قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں قبائلی جرگے سے خطاب
(پشتو سے اردو ترجمہ)
26 جنوری 2025
میرے لیے انتہائی قابل قدر قبائلی زعماء، حق تو یہ تھا کہ آپ سب یہاں تشریف لے آئیں اور میں فرداً فرداً سب کے ساتھ ملتا اور آپ کو خوش آمدید کہتا، لیکن کچھ معذوری اور وقت کی کمی کے باعث میں سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللّٰہ آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے، ہمیشہ آتے رہو، ہم آپ کو ہمیشہ خوش آمدید کہیں گے۔
چاہے میں ہوں یا جمعیت علماء اسلام ہے کبھی اپنے آپ کو قبائل سے الگ نہیں سمجھا ہے۔ میں بذات خود اپنے آپ کو قبائل کا حصہ سمجھتا ہوں۔ قبائل کے خون کو اپنا خون سمجھتا ہوں۔ ان کو دل کا ٹکڑا سمجھتا ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ قبائلی زعماء کے آنے سے ہمارے اندر ایک نئی تحریک کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تاکہ ہم اس مسئلے پر قبائل کے حق میں آواز بلند کر سکے۔ قبائل کے حق کے لیے جنگ کر سکے۔ اور اس علاقے کی امن و امان کی خاطر اپنا کردار ادا کر سکے۔
میرے محترم دوستو! یقیناً آپ میں ایسے دور اندیش لوگ موجود ہوں گے جن کا تمام حالات پر گہرا نظر ہوگا۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے مجلسیں بس اس بات تک محدود ہوتی ہے کہ آج سورج نکلا اور آج غروب ہوا، اس سے اگے پیچھے ان کے ذہن میں کوئی نقشہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس خطے کے بارے میں میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، میں نے آپ کے ساتھ بہت جرگے کیے ہیں اور دو ہزار بارہ کے بعد تو ہم نے ایک مستقل جرگہ تشکیل دے دیا۔ اس میں مختلف قوم اور قوم پرست لیڈر بھی شریک تھے۔ اس حد تک اگر قبائلی علاقے میں ہندو، سکھ، عیسائی بھی رہتے تھے ہم نے ان کو بھی بلایا ہے۔ قبائلی علاقوں میں اگر وکلاء تھے ان کی بھی نمائندگی ہوئی تھی، اگر صحافی تھے تو صحافیوں کی نمائندگی بھی ہوئی تھی اور پھر پختونوں کے سربراہ، پارلیمنٹ میں ان کے ممبران بار بار ان جرگوں میں آئے ہیں اور ہمارے ساتھ باتیں کی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ ایک چیز ہم کافی عرصے سے دیکھ رہے ہیں اس قبائلی علاقے میں عام لوگوں کا ووٹ نہیں تھا اور اگر ہم عام آدمی کی ووٹ کی بات کرتے تھے تو ریاست کے ذمہ دار اس پر ناراض ہو جاتے تھے۔ پھر ایک وقت ایا کہ ان قبائل کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ اگر ایک طرف ان کو ووٹ کا حق دیا تو دوسری طرف مجھ پر پابندی لگا دی کہ آپ ان قبائلی علاقوں میں نہیں جائیں گے۔ اب میں ایک سیاسی آدمی ہوں ایک سیاسی جماعت رکھتا ہوں، میں الیکشن میں حصہ لیتا ہوں اس کے لیے عوام کے پاس جاتا ہوں لیکن میں اس حکمت کو نہیں جانتا کہ مجھ پر پابندی کیوں لگائی گئی۔ پھر ایک وقت ایا کہ امریکہ نے افغا نستا ن پر حملہ کر دیا۔ وہاں پر طا لبان کی حکومت تھی وہ چلی گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے قبائلی علاقوں میں جانے دیا جائے میں بہت کمزور بندہ ہوں لیکن اپنے آپ پر اتنا بھروسہ ہے کہ اگر میں وہاں بیٹھ جاؤں تو کوئی بندوق نہیں اٹھائے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے اپنے نوجوان پر اتنا بھروسہ ہے کہ جب تک ہماری اجازت نہیں ہوگی یہ بندوق نہیں اٹھائیں گے۔ اس وقت بھی یہ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے۔ اور مجھ سے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ قبائل میں سیاست اپنی پنجے گاڑے۔ میں نے کہا کہ ایسے حالات آجائیں گے کہ پھر آپ مجھے کہیں گے کہ وہاں جاؤ پر میں نہیں جاؤں گا۔ آج آپ سب وہ حالات دیکھ رہے ہیں۔ اور اب اگر میں چاہوں کہ ان علاقوں میں جاؤں تو آج تو حالات ایسے ہیں کہ ہم ڈی آئی خان نہیں جا سکتے۔ میرے اس گھر پر تین دفعہ راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔ مجھ پر ذاتی طور پر تین خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ کیوں، آخر کس جرم میں، صرف اس وجہ سے کہ ہم قبائل کے ساتھ کھڑے تھے اور امن کی بات کر رہے تھے اور امن کی بات پاکستان میں کرنا جرم ہے۔ اور پھر یہ اکیلے پاکستان کی سیاست نہیں ہے بلکہ یہ منطقہ بین الاقوامی سیاست کا مرکز ہے۔ اس منطقے پر امریکہ کی بھی نظر ہے، اس منطقے پر نیٹو کی بھی نظر ہے، اس پر چین کی بھی نظر ہے، اس پر روس کی نظر ہے۔ تمام بین الاقوامی قوتیں اس منطقے پر اپنی ایک سوچ رکھتی ہے اور اس منطقے کی مفادات پر ان کی نظریں ہیں۔ آپ بھی کہیں گے اور میں بھی کہہ رہا ہوں اور ظاہری طور پر بھی ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ یہ خشک پہاڑ، یہ گرد الود لوگ، صبح و شام روٹی کی فکر، اس منطقے پر یہ لوگ کیا کریں گے۔ لیکن آج مختلف مجلسیں برپا ہیں کہ ہمارے ان قبائل میں باجوڑ سے وزیرستان تک یہ ایشیا کہ معدنیات کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اس میں تیل، کوئلہ، گیس، سونا، چاندی، تانبہ، قیمتی دھات، پتھر یاقوت زمرد ان خزانوں سے یہ منطقہ بھرا پڑا ہے۔ اور یہ قوتیں اسی حس کی نظر سے اس منطقے کو دیکھتی ہے۔
تو ظاہری بات ہے کہ ایسی مٹی پر قبضہ کرنا ان کے لیے پہلے بدامنی پیدا کرنی پڑتی ہے۔ جو لوگ اور ریاست میرے ساتھ مذاکرات کرتی ہے، جرگے کرتی ہے وہ دھوکہ دیتی ہے۔ یہ وقت گزاری کر رہے ہیں۔ یہ ہمیں یہ تاثر دے دیتے ہیں کہ آج ایک بات پیش آگئی ہے او اس پر بات کرتے ہیں، اس پر مشورہ کرتے ہیں۔ بھئی یہ بات صرف آج کے واقعے کی نہیں ہے یہ تو روز کا معمول ہے۔ اس پر میرے ساتھ بات کریں کہ بیس سال بعد آپ کے ہمارے حوالے سے کیا ارادے ہیں، اور پچاس سال بعد کیا ارادے ہیں۔ اور اس پر بھی ہمیں سمجھائیں کہ بنگال کی طرح ہمیں الگ کرنا چاہتے ہو یا اپنے ساتھ رہنے دیتے ہو۔ اور اس بات پر ہمیں سمجھاؤ کہ وہ امریکہ جس نے ساری دنیا کو ایجنڈا دیا ہے اور وہ ایجنڈا یہ ہے کہ میں ایک بار انسانی حقوق کی بات کروں گا، انسانی حق کے نام پر ایک ملک میں فوجی اتاروں گا اور لوگوں سے کہوں گا کہ میں آپ کا حق بچانے کے لیے آیا ہوں، آپ کی زندگی، آپ کی عزت، آپ کا خون، آپ کا مال بچانے ایا ہوں اور حقیقت میں وہ ان پر قبضہ کرنے کے لیے آیا ہوگا۔ آتے امن کے نام سے اور نتیجہ جنگ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہم خون ریزی بند کرنے آئے ہیں حالانکہ یہ خون بہانے آتے ہیں۔
تو ایسے عنوانات کے ساتھ یہ دنیا میں سیاست کرتے ہیں۔ عراق اور لیبیا کے ساتھ کیا کیا، اب پتہ نہیں شام کا کیا بنے گا۔ افغا نستا ن کے ساتھ کیا نہیں کیا اور اس کے باوجود ہم ان بین الاقوامی قوتوں کے ایجنڈوں سے بے خبر ہیں۔ ہم اتنے سادے بنے ہوئے ہیں کہ آج علاقے میں فوج آگئی، آج طا لبا ن اگئے، دو بندے قتل ہوئے، چار قاتل ہوئے بس یہی ہمارا مسئلہ ہے اور اسی کے لیے ہم روڈ بند کر دیتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں۔ بھئی یہ تو بہکانا ہے، یہ تو روزمرہ معمولات کی ایک بات ہے پیش اگئی۔ صبح کو بندے کو بھوک لگتی ہے تو روٹی مانگتا ہے، شام کو پھر بھوک لگتی ہے پھر روٹی مانگتا ہے، صبح پھر تو یہ تو انسان کی معمول کی زندگی ہے۔ اسی بات کو سمجھو کہ ایجنڈا کیا ہے۔
پھر بات آگئی جب نائن الیون کا واقعہ ہوا، افغا نستان پر چڑھائی کی اور انہوں نے یہاں انضمام کا مسئلہ اٹھایا۔ اس حوالے سے یہاں ہماری اسمبلی میں ہمارے اپنے دوستوں نے جن کی حکومت تھی انہوں نے قرارداد پاس کی کہ قبائلی علاقوں کو ضم کر دو۔ جس پشتون کے نام پر تم سیاست کرتے ہو، جس پشتون کے نام پر تم جھنڈا اٹھاتے ہو، تم نے ان سے کہا کہ او پاکستان میں سبز باغ ہیں۔ تو میں نے آپ سے کہا کہ سبز باغ نہیں ہے میں نے دنیا میں اسی سے زائد ممالک کا حوالہ دیا کہ ان ملکوں کے مختلف علاقوں میں آئینی حیثیت الگ الگ ہے تو پاکستان میں ایک علاقہ ہوگا اس کی آئینی حیثیت الگ ہوگی۔
تو ایسا نہ کرے۔ افغا نستا ن اور ہمارے بیچ آج بھی ڈیورنڈ لائن پڑی ہے۔ یاد رکھو دنیا میں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ایک لفظ بارڈر اور ایک لفظ لائن، بارڈر مظبوط علاقے کو کہتے ہیں اور لائن کچے علاقے کو کہا جاتا ہے غیر حتمی ناتمام سرحد، انڈ یا کے ساتھ میرا بارڈر ہے لیکن کشمیر پر ہماری لائن ہے کنڑول لائن، کیوں کہ یہ علاقہ ہمارا ہے۔ افغا نستا ن کے ساتھ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک آج بھی لائن ہے۔ تم تو ایک فریق ہو کل دوسرے فریق کا ردعمل کیا ہوگا۔ کیوں پڑوسی ملک کے ساتھ ہمیں الجھا رہے ہو، تھوڑا انتظار کرو۔ تو حکومت نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جب ہم انضمام کریں گے تو دس سال تک ہم ہر سال سو ارب روپے قبائل کو دیں گے، کس مقصد کے لیے، کہ ہم قبائل میں انفراسٹرکچر تعمیر کریں، وہاں سڑکیں تعمیر کریں، ہسپتال، سکولز، کالجز، یونیورسٹیز، بجلی اور ان کی معیار زندگی اتنی بلند کریں گے کہ ان کو سیٹل ایریا کے برابر کر دیں گے۔ تو جب آپ نے خود ان کو دس سال کا وقت دیا ہے تو آج انضمام کا فیصلہ کیوں کر رہے ہو، اور پھر یہ لوگ مطمئن بھی ہو جائیں گے کے انضمام میں تو بہت فائدہ ہے۔
پھر میں نے ان سے کہا کہ قبائل سے پوچھ لو، مسئلہ ہمارا نہیں ہے بلکہ ان کا ہے عوام کا ہے ان سے پوچھ لو کہ وہ راضی ہے یا نہیں۔ اب میں کس کا نام لوں کہ مجھے خود اپنی زبان سے یہ کہا ہے کہ قبائل کون ہے جن سے بندہ پوچھے گا۔
میرے قبائل کے بزرگوں ہم نے ایسی زندگی گزاری ہے اور پھر حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا کہ انہوں نے پچیس نکات سے چار نکتے نکال لیے جن پر مجھے اعتراض تھا۔ کہا اب راضی ہو میں نے کہا ہاں، جس دن میں نے حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا کہ انہوں نے انضمام کے حوالے سے اپنی تین چار باتیں واپس کیں کل صبح امریکی نمائندہ میرے گھر پہنچ گیا۔ یہاں پر قبائل میں اس کی ڈیوٹی تھی یہاں آفیسر تھا۔ کہنے لگا کہ میں دو ہزار تیرہ سے یہاں ڈیوٹی پر ہوں یہ یہ کام کر رہا ہوں تو سوچا کہ انضمام کے موقف پر آپ کی رائے جان سکوں۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہم نے بحث کی تو کہنے لگا کہ یہ بحث ابھی مکمل نہیں ہے میں آپ کو روٹی کی دعوت دوں گا اور آپ میرے ہاں تشریف لائیں گے۔ ایک ہفتے بعد انہوں نے دعوت دی اور میں عشاء کے بعد چلا گیا۔ کہنے لگا فاٹا مرجر از مسٹ اینڈ اٹ از اور فرسٹ فریارٹی، آپ پر لازم ہے کہ یہ انضمام ضرور کروگے اور یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں باجوہ صاحب اگئے۔ مجھے اطلاع دی کہ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں گیا، خاقان عباسی صاحب وزیراعظم تھے وہ اور ساتھ میں آئی ایس آئی چیف بیٹھے ہوئے تھے۔ چار بندوں کی میٹنگ تھی۔ مجھ سے کہا آپ انضمام کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی لمبی موضوع ہے آپ نے تو ایک لفظ کے ساتھ بات ختم کر دی۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو میں اس پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بحث کر سکتا ہوں۔ میں اس پر دلائل کی بنیاد پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ اور آپ کا آئی ایس آئی چیف ان چیزوں سے واقف ہے۔ تو یہ مجھ سے کہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ ضد نہ کرے ہم پر امریکہ کا دباؤ ہے۔ کس حد تک آخر ہم ان باتوں کو پوشیدہ رکھیں گے۔ امریکہ نے نقشہ بنایا ہے اور ہوسکتا کل امریکن پشاور سے لے کر اسلام آباد تک ہم پر حملے ڈرون شروع کر دیں۔
تو اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ یہ کس کا ایجنڈا تھا۔ میں صرف اس بات پر شکوہ کر رہا ہوں اور مجھے یہ حق ہے کیوں کہ گلے شکوے اپنوں سے کیے جاتے ہیں کہ ہمارے قوم پرست رہنماؤں نے اس آپریشن کی حمایت کیوں کی تھی اور پھر انضمام کی حمایت کیوں کی۔ جس امن کی بات آپ آج کر رہے ہیں کل اسی امن کے نام پر قبائل میں آپریشن کے نام پر فوج کو دعوت یہی لوگ دے رہے تھے اور پھر انضمام کے حوالے سے ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے تھے اور ہم تنہا رہ گئے۔ آج قبائل کے وارث بھی یہ بن گئے۔ یہ گلہ میرا حق ہے کیونکہ یہ میرے بھائی ہے۔ میری مٹی، میرا وطن، میرا قوم ہے۔ یہ باتیں تفصیل سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بڑے آئے ہوئے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہو۔ مجھے کوئی شوق نہیں کہ میں ریاست پاکستان کے خلاف بات کروں، میں فوج کے خلاف بات کروں، میں اپنے قوم پرست پشتونوں کے خلاف بات کروں، میں تو ان کو وہی دعوت دے رہا ہوں جس دعوت پر آج آپ یہاں آئے ہیں۔
انضمام ہوا اب آپ بتائیں کہ آج آپ قبائل ہے یا سیٹل، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے، ایک سال میں وہ سو ارب روپے آج نواں سال جاری ہے نو سالوں میں وہ ہزار ارب تو چھوڑو آیا سو ارب بھی انہوں نے آپ کو مکمل طور پر دیے ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے محسود قبائل کا وفد میرے پاس آیا تھا تو مجھ سے کہا کہ ہمیں تو یہ لکھ کر دیا ہے کہ جو گھر مکمل طور پر تباہ ہو ان کو چار لاکھ اور جزوی طور پر تباہ حال کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے، میں نے کہا یہ آپ سے وعدہ کیا ہے تو کہا نہیں لکھ کر دیا ہے۔ تو میں نے کہا وہ تو خراب ہو چکا ہوگا کہنے لگے ہم نے پلاسٹک میں بند کیا ہوا ہے۔ تو میں نے کہا کہ آج کے دور میں تو چار لاکھ پر ایک باتھ روم بھی نہیں بن سکتی۔
تو یہ ریاست کا قبائل کے ساتھ رویہ ہے۔ گھر بار ہم نے چھوڑ دیے، اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے۔ دس سال بعد جب واپس گئے تو ہمارے گھر نہیں تھے، سامان نہیں تھے، ہر جگہ جنگل بنے ہوئے تھے۔ راستے بھی ہم خود ہی صاف کر رہے تھے۔
تو قبائلی بھائیو! ہم نے اپنی ہمت کی ہے کہ جو پگڑی ہمارے سروں سے گر رہی ہے اس کو اگر کندھے پر رکھ دے یہ بھی کافی ہے۔ تو اس ملک کی تمام مٹی میں قبائل سے زیادہ عزت دار قوم اور نہیں تھی۔ ان سے زیادہ قابل احترام کوئی نہیں تھے۔ اپنی عزت اور ناموس پر فخر کرتے تھے۔ اس وطن کی وجہ سے آج وہ ذلیل و رسواء ہو گئے۔ دوسری طا لبان ہے جس نام سے بھی ہے۔ کہتے ہیں ہم جہاااد کر رہے ہیں،کس کے خلاف، کس شریعت میں جہا د کر رہے ہو۔ کس عالم نے فتویٰ دیا ہے۔ تو بس وہ بھی لگے ہوئے ہیں یہ بھی لگے ہوئے ہیں اور بیچ میں ہم پس رہے ہیں۔
وہ ایک قصہ مشہور ہے کہ سوات میں فوجیوں نے کچھ لوگوں کو پکڑا جس میں ایک بوڑھا آدمی بھی تھا۔ ان کو تھانے لے کر پوچھا کہ باباجی یہ فوجی کیسے لوگ ہیں،تو اس نے کہا جی بہت اچھے لوگ ہیں وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں۔ تو پھر پوچھا کہ یہ طا لبا ن کیسے بندے ہیں تو بابا نے کہا وہ بھی اچھے لوگ ہے اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ تو تھانے والے نے حیرت سے پوچھا پھر کا فر کون ہے تو بابا نے کہا جی وہ ہم ہے۔ آپ کے ہتھے چڑھ گئے یا ان کے ہتھے چڑھ گئے۔
تو قوم کو اس حد تک پہنچایا ہے۔ آج انضمام کے بعد آپریشنز ہوئیں۔ سوات سے لے کر وزیرستان تک گیارہ ناموں سے آپریشن کیے گئے۔ آج مجھے ان آپریشنز کے نتائج دکھائیں نا، آج اس انضمام کا نتیجہ مجھے دکھائیں۔ ہمیں تو آگ میں جل رہے ہیں۔ ہم تو خون کے تالاب میں کھڑے ہیں۔
لیکن میرے قبائل کے زعماء، عمائدین، جبہ و دستار کے مالکوں یاد رکھو کہ جمعیت علماء اسلام، فضل الرحمن یہ آپ کے ساتھ آگ میں بھی کھڑے رہیں گے، خون میں بھی آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے، ان شاءاللہ ہر حالت میں آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ آپ کا غم دکھ درد اپنا سمجھے گے، آپ کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھے گے اور آپ کے دوست کو اپنا دوست سمجھے گے اور ان شاءاللہ جمعیت علماء اسلام کی وفاداری میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
میرے اس منطقے میں ان کا مستقبل کا ایجنڈا کیا ہے۔ آیا میرے اس منطقے کو امریکہ کے حوالے کر رہے ہیں۔ آیا اس کو پاکستان سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔ مقصود کیا ہے ان کا، روزمرہ کی معاملات پر میرے ساتھ بات نہ کریں۔ کس مقصد کے لیے آپ بات کرنا چاہتے ہیں۔ آج یہ ہوا ہے کل وہ ہوا تھا، اتنے افراد لے کر گئے اور اتنے لے کر گئے یہ کیا ہے۔ یہ تو ہم اور آپ کو مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔ اصل ایجنڈے پر مجھے خبر دو۔ اصل عزائم سے مجھے آگاہ کرو۔ پھر اس کے حل کا راستہ مجھے بھی معلوم ہے اور آپ کو بھی معلوم ہے۔
آپ کے دل میں کیا ہے، آپ نے اداروں میں کیا فیصلے کیے ہیں، مستقبل میں آپ کیا ارادے رکھتے ہیں۔ تا قیامت یہ آپ کو دل کا حال نہیں سنائیں گے اور آپ سے کہیں گے آجاؤ جرگہ کرتے ہیں۔ کس چیز کا جرگہ کرنا ہے۔ میرے حالات میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تو ہم اپنے ملک کے بھی خیر خواہ ہے، ہم اپنی فوج کے بھی خیر خواہ ہے، اپنے جوانوں کے بھی خیر خواہ ہے۔ کسی کے بدخواہ نہیں ہے۔ اور ہر سو یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں جبر و ظلم کی قوت کو صحیح جگہ پر استعمال کرے۔ اپنے قوم اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف اسے استعمال کر رہے ہیں، آخر کیوں۔
تو یقینا ہم امن چاہتے ہیں، امن پر ہم سب متفق ہیں اور میں آج بھی حکومت کو چیلنج کرتا ہوں کہ اب تو نو سال ہوگئے لوگوں نے انضمام کے مزے دیکھے ہوں گے اور اس پر خوش ہوں گے کہ ہم نے جو سبز باغ دکھائے تھے اب اس میں خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں، اب تو قبائل انضمام کے علاؤہ کسی اور بات کو سنیں گے بھی نہیں، تو او آج اس قوم سے پوچھو کہ یہ کہتے ہیں۔ آج قوم دربدر ہیں۔ آج وہ آبادیاں کہاں ہیں جو آپریشن سے پہلے قبائل میں تھے آیا وہ آبادیاں آج ہے، کیا میرے لوگ پنجاب اور پشتون خواہ میں دربدر اور بکھرے ہوئے پڑے نہیں ہے، کیا کراچی تک موجود نہیں ہے۔ ووٹ کا حق نہیں دیتے، مردم شماری ان کو نہیں دیتے۔ تو آپ نے بزور بازو میری ابادی بھی کم کر دی، میرے سینٹ کے آٹھ سیٹیں بھی کم کر دی، میرے قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی کم کر دی اور ہمیں نہیں معلوم کہ ترقیاتی کاموں کے نام پر یہ پیسے کدھر خرچ ہوئیں، کن کے مفاد میں استعمال ہوئی کم از کم ہمیں تو کوئی علم نہیں ہے۔
