اصولوں کی سیاست یا اقتداری سرکس؟ محمد اسامہ پسروری

اصولوں کی سیاست یا اقتداری سرکس؟

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

سیاست میں قیادت کے کئی ماڈل پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، نظریہ بیچ سکتے ہیں، اصولوں کا جنازہ نکال سکتے ہیں اور وقت کے فرعونوں کے در پر سجدہ ریز ہو سکتے ہیں۔ ایسے سیاستدان جب عوام کے سامنے آتے ہیں تو خود کو نظریاتی، انقلابی اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر درحقیقت وہ وقت کے ساتھ رنگ بدلنے والے موسمی پرندے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے نظریہ اور اصول محض تقریریں چمکانے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے، جب کہ حقیقی قیادت وہی ہوتی ہے جو اصولوں پر ثابت قدم رہے، نظریے کی پہچان بنے، اور وقتی مفادات کی بجائے دیرپا مشن کے لیے کھڑی رہے۔

ایک لیڈر کی سب سے بڑی پہچان اس کا واضح سیاسی ویژن ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں کئی "بڑے سیاستدان" ایسے بھی ہیں جن کا ویژن اقتدار کے ساتھ ہی بدل جاتا ہے۔ اقتدار میں ہوں تو جمہوریت کے چیمپئن، اپوزیشن میں آئیں تو انقلاب کے داعی، اور مشکل میں پھنسیں تو این آر او کے طلبگار! یہ وہ طبقہ ہے جس کا سیاسی ویژن صرف اپنے مفادات کی حد تک محدود ہے، عوام اور ملک سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو مہنگائی، کرپشن اور بدانتظامی کے ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہوتی ہیں، اور جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو سب مسائل موجودہ حکومت کی نااہلی کہہ کر خود کو دودھ سے دھلا ثابت کرنے لگتے ہیں۔

کچھ سیاستدان خود کو نظریاتی کہتے نہیں تھکتے، مگر ان کی "نظریاتی سیاست" صرف اس وقت کام آتی ہے جب اقتدار ہاتھ سے نکل جائے۔ ان کے نظریات کبھی کسی آمر کے ساتھ نظر آتے ہیں، کبھی کسی غیر ملکی سفارت خانے میں، اور کبھی کسی عدالت میں رحم کی اپیل کرتے ہوئے۔ ایسے لوگ نظریے کے نہیں، بس مفاد کے کمٹڈ ہوتے ہیں۔ جہاں فائدہ دکھا، وہیں جا بیٹھے، اور جہاں اقتدار نظر آیا، وہیں اتحاد کر لیا۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو دن کو ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور رات کو خفیہ ملاقاتوں میں دوسری جماعت کے ساتھ "ڈیل" کر رہے ہوتے ہیں۔

اصل قیادت ہمیشہ پرامن جدوجہد اور صبر و استقامت پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے سیاست کا مطلب صرف جلسوں میں شور شرابا، ٹی وی پر چیخ و پکار، اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلوانا رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کچھ دن نعرے مار لیے چند دھرنے دے دیے، اور کچھ جذباتی تقریریں کر لیں، تو اقتدار ان کی جھولی میں آ گرے گا۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاست کو مشن نہیں بس اقتدار تک پہنچنے کا شارٹ کٹ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جب میدانِ سیاست میں مشکلات آتی ہیں، تو یا تو پسِ پردہ سمجھوتے شروع کر دیتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

قیادت کی سب سے بڑی خوبی استقامت اور ثابت قدمی ہوتی ہے۔ مگر کچھ رہنما ایسے بھی ہیں جو صبح کچھ اور شام کو کچھ اور اور اگلے دن بالکل الٹ موقف لے لیتے ہیں۔ ان کے سیاسی بیانات ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں اور ان کے ماننے والے بیچارے ہر وقت ان کے یوٹرنز کو "سیاسی حکمت عملی" ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہی لوگ چند سال پہلے عوام کو بتا رہے تھے کہ فلاں پارٹی کرپٹ ہے اور آج انہی کے ساتھ بیٹھ کر "ملکی مفاد" کی باتیں کر رہے ہیں۔

اصل قیادت وہی ہوتی ہے جو متانت، سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ بات کرے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ "جدید سیاستدان" ایسے بھی ہیں جو گالم گلوچ کو جرات، اور بداخلاقی کو عوامی مقبولیت سمجھتے ہیں۔ ان کا سیاست میں کردار صرف اشتعال انگیزی پھیلانے، مخالفین پر بے بنیاد الزامات لگانے اور بدتمیزی کو عام کرنے تک محدود ہے۔ ایسے رہنما ملک کو تقسیم تو کر سکتے ہیں مگر جوڑ نہیں سکتے۔ وہ وقتی طور پر لوگوں کو جذباتی ضرور کر سکتے ہیں، مگر حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتے۔

جب قیادت اصولوں پر کھڑی ہو، اس کا نظریہ واضح ہو، وہ وقتی فائدے کے بجائے دیرپا مشن کو ترجیح دے، اس میں استقامت، سنجیدگی اور حکمت ہو، تو پھر حکمران ہوں یا اپوزیشن، سب اس کے در پر حاضری دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسی قیادت ناپید تو نہیں، مگر کمیاب ضرور ہے۔ عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ یوٹرن ماسٹرز، گالم گلوچ بریگیڈ، اور مفاداتی اتحاد کے حامی سیاستدانوں کو دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر ایک ایسی قیادت چاہتے ہیں جو واقعی ملک و قوم کے مفاد میں کام کرے، نہ کہ صرف اپنے اقتدار کے لیے۔

اگر سیاست کو واقعی عبادت بنانا ہے تو اسے اصولوں پر استوار کرنا ہوگا ورنہ یہ محض ایک "اقتداری سرکس" بن کر رہ جائے گی!


0/Post a Comment/Comments