اقتدار کے دربدر راہی۔ محمد اسامہ پسروری

اقتدار کے دربدر راہی

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

پاکستانی سیاست کی سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو بھی اقتدار کی راہ پر نکلے تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ہی منزل پر آ پہنچتا ہے مولانا فضل الرحمن صاحب کی دہلیز! حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کل تک مولانا صاحب کی سیاست پر طنز کرتے تھے جو انہیں محض ایک مذہبی رہنما سمجھتے تھے، آج وہی سر جھکائے مودبانہ انداز میں ان کے سامنے بیٹھے نظر آتے ہیں

 ہاتھ میں چائے کا کپ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ اور زبان پر وہی روایتی جملے "مولانا! حالات بہت نازک ہیں آپ کا تعاون چاہیے!"

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب مولانا صاحب کی مدبرانہ مسکراہٹ مزید گہری ہو جاتی ہے وہ جو سیاست کی یونیورسٹی کے ایک تجربہ کار و ماہر پروفیسر و چانسلر ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کی یہ "محبت" وقتی ہے ان کی یہ عقیدت صرف اس وقت تک ہے جب تک انہیں اپنے اقتدار کے لیے سہارا درکار ہے مگر مولانا صاحب بھی کیا کریں؟ ہر بار یہی ہوتا ہے، اور ہر بار وہ مسکراتے ہیں سنتے ہیں اور اپنے انداز میں سیاست کے ان بھولے مسافروں کو سیدھی راہ دکھاتے ہیں۔

سب سے زیادہ دلچسپ وہ لمحات ہوتے ہیں جب کچھ سیاستدان اپنی بے بسی چھپانے کے لیے فلسفہ جھاڑنے لگتے ہیں ملک کی معیشت عالمی سیاست اور جمہوریت کے اصولوں پر لمبی لمبی تقریریں شروع کر دیتے ہیں مگر مولانا صاحب جو نہ صرف سیاست بلکہ سیاستدانوں کی نفسیات کے بھی ماہر ہیں جانتے ہیں کہ یہ سب الفاظ محض دکھاوا ہیں اصل سوال وہی ہوتا ہے "مولاناجی! ہم مصیبت میں پھنس گئے ہیں آپ مہربانی فرما کر ہماری مدد و رہنمائی فرمائیں۔"

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب مولانا صاحب گویا ہوتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے حکومت کو سہارا چاہیے تو مولانا صاحب کی طرف دیکھتی ہے اپوزیشن کو تحریک چلانی ہو تو مولانا صاحب کے بغیر کوئی حکمت عملی مکمل نہیں، سبھی ان کے در پر حاضر ہوتے ہیں گویا پاکستانی سیاست کا سارا تانا بانا اسی ایک شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب سیاستدان جانتے ہیں کہ مولانا صاحب نہ صرف سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں بلکہ وہ وہ استاذ ہیں جو ہمیشہ ان کی ایک شفیق استاد کی طرح رہنمائی فرماتے ہیں۔

 آخر سیاستدان جب مولانا کے در سے رخصت ہوتے ہیں تو چہروں پر مسکراہٹ سجائے کہتے ہیں "مولانا! آپ کی قیادت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے!" اور مولانا صاحب ایک اور سیاسی موسم کے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب بھی سیاست میں کوئی نیا بھونچال آئے گا یہی چہرے، یہی سیاستدان یہی مسافر ایک بار پھر اسی دربار میں حاضر ہوں گے پھر وہی سوال کریں گے اور مولانا صاحب ماضی و حال کی طرح ایک بار پھر تاریخ رق کریں گے!



0/Post a Comment/Comments