جماعت کو نقصان کس نے پہنچایا؟ قسط نمبر 06، عوامی ربط کا فقدان اور کارکن کی بے توقیری
کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کارکن پارٹی کا ایک قیمتی سرمایہ ہوتا ہے جس کے بغیر پارٹی کا وجود ناممکن ہوتا ہے، یہ کارکن ہی ہوتا ہے جو نہ گرمی دیکھتا ہے نہ سردی، نہ دن نہ ہی رات، نہ بھوک نہ ہی پیاس بس پارٹی کی ترقی اور اُسے منصب اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
ایک عوامی لیڈر کی پہچان یہی ہے کہ وہ ہر وقت اپنے کارکن سے ربط میں رہتا ہے چاہے الیکشن کا دور ہو نہ ہو لیکن تواتر کے ساتھ اُس کی خبر گیری لیتا ہے، ہر غم و خوشی کے موقع پر اُس کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے، اُن کے مسائل کے ادراک کے لیے کوشاں رہتا ہے، اپنے کارکن کو ہر وقت مختلف پروگرامز کے ذریعے متحرک رکھتا ہے۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے لیڈرز کا فقدان ہے، مقامی سطح کے نمائندوں کو کارکن صرف الیکشن کے دن یا پھر جلسہ جلوس کے وقت ہی یاد آجاتے ہیں اور اُن دنوں غم و خوشی کے لمحات پر اِن حضرات کا تانتا بندھا رہتا ہے اور الیکشن کے بعد ایک دفعہ پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں، اِن حضرات کے پاس پشاور اسلام آباد میں مبارکبادیں دینے، قیمتی تحائف دینے کے لیے پیسہ اور وقت تو ہوتا ہے لیکن ایک عام ورکر کے مسائل سننے اور اُن کی داد رسی کے لیے پیسہ تو دور کی بات وقت بھی نہیں ہوتا، زیادہ تر کارکن بس اِس بات پہ خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے مشران غم و خوشی کے موقع پر اُن کے ہاں حاضری لگائیں، اِن سے جہاں کارکن کو عزت ملتی ہے وہاں مقامی افراد بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ پھر متعلقہ پارٹی کے کارکنوں سے معلومات بھی کرتے ہیں اور اکثر متاثر ہوکر شمولیت کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
علماء کرام کی قدر و احترام اپنی جگہ اُس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر آپ سیاسی میدان کے شہسوار ہے تو پھر آپ کو اپنے عوام میں رہنا ہوگا، اُن کو وقت دینا ہوگا، اُن کے مسائل کے حل کے لیے ہر فورم پر لڑنا ہوگا، یہ نہیں کہ بھئی میں تو عالم ہو لہٰذا آپ میرے در پر تشریف لائیں، میرے پاؤں بھی دبائیں، سر بھی مالش کریں اور ہاتھ میں بھی کچھ تھیلی وغیرہ ساتھ لے کر آئے۔
پچھلے پندرہ سولہ سالوں سے جمعیت کے کارکن محرومیوں کا سامنا کررہے ہیں، اُس کے باوجود یہی کارکن پارٹی کے لیے مال، جان اور وقت لگا رہے ہیں یہ اِس کارکن کی پارٹی اور اپنے بڑوں سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، بڑوں کو بھی چاہیے کہ ایسے کارکن کی قدر کرے اور انہیں اپنے سینے سے لگائیں۔
آج کل کے دور میں کامیاب لیڈر وہی ہے جو سب سے زیادہ عوام کے نزدیک ہو، جنہیں عوامی مسائل کا ادراک ہو، جو عوام میں گھل مل کر اُن کے نفسیات سے واقف ہو، اب سب کو سوچنا چاہیے کہ وہ اِس وقت کہاں کھڑے ہیں، آیا عوامی لیڈر کی مندرجہ بالا خوبیاں اُن میں ہے کہ نہیں، اگر ہے تو ٹھیک لیکن اگر نہیں ہے تو پھر اُن کو بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ عام عوام گھاس نہیں کھاتی۔ (جاری ہے)
#سہیل_سہراب ✍️
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں