پی ٹی آئی کے منبع سیاست کی نئی یاترا۔ محمد اسامہ پسروری

پی ٹی آئی کے منبع سیاست کی نئی یاترا

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

کہتے ہیں سیاست کے میدان میں کچھ بھی ممکن ہے اور یہ محاورہ آج کل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر خوب صادق آتا ہے۔ جس جماعت نے کبھی مولانا فضل الرحمن اور ان کے جماعتی قافلے کو الٹے ناموں سے مذاق کا نشانہ بنایا تھا وہی آج کمالِ بے بسی کے عالم میں ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

یہ منظر کسی پرانی دیسی فلم کے اس سین جیسا ہے جہاں ولن ہیرو سے مار کھا کر آخر میں ہیروئن کے والدین کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں "ہیرو"حضرت مولانا فضل الرحمن ہیں اور "ہیروئن" وہ وزارتیں ہیں جن کے خواب اب بھی پی ٹی آئی کی قیادت کو آتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سیاسی قلابازیاں دیکھ کر اب عوام بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ آخر یہ جماعت چاہتی کیا ہے؟ پہلے تو مولانا صاحب کو سیاست سے فارغ کرنے کے دعوے کیے جاتے تھے، اور آج انہی سے گلے ملنے کی خواہش کی جا رہی ہے۔ شاید یہ وہی "یوٹرن" ہے جسے عمران خان صاحب نے "لیڈر کی نشانی" قرار دیا تھا!

مولانا فضل الرحمن صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید حیرت کا اظہار کرتا مگر مولانا صاحب کی آنکھوں میں وہ چمک ہے جو ہر کامیاب سیاستدان کے دل میں فتح کی لذت پیدا کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اس رویے کو لطف اندوزی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی بزرگ اپنے ناسمجھ بچوں کو شرارت کرتے دیکھتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب پی ٹی آئی کے کارکن مولانا کی تصویریں لے کر سوشل میڈیا پر میمز بناتے تھے، اور آج وہی کارکن شاید اپنی قیادت کے اس "مصالحتی اقدام" کو درست ثابت کرنے کے لیے نئی میمز بنانے میں مصروف ہوں گے۔

کہتے ہیں سیاست میں کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا مگر یہ بھی تو ضروری ہے کہ کم از کم عزتِ نفس کا بھرم رکھا جائے! پی ٹی آئی کی حالیہ حرکات دیکھ کر لگتا ہے کہ سیاست میں عزتِ نفس کی قربانی اب "سیاست کا حصہ" بن چکی ہے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے اس کھیل میں مولانا فضل الرحمن کا پلہ اس وقت بھاری ہے۔ وہ مسکرا کر پی ٹی آئی کی یہ چال دیکھ رہے ہیں اور شاید دل ہی دل میں سوچ رہے ہیں

 "تم نے دشمنی بھی کمال کی ہے، ہم نے دوستی بھی کمال کی ہے!"


0/Post a Comment/Comments