مولانا کی للکار اور سیاسی رنجشوں کا نیا ڈرامہ
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
سچ کی گونج جب فضاؤں میں بلند ہوتی ہے تو کانپتے بدن اور لرزتے دل اس کا پہلا نشانہ بنتے ہیں۔ کل مولانا فضل الرحمن صاحب کی دھواں دار تقریر بھی کچھ ایسی ہی تھی برق کی طرح چمکی، بادلوں کی طرح گرجی، اور سیاسی مردوں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر گئی۔ کچھ لوگ جو اقتدار کے خواب دیکھتے دیکھتے بینائی کھو چکے ہیں، انہیں مولانا کے الفاظ تیز خنجر کی طرح چبھ رہے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سیاسی یتیمی کے درد میں مبتلا ہو کر اپنی ہی زبان سے اپنے ماضی کو جھٹلا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سراج الحق صاحب جیسے "سیاستدان" بھی اب مولانا کے خلاف زہر افشانی میں مصروف ہو گئے ہیں حالانکہ ان کی جماعت کے پاس نہ عوامی مقبولیت باقی رہی ہے، نہ سیاسی قوت، نہ کوئی واضح موقف، نہ کوئی نظریاتی سمت۔ وہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہیں، مگر پھر بھی خود کو آزاد اور اصولی سیاستدان ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ ان کے بیانات میں تضاد، ان کی حکمت عملی میں منافقت، اور ان کی سیاست میں وقتی مفادات کے سوا کچھ نہیں بچا۔ ایک دور تھا جب جماعتِ اسلامی ایک فکر رکھتی تھی، ایک پہچان رکھتی تھی مگر آج ان کے قائدین صرف دوسروں کی مخالفت پر زندہ ہیں ان کا سیاسی وجود اب کسی واضح بیانیے کی بجائے "مولانا مخالف بیانات" کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہو پہلے بھی جب مولانا نے سامراجی ایجنڈے کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو انہیں اقتدار کے بھوکے و مفاد پرست ٹولے کبھی کوئی کبھی کوئی سابقہ و لاحقہ لگا کر بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے رھے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانا وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے کسی بھی موڑ پر نظریاتی سودے بازی نہیں کی ان کا بیانیہ واضح ہے ان کا موقف مضبوط ہے اور ان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہر سیاسی میدان میں کٹھ پتلیوں کی حقیقت بے نقاب کرتے رہے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ وقتی سیاسی فائدے کو ترجیح دی، اور جب عوام نے انہیں مسترد کر دیا تو بوکھلاہٹ میں مولانا کے خلاف بولنا شروع کر دیا سراج الحق صاحب اگر اپنے سیاسی گناہوں کی تفصیل لکھنا شروع کریں تو شاید قلم ٹوٹ جائے لیکن وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر مولانا پر تنقید کی جائے گی تو شاید ان کے اپنے گناہ دھل جائیں گے۔
یہ وہی سراج الحق ہیں جن کی جماعت کبھی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں "بہت خاص" ہوا کرتی تھی، اور آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہوئی ہے لیکن اب وہ خود کو خودمختار اور "اصولی" سیاستدان ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ خود کو اسلام کا نمائندہ کہلوانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ان کا طرزِ سیاست منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ کبھی ایک جماعت کے حق میں مہم چلاتے ہیں تو کبھی دوسری کے قدموں میں جا بیٹھتے ہیں آج بھی ان کی سیاست اسی پرانی ڈگر پر چل رہی ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اب انہیں عوامی حمایت بھی حاصل نہیں رہی۔
اور صرف سراج الحق صاحب ہی نہیں بلکہ وہ تمام چہرے جو آج مولانا کی مخالفت میں سرگرداں ہیں ان کی اپنی سیاسی حقیقت بھی کچھ مختلف نہیں کوئی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مولانا پر تنقید کر رہا ہے تو کوئی اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے یہ سب وہ لوگ ہیں جو کبھی "اصولی سیاست" کے نعرے لگاتے تھے مگر آج وقتی مفادات کے لیے اپنی ہی پچھلی باتوں سے پھرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ مولانا کسی وقتی مصلحت یا بیرونی دباؤ میں نہیں آتے وہ کبھی نعرہ فروش نہیں رہے بلکہ ہمیشہ عمل سے اپنی سچائی ثابت کی۔ ان کی سیاست کوئی سیاسی تماشا نہیں بلکہ ایک نظریاتی جدوجہد ہے جس کی جڑیں اسلام عوامی خدمت اور سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت میں پیوست ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے سیاسی حریف چاہے جتنی مرضی کوشش کر لیں وہ کبھی بھی ان کے قد کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانا کی گرجتی تقریریں، ان کا دو ٹوک بیانیہ اور ان کی بے خوف سیاست کچھ لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ وہ ان کی سیاسی موت کے خواب دیکھتے ہیں، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ حق کی آواز کو دبانے والے خود ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں، جبکہ حق بلند ہوتا رہتا ہے۔ آج جو لوگ مولانا کے خلاف بولنے میں اپنی سیاسی نجات ڈھونڈ رہے ہیں، وہ چند سال بعد خود تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوں گے، اور مولانا کا نام نظریاتی سیاست کے سورج کی طرح چمکتا رہے گا!
ایک تبصرہ شائع کریں