پارلیمنٹ کی زینت یا زحمت؟ محمد اسامہ پسروری

پارلیمنٹ کی زینت یا زحمت؟

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

یہ کیسا عجیب المیہ ہے کہ جب سیاست کے میدان میں علماء کرام قدم رکھیں تو انہیں اقتدار کا بھوکا، دنیا دار اور سیاسی جوڑ توڑ میں الجھا ہوا قرار دے دیا جاتا ہے لیکن جب یہی علماء دین کی خدمت کے نام پر مدرسوں تک محدود رہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ جدید دنیا سے نابلد اور سیاست کی باریکیوں سے ناواقف ہیں! آخر علماء کے لیے معیارِ سیاست مختلف کیوں ہے؟

جمعیۃ علماء اسلام کی پارلیمنٹ میں موجودگی پر اعتراض کرنے والوں کی منطق کچھ یوں ہے کہ اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کے بجائے، صرف بیانات اور جلسے جلوسوں تک محدود رہنا ہی کافی ہے۔ کیا یہ رویہ خود فریبی نہیں؟ کیا یہ وہی سوچ نہیں جو دین کو محض ایک نظریاتی قید میں رکھنے کی خواہشمند ہے، جہاں علماء کی حیثیت بس وعظ و نصیحت تک محدود ہو اور جب قومی و بین الاقوامی امور کی بات آئے تو فیصلہ سازی ان ہاتھوں میں ہو جو اسلامی اقدار سے نابلد ہوں؟

یہی سوچ ہمیشہ امت کو پیچھے دھکیلتی رہی ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں رہ کر غیر اسلامی قوانین کے خلاف آواز بلند کرنا جرم ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ اسلامی احکام کے نفاذ کی عملی صورت کیا ہوگی؟ کیا ہم یہ تسلیم کرلیں کہ حکومتی ایوانوں میں اسلام کی نمائندگی ممنوع ہے اور اس کا واحد مقام منبر و محراب ہی رہ گیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو حضرت یوسف علیہ السلام بھی شاہی منصب قبول نہ کرتے، بلکہ درباری سیاست کو خیر باد کہہ دیتے!

عجیب بات یہ ہے کہ جب لبرل، سیکولر اور قوم پرست جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں اور غیر اسلامی قوانین بناتی ہیں، تب کسی کو "اقتدار کی ہوس" نظر نہیں آتی، لیکن جب علماء اس نظام میں رہتے ہوئے اسلام کی سربلندی کی کوشش کرتے ہیں تو فتوے جڑ دیے جاتے ہیں کہ "یہ سیاست کے نام پر دنیا پرستی کر رہے ہیں!" آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟

کیا واقعی سیاست میں رہ کر اسلام کی خدمت ممکن نہیں؟ کیا نبی کریم ﷺ نے ریاست مدینہ قائم کر کے یہ نہیں دکھایا کہ دین کو عملی طور پر نافذ کیے بغیر اسلامی معاشرہ ممکن نہیں؟ اگر علماء پارلیمنٹ میں رہ کر اسلامی قوانین کا دفاع نہ کریں تو کیا یہ کام وہ سیکولر جماعتیں کریں گی جو خود اسلام کو ریاست سے الگ رکھنے کی علمبردار ہیں؟

یہ اعتراض کہ "حزب اقتدار و حزب اختلاف میں اختلاف ایک ثانوی بات ہے" درحقیقت یہ ثابت کرتا ہے کہ بعض لوگوں کو اصل مسئلہ سیاست میں اسلامی کردار سے ہے، نہ کہ کسی خاص جماعت کی کارکردگی سے۔ اگر علماء کا سیاست میں آنا ناجائز ہے، تو پھر یہی اصول ہر جماعت پر لاگو ہونا چاہیے، ورنہ تنقید کا یہ انداز صرف "حزبِ تعصب" کی نمائندگی کرتا ہے، جس کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ کردار کشی ہے۔

 اصل سوال یہ نہیں کہ علماء پارلیمنٹ میں کیوں ہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر وہ وہاں نہ ہوں، تو اسلام کا دفاع کون کرے گا؟



0/Post a Comment/Comments