اسلامی تشخص کی بقا میں جمعیۃ علماء اسلام کا تاریخی کردار
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
مدارس دینیہ، صدیوں سے امت مسلمہ کی علمی، روحانی اور اخلاقی تربیت کے مراکز رہے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے اہم ہیں بلکہ معاشرے کو ایسے افراد فراہم کرتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مدارس کو ریاستی پابندیوں اور غیر ضروری قانون سازی کا سامنا رہا، جن میں مدارس بل ایک بڑی آزمائش بن کر سامنے آیا۔
مدارس بل کی آڑ میں ان دینی اداروں کو قابو میں لانے کی کوشش کی گئی جو ریاستی بیانیے کے مطابق نہیں تھے۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء اسلام نے ایک مضبوط اور جرات مندانہ موقف اختیار کیا۔ انہوں نے اس بل کے مضمرات کو عوام الناس کے سامنے پیش کیا اور نہ صرف قانونی بلکہ عوامی سطح پر بھی اس کی مخالفت کی۔
جمعیۃ علماء اسلام نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ واضح پیغام دیا کہ مدارس دینیہ کسی حکومتی دباؤ کے تحت اپنی خودمختاری قربان نہیں کریں گے۔ انہوں نے نہایت حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ اس تحریک کو منظم کیا، جو صرف ایک قانون کی مخالفت نہیں بلکہ دین کے تحفظ کی جنگ تھی۔
یہ کامیابی اس بات کی گواہی ہے کہ جب دینی قیادت اپنے موقف پر ڈٹ جائے اور قوم کو متحد کرے، تو بڑے سے بڑا چیلنج بھی عبور کیا جا سکتا ہے۔ اس تحریک نے نہ صرف مدارس کی خودمختاری کو بچایا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرایا کہ مدارس اور ان کے وابستگان کو نظر انداز یا دبایا نہیں جا سکتا۔
مدارس بل کے خلاف جدوجہد درحقیقت جمعیۃ علماء اسلام کی استقامت، قربانی اور عزم کا مظہر ہے۔ اس کامیابی نے ہر اس فرد کو فخر کا موقع دیا ہے جو اسلامی نظام تعلیم کے بقا کے لیے فکر مند ہے۔ یہ تحریک اس عزم کا اعلان ہے کہ مدارس دینیہ کا کردار اور آزادی نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اسے مزید تقویت دی جائے گی۔
آج اس کامیابی کو ایک تاریخی فتح کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جو دینی قیادت کی بصیرت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے للکار کی بہترین مثال ہے۔
مدارس بل کے خلاف جدوجہد صرف ایک قانونی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ دینی اقدار، علم کی حفاظت، اور نظریاتی آزادی کے لیے ایک مضبوط موقف تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام نے نہایت حکمت اور دانشمندی کے ساتھ اس تحریک کو منظم کیا اور مدارس دینیہ کے تحفظ کو یقینی بنایا۔
یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر قیادت مخلص ہو اور قوم اپنے مقصد کے لیے یکجا ہو، تو بڑی سے بڑی رکاوٹ کو بھی عبور کیا جا سکتا ہے۔ اس جدوجہد نے نہ صرف مدارس کی خودمختاری کا دفاع کیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ دین اسلام اور اس کے محافظ کسی بھی دباؤ کے آگے جھکنے والے نہیں۔
آج مدارس بل کے خلاف کامیابی ان تمام افراد کے لیے مشعل راہ ہے جو دین کی سربلندی اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ جدوجہد ہمیں اتحاد، استقامت اور قربانی کی اہمیت کا سبق دیتی ہے اور اس عزم کو تقویت بخشتی ہے کہ دین کا دفاع ہمیشہ پہلی ترجیح رہے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں