مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی لاہور میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر صحافیوں سے گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی لاہور میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر صحافیوں سے گفتگو

15 جنوری 2025

صحافی: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دور جاری ہے اور جس طرح کے معاشی اور سیاسی حالات ہیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں فریقین اس وقت سنجیدہ ہیں، کوئی نہ کوئی لائحہ عمل نکال لیا جائے ان کو اس گرداب سے نکالا جائے۔

مولانا صاحب: دیکھیے میں خود ایک سیاسی کارکن ہوں اور معاملات کو سیاسی انداز کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا قائل ہوں اور اگر پی ٹی آئی اور گورنمنٹ کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے تو میں اچھی امید وابستہ کرتا ہوں اور ہماری خواہش ہے کہ معاملات ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے سے حل ہوتے رہیں اور سیاست میں شدت کی بجائے اعتدال آئے اور رویوں میں نرمی آئے لیکن بہرحال ایک المیہ ہے ہمارے اس ملک کا کہ یہ دوسرا الیکشن ہے عام الیکشن جو پچھلے سال یہاں ہوا اور دونوں الیکشن جو ہے وہ اس پر عوام کا اعتماد نہیں ہے اور جمہوریت کیسے مستحکم ہوگی پارلیمنٹ پر کیسے اعتماد بنے گا قوم کا جبکہ نتائج جو ہیں وہ عوام کے رائے کے مطابق سامنے نہیں آرہے جی، یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ ملک کی سیاست میں ایک سب سے بڑا سوال ہے اور جس کو ہم نے اپنے جدوجہد سے اور عوام کے ساتھ ایک مضبوط رابطے کے ساتھ اس کا حل تلاش کرنا ہے، جب تک عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا اور صرف حکومتیں بنانا جو ہے یہ کوئی مقصد نہیں ہوا کرتا جمہوریت میں۔

صحافی: مولانا صاحب آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس کچھ ہے جو ان کو دیں پی ٹی آئی کو تو وہ اس میں مطمئن ہو جائے گی؟

مولانا صاحب: یہ سب معلوم نہیں ہے کہ وہ مانگ کیا رہے ہیں، جب یہ پتہ چلے کہ وہ مانگ کیا رہے ہیں تو پھر تبصرہ بھی ہو سکے گا کہ حکومت کے پاس کچھ ہے یا نہیں ہے۔

صحافی: عمران خان کی رہائی مانگ رہے ہیں۔

مولانا صاحب: مجھے ابھی تک اس کا علم نہیں ہے کہ وہ کیا مطالبات رکھتے ہیں، میں تو رہائی کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ بھئی سیاست دانوں کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے باہر رہنا چاہیے اور اپنا کردار ان کو سیاسی طور پر ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے، اگر ماضی میں نواز شریف صاحب کے ساتھ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ یا زرداری صاحب کے ساتھ ہوتا رہا ہے ان کی بہن کے ساتھ ہوتا رہا یا میاں صاحب کی بیٹی کے ساتھ ہوتا رہا تو ہم اس کی بھی خلاف تھے اور شدت کے ساتھ ہم نے اس سے اختلاف کیا تھا آج بھی ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست میں انتقام کا تاثر نہیں ہونا چاہیے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ سیاسی طور پہ جو 2018 اور 2024 کے انتخابات ہیں اس میں اداروں کی مداخلت کا پہلے جو اس وقت جماعتیں ہیں وہ 18 میں کرتی رہی کہ جی بہت زیادہ مداخلت ادا ہوئی تھی اور 2024 میں جو اپوزیشن میں ہے وہ کہتے ہیں کہ اداروں کی مداخلت بند ہونا چاہیے، کیا سیاستدان اکھٹے ہو کے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کہ وہ کہتا ہے نا کہ لوگوں کو جو اس وقت مسائل کا شکار ہے ایک اصلی جمہوریت دے، معاشی طور پہ سماجی طور پہ اور اختلافی طور پہ ملک جو ہے اس قسم کی وضاحتوں سے نیچے کی طرف جا رہا ہے تو آپ کیا کہیں گے اس پر؟

مولانا صاحب: آپ کا سوال بہت اہم ہے جہاں تک بات ہے اداروں کی مداخلت اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی کو مضبوط بنانے اور نظام ملکہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے الیکشن کو مینج کرتی ہے اور اپنی مرضی کی ایسی حکومت بناتے ہیں کہ جس کو وہ اپنے لاٹھی کے ساتھ اپنی مرضی سے ہانک سکیں تو اب یہ خواہش ہے لیکن ناجائز خواہش ہے جی، دوسری بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کا کردار بھی اس حوالے سے کوئی اطمینان بخش نہیں رہا ہے انہوں نے کمپرومائز کیا ہے ہمیشہ جی، صرف کرسی تک پہنچنے کے لیے انہوں نے جمہوریت پر کمپرومائز کیا ہے، اس اصول پہ کمپرومائز کیا ہے، سمجھوتہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پھر اس طرح اسٹیبلشمنٹ کو اپنے گرفت مضبوط کرنے کا موقع ملتا ہے، سو ہم وہ لوگ ہیں جو ایک نظریاتی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کا نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ صرف اپنی اتھارٹی کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں جتنا ان کی گرفت مضبوط ہو سکے اس طرف وہ جانا چاہتے ہیں یہی ہمارا ان سے ہمیشہ تقاضا رہا ہے کہ بھئی آپ آئین کے دائرے میں رہ کر ملک کی خدمت کریں ملکی نظام سے وابستہ رہیں یہ ہمارا ایک میثاق ملی ہے اور اس میثاق ملی کی جب خلاف ورزی ہوگی تو آئین غیر مؤثر ہو جائے گا آئین بے معنی ہو جائے گا جس طرح آج ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ بے معنی ہو گیا ہے، تو یہ سارے وہ چیزیں ہیں کہ جس پر ہر ادارے کو اگر انہوں نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہے یا کوئی پارٹی اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو اسے آپ نے رویے پہ نظر ثانی کرنی ہوگی۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا جس طرح وفاق نے حکومت نے جو ہے وہ پی ٹی آئی کو وہ پیشکش کی ہے مذاکرات کی پنجاب میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر اور گولہ باری جو ہے وہ دونوں طرف سے نظر آتی ہے آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں بھی حکومت جو ہے وہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے اور بیٹھ کر جو ہے وہ اس کا حل نکالا جائے۔

مولانا صاحب: میں نے تو پہلے بھی آپ سے عرض کر دیا کہ میں سیاسی آدمی ہوں اور مذاکرات کا قائل ہوں اور مذاکرات ہی سے معاملات ٹھیک ہوتے ہیں ماحول بھی ہونا چاہیے وہ ماحول کہ جس میں مذاکرات کی کامیابی کی امید کی جا سکے گی۔

صحافی: مولانا صاحب آپ نے فرمایا کہ ادارے جو ہیں اسٹیبلشمنٹ جو ہے وہ آئینی حدود کے اندر رہے تاکہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہو سیاستدان بھی کردار ادا کرے، تو کیا یہ سارا جو سلسلہ چل رہا ہے اس سے نکلنے کے لیے ارلی الیکشن کی گنجائش ہے تاکہ دوبارہ چیزوں کو بہتر اور عوام میں بھی اعتماد بحال ہو اور ایک پارلیمان جو ہے وہ دوبارہ تشکیل و عوام کی مرضی سے۔

مولانا صاحب: اگر دھاندلی کے الیکشن کی گنجائش ہے تو دھاندلی سے پاک غیر جانبدار الیکشن کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ جو القادر ٹرسٹ کا جو کیس ہے اس کا تین بار جو رزلٹ ہے یعنی جو فیصلہ ہے وہ ڈیلے کیا گیا مؤخر کیا گیا، اب 16 کو جو ہے وہ 17 کو دوبارہ سنایا جائے گا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک طرف تو امریکہ میں ٹرمپ کا اقتدار جو ہے وہ بھی 20 کو وہ منصب سنبھال رہے ہیں تو کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو ڈیلے کیا جا رہا ہے یہ کیا اس کی بنیادی وجہ کہیں این آر او کا مسئلہ تو نہیں ہے؟

