مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ اسلامیہ چارسدہ میں دستاربندی کی تقریب سے خطاب

قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعہ اسلامیہ چارسدہ میں دستاربندی کی تقریب سے خطاب

(پشتو سے اردو ترجمہ)

18 جنوری 2025

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

حضرات علماء کرام، فضلاء، مختصصیین، حافظان اور حافظات، میرے عزیز بھائیو ! میں بڑے عرصے بعد چارسدہ کی سرزمین پر ایک ایسی مبارک اجتماع میں شرکت کر رہا ہوں۔ یہ اجتماع روحانی، علمی اور دینی اجتماع بھی ہے اور میں اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا گوہر شاہ صاحب دامت برکاتہم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس مبارک اجتماع میں شرکت کی دعوت دی اور رب العالمین نے مجھے توفیق دی کہ میں اس میں شریک ہوا۔

تمام وہ فضلاء جنہوں نے اس مدرسہ میں اپنا تعلیمی سلسلہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مدارس اور میں مصروف علماء کرام، اساتذہ، طلباء یہ امت کے محسنین ہیں۔ آج ان کی بدولت اسلامی علوم، قرآنی علوم محفوظ ہیں۔ آج ان کے بدولت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث اور ان مبارک سنت محفوظ ہیں۔ ان مدارس میں فقہ کے علوم محفوظ ہے۔ یہ حقیقت میں تمام امت کے ایمان کے محافظ بھی ہے اور اسلامی تہذیب و تمدن، مذہبی و وطنی رہن سہن اور اپنے مبارک طرز زندگی کے محافظین بھی ہیں۔

ہر طرف سے آج مدارس پر حملے شروع ہیں۔ ان علوم کے خلاف سازشیں شروع ہیں۔ اور یہ صرف پاکستان کے حد تک نہیں بلکہ عالمی سطح پر دنیا یہ چاہتی ہے کہ مدارس کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔ ان علماء کے خدمات کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان علوم کی بقا کو فنا میں بدل دے۔ لیکن یہ جتنے چاہے سازشیں کریں مدارس اتنے ہی مظبوط ہوتے جا رہے ہیں اور اتنے ہی ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ خواہش فرنگی کی بھی تھی۔ انگریز نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں جو ان کے وفادار تھے علی گڑھ میں مدرسہ تعمیر کیا۔ برصغیر میں علم کی تقسیم نہیں تھی مدارس میں تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ دینی علوم، عصری علوم، قدیم علوم، جدید علوم یہ امتیاز نہیں تھا۔ لیکن فرنگی نے اپنے نصاب تعلیم میں اور علی گڑھ کے مدرسہ میں اپنے نصاب سے قرآن کریم کو نکال دیا، حدیث، فقہ کو نکال دیا اور نصاب سے فارسی اور عربی زبانوں کو بھی نکال دیا۔ اللہ اکابر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے کہ اس ماحول میں جب 1857 کے واقعات گزر چکے تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی تھی اور بظاہر ایسا اندازہ لگ رہا تھا کہ مسلمان پھر کبھی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس کے بعد مسلمان کی اپنی شناخت نہیں ہوگی۔ آنی والے نسلیں نہ اللہ سے باخبر ہوں گے نہ دین سے باخبر ہوں گے، نہ قرآن و حدیث سے باخبر ہوں گے نہ فقہ کا ان کو کچھ علم ہوگا۔ صرف نام کے مسلمان ہوں گے باقی ان کی زندگی مغربی تہذیب کے تابع ہوگی۔ ان حالات میں ہمارے اکابر نے یہ چیلنج قبول کیا اور اتنے اخلاص سے ان مدارس اور ان کے نصاب کی بنیاد رکھی کہ اس اخلاص کی برکت ہے کہ آج ہم اور آپ مدرسہ کے ماحول میں بیٹھے ہیں اور قرآن و حدیث پڑھا رہے ہیں۔ اس کی بنیاد اور اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔

لیکن میرے بھائیو! اس مدرسے کا پہلا طالب علم محمود حسن تھا اور وہ صرف علمی لحاظ سے نہیں بلکہ عملی لحاظ سے بھی ان علوم کا نمونہ تھے۔ اور اس علم اور دین کے ایک پہلوان کی حیثیت سے میدان میں نکلے، آزادی کی تحریک شروع کی اور پھر دنیا سے رخصت ہونے سے چند دن پہلے جمعیت علماء کی بنیاد رکھی۔ تو مدرسے کی بنیاد جس نے رکھی وہ محمود حسن تھے لیکن جمعیت علماء کی بنیاد رکھتے ہوئے وہ شیخ الہند تھے۔ آج ہم اپنے آپ کو ان کے وارث کہتے ہیں۔ تو ہم نے اس کا کیا حق ادا کیا ہے۔ اس کا حق ہم اس طرح ادا کر رہے ہیں کہ جس بات کی بنیاد انہوں نے رکھی تھی، جس مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی، جس تحریک اور نظریے کی بنیاد رکھی تھی ہم آج ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ وفادار ہیں اور اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور ان اکابر نے ہمیں کچھ تعلیم دی ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اس سبق کو بھول رہے ہیں۔ آج ہم اس بات کا عہد کریں گے کہ یہ سبق ہمیں یاد ہوگا ہم اس کو نہیں بھولیں گے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں،

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا 

ہم نے تمہارے لئے دین مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو بطور نظام حیات آپ کے لیے پسند فرمایا۔

ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ اللّٰہ رب العزت پہلے اکمال دین کا اعلان کرتے ہیں کہ دین کامل اور مکمل ہو گیا لیکن یہ بہ اعتبارِ تعلیمات و احکامات کے ہے۔ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي اور نعمت تم پر تمام کر دی، اتمام نعمت کسے کہتے ہیں۔ اس کے معنی کرتے ہے کہ اتمام نعمت اس کامل اور مکمل دین کی اقتدار اور حکومت ہے۔ کیوں کہ نعمت مطلقاً ذکر کیا گیا ہے اور جب کوئی شے مطلقاً ذکر ہو تو مراد فرد کامل ہوتا ہے۔ تو بظاہر دنیا میں ہمارا فرد کامل اس دین اسلام کی حاکمیت، اس کی اقتدار اور حکومت ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ ہم یہ سبق بھول رہے ہیں۔ اسلام جسے اللّٰہ پاک نے ہمارے لیے بطور نظام حیات پسند کیا ہے اس میں نقص کا امکان ہوگا یا اس میں کسی نقصان کا امکان ہوگا۔ یہ خوشحالی کا نظام ہوگا، یہ ابادی کا نظام ہوگا، یہ امن کا نظام ہوگا، یہ انسانی حقوق کا محافظ نظام ہوگا۔ تو اسلام انسانی حقوق کا محافظ نظام، حق چاہے جانی ہو یا مالی، یا عزت و آبرو کا، مسلمان کا خون مسلمان پر حرام، مسلمان کا مال مسلمان پر حرام اور اس کی عزت و آبرو مسلمان پر حرام، آج اپنے وطن میں جہاں اٹھہتر سال پورے ہو رہے ہیں ہمارے دین اور اسلام کی تشنگی ابھی باقی ہے۔ اور وہ وطن جو ہم نے لا الہ الااللہ کے نام پر حاصل کیا تھا۔ ہمارے اپنے وطن کا وہ لیڈر وہ جماعت وہ پارٹی جس کے زبان پر لا الہ الااللہ کا نعرہ ہے وہ اسلام کا مذاق اڑا رہے ہیں اور تمسخر اڑاتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں اپنی آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس پون صدی میں ہم نے من حیث القوم بھی، ہمارے حکمرانوں نے بھی اور ہمارے سیاستدانوں نے بھی لا الہ الااللہ کے ساتھ جو ظلم کیا ہے، اس نعرے کے ساتھ جو زیادتی کی ہے۔ اس کے بعد بھی ہم ان کا تجربہ کریں گے۔ ہمیں بذات خود اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہوگا۔ یہ ملک کسی کا جاگیر نہیں، میں جاگیردار سے بھی کہنا چاہتا ہوں، میں سرمایہ دار اور صنعت کار سے بھی کہنا چاہتا ہوں، میں خان اور نواب سے بھی کہنا چاہتا ہوں، میں بیوروکریٹ سے بھی کہنا چاہتا ہوں، میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر تم پاکستانی ہو قسم خدا کی اس پر میرے یہ کارکن بھی پاکستانی ہے اور تم سے زیادہ پاکستانی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب ائین بن رہا تھا ائین بنانے میں علمائے کرام اگر پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے آج آپ کے ائین میں اسلام کا نام نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستان بنایا ہے۔ آپ نے پاکستان بنایا ہے لیکن لا الہ الا اللہ کے نام پر لوگوں کی قربانیاں حاصل کی ہیں۔ اس پاک نعرے کی بنیاد پر عوام کو اٹھایا کہ ایک الگ وطن ہوگا اور اس کلمہ کی حکومت ہوگی۔ آپ نے قوم کے ساتھ منافقت کی ہے اپ نے ان کے قربانیوں کے ساتھ منافقت کی ہے۔ آپ نے ان کے خون کے ساتھ منافقت کی ہے۔ آپ نے ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں کے ساتھ منافقت کی ہے۔ اگر وفا کی ہے تو ان علماء نے کی ہے۔ اس نعرے کے ساتھ بھی وفا کی ہے اس کے معنی کے ساتھ بھی وفا کی ہے۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے ساتھ بھی وفا کی ہے۔ مسلمانوں کے خون کے ساتھ بھی وفا کی ہے۔اور اپنے ماؤں بہنوں کی عزتوں کے ساتھ بھی وفا کی ہے۔ تو وہ وفادار میں ہوں آپ کے وفا پر تو 77 سال گواہ ہیں۔ اور بھی آپ کو آزماؤں گا۔ یہ وطن ہمارا ہے ہم اس وطن میں امن چاہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے۔ اور ہم ابھی تک بہت پیار اور محبت کے ساتھ، دلیل اور مثبت لب و لہجے کے ساتھ آپ سے بات کر رہے ہیں۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہماری بات کو سمجھیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہماری دلیل کو سمجھیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ آپ پاکستان کے مقصد کو سمجھے۔ اور اگر تم نہیں سمجھتے تو پھر وہ دن بھی نزدیک ہے کہ آپ کا گریبان ہوگا اور ہمارا ہاتھ، اور تمہیں اقتدار سے کھینچ کر باہر نکالوں گا۔ ان جھوٹے الیکشن پر اپنے اپ کو اتنا طاقتور نہ سمجھو۔ ان جھوٹے الیکشن پر حسینہ واجد بھی پاس ہوئی تھی۔ اس کا انجام کیا تھا۔ اس قوت کے ساتھ تو بشار الاسد بھی حکمران تھا۔ ہم وہاں تک حالات کو نہیں پہنچانا چاہتے۔ ہمارے علماء نے اسمبلی میں مقدمہ لڑا۔ ختم نبوت کے عقیدے کی حفاظت کی۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ پھر یہ ہے اس وطن میں یہ باتیں شروع ہو گئی اور دنیا میں بھی یہ خبریں شروع ہوگئی اور ایک ہی بات کرتے تھے کہ آپ قادیانیوں کو کیوں کا فر کہتے ہیں۔ میں نے کہا صرف یہی ایک جملہ یاد کیا ہے کہ ہم قادیانیوں کو کا فر کہتے ہیں۔ یہ نہیں سیکھی کہ قادیانی تمام امت مسلمہ کو کا فر کہتے ہیں۔ اور مجھے یاد ہے حضرت والد رحمہ اللہ اسمبلی سے باہر یہ واقعہ نجی محافل میں سناتے تھے کہ ہم نے حوالہ دیا کہ غلام قاد یا نی کہتا ہے کہ جو مجھ پر ایمان نہیں لاتا وہ کا فر ہے، اور پکا کا فر ہے اور اسلام کے دائرے سے باہر ہے اور کنجر کی اولاد ہے۔ اور جب ہم نے ان پر یہ تسلیم کیا تو میں نے ان سے کہا اگر آج ابوبکر صدیق رض زندہ ہوتے اور وہ غلام قادیانی پر ایمان نہیں لے آتے تو آپ کی نظر میں وہ کیا ہوتے تو کہنے لگے وہ بھی کا فر ہوتے۔ میں نے اگر حضرت عمر ہوتے تو کہنے لگا وہ بھی، پھر عثمان، حضرت علی، حصن حصین کے بارے میں بھی ایسے ہی کہا کہ اگر وہ زندہ ہوتے اور غلام قادیانی پر ایمان نہیں لے آتے تو وہ بھی مسلمان نہیں ہوتے۔ کوئی ان سے نہیں پوچھ رہا کہ دنیا کی ظالموں خود تو کفر میں ڈوبے ہوئے ہو اور تم تمام امتی مسلمہ سے کہہ رہے ہو کہ تم ک ا فر ہو۔

پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ قاد یا نی تھا۔ اس وقت یہ ائینی طور پر غیر مسلم قرار نہیں دیے گئے تھے۔ تو جب بانی پاکستان محمد علی جناح وفات پا گئے تو اپنے وزیر خارجہ نے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی۔

تو میرے محترم دوستو جب 50 سال پورے ہوئے اور پھر پاکستان میں یہ باتیں شروع ہو گئی کہ یہ کیوں کا فر ہے یہ کیو کا فر ہے اور دنیا بھی ہمیں کہنے لگی کہ آپ نے انہیں کیوں کا فر قرار دیا ہے۔ تو پھر بات سپریم کورٹ چلی گئی تو پاکستان کے سپریم کورٹ میں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ بالاخر ہم بھی عدالت چلے گئے حالانکہ میں کبھی زندگی میں عدالت نہیں گیا اور الحمدللہ ہم نے ایک ہی پیشی میں ان کی کمر ایسی توڑ دی کہ ان شاءاللہ یہ نئی صدی تک کمر سیدھی نہیں کر سکیں گے۔ اس وقت ایک اور مسئلے نے سر اٹھایا 26ویں آئینی ترمیم، حکومت نے ایک ڈرافٹ تیار کی ایک مسودہ تیار کیا، اور ہم سے کہا کہ اپ اس کو ووٹ دیں گے تو ہم نے کہا کہ پہلے ہمیں ذرا دیکھنے تو دو بند انکھوں سے تو ہم ووٹ نہیں دے سکتے۔ تو کہنے لگے کہ اپ کہے کہ ہم بند انکھوں سے اس کی حمایت کرتے ہیں تو میں نے کہا کہ یہ تو کسی قانون میں روا نہیں، اتنا غلط مسودہ تیار کیا تھا کہ اگر وہ اس شکل میں پاس ہوتا تو نہ پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت رہ جاتی جو ویسے بھی نہیں ہے لیکن آئینی لحاظ سے بھی ختم ہو جاتا۔ اس ائین کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی عوام کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ بنیادی انسان حقوق پر حملہ کیا تھا۔ ایک مہینہ تک ہم نے ان کے ساتھ بحث کی اس مسودے کی 56 شقیں تھیں اور ہم نے ان کو 34 شقوں سے دستبردار کر دیا اور پھر اس میں اپنے دفعات شامل کر دیے۔ وہ سود جو پاکستان کے پہلے بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاحی جلسے میں جناح صاحب نے کہا تھا کے مغرب کی نظام معیشت ہمارے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے ہم ایک نیا معاشی نظام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بنائیں گے۔ ہر بات میں جناح کا حوالہ دیتے ہیں پر یہاں پر بھول جاتے ہیں۔ اج پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم نے لکھا کہ یکم جنوری 2028 تک پاکستان سے سود کا خاتمہ ہو جائے گا ان شاءاللہ۔ ہمارا ملک سود میں ڈوبا ہوا ہے، بینک، مالیاتی ادارے، تمام ادارے اور محکمے سود کی لعنت میں مبتلا، یہاں چند حضرات کھڑے ہوگئے کہ اچھا یکم جنوری 2028 تک سود ہوگا۔ تو میں نے کہا آپ نے ستر سال میں صاف نہیں کیا اور میں تین سال میں کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ کیا تھی وجہ یہ تھی کہ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اپنے ادارے اکتیس دسمبر 2027 تک سود سے پاک کر دے لیکن اس کے خلاف اپیل کر دی گئی اور ہماری وفاقی شرعی عدالت اتنا کمزور ہے کہ اس کے فیصلے کہ خلاف اگر کوئی سفید کاغذ پر سپریم کورٹ کو اپیل کر دے یا شریعت ایپلٹ بینچ کو تو فیصلہ معطل ہو جاتا ہے۔ نظرثانی اور سماعت کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ کب ہوگی۔ ہم نے آئین میں ترمیم دیا کہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ موثر ہوگا اور اگر اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوتی ہے اور ایک سال کے اندر فیصلہ نہیں آیا تو پھر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ خود ہی موثر ہوگی۔ تو وہاں عدالت کو ہم نے طاقت دی۔ عدالت کے فیصلے کو طاقت ور بنا دیا۔ وہاں آئین میں سود کو حرام قرار دے دیا۔ جب ان دونوں کو ملایا جائے تو ان شاءاللہ پاکستان میں سود کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔

تو میرے محترم بھائیو! یہ کامیابیاں ہمیں پارلیمنٹ میں حاصل ہوئی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہم نے پارلیمنٹ میں کیا ہے۔ اس آئینی ترمیم میں انہوں نے عدالت کے ساتھ جو کھلواڑ اور مذاق کیا تھا اور عدالتوں کو جتنا کمزرو بنایا تھا اور اس کے مقابلے میں فوجی عدالتوں کو مظبوط کیا تھا وہ سب ہم نے واپس کر دیے۔

تو یہ سب آپ کا کریڈٹ ہے۔ یہ پگڑی یہ دستار آپ کے سروں پر ہے۔ آپ کے جدوجہد کے مرہون منت ہے۔ اسمبلی میں جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے پشت پر اگر آپ جیسے مجاہد کارکن کھڑے نہ ہوتے اور قوم کے جوان کھڑے نہ ہوتے، عوام پشت پر کھڑے نہ ہوتے تو یہ کامیابی ہم حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اور ان شاءاللہ آئندہ بھی ہم کامیابیاں حاصل کرتے رہیں گے۔ اگر اللہ نے چاہا تو کسی بندوق اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہم اسمبلیوں سے نکلیں تو یہ اسمبلیاں کیا چیز ہے کہ ہم ایسے اسمبلیوں کے ممبرشپ کے حصول کے لیے روئیں گے۔ ایسی اسمبلیاں تو میں مٹی سے بھی بنا سکتا ہوں۔ قوم کسی اور کو منتخب کرتی ہے اور نتیجہ کسی اور کے حق میں نکلتی ہے۔ لوگ ایک بندے کو ووٹ دیتے ہیں اور بیچ میں کوئی اور نکل آتا ہے۔ یہ وطیرے بند کر دے ان وطیروں سے حکومتیں نہیں چلتی۔ ایک نہ ایک دن بے بس ہو جاؤ گے اور یہ وطن آپ کے ہاتھوں برباد ہو جائے گا۔ ہم ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیے سوچ رہے ہیں اور ہماری ہر پالیسی اسی پر مرکوز رہتی ہے کہ وطن مستحکم اور مظبوط ہو جائے۔ ہم حقوق کی جنگ کریں گے اگر میرے وطن اور میری مٹی کے حقوق ہیں تو میں ان کی جنگ لڑوں گا۔ یہ جنگ صرف نام کا نہیں ہوگا کہ صوبہ کو پختونخوا کردو تو بات ختم، میرا وطن، میری مٹی، میرے پہاڑ، میرے میدان اللہ کے نعمتوں سے بھرے پڑے ہیں اور ان وسائل پر میرے صوبے کے پختونوں کا حق ہے۔ ہم اپنے حق کے مالکان کسی اور کو نہیں بنا سکتے، نہ ان کو امریکہ کے حوالے کر سکتے ہیں۔ آج میرے صوبے پر آگ لگی ہوئی ہے، خون بہہ رہے ہیں، امن و امان نہیں ہے، حکومت نہیں ہے، حکومتی رٹ نہیں ہے شہر ناپرسان کا راج ہے۔ یہ پتہ نہیں لگ رہا کہ بادشاہ کون ہے۔ اسلام آباد کی طرف دیکھتے ہیں تو کہیں گے کہ بادشاہ تو سارے ادھر بیٹھے ہیں، پنڈی کی طرف دیکھتے ہیں تو بادشاہ اُدھر بیٹھے ہیں، پشاور کی طرف دیکھو گے تو کہو گے کہ بادشاہ تو یہاں بیٹھا ہے۔ بادشاہ کا پتہ بھی نہیں چل رہا اور ملک مظبوط حکومتوں کے بغیر وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ میری حیثیت اس مریض جیسے ہوگی جو انجکشن کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ یہ انجکشن لگاتے ہیں مریض آنکھیں کھول دیتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہ ٹھیک ہو جائے گا، اسی طرح یہ کہیں گے کہ معشیت کے بارے میں بہت اچھی خبریں آنی والی ہے۔ تو کیا آپ نے ملک میں وسائل پیدا کیے ہیں یا بیرونی قرضوں اور امداد پر اپنی معشیت ٹھیک کر رہے ہو۔ تو یہ تو پھر انجکشن والی بات ہے، دو دن مریض اچھے سے گزارے گا پھر کیا کروگے۔ نااہل اور کم عقل لوگ ہیں ویسے ہی اپنے آپ کو بڑے سمجھتے ہیں وردی پہن کر ٹائی لگا کر آپ کہیں گے کہ سارے جہان کے فلسفہ کو یہ سمجھتے ہیں۔ اور میں نے تو بڑے نزدیک سے دیکھا ہے۔ گھنٹوں گھنٹوں ان کے ساتھ باتیں ہوئی ہیں واللہ اگر ایک لفظ کو بھی سمجھتے ہو۔ ان کے صلاحیتوں کو میں جانتا ہوں۔ تو اپنے آپ میں خود اعتمادی پیدا کرو۔ اپنے آپ میں احساس برتری پیدا کرو۔ ساری عمر اُنہوں نے ہمیں یہ کہا ہے کہ ملا ملا اور ملا، ملا کا سیاست سے کیا کام، مولوی کا کام تو جماعت اور مصلہ ہے۔ مصلہ میری بنیاد ہے اور جب میں جماعت میں امام ہوں تو قسم خدا کی ملک میں بھی آپ کا امام رہوں گا۔

علماء جو دعویٰ کرتے ہیں اور تعلیم دیتے ہیں کہ العلماء ورثة الأنبياء، علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء کا میراث یہ علم ہے۔ جس نے یہ علم حاصل کیا وہ انبیاء کا وارث بن گیا۔ تو عالم کو وارث کہا گیا ہے لیکن پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا لیکن خلفاء ہوں گے۔ اور نبی علیہ السلام فرماتے ہیں ولا نبی بعدی تو یہ اس حدیث کی ذیل میں ہے کہ نبی علیہ السلام فرماتے ہیں كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ آخر، بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے۔ ایک پیغمبر جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لیتا، ہر پیغمبر سیاستدان تھا لیکن سیاست کا آج کے زمانے میں معنی تبدیل ہوگیا۔ جس طرح ہمارے سیاستدان ہیں اسی طرح انہوں نے سیاست کے معنی کیے۔ مکر، چالاکی، جھوٹ اور دھوکے سے دولت تک پہنچنا، اقتدار کی کرسی تک پہنچنا، اس کے معنی کو سیاست قرار دیا۔ جمعیت علماء ایسی سیاست سے بیزار ہے۔ آپ تو ہمیشہ سنتے آرہے ہیں جو بھی وزیر اعظم اقتدار سے اترتا ہے تو کہتے ہیں اتنا ہڑپ کر کھا گئے ہیں، یہ یہ فروخت کر دیا ہے۔ یہ ان کی سیاست کا خلاصہ ہے۔ اور اب تو یہ نئی بات آگئی کہ جھوٹ اور دھوکہ دہی سے یہ یہ حاصل کیا ہے، دھاندلی کی ہے اور حکومت حاصل کی ہے۔

تو اس لحاظ سے اے عالم اگر تم اپنے آپ کو پیغمبر کا وارث کہتے ہو اور جماعت میں محراب میں مصلے کو پیغمبر کی وراثت سمجھتے ہو اور اپنے آپ کے علاؤہ کسی اور کو اس کا حقدار نہیں سمجھتے، جماعت میں منبر کو پیغمبر کی وراثت سمجھتے ہو اور اپنے آپ کے علاؤہ کسی اور کو وارث نہیں مانتے تو پھر منصب سیاست میں کسی اور کو پیغمبر کا وارث کیوں سمجھتے ہو۔ اس کا احساس کیوں نہیں کرتے۔ میرے سامنے ان لوگوں نے اعتراف کیا ہے، پیٹھ پیچھے بات نہیں کر رہا ان الفاظ میں کہ پشتون خواہ بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور ان گہری جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہم نے پندرہ سال این جی اوز کے راستے کام کیا ہے کہ پشتون نوجوان، مسلمان نوجوان ان سے پشتو کو بھلایا جائے، مسلمانی کو بھلایا جائے، تہذیب کو بھلایا جائے اور اس میں ہم کامیاب ہوگئے۔ تو معاشرے میں نکلنا پڑتا ہے۔ جو نسل خراب ہوگئی ہے اب نئی نسل کی فکر کرو۔ محلول میں رابطے کرو، نوجوانوں کے ساتھ بیٹھو، حجروں میں بیٹھو، اور قوم کو یہ بات سمجھاؤ گے جب تک یہ راستہ اختیار نہیں کروگے ان لوگوں کی سازشیں اس طرح کامیاب ہوتی جائے گی۔

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ 

یہ تو ان کے منہ سے نکلی باتیں ہیں اور جو سینوں میں پوشیدہ ہے وہ تو اور ہے۔

تو اس حوالے سے آپ نے احساس کرنا ہوگا بس فضلاء ہیں آج فارغ ہوگئے مولوی بن گئے۔ مولانا عبد الحق رحمہ اللہ صاحب ہمیں نصیحت کرتے تھے جب ہم آخری حدیث پڑھتے تو یہ نصیحت کرتے کہ آپ علماء نہیں ہو اب آپ میں استعداد پیدا ہوگئی ہے اب اپنے آپ کو عالم بناؤ۔ اس کے بعد محنت کرنی پڑے گی کہ اپنے علم کو مظبوط کر دو، اس میں ترقی کرو، علم کے مقصد کو پہچانو اور معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرو۔ دنیا میں انقلاب ہمیشہ غریبوں نے برپا کیے ہیں۔ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے کبھی انقلاب برپا نہیں کیے۔ تو اس پر مایوس مت ہونا کہ ہم غریب ہیں اور یہ دولت مند لوگ ہیں۔

تو میرے محترم بھائیو! ان شاءاللہ ان خطوط پر کام کریں گے۔ ان مدارس ان علوم کی حفاظت، اس معاشرے کی حفاظت، سیاست کی حفاظت، سیاست شرعیہ، سیاست انبیاء، جمعیت علماء کے صفوں میں جمعیت کے جھنڈے تلے اس تحریک کو آگے لے کر جائیں گے۔ اللّٰہ ہمارا حامی و مددگار ہوگا۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamJUIswat

چارسدہ:قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا جامعہ اسلامیہ میں دستاربندی کی تقریب سے خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, January 18, 2025

0/Post a Comment/Comments