پارلیمانی بالادستی یا ماورائے آئین حکمرانی؟
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران ملکی سالمیت، حکومتی خودمختاری اور پارلیمانی بالادستی کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی پالیسی سازی اب پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ بند کمروں میں ہو رہی ہے، جہاں حکومت، سیاست اور پارلیمان سب بے اختیار نظر آتے ہیں۔
یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اگر فیصلے غیر منتخب قوتیں کریں اور منتخب حکومتیں محض ان فیصلوں کی توثیق کریں، تو پارلیمانی جمہوریت کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ غیر جمہوری عناصر ہمیشہ سیاست پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں، لیکن اگر یہ رجحان مکمل طور پر جمہوری اداروں کو مفلوج کر دے، تو یہ ملک کے لیے ایک خطرناک موڑ ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسیاں اب حکومتی اختیار میں کم اور عالمی مالیاتی اداروں کے کنٹرول میں زیادہ ہیں مولانا فضل الرحمٰن نے آئی ایم ایف اور عدلیہ کے مبینہ روابط پر سوال اٹھایا کہ "آئی ایم ایف کا عدلیہ سے کیا تعلق ہے؟" اگر واقعی عالمی مالیاتی ادارے ملکی فیصلوں میں براہ راست مداخلت کر رہے ہیں تو یہ پاکستان کی خودمختاری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ معاشی بحران میں مبتلا ممالک کو بیرونی ادارے اپنے ایجنڈے کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر پاکستان کے فیصلے بیرونی دباؤ میں آ کر کیے جا رہے ہیں، تو اس کا براہِ راست نقصان عام آدمی کو ہو رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ریاستی رٹ کی کمزوری پر بھی بات کی اگر کسی ملک کے اندر اس کے اپنے ہی علاقے حکومتی کنٹرول سے باہر ہو جائیں، تو اس کی خودمختاری مشکوک ہو جاتی ہے حالیہ برسوں میں ان دونوں صوبوں میں حالات کشیدہ رہے ہیں، اور ریاستی عملداری میں واضح کمی دیکھی گئی ہے اس صورتحال کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ ملکی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستانی سیاست میں نظریاتی خلا پر بھی روشنی ڈالی آج کی سیاست میں اصول نظریہ اور عوامی خدمت کے بجائے ذاتی مفادات اور اقتدار کی رسہ کشی زیادہ نمایاں ہو چکی ہے۔ جب سیاستدانوں کا مقصد عوامی خدمت کے بجائے اقتدار کا حصول بن جائے اور ریاستی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کریں تو جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے خدشات کو نظر انداز کرنا ملک کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر واقعی ملکی پالیسی سازی ماورائے پارلیمان ہو رہی ہے، تو اس کا واحد حل جمہوری اداروں کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ اگر معیشت عالمی اداروں کے ہاتھوں میں جا چکی ہے، تو اس سے نکلنے کے لیے خود انحصاری کی پالیسی اپنانی ہوگی اور اگر دو صوبوں میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے تو اس پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔
پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور اس کی بقا اسی میں ہے کہ تمام فیصلے عوامی نمائندوں کے ذریعے، پارلیمنٹ کے اندر، اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، عوامی بے چینی بڑھتی رہے گی اور ملکی استحکام مزید خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں