سیاست کے یتیم مسافر
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
سیاست میں اپوزیشن وہ ستون ہے جو جمہوریت کی عمارت کو گرنے سے بچاتا ہے مگر آج کے سیاسی منظرنامے کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے بغیر اپوزیشن ایک بے سمت ہجوم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جو خود کو اپوزیشن کہلاتے ہیں، وہ یا تو خاموش تماشائی بن چکے ہیں یا پھر اقتدار کے پیچھے نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
ذرا دیکھیے! ایک طرف شہباز شریف ہیں جو حکومت سے باہر بھی حکومت کی زبان بولتے ہیں، اور دوسری طرف بلاول بھٹو ہیں، جو اپوزیشن کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور حکومت کے ساتھ "اچھے تعلقات" بھی نبھاتے ہیں۔ ادھر عمران خان ہیں، جو اقتدار چھن جانے کے بعد اپوزیشن کے نام پر ایک ایسی تحریک چلا رہے ہیں جسے خود ان کے پرانے ساتھی بھی سنجیدہ نہیں لیتے۔ ایسے میں اگر مولانا فضل الرحمٰن نہ ہوں، تو اپوزیشن ایک ایسی کشتی معلوم ہوتی ہے جس کا نہ کوئی پتوار ہے اور نہ کوئی ملاح۔
مولانا وہ شخصیت ہیں جو اپوزیشن کو بیانات اور پریس کانفرنسوں سے نکال کر سڑکوں پر لے آتے ہیں۔ وہ صرف تقریریں نہیں کرتے، بلکہ عملی سیاست کا رخ متعین کرتے ہیں۔ جب اقتدار پر قابض قوتیں خود کو ناقابلِ چیلنج سمجھنے لگتی ہیں، تو مولانا کا ایک مارچ، ایک دھرنا، یا ایک بیان سیاسی ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیتا ہے۔ مگر آج، جب وہ پیچھے ہٹتے ہیں تو اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ کچھ لوگ لندن میں "مشوروں" میں مصروف ہیں، کچھ اپنی "سیاسی بلوغت" ثابت کرنے کے لیے نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اور کچھ صرف ٹوئٹر پر انقلابی بنے بیٹھے ہیں۔
مولانا کے بغیر اپوزیشن کا حال ایسے ہی ہے جیسے بغیر ناخدا کے کشتی، بغیر چرواہے کے ریوڑ، اور بغیر رہنما کے قافلہ۔ وہ اپوزیشن کو زندہ رکھتے ہیں اس میں روح پھونکتے ہیں اور اسے ایک بے ضرر گروہ کے بجائے ایک مزاحمتی قوت بناتے ہیں ان کے بغیر، یہ سب وہ سیاسی یتیم ہیں جو نہ تو کوئی واضح بیانیہ رکھتے ہیں، نہ کوئی سمت، اور نہ ہی عوام میں کوئی حقیقی پذیرائی۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن واقعی اپوزیشن بن کر کھڑی ہے، تو وہ مولانا کی موجودگی سے ہے۔ ورنہ باقی سب محض نام کے مسافر ہیں جو منزل کی بجائے اقتدار کے دروازے پر دستک دینے میں مصروف ہیں!
ایک تبصرہ شائع کریں