مولانا صاحب: دیکھیے آپ نے کیوں ٹرمپ کو اپنے دماغوں پر اتنا سوار کیا ہوا ہے، امریکیوں کی مرضی ہے وہ جس کو اپنے ملک کا صدر بنائے ہم اپنے سر پہ کیوں سوار کریں اس کو اور اس خطے میں ابھی دو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اس خطے سے امریکہ شکست کھا کر بھاگا ہے، اب وہ پاکستان کے اندر خانہ جنگی کی طرف ملک کو لے جانا چاہتا ہے، ہمارے قبائل میں بلوچستان ہو کے پی ہو وہاں پر رِٹ ختم ہو چکی ہے حکومت کی، وہاں عام آدمی اب اپنے گھروں میں زندگی نہیں گزار سکتا غیر اعلانیہ طور پر لوگ پھر دوبارہ اپنے گھر چھوڑ رہے ہیں، ان کو اپنے گاؤں کے اندر اپنے شہر کے اندر بچوں کے پڑھانے کے لیے اب کوئی راستہ نہیں رہا، ان کے روزی روٹی کمانے کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی ہے وہ اپنے علاقے چھوڑ رہے ہیں اور یہ صورتحال تقریباً 20 25 سال کے درمیان کا عرصہ ہو چکا ہے وہاں یہ اس صورتحال کا، جہاں ایک علاقہ اتنا لمبا عرصہ ربع صدی تک جنگ کی زد میں رہے اور جہاں حکومتی رِٹ ختم ہو جائے اس کی جغرافیائی صورتحال خطرے میں پڑ جاتی ہے، ہمیں اپنے ملک کی سلامتی کا سوال ہمارے سامنے ہے، ہم ایک جلتی ہوئی زمین کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں پتہ نہیں یہاں پر کیوں پنجاب میں اس بات کا احساس نہیں کیا جا رہا ملک کی دوسرے علاقوں میں کیوں اس بات کا احساس نہیں کیا جا رہا، ایسے علاقے پھر اس کے بعد جغرافیائی شکل تبدیل کرتے ہیں، پھر بین الاقوامی قوتیں آتی ہیں اور وہاں کے کنٹرول سنبھالتی ہیں ان کے وسائل پر قبضہ کرتی ہیں، آپ کے قبائلی دنیا وہ پاکستان کے معدنی وسائل سے بھرے ہوئے ہیں، ایشیا کے بڑے ذخائر وہاں پر موجود ہیں اور اس صورتحال میں آنے والا مستقبل آپ دیکھیں کہ کیا ہم عالمی قوتوں کے لیے اس کا آماجگاہ تو نہیں بنا رہے؟ یہ جو آپ ٹرمپ کا سوال کر رہے ہیں میں اس میں اس قسم کے خطرے محسوس کر رہا ہوں، لہٰذا قوم کو خودداری کی طرف جانا ہوگا خود اعتمادی کی طرف جانا ہوگا حق خود ارادیت کی طرف جانا ہوگا کہ ہم اپنے ملک کے اندر کسی ادارے کی بالادستی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے امریکہ کی بالادستی کو کس طرح قبول کریں گے ہم!

صحافی: مولانا صاحب 2007 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف صاحب معاہدے کے تحت پاکستان آئے تھے اس کے بعد یہ پیچھے سائفر کے اوپر جو ہے جس سے ایک اچھا خاصا شور مچا اور اب یہ کیا وجہ ہے کہ جی پاکستان کے سیاست دانوں کو مجبور کیا جاتا ہے اس کا ایک دوسرا روپ بھی ہے کہ وہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کر کے پاکستان میں حکومت بنائے، اس سے پاکستان کی سالمیت آج خطرے میں نظر آرہی ہے وہ کون لوگ ہیں وہ کون سی طاقتیں ہیں پاکستان میں جو مجبور کرتی ہیں سیاسی قوتوں کو کہ وہ کسی ملک جاکے وہاں سے چٹ لے کے آئے اور یہاں پر حکومت سنبھال لے۔

مولانا صاحب: میرے خیال میں تھوڑا سا آپ حضرات کو بھی غور کر لینا چاہیے، ابھی پارلیمنٹ میں تازہ تازہ 26ویں آئینی ترمیم ہوئی اب اس میں مذاکرات کرنے والی پارٹی حکومت کے مقابلے میں صرف جے یو آئی تھی، اکیلے جے یو آئی تھی نہ ایوب خان کے زمانے کی طرح کوئی ڈیٹ بنا اس کے لیے نہ پی این اے تھا نہ ایم ایم اے تھا نہ اٹھارویں ترمیم کی طرح پوری پالیمنٹ کی ساری پارٹیاں بیٹھی ہوئی تھی، صرف گورنمنٹ اور جے یو آئی کے مذاکرات ہوئے خالص سیاسی نقطہء نظر کے ساتھ، آئین کی بقا کے لیے اس کی بالادستی کے لیے، پارلیمنٹ کی بقا و بالادستی کے لیے، اصول کے دائروں میں رہ کر ہم نے مذاکرات کیے اور ہم کامیاب ہوئے یا نہیں؟ اگر ایک پارٹی بھی ڈٹ جاتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ ہم نے آئین پر اصولوں پر انسانی حقوق پر بنیادی انسانی حقوق پر کوئی کمپرومائز نہیں کرنا تو دوسری پارٹی کیوں نہیں کر سکتی جی! ہم مل کر کیوں نہیں کر سکتے یہ سوال پی ڈی ایم میں بار بار میں اٹھاتا رہا ہوں کہ ہم کم از کم میں 1980 کے بعد آپ لوگوں کے ساتھ قائدین کے ساتھ شریک ہو کر مارشل لاؤں کے خلاف لڑتا رہا ہوں، جمہوریت کو طاقتور بنانے کے لیے لڑتا رہا ہوں، آمرانہ قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے لڑتا رہا ہوں، نتیجے کیوں الٹا نکل رہا ہے؟ کہ آمرانہ قوتیں جو ہیں ان کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے جمہوریت کمزور ہوتی جا رہی ہے، یہ خامیاں ہمارے اندر ہے سیاست دانوں کے اندر ہیں ان کو ہمیں دور کرنا ہوگا اور ایک خود اعتمادی اپنے اندر لانی ہوگی، اگر ہم ایک پارٹی خود اعتمادی کے ساتھ گفتگو کر کے صورتحال کو پلٹ سکتے ہیں باقی پارٹیاں کیوں نہیں کر سکتی جی!

صحافی: مولانا صاحب بات یہ ہے کہ جو آئینی ترمیم کی بات ہو یا الیکشن میں دھاندلی کی تو اپوزیشن ایک پیج پر نہیں دکھائی دیتی لیکن اگر ہم حکومت اور ان کے اتحادیوں کو دیکھیں تو بظاہر اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن کسی بھی معاملے میں وہ آئینی ترمیم ہو اس میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