تو آج جو عمائدین یہاں آئے ہیں۔ آپ ہمارے لیے قابل صد احترام ہیں۔ آپ ہی ہمارے دستار ہیں، ہماری عزت اور ہمارے لیے قابل قدر ہے۔ اگر آپ کی خواہش ہو کیوں کہ یہ کرم کا بھی مسئلہ ہے، اور اہم مسئلہ ہے اور اگر ہماری توقعات ان اداروں سے ہو کہ یہ ہمارے مسائل حل کریں گے مجھے ان سے ایک ٹکے کی امید نہیں ہے۔ بس ہاتھ جوڑ کر اتنا درخواست کریں گے کہ خدارا اسے برباد مت کرے۔ خیر کی کوئی توقع نہیں لیکن سازشیں نہ کرے، قوم کو آپس میں مت لڑائیں۔ جب قوم آپس میں لڑے گی تو یہ لوگ فایدہ اٹھائیں گے۔ ہمارے جو حقوق ہیں ان پر یہ قابض ہو جائیں گے۔ اور ہم اس جرگہ میں بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اپنا حق کسی صورت کسی کو نہیں دیں گے اور اپنے حق کے لیے لڑیں گے۔ اپنا حق کسی کو نہیں دے سکتے۔ یہ کسی کا انفرادی حق نہیں بلکہ میرے قوم کا اجتماعی حق ہے۔ میرا کسی پر حق ہوگا میں نہیں لینا چاہتا تو میری مرضی، تو یہ تو قوم کا حق ہے اسے کیسے چھوڑیں اور نہ اس پر کسی کو قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے مالک یہ قوم اور اس کے بچے ہیں۔ اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ پاکستان بھی میرا وطن ہے، فوج بھی ہماری ہے۔ یہ نوجوان بھی ہمارے ہیں ان کو بھی جنگ سے بچانا ہے، برے دن سے بچانا ہے، خون ریزی سےبچانا ہے۔ طاقت کا استعمال بھی طریقے سے ہونی چاہیے۔ قبائلیوں کے گھروں میں تو بندوقیں اور بھاری اسلحہ ہوتا تھا وہ جانتے تھے کہ ہمارے پاس قوت ہے اور قوت استعمال کرنے کا طریقہ بھی آتا ہے۔ تو ظالموں تم تو اپنے طاقت کے استعمال کا طریقہ بھی نہیں جانتے، کہ کس طرح استعمال کرے۔ بڑوں کی قدر و قیمت تم نے ختم کر دی اور یہ بات میں صرف فوج کو نہیں بلکہ طا لبان کو بھی کر رہا ہوں۔ تو اس قوم اور مٹی پر رحم کھاؤ، اسلام کے نام پر کسی دھوکہ دے رہے ہو۔ جمعیت علماء سے بڑی جماعت پاکستان میں نہیں ہے۔ وفاق المدارس سے بڑا ادارہ پاکستان میں نہیں ہے۔ تمام مکاتب فکر اس پر متفق ہیں کہ بندوق کا راستہ ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اب ان باتوں پر ان کو سمجھانا، جرگے کرنا اگر آپ کی مرضی ہو تو جو جرگہ بنایا گیا تھا جس میں تمام قبائل ایجنسیوں کے مشران موجود ہے اور اگر کوئی نہیں ہے یہاں موجود ہے یا آپ کی نظر میں ہے کہ وہ اپنے قبیلے کا بڑا ہے ان کا نام جرگہ میں نہیں ہے تو آئندہ جرگے میں اسے بھی بلالیں گے اور اس موضوع پر ایک اور جرگہ کریں گے اور آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے اگر آپ کی مرضی ہو۔ جو بھی بڑا نہیں آیا ہو تو یہ پارٹی سے بالاتر بات کر رہا ہوں یہ جمعیت علماء اسلام کی بات نہیں، اس میں دوسرے پارٹیوں نیشنل پارٹی کے لوگ بھی ائے ہیں، بغیر پارٹیوں کے لوگ بھی اس معرکے میں آئے ہیں۔ یہ ایک قومی علاقائی معرکہ ہے، ایک مشورہ ایک جرگہ ہے اسے برقرار رکھیں گے۔ ان شاءاللہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں