قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا گجرانوالہ میں حالات حاضرہ پر اہم پریس کانفرنس

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا گجرانوالہ میں حالات حاضرہ پر اہم پریس کانفرنس

31 جنوری 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
پوری دنیا جانتی ہے کہ پندرہ ماہ تک اسرائیل اور صہیونی قوت غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں پر جو آگ برساتی رہی ہے اور جس سے کہ ساری کی ساری آبادیاں منہدم ہوگئی۔ پچاس ہزار سے زائد لوگ شہید ہوگئے۔ جس میں چھوٹے بچے خواتین بوڑھے اور اب جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے وہ بھی فلسطین کی شرائط پر ہوا ہے۔ اور اس میں ان کو کامیابی ملی ہے یقیناً وہ مبارکباد کے بھی مستحق ہیں اور ہمیں اللہ پر مکمل بھروسہ ہے کہ فلسطینیوں کا یہ خون اور یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گے اور یہ ساری جدوجہد فلسطین کی مکمل آزادی اور مسجد اقصیٰ کی مکمل آزادی پر منتج ہوگی۔ لیکن یہاں ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو مصر میں آباد کر دیا جائے تو فلاں ملک میں آباد کیا جائے فلاں ملک میں آباد کیا جائے ٹرمپ جیسے شخصیت کے ساتھ اسی طرح کی باتیں جچتی ہیں جس کا عقل کوئی تقاضا نہ کرتا ہو۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد جب یورپ میں یہودیوں نے مار کھائی اور وہ دربدر ہوئے تو اس وقت بین الاقوامی جو قوانین سامنے آئے اقوام متحدہ کے اور ان کی نئے آبادکاری کے بارے میں ایک بین الاقوامی ذمہ داری قرار دی گئی تھی کہ ان لوگوں کو پوری دنیا میں جگہ جگہ آباد کیا جائے پھر کیوں صرف فلسطین میں آباد کیا گیا؟ صرف فلسطین کی سرزمین کیوں اس کے لیے خاص کر دی گئی اور 2017 میں جو دارفور معاہدہ تھا وہ کس منصوبے کے تحت ہوا جس میں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کی گئی تو اس حوالے سے ہم یہ سوچتے ہیں کہ آپ فلسطینیوں کو مختلف ممالک میں آباد کرنے کا مشورہ نہ دیں ہمارا مطالبہ ہے کہ آپ اسرائیل میں جتنے یہودی اور صہیونی لوگ ہیں ان کو امریکہ میں آباد کر لے یا کسی اور یورپی ملک میں آباد کر دے۔ اور یہ بین الاقوامی ذمہ داری کے تحت اس وقت سب سے بڑے ذمہ داری امریکہ پر ہے کہ وہ اسرائیل کو یہاں سے اٹھائے اور تمام یہودیوں کو اور صہیونیوں کو امریکہ میں جگہ دے اور وہاں ان کو آباد کر دے۔
دوسری بات جو میں آپ حضرات کے سامنے کرنا چاہتا ہوں وہ ابھی جو نیا قانون پیکا پاس ہوا ہے تو میں ذرا آپ کے نوٹس میں یہ بات لے آؤں کہ اسلام آباد میں آپ کا ایک وفد مجھے ملا تھا اور ان کا موقف میں نے سنا اور ان کے ساتھ میں نے مذاکرہ بھی کیا اور اس کے فائدے اور نقصانات کے پہلوؤں پر بحث بھی کی مجھے ان کی بات میں وزن نظر آیا اور ان کی بات معقول تھی کہ ایک طرفہ طور پر قانون پاس کرنے کی بجائے اگر صحافیوں کے ساتھ ذرا مشورہ کر دیا جاتا اور ہمارے کچھ تجاویز اس میں لے لی جاتی ہیں کیا بری بات ہے اور اس میں تو یہ ہے کہ ایسا قانون کہ جب چاہے جس کو چاہے جس وقت اٹھا لے اور ہمارا ایک بیان اس کو آپ اس زمرے میں فوراً لے آئیں کون پوچھنے والا ہے اس کو کوئی تصویر تو ہے نہیں تو اس اعتبار سے میں نے صدر مملکت سے فون پہ رابطہ کیا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ دستخط نہ کریں اور ان کے ساتھ آپ رابطہ کر کے ان کی تجاویز لے لیں ان سے مجھ سے انہوں نے اتفاق کیا اور یہ بھی کہا کہ محسن نقوی صاحب اب پہنچے ہیں اور ایک آدھ دن میں میرے پاس پہنچنے والے ہیں میں ان کی ذمہ داری لگاتا ہوں کہ وہ صحافیوں کے ساتھ رابطے میں آجائیں اور پھر ان کے کچھ جو تجاویز ہوں گی وہی میں پھر گورنمنٹ کو بھیج دوں گا کہ اس میں آپ شامل کر لیں لیکن صبح ہوتی ہی دیکھا کہ انہوں نے دستخط بھی کر لیا، اب اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ انداز کہ آپ ایک شریف آدمی کے طور پر صدر مملکت کی حیثیت سے بات کر لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس کا گزٹ کر لیتے ہیں تو میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کی اس میں تجاویز لی جائیں ان سے بات چیت کی جائے جو معقول تجاویز ہوں ان کو قبول کر لیا جائے اور ترمیم کے ذریعے سے اس کو اس قانون کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ دو باتیں اس وقت میرا خیال تھا میں آپ کے گوش گزار کر لوں مزید اب اگر صورتحال پر آپ کے سوالات ہوں گے۔
سوال و جواب
صحافی: مولانا صاحب زرداری صاحب آپ کے پرانے دوستوں میں سے ہے اور آپ کی ان سے فون پر بات بھی ہوئی جیسے آپ نے بتایا۔ انہوں دستخط کر دیے کیا ان کی اس حرکت سے آپ کا دل نہیں ٹوٹا ؟
مولانا صاحب: تو میں ان کو پرانا جانتا ہوں۔
صحافی: مولانا صاحب خبر یہ تھی کہ پی ٹی آئی اور حکومت میں مذاکرات ہو رہے تھے پھر وہ معطل ہو گئے۔ وزیراعظم کی طرف سے دوبارہ مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ آپ ظاہر ہے پہلے بھی اس طرح کے ماحول میں آپ کا اہم کردار رہا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو دوبارہ مذاکرات پہ آنا چاہیے یا یہ دونوں فریقین میں مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں، آپ کوئی دوبارہ سے رول پلے کرنے کے لیے تیار ہیں؟ دوسرا صحافی: سر اس میں ایڈ کرلے کہ پی ٹی آئی نے نو مئی کے واقعات کا جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا ہے، اب وزیراعظم مذاکرات کا کہہ رہے ہیں اور وہ جوڈیشل کمیشن پہ اڑے ہوئے ہیں۔ اب صورتحال کیا ہے یہ جو دونوں فریقین میں چل رہا ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے میں سیاسی کارکن ہوں اور میں مذاکرات پر یقین رکھتا ہوں اور مذاکرات کے ذریعے سے سیاسی حل پہ یقین رکھتا ہوں سو مذاکرات کی تو میں حمایت کروں گا، باقی مذاکرات کرنا اور نہ کرنا یہ ان کا اپنا معاملہ ہے چونکہ انہوں نے مذاکرات شروع کیے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو انہوں نے اعتماد نہیں لیا اب ظاہر ہے کہ جب وہ دوسروں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو پھر اس پر ہم مزید تبصرہ بھی نہیں کر سکتے جی۔
صحافی: مولانا صاحب آپ کو لگتا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا آپ بھی حکومت گرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے حکومت میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ ایک دن بھی چل سکے، جو لائے ہیں وہی چلا رہے ہیں اور جو لائے ہیں وہ کب اپنا سہارا جو ہے وہ کندھا جو ہے وہ اٹھا لیتے ہیں جس دن انہوں نے کندھا اٹھا لیا اس دن وہ حکومت نہیں ہوگی۔
صحافی: اچھا مولانا صاحب پی ٹی آئی اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے دو دھڑے سامنے آئی ہے اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے مجھے ان کے آپس کے دھڑوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ یہ میرا پرابلم نہیں ہے وہ میرے پاس جو آتا ہے اور جو کہتا ہے کہ خان صاحب کی ہدایات پر ہم آپ کے پاس آئے ہیں میرے لیے وہی دلیل ہے وہی حجت ہے اور میں بات کا جواب دینے کا پابند ہوں، اگر ان کی پارٹی میں کوئی اس سے الگ سے کوئی بات کرتا ہے یا اس کے برعکس کوئی بات کرتا ہے تو پارٹی ڈسپلن کے تحت ان کو خود ان کا نوٹس لینا چاہیے نہ یہ کہ میں ان کے جواب میں کوئی بات کروں۔
صحافی: مولانا صاحب کے پی کے میں اس وقت جو خراب حالات ہے اس پہ آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے جہاں تک کے پی کے میں حالات ہیں وہاں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، وہاں پر مسلح گروہوں کا راج ہے اور ٹرائبل ایریاز میں بھی اور سیٹل ایریاز میں بھی پولیس اس وقت جس وقت میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں اس کے بعد وہ سڑکوں پہ نہیں آسکتی وہ اپنے تھانوں میں جا کر محصور ہو جاتی ہیں اور سڑکیں علاقے وہ مصلح گروہوں کے قبضے میں ہوتی ہیں وہی گاڑیوں کو روکتے ہیں وہی لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں وہی لوگوں سے ٹیکس دیتے ہیں وہیں لوگوں سے جرمانے لیتے ہیں جو بھی ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور روزانہ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہیں جگہ جگہ پہ ہمارے خود علماء کرام نشانہ بن رہے ہیں تو اس سارے صورتحال میں جو ہمارے ہاں حالات ہیں میرے خیال میں پنجاب میں شاید اس کا وہ احساس نہیں ہو رہا اور اسی طرح بلوچستان کی صورتحال بھی جیسے ان کو ہم ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھ رہے اور جیسے کہ ہم نے ان کو ملک سے الگ کرنے کا کوئی سوچ رکھا ہے، تو میرے خیال میں یہ ساری صورتحال بڑی سنگین ہے اور ریاست کی سطح پر اس کو سنجیدہ لینا پڑے گا اور نہ پھر ہم یہ سوچیں گے کہ شاید یہ ملک کو تقسیم کر دے گا ایک منصوبے کا حصہ ہے۔
صحافی: مولانا صاحب پی ٹی آئی اور نون لیگ آپ کے در پر حاضری لگا چکی ہے بار بار آتے ہیں تو کیا ان دونوں کے بیچ آپ کو کردار ادا نہیں کرنا چاہیے؟
مولانا صاحب: قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا، میرے خیال میں دونوں کو کوئی معاملہ طے کرنے کا اختیار نہیں ہے جو لوگ اختیار رکھتے ہیں اگر وہ رابطہ کریں تو پھر سوچ سکتا ہوں۔
صحافی: مولانا صاحب کل ایم کیو ایم نے سندھ میں پریس کانفرنس کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے سرکاری سطح پر تاجروں سے بھتہ لیا جاتا ہے سندھ میں ماشاءاللہ آپ کی جماعت ہے تو آپ اس بیان کو کیسے دیکھتے ہیں ان اس الزام پر کہ تاجروں سے بھتہ لیا جاتا ہے؟
مولانا صاحب: کون لے رہا ہے اس کا بھی ذکر کریں وہی کہہ رہا ہوں نا جی ذرا یہ بھی سوچیں کون کون تھے جو بھتے لیتے تھے اگر اس کی بھی نشاندہی ہو جائے کہیں ایسا نہیں کہ پھر مجھے آپ یہ دعوت دے رہے ہیں کہ اگر وہ اپنی پارٹی میں کسی گروہ کے خلاف بات کر رہے ہوں اور پھر آپ مجھے کہیں کہ آپ اس کو بیان دیں تو میرا خیال میں ان کو اپنی پارٹی کے اندر ہی اس کا احتساب کر لینا چاہیے کہ وہ کس کے بارے میں ایسا سوچ رہے ہیں اور کس کے بارے میں ایسی بات کر رہے ہیں باقی یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ سندھ میں ڈاکو راج اور وہاں پر بھی یہی صورتحال ہے کہ راستے غیر محفوظ ہیں مسافر غیر محفوظ ہیں اور بھتے لوگوں سے لیے جاتے ہیں لوگوں کو لوٹا جاتا ہے مسافروں کو لوٹا جاتا ہے اور عام شہری کی زندگی وہاں غیر محفوظ ہیں۔
صحافی: اچھا سر ایک آخری سوال ہے انسانی سمگلنگ کے الزامات واقعات ہو رہے ہیں اور یہ گجرانوالہ اس کا مرکز ہے آپ سنتے  ہیں کہ اتنے سارے پاکستانی ڈوب گئے بطور عالم دین آپ اس پہ کیا کہنا چاہتے ہیں حکومت کو اس کو کس طرح روکنا چاہیے اور جو لوگ یہ گھناؤنا کاروبار دھندہ کر رہے ہیں لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ان کو لے جاکر سمندر میں ڈبو دیتے ہیں ان کے حوالے سے بطور عالم دین گفتگو کرے؟
مولانا صاحب: حضرت ایسے عناصر کے خلاف تو سخت آپریشن ہونی چاہیے۔ اور ہمارے سادہ لوح لوگ پھر انتہائی غریب لوگ بے روزگار لوگ ان کو ہم ملک میں روزگار نہیں دے سکتے نہ خود ان کے پاس روزگار کے کوئی مواقع ہیں وہ اس امید پر کہ ہمیں شاید لے جایا جا رہا ہے اور فلانے ملک میں ہمیں پہنچائیں گے تو ہم وہاں پر سبز باغ ہوں گے وہ راستے میں کہیں ڈوب جاتے ہیں کہیں دربدر ہو جاتے ہیں اور یہ مناظر میں نے خود اپنے آنکھوں سے دیکھے ہیں، میں نے ان لوگوں کو ترکی میں اور دوسرے ممالک میں خود دیکھا ہے اپنے سفارت خانے میں بیٹھے ہوئے روتے دیکھا ہے اور یہ انتہائی واقعی کربناک صورتحال ہے، اس کے خلاف باقاعدہ ایک حکومتی اقدام ہونا چاہیے انسانی سمگلنگ جو ہے ایک انتہائی گھناؤنا دھندہ ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں سب سے بڑھ کر امریکہ اور کینیڈا کے درمیان جو انسانی سمگلنگ ہوتی ہے شاید اس کی برابری کوئی دوسرا ملک کر سکتا ہو۔
صحافی: مولانا صاحب بانی پی ٹی آئی کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں ماشاءاللہ آپ کی دور پر نظر ہے۔
مولانا صاحب: خدا کرے وہ جلد باہر جائے اور آپ خود ان سے پوچھ لے کہ آپ کا مستقبل کیا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب پی ٹی آئی نے کے پی میں اپنا صدر بھی تبدیل کر دیا ہے آپ کو ادھر کیا نظر آتا ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے میں کسی پارٹی کے داخلی معاملات مداخلت نہیں کرتا یہ ان کا معاملہ ہے صدر تبدیل کرتا ہے وزیر اعلیٰ تبدیل کرتا ہے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ صوبہ پختونخوا میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ بہت شکریہ 
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments