جماعت کو نقصان کس نے پہنچایا؟ قسط نمبر 04، چاپلوسی چمچہ گیری

جماعت کو نقصان کس نے پہنچایا؟ قسط نمبر 04، چاپلوسی چمچہ گیری

ایک وقت تھا جب سیاسی جماعتوں میں سینئر اور وفادار کارکنان کو اہمیت دی جاتی تھی، ایک وقت تھا جب نظریاتی کارکنان کی بڑی تعداد اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے مگر اب دور بدل چکا ہے، اب سیاسی چمچوں کا زمانہ آگیا ہے اور جو چمچہ زیادہ شور کرتا ہے یعنی زیادہ تعریفیں کرتا ہے، وہی آج کی سیاست میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔

آج ملک میں نظریاتی سیاسی کارکن تو موجود ہیں مگر سیاسی جماعتوں میں اُن کی حیثیت اب کچھ بھی نہیں، موجودہ دور میں وہی لوگ ہی سیاست کرسکتے ہیں جو چمچہ گیری میں مہارت رکھتے ہوں۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی سیاسی چمچے اپنے اپنے لیڈر کو خوش کرنے کیلئے چمچہ گیری میں مصروف ہے، کچھ تو اپنے بڑوں کی شان میں اتنی لمبی لمبی چھوڑ دیتے ہیں کہ پڑھو تو ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سیاسی کارکنان نے چمچہ گیری کا راستہ کیوں اپنایا؟ شاید اِس لئے کہ آج کے سیاسی رہنماء بھی اُن سیاسی کارکنان کو ترجیح دیتے ہیں جو اُن کی تعریفیں کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی چمچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور نظریاتی کارکن ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ نظریاتی سیاست کا خاتمہ کیسے ہوا؟ ایک وقت تھا جب سیاسی جماعتوں میں کارکنان کو بولنے کی اجازت تھی، سیاسی کارکنان اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے، پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے قائدین سے بھی اختلاف کرتے تھے اور ایسے ہی سیاسی کارکنان کو نظریاتی کارکنان کہا جاتا ہے جو اپنے فائدے یا نقصان کا نہیں سوچتے بلکہ اپنی قیادت اور اپنی سیاسی جماعت کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں، لیکن افسوس کہ آج کل ایسے کارکنوں کو دیوار سے لگایا جاتا ہے، انہیں نیچا دکھانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں، چمچہ گیروں کے ذریعے اُن کی بے توقیری کی جاتی ہے۔

موجودہ دور میں اکابرین کی جماعت کو دیکھا جائے تو ہر جگہ آپ کو ویسے ہی چمچے نظر آئیں گے، یہ لوگ انتہائی نکمے اور کام چور ہوتے ہیں بس اِن کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ چمچہ گیری اور چاپلوسی کے ماہر ہوتے ہیں جو ہر وقت بڑوں کے کان بھرتے رہتے ہیں اور اللہ معاف کرے آج کل بڑے بھی ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہر وقت اِن کی مدح سرائی کرتے ہیں، اُن کے غلط کاموں پر اندھے گونگے بہرے بن جاتے ہیں، یہ لوگ چوں کہ مفاد پرست ہوتے ہیں اِس لیے چمچہ گیری اور چاپلوسی میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے، انتہائی ڈھیٹ ہوتے ہیں، یہ بہ مثل آلو کے ہوتے ہیں جو ہر سالن میں فٹ ہوتے ہیں۔

سیاسی لیڈروں کے گرد منڈلانے والے چمچوں کی وجہ سے آج کل نظریاتی سیاست کی جگہ چمچہ گیری سیاست نے لے لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل آپ کو ہر پارٹی میں ایسے چمچوں کی وافر مقدار ملے گی، یہی سیاسی لیڈران اپنی مطلب کی بات کہلوانے کے لیے انہی چمچوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، یہ چمچے ہمیشہ اِن لیڈروں کے احسان تلے دب کر زندگی گزارتے ہیں اور چوں کہ شرم و حیا نام کی کوئی چیز تو ہوتی نہیں اِس لیے اپنی بے عزتی کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُس پر فخر بھی کرتے ہیں۔

آخر میں اِن لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ چمچہ گیر اور چاپلوس بن کر عزت دار بننے اور خود کو قابل احترام سمجھنے سے خوددار ہوکر گمنام رہنا ہزار درجے بہتر ہے۔

چاپلوسی کرنا کوئی آسان کام نہیں

ہنر ہونا چاہیے آدمی سے کتا ہونے میں

(جاری ہے)

#سہیل_سہراب ✍️

#teamJUIswat 

0/Post a Comment/Comments