حکومتی سرکس اور مولانا کا ڈنڈا۔ ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

حکومتی سرکس اور مولانا کا ڈنڈا

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

ملک میں حکومت ہوتی ہے تو امن و استحکام آتا ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت نے الٹا نظام چلا رکھا ہے معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے روزگار کے دروازے بند ہو رہے ہیں اور اب رہی سہی کسر بدامنی نے پوری کر دی ہے آج ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، خوف اور بے یقینی کے سائے گہرے نظر آتے ہیں۔ چوروں اور ڈاکوؤں کی ہمتیں بلند ہو چکی ہیں سڑکوں پر لوٹ مار عام ہے اور عوام دن دہاڑے اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ حکومت کی نااہلی نے ملک کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں قانون صرف کمزور کے لیے رہ گیا ہے اور طاقتور دندناتے پھر رہے ہیں۔

یہ حکومت دراصل ایک سرکس میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں ہر وزیر اپنا کرتب دکھانے میں مصروف ہے معیشت کو بہتر بنانے کے بجائے روپے کو مزید کمزور کرنا روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے بے روزگاری کے بم پھوڑنا اور امن قائم کرنے کے بجائے بدامنی کا بازار گرم کرنا ان کی روزمرہ کی کارکردگی بن چکی ہے۔ وزیراعظم صاحب ہر تقریر میں استحکام کے خواب دکھاتے ہیں لیکن حقیقت میں حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں پولیس تحفظ دینے کے بجائے بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے اور عوام اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے خود ہی کسی کرامت کے منتظر ہیں۔

لیکن اس سارے منظرنامے میں حکومت کا سب سے بڑا خوف مولانا فضل الرحمن ہیں جیسے ہی مولانا کی للکار گونجتی ہے حکومتی ایوانوں میں بھونچال آ جاتا ہے وزرا کے بیانات بدلنے لگتے ہیں پالیسیوں میں ترمیم شروع ہو جاتی ہے اور کچھ ایسے خاموش ہو جاتے ہیں جیسے زبان پر مہر لگا دی گئی ہو مولانا واحد سیاستدان ہیں جو نہ صرف حکومت کے کھوکھلے نعروں کو بے نقاب کر رہے ہیں بلکہ عوام کو اصل حقائق سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔

یہ حکومت آئے دن مولانا کے خلاف محاذ کھولنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہر چال الٹی انہی پر پڑتی ہے جب دوسرے سیاستدان زبانی جمع خرچ میں لگے ہوتے ہیں مولانا عملی اقدام کر کے حکومت کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں وہ نہ بکنے والے ہیں نہ جھکنے والے بلکہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے والے ہیں۔

 آج اگر کوئی سیاستدان واقعی عوام کی آواز بن کر حکومت کے ظلم و ناانصافی کے خلاف کھڑا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں وہ ایک ایسی آواز ہیں، جس کے گونجتے ہی حکومت کے مداریوں کے کرتب بیکار کر دیتی ہے۔ حکومت کے لیے مولانا کا وجود ایک مستقل دردِ سر ہے اور عوام کے لیے امید کی آخری کرن آخر کار، سب سیاستدانوں پر بھاری وہی ہیں، اور رہیں گے بھی!



0/Post a Comment/Comments