قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی کے خلاف اقوام کے مشران کے ساتھ جرگے کے انعقاد کے بعد میڈیا سے گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، جانی خیل، بکاخیل اور دیگرز قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی کے خلاف اقوام کے مشران کے ساتھ جرگے کے انعقاد کے بعد میڈیا سے گفتگو

25 جنوری 2025

سوال و جواب

صحافی: سر آج قبائل سے ایک بہت بڑا جرگہ یہاں آیا اور ایجنڈا بھی امن کے حوالے سے تھا۔ ان لوگوں کی آنکھیں آپ ہی کی طرف ہیں، آپ نے ان جرگے کو کیا کہا اور کیا باتیں ہوئی؟

مولانا صاحب: دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے جو قبائلی علاقہ جات ہیں وہاں پر عام آدمی کی زندگی کا چین ختم ہو چکا ہے، اور جو علاقے ہمارے کسی زمانے میں امن کے گہوارے تھے اور وہاں کا امن بطور مثال پیش کیا جاتا تھا، آج وہاں سے وحشت لگتی ہے، پھر سلام ہو ان لوگوں پر کہ ان حالات میں جو وہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں، ہم اصلاح بنے ہوئے ہیں، تو ظاہر ہے کہ یہ لوگ آپس میں بھی جرگے کرتے ہیں ان لوگوں کے وہاں پر جو حکومتی یا ریاستی ذمہ داران ہوتے ہیں ان کے ساتھ بھی جرگے کرتے رہتے ہیں، لیکن تمام معاملہ وہی کا وہی ہے کوئی امن کی طرف پیشرفت نہیں ہو رہی ہے اور اب تو ظاہر ہے جی کہ صرف قبائلی علاقے ہی نہیں بلکہ اب ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، بنوں، کرک، یہ سارے علاقے جو ہیں تقریباً اس بد امنی کے لپیٹ میں آچکے ہیں، جہاں ہمارے دیہاتوں میں اب عام آدمی جو ہے وہ زندگی نہیں گزار سکتا، حکومت کہے یا نہ کہے کہ ہم آپ علاقہ چھوڑ دیں اور اپنے گھر خالی کر دیں لوگ مجبور اور اپنے گھر چھوڑ رہے ہیں، ان کے لیے اپنے گھروں میں روزگار کے مواقع ختم ہو چکے ہیں، زمینوں پہ وہ نہیں جا سکتے، دکانوں پہ وہ نہیں جا سکتے، روزگار کے مواقع وہاں ختم ہو گئے ہیں، بچوں کی تعلیم کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں، سکولوں میں لوگ نہیں جا سکتے خوف کی وجہ سے نہیں جا سکتے تو ایسی تمام تر صورتحال میں ہم کیا اس ایک جملے پہ اکتفا کرتے رہیں کہ ہم ان کے خلاف پُرعزم ہیں اور ہم مسلح قوتوں کے خلاف پُرعزم ہیں اور ہم امن کے لیے۔۔۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے جی، ہم پالیسیوں کی بات کرتے ہیں کہ کیا ہمارے ریاست کی پالیسی ایسی ہے کہ جس پالیسی کے تحت خطے میں لوگ پُرامن زندگی گزار سکیں۔

2011 سے میں دیکھ رہا ہوں 2010 سے کہ سوات آپریشن سے لے کر مسلسل تمام علاقوں میں کوئی 11 یا 12 آپریشن ہوئیں اس کے مختلف نام رکھے گئے لیکن آج بھی اس سے کہیں بڑھ کر صورتحال خراب ہوگئی ہے، تو اس ساری چیزوں کی ذمہ دار کون ہے؟ اب یہ عوام ہے قبائل ہیں ذمہ داران ہیں وہ ایک بڑا جرگہ لے کے یہاں میرے پاس تشریف لائے ہیں اور ہر چند کے ہم ان کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن جس حالت میں وہ آئے ہیں جو کرب وہ لے کر آئے ہیں جو درد وہ لے کر آئے ہیں اور جس امید سے وہ آئے ہیں خدا کرے کہ ہماری ریاست کو اور ریاستی اداروں کو اللہ وہ آنکھیں عطا کریں کہ جس سے وہ ان مشکل کو واقعی دیکھ سکیں، ان کو کوئی مشکل شاید نظر نہیں آرہی یا ان کا احساس نہیں ہے یا ان کے دلوں کی بصیرت جواب دے چکی ہے۔ تو اس موقع پر ضروری ہے کہ ان کی آواز کو سنا جائے اور اب مزید آگے ایک اور جرگہ ہم بلائیں گے اور اس میں ایک وفد تشکیل دیا جا رہا ہے جو دوسری سیاسی جو ہمارے پشتون بیلٹ کے سیاسی جماعتیں ہیں، شخصیات ہیں ان کے ساتھ وہ رابطہ کریں اور پھر ایک اور جرگہ ان تمام جماعتوں کے بشمول ہم بلائیں اور پھر اگلا لائحہ عمل اسی کے ذریعے سے ہم طے کرینگے جی۔

صحافی: مولانا صاحب وزیر اعلیٰ نے بھی وفد بھیجنے کا اعلان کیا ہے افغانستان اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

مولانا صاحب: دیکھیے یہ سیاسی نابلد لوگ ہوتے ہیں ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ دوسرے ملک کے ساتھ معاملات جو ہے وہ سٹیٹ کی سطح پر ہوتی ہیں یا صوبے کی سطح پر ہوتی ہیں ویسے اگر یہ سیر سپاٹے کے لیے جانا چاہے تو جا سکتے ہیں کون روک سکتا ہے۔

صحافی: ویسے مولانا صاحب اس جرگے کا جو عمومی تاثر ہے اس کی آنکھیں آپ کی طرف ہے تاکہ آپ قبائل میں امن و امان قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

مولانا صاحب: میں نے اپنی تمام تر جو میری توانائی ہو سکتی ہے یا جمعیت علماء اسلام کی توانائی ہو سکتی ہے تو ہم نے ان کی سپرد کی ہے اور ان شاءاللہ متحدہ جدوجہد کے ساتھ اس معاملے کو اگے بڑھائیں گے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ہم اعتماد میں لیں گے ایک پلیٹ فارم پر لاکر ان سے بات کریں گے۔

صحافی: قبائلی عمائدین نے یہ کس کے ذمے لگایا ہے یہ شکوہ وہ کس سے کر رہے ہیں جو ان کے ہاں اج یہ حالات پیدا ہوئے اس وقت؟

مولانا صاحب: وہ شکوہ تو وہ ریاست سے ہی کر رہے تھے اور جس کی ذمہ داری ہے امن فراہم کرنا اس سے شکایت کی جاتی ہے اور کس سے کریں، انڈ یا سے تھوڑی کریں گے پاکستان ہی سے کریں گے نا۔

صحافی: مولانا صاحب اپوزیشن اور حکومت کے جو مذاکرات تھے وہ میرا خیال ہے ختم ہوگئے ہیں۔

مولانا صاحب: شروع کب ہوئے تھے مجھے تو کوئی پتہ نہیں ہے۔

صحافی: پی ٹی آئی والے اب دوبارہ آپ کی طرف آرہے ہیں۔

مولانا صاحب: آجائیں، سو دفعہ آئے بات کریں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ملکی سیاست میں ایک ایسا پلیٹ فارم ہو کہ جہاں ہم مل کر سارے معاملات کو ڈسکس کرے اور کوئی مجموعی سیاسی حل سامنے آجائے۔ اب جس طرح کی اسمبلیاں ہیں اپنا موقف بار بار دہرا رہا ہوں کہ یہ عوام کے نمائندے اسمبلی نہیں ہے نہ وہ ہمارے مسائل حل کر سکتے ہیں حکومت بہرحال اسٹیبلشمنٹ کی ہے اور دوسری دنیا کے ساتھ روابط انہی کے ہیں معاملات وہی چلا رہے ہیں یہ ان کے نمائندے بنتے ہیں یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں جی۔

صحافی: مولانا صاحب پشتو میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں پچھلے کئی دہائیوں سے ایک جنگ جاری ہے اور حکومت اس کو ختم کرنے کی دعوے کر رہی ہے کیا آپ ان سے مطمئن ہیں ؟ لیکن اب وہ الزام لگا رہے ہیں کہ افغانستان میں جو طالبان ہیں ان کی طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ تو آپ خود وہاں گئے ہیں وہاں کے حالات دیکھے ہیں تو اس ساری صورتحال کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: تو اس وقت تو میں ایسا کوئی تاثر دینے کو تیار نہیں ہوں کہ پاکستان اور اسلامی اما رت کے درمیان شکوے شکایات اور کشیدگی کے حوالے سے بات کر سکوں لیکن بہرحال یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں ممالک کو چاہیے کہ اپنے بیچ روابط کو برقرار رکھیں۔ اور اگر میں وہاں گیا بھی ہوں تو اپنے ریاست کا نمائندہ بن کر اور ہمارے پاس ایک مینڈیٹ تھا۔ اور ہم نے ہر بات پر ان کو قائل بھی کیا تھا اور واپسی پر ان سب لوگوں نے میری باتیں بھی سنی اور میرا شکریہ بھی ادا کیا۔ تو وہ باتیں کیوں ضائع ہوگئی۔

صحافی: مولانا صاحب آپ قبائلی علاقوں کے انظمام کے حوالے سے جو موقف دیتے رہے ہیں تو آج جو یہ بڑا جرگہ آپ کے پاس آیا ہے آپ اس کی تائید کر رہے ہیں یا وہ فیصلہ غلط تھا؟

مولانا صاحب: حضرت وہ غلط فیصلہ تھا آج بھی قبائل پوری طرح متاثر ہیں جو ہر سال آپ نے ان کو دس سال تک ایک سو ارب روپیہ دینا تھا اس وقت کوئی مشکل سے ایک سو ارب کا پورا ہوا ہوگا اور کس میں خرچ ہوا ہے لیکن بنام قبائل ہے۔ تو اب اس سارے صورتحال میں اپ دیکھیں کہ میں نے آج ان سے پوچھا اب تو نو سال ہو گئے ہیں جو سبز باغ اپ کو دکھائے گئے تھے اج تو اپ سبز باغات کی سیر کر رہے ہوں گے اس سے اپ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے تو ذرا اپ اپنا تاثر تو ہمیں بتائیں تو انہوں نے کہا نہ ہم اب قبائل رہے اور نہ ہم سیٹل رہے نہ ٹرائیبل نہ سیٹل، بیچ میں کوئی اور مخلوق ہم بن گئے ہیں ہم اپنا تعارف بھی نہیں کرا سکتے کہ اب ہم کیا چیز ہیں باقی بدامنی نے ہمارا برا حال کر رکھا ہے نہ وہاں سکول کی کوئی افادیت ہے اس وقت، نہ کسی کالج کی افادیت ہے نہ کسی ہاسپٹل کی افادیت ہے نہ کسی سڑک کی افادیت ہے کچھ بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جس سے لوگ استفادہ کرتے ہیں بدامنی کی وجہ سے سب لوگ دکھی ہوئے ہیں یا اپنے علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب ایک طرف سیاسی انتشار ہے اور دوسری طرف بدامنی تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجموعی حالات کا کیا حل ہوگا؟

مولانا صاحب: دیکھیے بات یہ ہے کہ ریاست کھل کر بات کریں یہ نہ کہے کہ ہم نے 10 سال 20 سال کے بعد فلاں چیز اچیو کرنی ہے تو اس تک پہنچنا ہے اور لوگوں کو صرف انگیج رکھنا ہے اور کبھی جرگے ہو رہے ہیں اور کبھی کیا ہو رہا ہے اور کبھی صبح شام کی صورتحال میں لوگوں سے باتیں کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا جی ہمیں واضح طور پر بتایا جائے کہ اس منطقے کے لیے عالمی قوتوں کا ایجنڈا کیا ہے اور اس منطقے کے لیے ہمارے سٹیٹ کا ایجنڈا کیا ہے ہم مطمئن نہیں ہیں یہ جہاں پر 20 سال سے زیادہ عرصہ ایک ہی منطقے کے اوپر جنگ فوکس کر رہا ہو خون بہہ رہا ہو دھوئیں اٹھ رہے ہوں یہ کسی ایک جغرافیائی تبدیلی ان کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے تو میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ کہیں ہمارے جغرافیہ میں کوئی تبدیلیاں تو نہیں لے جا رہے ہیں۔

صحافی: ایسا کوئی امکان ہے؟

مولانا صاحب: یعنی خطرہ ہے، یعنی میرا احساس ہے، میرا وہم ہے۔ خدا اس کو جھوٹا کر دے میری خواہش ہے کہ میری بات صحیح ثابت نہ ہو سکے لیکن یہ وہم ہے۔

صحافی: آپ نے جرگے میں کہا کہ بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا نہ کی جائے۔

مولانا صاحب: ظاہر ہے وہاں پر بھی تو ایک لمبے عرصے سے مغربی پاکستان دشمنی پیدا کی گئی ان کو محرومیتوں کا شکار بنایا گیا اور بالاخر نتیجہ کیا نکلا۔

صحافی: مولانا صاحب لکی مروت اور پھر خصوصاً پاڑہ چنار میں جو حالات ہیں حکومتی کوششیں کمزور نظر آرہی ہیں اور ایک دفعہ پھر بات طاقت کی طرف جا رہی ہے، رات کو لکی مروت میں جیٹ فائٹر کا حملہ بھی ہوا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ حالات کس طرف جا رہے ہیں؟

مولانا صاحب: میرے نزدیک طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے اور پھر طاقت کا استعمال وہ بھی ادھورا لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ دیکھو ہم کیا تیر مار رہے ہیں۔ تو یہ ناکافی اقدامات ہیں حکومت کی طرف سے، اور یہ دہش ت گردی کو قوت دے رہی ہے ان کے خاتمہ کا باعث نہیں بن رہی اور مجھے تو یہ ان کی بس سے باہر کی بات لگ رہی ہے۔ یا استعداد نہیں رکھتے یا ان کے کوئی اور ہی ایجنڈے ہیں جن تک یہ پہنچنا چاہتے ہیں اور یہ مٹی بیس سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا بدامنی اور خون آلود ہے۔ ان کا کیا پروگرام ہے کیا ایجنڈے ہیں اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ ایک طویل عرصہ بدامنی مسلط ہو اور خون بہہ رہا ہو تو یہ اس بات کی نشاندھی کرتی ہے اللہ کرے میرا وہم غلط ثابت ہو کہ کہی جغرافیائی تبدیلیاں آرہی ہے۔

صحافی: ۔۔۔۔۔

مولانا صاحب: ہم تو ہیں حضرت اسی کے خلاف میدان میں اور ہمارے صوبے میں امن ہے نہ کوئی یہاں حکومت ہے۔کرپشن ہی کرپشن ہر طرف ہو رہی ہے۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض 

ممبرز ٹیم جے یو ائی سوات

#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments