔ تو اس طریقے سے پھر اس کا معنی یہی ہے کہ یہ حکومتیں جو ہیں وہ اس طرح کے شورش اور اس طرح کے جو جو صورتحال ہوتی ہے اس سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔
صحافی: حکومت کے ارکان جو آپ کے پاس تین ٹائم آتے رہے جب 26ویں آئینی ترمیم جو ہے وہ پاس کروانی تھی آپ کے گھر کے جو ہے وہ آج چکر لگاتے رہے ہیں تو آپ پر جو صورتحال یہ کہی جا رہی ہے کہ حکومت خیبر پختون خواہ میں گورنر راج نافذ کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے خیبرپختونخواہ کو ایک الگ ریاست بنانے کی بھی باتیں کی جا رہی ہے اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں اس طرح کے سوالات نہ کیا کریں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ ایسے ایسے سوالات کیا کرو جو کم از کم پبلک کی صحیح رہنمائی کریں۔
صحافی: موجودہ صورتحال میں آپ اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ جرگہ بلانا چاہتے ہیں؟
مولانا صاحب: ہم سب کچھ کرنا چاہتے ہیں ملک کے قیام امن کے لیے استحکام کے لیے لیکن ماحول چاہیے اس کے لیے، وہ ماحول چاہیے جس میں آپ کردار ادا کر سکیں۔ تو میں نے آپ سے ابھی بھی عرض کیا کہ ہم نے شروع آغاز بھی کر لیا تھا لیکن اب ماحول نہیں بن رہا کہ جس میں ہم موثر پیش رفت کر سکیں۔ لیکن ان شاءاللہ جب میں اسلام آباد پہنچوں گا پشاور جاؤں گا تو پھر دوبارہ ہم اس حوالے سے اپنی کوششوں کا آغاز کریں گے، آپ کی دعائیں بھی چاہیے ہوں گی تاکہ ہم اس میں کامیاب ہو سکے۔
صحافی: حضرت ایک صرف یہ بتا دیں اگر قوم آپ سے پوچھنا چاہے کہ اس وقت موجودہ صورتحال میں کون سا اپشن بہتر ہے قومی حکومت، صدارتی نظام یا دوبارہ الیکشن تو آپ کی نظر میں کیا؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں جمعیت علماء اسلام کی حکومت سب سے بہتر ہوگی۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز، ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں