متحدہ مجلس عمل حکومت کی شاندار کارکردگی: خیبرپختونخوا کی تاریخ کا سنہرا باب
تحریر: ہلال احمد دانش (دانش کدہ)
جب 2002 میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے خیبرپختونخوا کی باگ ڈور سنبھالی تو بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ سوال تھا کہ کیا یہ حکومت واقعی عوامی امنگوں پر پورا اتر سکے گی؟ پانچ سال کے مختصر عرصے میں، ایم ایم اے نے نہ صرف ان سوالوں کا جواب دیا بلکہ ایک ایسی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی مثال خیبرپختونخوا کی تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ دور ترقی، اصلاحات، اور فلاحی منصوبوں کی بنیاد پر تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب بن چکا ہے۔
تعلیمی انقلاب: خیبرپختونخوا کی نئی پہچان
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے، اور ایم ایم اے حکومت نے اس حقیقت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ 2002 تک صوبے میں صرف 90 ڈگری کالجز موجود تھے، لیکن پانچ سال کے قلیل عرصے میں 104 نئے ڈگری کالجز قائم کیے گئے، جو ایک ناقابل یقین کارنامہ تھا۔
صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد بھی محدود تھی، لیکن ایم ایم اے حکومت نے پانچ نئی یونیورسٹیاں تعمیر کیں، جن میں کوہاٹ یونیورسٹی، ملاکنڈ یونیورسٹی، پشاور ویمن یونیورسٹی، بنوں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اور پشاور میڈیکل یونیورسٹی شامل ہیں۔ خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے پہلی بار خواتین میڈیکل یونیورسٹی اور خواتین میڈیکل کالج قائم کیے گئے۔
ایم ایم اے کے بعد آنے والی حکومتیں بھی تعلیمی میدان میں اتنی پیش رفت نہ کر سکیں جتنی اس مختصر مدت میں کی گئی۔
صحت کے شعبے میں انقلاب
صحت کے میدان میں بھی ایم ایم اے حکومت کی کامیابیاں بے مثال رہیں۔ جدید سہولتوں سے آراستہ حیات آباد کڈنی سنٹر، حیات آباد کارڈیالوجی سنٹر، اور پشاور برن سنٹر کا قیام عمل میں آیا۔
سیدو شریف میں 700 بستروں پر مشتمل جدید اسپتال تعمیر کیا گیا، جو آج بھی عوام کو بہترین طبی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں، سیدو شریف، ڈی آئی خان، اور بنوں میں کینسر اسپتال قائم کیے گئے، جو اٹامک انرجی کمیشن کے تحت کام کرتے ہیں اور یہ سب ایم ایم اے حکومت کے وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔
توانائی کے شعبے میں تاریخی کامیابیاں
ایم ایم اے حکومت نے توانائی کے شعبے میں غیر معمولی اقدامات کیے۔ 2002 تک وفاقی حکومت کے ذمے 110 ارب روپے بجلی کے بقایا جات تھے۔ ایم ایم اے حکومت نے ایک جرگہ تشکیل دے کر پرویز مشرف حکومت سے مذاکرات کیے اور یہ رقم منظور کروائی۔
ملاکنڈ تھری منصوبہ ایم ایم اے حکومت کا ایک اور شاندار کارنامہ تھا، جو بغیر کسی بیرونی قرضے کے مکمل کیا گیا۔ اس منصوبے سے 81 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوئی، جس سے صوبے کو سالانہ 7 ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔
تیل اور گیس کی پیداوار: ایک سنگ میل
ایم ایم اے حکومت نے تیل اور گیس کی پیداوار کے فروغ کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔ کرک میں آئل اینڈ گیس ریفائنری کا قیام عمل میں آیا، جو سالانہ 37 ارب روپے کی آمدنی فراہم کرتی ہے۔
پولیس اور جیل خانہ جات میں اسلامی اصلاحات
ایم ایم اے حکومت نے پولیس اور جیل خانہ جات میں بھی انقلابی اصلاحات کیں۔ شہداء پیکج کے تحت دورانِ ڈیوٹی شہید ہونے والے اہلکاروں کے خاندانوں کو ریٹائرمنٹ تک تنخواہ فراہم کی گئی۔ مزید یہ کہ میٹرک پاس بچوں کو والد کی جگہ ملازمت دی گئی۔
کوارٹر جیل کا قیام ایک منفرد اور انقلابی اقدام تھا، جس کے تحت قیدیوں کو خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت دی گئی تاکہ ازدواجی تعلقات کو برقرار رکھا جا سکے۔
آثار قدیمہ اور ثقافت کا تحفظ
ایم ایم اے حکومت کے دور میں میوزیمز کی تعداد کو 3 سے بڑھا کر 18 تک پہنچایا گیا۔ سوات میں نیا بائی پاس روڈ، پبلک لائبریری، اور دارالامان کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تمام منصوبے علاقے کی ترقی اور ثقافت کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم تھے۔
دیگر اہم اقدامات
تعلیمی بجٹ میں اضافہ: تعلیمی بجٹ کو 0.13 ارب سے بڑھا کر 17 ارب روپے کیا گیا، جس میں 70 فیصد حصہ خواتین کے لیے مخصوص تھا۔
شراب کے لائسنس منسوخ: ایم ایم اے حکومت نے تمام شراب کے لائسنس منسوخ کر دیے، جو ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔
بلا سود بینکاری کا آغاز: خیبر بینک میں بلا سود بینکاری کا آغاز کیا گیا، جو آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔
سڑکوں کی تعمیر: 600 کلومیٹر سے زائد سڑکیں تعمیر کی گئیں، جو صوبے کی ترقی میں معاون ثابت ہوئیں۔
فلائی اوورز کا قیام: 23 نئے فلائی اوورز تعمیر کیے گئے۔
بے سہارا افراد کی بحالی: 130 اسکل ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے گئے، جہاں بے سہارا خواتین اور اسٹریٹ چلڈرن کو تربیت فراہم کی گئی۔
حسبہ بل: اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوشش
ایم ایم اے حکومت نے حسبہ بل کو صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے منظور کروایا، لیکن فوجی حکومت کی عدلیہ نے اعتراضات لگا کر اس کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ یہ اقدام اسلامی قوانین کے نفاذ کی ایک سنجیدہ کوشش تھی۔
اختتامیہ
ایم ایم اے حکومت کا دور خیبرپختونخوا کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ یہ دور اصلاحات، ترقی، اور عوامی فلاح کے لحاظ سے ایک مثالی دور رہا۔ اگرچہ اس کے بعد آنے والی حکومتیں بھی دعوے کرتی رہیں، لیکن ایم ایم اے کی کارکردگی آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ دور عوام کے لیے ایک ایسی یادگار بن چکا ہے جسے وقت کی گرد کبھی دھندلا نہیں سکے گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں