تماشہ اقتدار جشن یا نوحہ؟
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پنجابی کی کہاوت ہے "جدوں لا دتی لوئی تے فیر کی کرے گا کوئی" اس کا مطلب ہے کہ جب انسان بے شرم ہو جائے تو پھر کوئی اس کا کچھ نہیں کر سکتا یہی حال پاکستان کے حکمرانوں کا ہے وطن عزیز میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے, بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی، غربت بڑھتی جا رہی ہے مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ مگر حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر اقتدار کے ایوانوں میں رقص و سرور کی محفلیں سجی ہیں، جشن کے قمقمے جگمگا رہے ہیں، اور خوشی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں، مگر زمین کی کوکھ سے آہیں اٹھ رہی ہیں، دیواروں سے سسکیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اور فضاؤں میں محرومیوں کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ یہ کیسا جشن ہے جس کی روشنی میں عوام کی امیدیں جل رہی ہیں؟ یہ کیسی مسرت ہے جس کی گونج میں بھوک سے بلکتے بچوں کی فریاد دب گئی ہے؟
یہ وہی ملک ہے جہاں بلوچستان کے دامن میں لہو کی ندیاں بہہ رہی ہیں، جہاں خیبر پختونخوا کے پہاڑ بارود کی بو سے سسک رہے ہیں، جہاں سندھ کے میدانوں میں محرومیوں کا ماتم برپا ہے، اور جہاں پنجاب کی گلیوں میں بجلی اور گیس کی بندش نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ فیکٹریاں خاموش کھنڈرات میں بدل رہی ہیں، مزدور کے چولہے بجھ چکے ہیں، بازاروں میں مہنگائی کے ناسور نے عوام کی ہڈیوں کا گودا چوس لیا ہے، اور بدامنی کا دیو شہروں اور بستیوں میں دندناتا پھر رہا ہے۔ مگر تخت نشینوں کے چہروں پر شکن تک نہیں، وہ اپنی فتوحات کے ترانے الاپنے میں مگن ہیں، جیسے سسکتے عوام کی صدائیں ان کے کانوں تک پہنچتی ہی نہیں۔
اقتدار کی غلام گردشوں میں براجمان یہ چہرے بھول چکے ہیں کہ تاج ہمیشہ سروں پر نہیں رہتے، تخت ہمیشہ مضبوط نہیں رہتے، اور عوام ہمیشہ بے بس نہیں رہتے۔ آج ان کے اشاروں پر فیصلے ہو رہے ہیں، مخالفین کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، سچ کہنے والوں کی زبانیں بند کی جا رہی ہیں، اور اختلاف کرنے والوں کو زندانوں میں جھونکا جا رہا ہے۔ مگر یاد رکھیے! تاریخ نہ تو اندھی ہوتی ہے اور نہ گونگی، وہ سب کچھ دیکھتی اور قلم بند کرتی ہے۔
یہ اقتدار کا جشن نہیں، ظلم کی رات کا ماتم ہے۔ یہ روشنیوں کی محفل نہیں، اندھیروں کی سازش ہے۔ جب بھوک کے ستائے لوگ اپنے بچوں کی لاشوں پر بین کر رہے ہوں، جب مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نوالے کے لیے ترستا دیکھ رہی ہوں، جب مزدور کی آنکھوں میں امید کے دیے بجھ چکے ہوں، تو اس ریاست کے جشن پر لعنت ہو! وہ اقتدار تختۂ دار پر جھولنے کے لیے ہوتا ہے جو رعایا کے زخموں پر مسکراتا رہے، وہ حکومت مٹنے کے لیے ہوتی ہے جو عوام کے سروں پر جبر کا کوڑا برساتے ہوئے فتح کے نعرے لگائے۔
یاد رکھو! تاریخ نے کبھی کسی جابر کو معاف نہیں کیا۔ عوام کی خاموشی کو کمزوری سمجھنے والے احمق ہیں۔ جس دن یہ زخم خوردہ قوم جاگ گئی، جس دن بھوکے بچوں کی چیخیں بغاوت میں بدل گئیں، جس دن مجبور مائیں اپنے لختِ جگر کی لاشیں اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئیں، اس دن نہ کوئی تخت بچے گا، نہ کوئی تاج سلامت رہے گا۔ زمین کا رزق بننے سے پہلے تاریخ کا رزق بننے کے لیے تیار رہو، کیونکہ جب مظلوم کی آہ عرش کو چیرتی ہے، تو ایوانوں کے در و دیوار لرزنے لگتے ہیں، اور حکمرانوں کی مسندیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں