ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرس مدارس میں کو محکمہ تعلیم کے ماتحت کرنے اور نصاب میں تبدیلی لانے کے بارے میں قائد جمیعت مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس
29 اپریل 2019بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آج ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنی طویل پریس کانفرنس میں بہت سے ایسی موضوعات کو چھیڑا ہے کہ ہماری نظر میں یہ اس کا جاب ہی نہیں ہے
جو حکومتی معاملات ہیں حکومتی معاملات اس کو فوج کا نمائندہ پریس کانفرنس میں پیش کرے۔
ظاہر ہے ہم جو پہلے دن سے یہ بات کررہے ہیں اصل حکومت فوج کی ہے اور جس کو منتخب حکومت کہا جاتا ہے وہ واقعتا ایک نمائشی اور جعلی قسم کی چیز ہے جس کو مملکتی مسائل کے حوالے سے نہ تو شائد اجازت ہے اور نہ ہی ان کو اس قابل سمجھا گیا کہ وہ حکومتی معاملات کے بارے میں حکومت کا موقف پیش کرے۔ لگتا ہے فیصلوں کا محور اور مصدر پارلیمنٹ نہیں ہے، حکومت نہیں ہے بلکہ جی ایچ کیو ہے۔
آج جو موضوعات چھیڑے گئے ہیں مجھے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد آچکا ہے اور ان سے قرضے لینے کے لئے اپنے ہی ملک کے تعلیمی اداروں اور اپنے ہی ملک کے خدمت گزاروں کے خلاف انہوں نے تیشہ اٹھا لیا ہے
تاکہ اگر ہم دینی مدارس کے خلاف اپنے عزائم کا اظہار کر سکے تو شائد ہمیں ہمارے کشکول میں آئی ایم ایف کے قرضے کے کچھ سکے آپڑے اتنی بھونڈی کوشش ہے قرضے لینے کے لئے، اس قدر گھٹیا انداز اختیار کرنا ، میں نہیں سمجھتا کہ بائیس کروڑ قوم کے عزت و ناموس سے کسی طرح کا کوئی مناسبت رکھتا ہو ۔
مدارس کے بارے میں کئی باتیں کی گئی، یہ بڑی ہی غلط بات ہے کہ دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت لایا جا رہا ہے ایسی نہ آج تک کوئی گفتگو ہوئی ہے نہ اس حوالے سے حکومت اور مدارس کے درمیان مذاکرات میں کوئی ایسی بات طے ہوئی ہے۔
مسئلہ صرف یہ تھا کہ مدارس کی جو رجسٹریشن ہے اور جو آج تک 1860 کے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ان کی رجسٹریشن ہوا کرتیں تھیں
لہذا اگر وہ مناسب نہیں ہے آج کے حالات میں، اور محکمہ تعلیم کے تحت ان کی رجسٹریشن ہوتی ہو اس کی تفصیل کیا ہیں وہ ابھی طے کرنے ہیں اس لئے اصول پر اتفاق ہوا تھا کہ اگر اس کی رجسٹریشن ہونی ہے تو محکمہ تعلیم کے حوالے سے ایک قانون لایا جا سکتا ہے رجسٹریشن کا، جس طرح دوسرے تعلیمی ادارے رجسٹر ہوتے ہیں، مدارس بھی اس حوالے سے۔۔۔۔
یہ ایک رضامندی کے اصول پر ، اس کی تفصیل کیا ہے اس پر تو ابھی تک بات چیت چل رہی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اس کو مدارس کو محکمہ تعلیم کے تحت لایا جائے گا پھر اس کی تصدیق یہ کہ نصاب ہم طے کریں گے آپ کون ہوتے ہیں
دینی مدارس کا نصاب طے کرنے والے تمہارا تو اپنا نصاب نہیں ہے تم تو آج بھی امریکہ کی کتابیں یہاں کورس میں پڑھاتے ہو
یورپ کی کتابیں پڑھاتے ہو
آپ تو ملک سے باہر کی کتابیں آج تک پڑھا رہے ہو
آپ کے اے لیول اور او لیول اور بڑے بڑے طبقے کے جو سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں یہاں پر قائم ہیں
اس میں تو آپ میڈ ان پاکستان تعلیم دے ہی نہیں رہے ہیں
آپ خود کو تو اس قابل بنائے کہ آپ ملک کے تمام نوجوانوں کو یکساں طور پر میڈ ان پاکستان تعلیم دلا سکیں۔
جبکہ ہمارے مدارس وہ تو اپنے ہی ملک میں اور اس برصغیر میں جو انہوں نے قرآن وسنت کے حوالے سے نظام طے کیا تھا۔
اسی تک محدود ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی برقرار ہے۔
ایک تو اس حوالے سے انہوں نے جو تاثر دیا ہے انتہائی غلط دیا ہے
اور ہم ان کے اس تاثر کو تسلیم نہیں کرتے
یہ مدارس کو اور ان کی آزادی کو سلب کرنے کی ایک کوشش ہے۔
مدارس انگریز کے رویئے سے معرض وجود میں آئے۔
مدارس ، جب لارڈ میکالے نے ایک نصاب طے کر پہلی مرتبہ علی گڑھ مدرسے میں رائج کیا
جس سے قرآن کے علوم ، حدیث کے علوم ، فقہ کے علوم ، فارسی کے علوم سب نکال دئیے تھے
تو ان علوم کو تحفظ دینے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر میں مدرسہ بنا۔
اس مدرسہ کے ان علوم کے تحفظ کے کردار کو انگریز بھی ختم کرنا چاہتا۔
اور آج پاکستان کے 70 سال گزرنے کے بعد امریکہ اور مغربی قوتیں دینی علوم کے تحفظ کو ختم کرنے کے لئے مدارس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
تا کہ اس کے حوالے سے مدرسہ کا کردار ختم کر دیا جائے
یہ بات واضح ہونی چاہیے
کہ یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے ایک پریشر ہے
اور ہماری امداد اس سے مشروط کی جا رہی ہے
لہذا یہ بات واضح ہونی چاہیے
کہ ان دینی مدارس کو تحفظ دینے کے لئے اور ان کی بقا کے لئے ہم نے جو جنگ انگریز کے ساتھ لڑی تھی اسی انداز سے ان شاءاللہ ہم یہ جنگ پاکستان کی سرزمین پر بھی لڑنا جانتے ہیں
یہ بات کہنا کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی ,
کس چیز میں انتہا پسندی ہے ؟
ایک بات کرو کہ مدارس میں انتہا پسندی ہے یا نصاب میں انتہا پسندی ہے
ہم نے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر دینی مدارس کا نصاب طے کیا ہے
ہم نے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر رجسٹریشن کی شرائط طے کی ہیں
ہم نے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مدارس کے مالیاتی سسٹم کو طے کیا ہے
اس کا مالیاتی سسٹم ، اس کا تنظیمی ڈھانچہ ، اس کا نصاب ان پر مشتمل تمام معاملات 2005 میں حکومت کے ساتھ ان پر ہمارا معاہدہ ہوا تھا
اور پھر اس کے بعد کچھ اور جزئیات سامنے آئی تو پھر 2010 میں پھر معاہدہ ہوا
جب یہ سب چیزیں طے ہیں آپ کس طرح میرے نصاب پر یہ الزام لگا سکتے ہیں
کہ اس میں انتہا پسندی ہے اور یہ انتہا پسندی کے ۔۔۔۔
اور یہ پھر کہ 100 مدارس ایسے ہیں کہ جہاں انتہا پسندانہ ۔۔۔
اس کا معنی تو یہ ہے کہ پھر نصاب میں تو کوئی کمزوری نہیں لیکن کچھ مدارس ہیں
تو پھر اگر آپ کہتے ہیں کہ آج 30 ہزار مدارس ہیں پاکستان کے اندر
تو آپ نے صرف 100 مدارس کے لئے ، ان پہ مبہم تذکرہ کر کے 30 ہزار مدراس کے کردار کو آپ خراب کر رہے ہیں.
پھر واضح کرو وہ 100 مدارس کون سے ہیں؟
ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہم اس ملک میں اعتدال کا نظام لانا چاہتے ہیں
قرآن وسنت کا نظام اعتدال کی روش پر یقین رکھتا ہے۔
لیکن حکومت کے جو عزائم ہیں وہ عزائم مدارس اور اس کے دینی علوم کے خلاف انتہا پسندانہ ہیں۔
آپ کو اپنی روش تبدیل کرنی ہو گی
اپنی روش میں اعتدال پیدا کرو
ہم سے آپ یہ تقاضا کریں کہ آپ انتہا پسند ہیں
قطعاً انتہا پسند نہیں ہیں
ہم بڑے سلجھے ہوئے اور سنجیدہ لوگ ہیں۔
اور پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا وزنی کردار ہمارے علماء کا، مدارس کا اور دینی جماعتوں کا موجود ہے۔
انتہا پسندی کا تعلق مدارس سے نہیں ہے
یہ ایک معاشرتی مرض ہے یہ سوسائٹی کی مرض ہے۔
ہم نے اپنی سوسائٹی سے اگر انتہا پسندی کو نکالنا ہے۔
تو پھر اس بات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ
جس ملک میں ریاست کی طرف سے زیادتیاں ہوتی رہی ہیں اور اس کا ناروا اور انتہا پسندانہ رویہ ہر دور میں سامنے آتا رہا ہے۔
اس کے رد عمل میں معاشرے کے اندر بے اطمینانی اور اضطراب کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔
لہذا اپنے ان ناروا رویوں جو تم نے 70 سال اس ملک میں برقرار رکھے ہیں۔
آپ اپنے اس ظالمانہ اور مجرمانہ رویوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سارا ملبہ مدارس پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
یہ نہیں چلے گا اور نہ ہی اس طریقے سے کوئی بات اب ہمارے لئے قابل قبول ہو گی۔
میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے بالخصوص اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔
ہمیں مذاکرات میں الجھا کر وعدہ خلافیاں کی جاتی ہیں۔
پچھلے اجلاسوں میں یہ طے کر لیا گیا تھا۔
کہ کسی قسم کا کوئی فیصلہ یا اس حوالے سے کوئی پیش رفت ہم مدارس کی مشاورت کے بغیر نہیں کریں گے۔
آج کس طرح انہوں نے یکطرفہ طور پر انہوں نے یہ پریس کانفرنس کر کے حکومت کا یکطرفہ فیصلہ دنیا کو سنا دیا ہے۔
چونکہ یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور میں اپیل کروں گا حکومت سے احتجاجاً اب مزید بات چیت کرنا بند کر دیا جائے۔
ان سے اب ملاقاتیں پھر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اب مدارس اعتماد نہیں کریں گے۔
میں چاہتا ہوں کہ قیادت بات کرے تو نیچے مدارس ان پر اعتماد بھی کریں
مدارس تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں دور دراز دیہاتوں میں ۔۔۔
غریب مدرسے اور غریب مدرسے کا مہتمم اور مدرس وہاں کی مقامی انتظامیہ جا جا کر ان کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتی ہے
ان کو تنگ کرتی ہے
اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس طریقے سے مدارس کو مقامی سطح پر اپنے دباؤ میں لا کر ہم ان کو مجبور کر دیں گے
لیکن ایسا نہیں ہو گا
آپ اپنے ناجائز اور ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمیں کسی جابرانہ فیصلے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
مدارس تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں
یہ تکلیفیں آج سے نہیں ، ہم فرنگی دور سے برداشت کر رہے ہیں
لیکن مدارس اپنا وجود رکھتے ہیں اور اپنا نصاب رکھتے ہیں۔
اور اس نصاب میں ہم خودمختار ہیں اور ہم کسی بھی طریقے سے مزید حکومت کے ساتھ اس حوالے سے مذاکرات کے لئے تیار نہیں
تو یہ گذارشات تھی میری اور اس حوالے سے میں اپنی گفتگو آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں۔
آج کی پریس کانفرنس جو آئی ایس پی آر نے کی ہے اس پر ہمارا ردعمل واضح طور پر سامنے آیا ہے۔
صحافیوں کے سوالات کے جوابات
صحافی:- مولانا صاحب ہمارے مدارس 70 سال سے مسلکی مسئلوں میں پھنسے ہوئے ہیں میں معذرت کے ساتھ کہتا ہوں
ہمارے مدارس دیوبندی پیدا کر رہے ہیں بریلوی پیدا کر رہے ہیں سنی پیدا کر رہے ہیں اہلحدیث پیدا کر رہے ہیں۔
کوئی مدرسہ ایسا نہیں ہے جہاں پہ ایسا نظام ہو کہ ایک طالب علم جو دیوبندی میں پڑھا ہو تو بریلوی میں جا کر قابل قبول ہو۔
مولانا فضل الرحمٰن:- بھائی جان میں جانتا ہوں آپ سکول کالج کے پڑھے ہوئے ہیں میں آپ کو جانتا ہوں آپ کا مسلک کیا ہے آپ اس مسلک کے بغیر جی رہے ہیں؟
صحافی:- میں گذارش کر رہا ہوں ایک سوال ہے اس سارے نظام کو اگر آپ لانے کے بجائے اٹھا کر باہر پھینکیں گے۔
محکمہ تعلیم ایک حکومت کا ادراہ ہے وہ اگر آپ کو تعلیم کے حوالے سے تجویز دیتا ہے ہو سکتا ہے کچھ حصہ قابل قبول نہ ہو وہ الگ بات ہے لیکن آپ اس کا خیر مقدم کیوں نہیں کرتے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ہم مسترد کرتے ہیں ہم ان جھانسوں میں آنے کے لئے تیار نہیں۔
سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ شیعہ تحلیل ہو جائے گا شیعہ رہے گا
اگر آپ کہتے ہیں سنی تحلیل ہو جائے گا سنی رہے گا۔
اگر آپ کہتے ہیں حنفی تحلیل ہو جائے گا حنفی رہے گا۔
اگر آپ کہتے ہیں جنبلی تحلیل ہو جائے گا حنبلی رہے گا۔
شافعی رہے گا یہ تمام مسالک اور یہ اختلاف رائے رہے گے۔
یہ علمی اختلاف ہیں لیکن علمی اختلاف برا نہیں ، علمی حوالے سے ایک شناخت بری نہیں اس کے اندر نفرت اور تعصب بری چیز ہے لہذا ہم نے ہمیشہ تعصب کو ختم کیا ہے۔
ہم نے دیوبندی بریلوی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے ہم نے شیعہ سنی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے۔ ہم نے تعصب پھیلانے والی جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے لہذا بنیادی چیز وہ معاشرے سے تعصب اور نفرت کو نکالنا ہے۔
یہ جو علمی اور فکری اختلاف ہیں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
"میں نے تو اسی لئے آپ کو پیدا کیا تمہارے اندر اختلاف تو ہو گا"
صحافی:- مولانا صاحب آپ دینی مدارس کے حوالے سے جو بات کر رہے ہیں
ماشاءاللہ الحمدللہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
باقی سیاسی جماعتوں کے راہنما بھی مسلمان ہیں اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔
پاکستان کی اکثریتی مسلمان آبادی کا مسئلہ ، یہ مدارس کا مسئلہ کیا اس پر بھی آپ دوسرے سیاسی راہنماؤں سے بھی بات کریں گے کیونکہ وہ بھی مسلمان ہیں کیا آپ اس پر آگے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن:- کوئی قباحت نہیں ہے ان سے ہم بات کر سکتے ہیں۔
ان کو ہم اپنا موقف بتا سکتے ہیں کہ جی یہ ہمارا مسئلہ ہے۔
ہم بھی پاکستانی ہیں آپ بھی پاکستانی ہیں آپ سیاسی فورم پر بات کر سکتے ہیں ہمارا یہ موقف ہے اور اس پر اگر آپ کو کوئی اعتراض ہو تو آپ ہم سے پوچھ سکتے ہیں۔
صحافی:- مولانا صاحب جس طرح کے حالات چل رہے ہیں اور عام آدمی بھی پریشان ہے۔
آپ نے خلوص دل سے سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش بھی کی۔
لاہور بھی گئے زرداری صاحب کے پاس بھی گئے۔
کہاں پر معاملہ اٹکا ہوا ہے کہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو رہے۔
مولانا فضل الرحمٰن:- حضرت ہم نے پہلے بھی یہ بات کہی ہے
کہ سیاسی طور پر اگر کوئی پارٹی ہماری تحریک میں شامل ہوتی ہے
ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں
اگر نہیں تو ہم اس سے آگے نکل چکے ہیں۔
اب ہم نے 12 بارہ ملین مارچ پورے ملک میں کئے ہیں۔
کل ہم مانسہرہ سے آئے ہیں مانسہرہ کی سرزمین پر تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ، اس سے پہلے وہاں پر اتنی مخلوق جمع نہیں ہوئی۔
لہذا ہم نکل چکے ہیں ہم میدان میں ہیں ہم میدان جنگ میں ہیں۔
اور ہم پاکستان کے اندر ان ناپاک ایجنڈوں کا مقابلہ کرنے میدان میں نکل چکے ہیں۔
اگر کوئی آتا ہے تو سر آنکھوں پر ، نہیں آتا تو میں ان کی طرف سے کوئی وضاحتیں پیش نہیں کرو گا۔
صحافی:- مولانا صاحب آصف علی زرداری صاحب نے کہا ہے کہ ہم مولانا کی تحریک میں شامل ہیں۔
تو دوبارا کوئی رابطہ ، کوئی ملاقات ، کوئی تحریک رمضان کے بعد چلائے گے
حتمی تاریخ کیا ہے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بھی ساتھ لیں گے
مولانا فضل الرحمٰن:- اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ ہم ان کے ساتھ شامل ہونے کو تیار ہیں میں خیر مقدم کرتا ہوں۔
صحافی:- آپ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفننگ کا تذکرہ کیا ہے۔
اس میں انہوں نے جو پی ٹی ایم کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں کچھ سوالات سامنے رکھے ہیں اس پر آپ کیا کہیں گے۔ کیا آپ ان کے موقف کی تائید کرتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن:- دیکھئے پی ٹی ایم خود ایک موجود تنظیم ہے۔
اپنے حوالے سے جو بات انہوں نے کی ہے اس کا جواب وہ خود دینے کی پوزیشن میں ہے۔
لہذا میں اس حوالے سے کیوں کوئی تبصرہ کروں ؟
اور جہاں تک بات ہے کہ وہ پشتون کی بات کرتے ہیں۔
اس کے حقوق کی بات کرتے ہیں یقیناً مظالم ہوئے ہیں۔
لیکن میں یہ کہوں گا کہ طالبان تو اسلام کی بات کرتے تھے۔ وہ تو کوئی قوم پرستی کی بات نہیں کرتے تھے۔
لیکن اسلام کی بات کرنا بھی اگر اس کی روش اس طرح ہو جائے کہ ریاست سے تصادم ہو
تو ہم نے تو اس کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی اور اس کے جواب میں ہم نے نقصانات اٹھائے ہیں۔
یہاں پر بھی ہم کسی ایسی موومنٹ کا حصہ نہیں ہیں۔
اور نہ ہی ہم اس کے ساتھ کوئی ہمدردی رکھتے ہیں اگر اس کا تصادم ریاست کے ساتھ آتا ہو۔
اور یہ فیصلہ بھی ریاست نے کرنا ہوتا ہے کہ کوئی تنظیم جو ہے وہ ریاست سے متصادم ہے یا نہیں ہے۔
لیکن یہ فیصلے اب انہوں نے کرنے ہیں
ہم ریاست کے ساتھ پہلے بھی کھڑے ہیں
لیکن اگر ریاست غلط فیصلے کرتی ہیں تو ریاست کے غلط فیصلوں پر بھی ہم نے تردید کی اور کر رہے ہیں۔
اور جیسا کہ آج میں کہہ رہا ہوں کہ ریاست نے غلط بیان دیا ہے۔
ریاست کو یہ حق ہی نہیں ہے کہ وہ حکومتی ذمہ داریوں کو اپنے قبضہ میں لے۔
صحافی:- مولانا صاحب آج جو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان دیا
اس کے خلاف تمام مدارس اکٹھے ہو کر کوئی احتجاج کریں گے۔
کوئی ایسا پلان آپ لوگوں نے تیار کیا ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن:- ابھی تو انہوں نے بات کی ہے اور میں اور آپ ملے ہیں
اس طرح میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے میٹنگ بلا لی ہے
اور میں نے آئندہ کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کر لیا ہے۔
اتنا میں نے کہہ دیا ہے کہ مدارس کے تحفظ کے لئے ہم ایسا لڑیں گے جیسا ہم انگریز سے لڑے تھے۔
ایک تبصرہ شائع کریں