مولانا صاحب: بالکل یہ بھی ہمارا پہلا تجربہ تھا کہ ایک آٹھ اراکین کی قومی اسمبلی کی اپوزیشن اس نے مذاکرات کیے اور 90 سے زیادہ کی اپوزیشن جماعت کو ساتھ چلایا ہم نے، مسلسل اعتماد میں رکھا حکومت سے مذاکرات بھی کرتے تھے اپوزیشن جماعت کو اعتماد بھی رکھتے تھے اور دونوں کو کنارے پہنچایا الحمدللہ اور اطمینان کے ساتھ ایک باقاعدہ ایک امینڈمنٹ ہوئی آئین کے اندر، تو اس طریقے سے کہ اگر ہم اصول پر ہوں تو میں اصول ہر ایک سے منوا سکتا ہوں کیونکہ اصول سے کوئی جھگڑا نہیں کیا کرتا، صحیح بات اور آئین کے تحت ہو اس سے کوئی جھگڑا نہیں کیا کرتا، مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت کا ہے تو پھر ہم نے ہر حال میں مخالفت کرنی ہے اپوزیشن کا ہے تو ہم نے ہر حالت میں حمایت کرنی ہے، نہیں اگر ہم اصول کے تابع چلیں گے تو ہم حکومت کو بھی آمادہ کر سکتے ہیں اپوزیشن کو بھی آمادہ کر سکتے ہیں اور اس کا تجربہ ہم نے کر لیا اور اس میں ہم کامیاب ہوچکے ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب افغانستان میں افغانستان کی صورتحال بڑی کشیدہ ہے پاکستان کے ساتھ، اس کا کیا حل سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہے اس کے ساتھ پرامن تعلقات ہونا بہت ضروری ہے بارڈر پر لیکن مسلسل کشیدگی ہے ابھی بھی دو ماہ سے، آپ کا انفلوئنس بھی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ حل کیا ہے؟ اچھا سر اس میں ایڈ کر لیں فریقین جو مذاکرات کے ہیں آپ نے بھی صورتحال بتائی ہے قبائلی علاقوں کی افغانستان کے حوالے سے بھی فریقین کو مذاکرات کے حوالے سے کیا مشورہ دیں گے تاکہ داخلی سطح پر ہم مضبوط ہوں اور بیرونی جو چیلنجز ہیں ان کا مقابلہ کرسکیں۔

مولانا صاحب: دیکھیے افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے، افغانستان کے بہت سے ممالک پڑوسی ہیں، وسطی ایشیا کے بہت سے ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں، ایران اس کا پڑوسی ہے لیکن تمام پڑوسیوں کے باوجود تاریخی طور پر بھی ان کے تعلقات برصغیر ہند کے ساتھ تھے، پاکستان بن جانے کے بعد بھی اس کے تعلقات پاکستان کے ساتھ رہے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے والے دو پڑوسی ملک ہیں برادر اسلامی ملک ہیں، مشکلات آتی ہیں تنازعات کوئی دور کے آدمی کے ساتھ نہیں ہوا کرتے پڑوسی کی ساتھ ہی ہوا کرتے ہیں، محلوں کے اندر بھی کوئی پڑوسی پڑوسی سے الجھتا ہے لیکن معاملات طے ہو سکتے ہیں، آج بھی کوئی بات گئی گزری نہیں ہے ہمیں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر کردار ادا کرنا ہوگا، جذباتی ریاست کے طور پر کردار ادا کریں گے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا اور میں الیکشن سے پہلے جا چکا ہوں میں اپنے وفد کے ساتھ ایک ہفتہ وہاں گزار کر جتنا ایجنڈا میں لے کر گیا تھا 100 فیصد کامیاب ہو کر واپس آیا ہوں اور میں نے اپنے ملک کے نظام کو بتایا سارا کچھ اور انہوں نے اپریشییٹ کیا، انہوں نے کہا اس کا میکنزم کیا ہونا چاہیے؟ میں نے کہا وہ آپ بنائیں اگر کہیں مشکل ہوگی تو ہم تعاؤن کریں گے لیکن انہوں نے ہی پھر جمعیت علماء اسلام پر آرا کھینچا اور الیکشن میں جو ہمارے ساتھ انہوں نے حشر کیا اور اب تک ہو رہا ہے اب تک ہو رہا ہے، یعنی بلوچستان میں ابھی ایک صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کی ویریفکیشن کی نادرا نے رپورٹ یہ لکھی کہ دو فیصد کی ویریفکیشن ہم کر سکے ہیں باقی کا پتہ نہیں چل رہا 98 فیصد کا پتہ نہیں چل رہا دو فیصد کا پتہ چل رہا ہے، سپریم کورٹ نے کہا ابھی ایک اور حلقے کے بارے میں کہ پانچ ہزار ووٹ جو ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں چل رہا، 15 پولنگ سٹیشنوں کا دوبارہ الیکشن کراؤ سب کے سب پر ہم جیتے ہیں فارم 45 کہتا ہے کہ جے یو آئی جیتی ہے ہم جیتیں ہے اور جو جیتا ہے وہ سب اسٹیشنوں پہ ہارا ہے اور اس کے بعد اس کو جتوا دیا، تو یہ چیزیں اگر ہمارے ملک کے الیکشن میں ہوتے رہیں گے تو آپ بتائیں کس طرح معاملات حل ہوں گے، کس طرح دل چاہے گا کسی کا کہ۔۔۔ خوشی کے ساتھ تعاؤن ہوتا ہے ایک شرح صدر کے ساتھ کشادہ دلی کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے اور تعاؤن ہوا کرتا ہے یہ تو نہیں کہ آپ مجھے ذبح کرتے رہیں اور میں آپ کی زندگی تلاش کرتا رہوں، تو یہ چیزیں جو ہیں ہمیں ہر چیز پر نظر ثانی کرنی ہوگی جب تک یہ ادارے اپنی غلطیوں پر اپنے ارادوں پر اپنے عزائم پر اپنے ایجنڈے پر نظر ثانی نہیں کریں گے اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہو سکے گی جی۔

صحافی: مولانا صاحب جو کُرم کی صورتحال ہے آپ نے پشاور میں اس پر گفتگو کی، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کیوں اور یہ کس طرح سے حل ہو سکتا ہے، پاڑہ چنار میں کوئی چیز جو ہے وہ نہیں پہنچ رہی ڈیزل پٹرول ادویات جو ہے نا وہاں کے لوگوں کی زندگی جو ہے اجیرن ہوچکی ہے۔

مولانا صاحب: حضرت بنیادی بات تو یہ ہے کہ وہ 20 25 سال کا تنازعہ ہے جو مسلسل چل رہا ہے جائیدادوں کا تنازعہ ہے قبیلے ہیں اب اس کو شیعہ سنی کا نام کیوں دیا جا رہا ہے؟ یہ جو ہمارے ہاں ایک روایت چل پڑی ہے کہ اگر آپ کے محلے میں کوئی سنی رہتا ہے کوئی شیعہ رہتا ہے کوئی وہابی رہتا ہے کوئی اہل سنت رہتا ہے اپس میں تو محلے کے اندر اگر کوئی ان کا تنازعہ ہے کسی پلاٹ کے اوپر کسی دیوار کے اوپر کسی لین دین کے معاملے میں اس کو مسلکی جھگڑا کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ وہ خالصتاً ان کا آپس میں جھگڑا ہوتا ہے کاروباری معاملہ ہوتا ہے آپس کا جی، اگر وہاں پر قبائلی ایک تنازعہ ہے تو قبائلی تنازعے کو ریاست طے کرے نا! کیوں اس کے خلاف جو ہے فرقوں کو اٹھاتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ساتھ میں کوہاٹ پڑا ہوا ہے شیعہ آبادی پڑی ہوئی ہے ہنگو پڑا ہوا ہے جو شیعہ سنی آبادی پر مشترک علاقے ہیں وہاں تک ان کی گرمی نہیں پہنچتی جو پڑوس میں ہے اور یہ گرمی کراچی تک پہنچ جاتی ہے، لکھنؤ تو پہنچ جاتی ہے، تہران تک پہنچ جاتی ہے، یہ کون سی گرمی ہے؟ لاہور تک بھی نہیں پہنچی اس کی گرمی، تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں جو غلط تصویر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور نئی نئی دکانیں کھولی جاتی ہیں یہ پھر سازشی مقاصد ہوتے ہیں ان کو قوم کی فلاح کا کوئی فکر نہیں ہے، جمعیت علماء اسلام کا ایک پلان ہے کہ ہم اس پلان کے تحت وہاں پر قبائل کی اپنے مداخلت کے ساتھ، خود قبائل کی مداخلت کے ساتھ وہاں پہنچے اس میں کردار ادا کریں لیکن اگر ادارے راستہ چھوڑ دیتے ہیں، اگر وہ سمجھے کہ نہیں سب چیزیں ہماری مرضی کے مطابق ایک تنکہ بھی ہمارے بغیر کے نہیں ہلنا تو پھر کیسے معاملات ہم کریں گے، کیسے کوئی کردار ادا کرے گا، کردار ادا کرنے کے لیے خود اعتمادی چاہیے اور خود اعتمادی کے ساتھ ہم کوئی بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ بہت شکریہ

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات 

#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments