خیبرپختونخوا میں کرپشن اور لاقانونیت کی انتہا
حافظ مومن خان عثمانی
خیبرپختونخوا وہ بدقسمت صوبہ ہے جہاں پچھلے 11 سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی حکومت نے صوبہ بھر کو علاقہ غیر میں تبدیل کردیا ہے جہاں، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ہر جگہ افراتفری اور طوائف الملوکی کا مکمل راج ہے، جہاں جو طاقتور ہے اس نے اپنی خدائی ڈنکا بجا رکھا ہے،عوام انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،پشاور شہر سے لے کر دور دراز دیہاتوں تک ہر علاقہ میں سرکاری افسران سے لے کر کلاس فور تک سب کے سب مال بنانے کی فکر میں اپنے اپنے محکمے میں غوطہ زن ہیں اور جس کے ہاتھ جو کچھ لگتا ہے اسے مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کرنے میں کوئی سستی اور غفلت سے کام نہیں لیتا، شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت کرم اور دیگر اضلاع میں بھی طواف الملوکی عروج پر ہے، اس حساس صوبے پر گزشتہ 10 سال سے انتہائی نالائق، غیر ذمہ دار، بچگانہ حرکتوں کے مالک، سیاست کے رموز سے ناواقف لوگ برسر اقتدار تھے اور گزشتہ ایک سال سے تو انتہائی غیر سنجیدہ، اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ اور عقل کی دولت سے محروم، انسان نما بگوان مسلط ہیں جن کو صوبے کے مسائل اور ضروریات کا معمولی سا ادراک بھی نہیں ہے، وزیراعلیٰ ہاؤس کباڑ خانے میں تبدیل ہوچکاہے، جس کو عوامی مسائل پر نظر رکھنے سے زیادہ بھڑکیں مارنے کا شوق ہے، جو عوامی مشکلات سے زیادہ اپنے مونچھوں کو تاؤ دینے کی فکر میں رہتا ہے، جو عوام کے درد و دکھ بانٹنے سے زیادہ سی ایم ہاؤس میں شہد سے لطف اندوز ہونے میں وقت گزارتا ہے، اب تو پی ٹی آئی کے اپنے کارکن بھی گنڈاپور سرکار کے کردار سے شدید نالاں ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ کسی سنجیدہ، فہم و ادراک رکھنے والے، سمجھدار اور لائق شخص کو بنادیا جائے جو رات کے اندھیرے میں کارکنوں کو پولیس کے نرغے میں چھوڑ کر بھاگنے والا نہ ہو۔ جس میں عقل، فہم، ادراک، سمجھداری، سیاسی سوجھ بوجھ کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہو، ہمارا بدقسمت صوبہ پہلے سے شدید بحران کا شکار ہے پچھلی دو حکومتوں نے صوبہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، مگر اس کے باوجود اگر تیسری دفعہ ان کو حکومت مل گئی تو تیسری حکومت کے لئے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو سنجیدہ ہونا چاہئے تھا اور اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر عوامی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے باکردار اور سنجیدہ لوگوں کو آگے لانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے اس دفعہ ایسے نا اہل شخص کو صوبے پر مسلط کردیا ہے جس کی شکل وصورت ہی شریفوں والی نہیں ہے، شرافت، متانت، سنجیدگی، اعلیٰ ظرفی، مروت اور فہم وفراست جیسی صفات اس کو چھو کر بھی نہیں گزریں، جس کی تقریر سے نفرتوں کے شعلے بھڑکتے ہیں، جس کے ہر بیان سے دشمنیاں جنم لیتی ہیں،ایسا شخص پختون قوم کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔
مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے، 2018ء کے الیکشن کے بعد بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام پہلے سے تنگ تھے مگر صوبائی حکومت کی بدانتظامی نے غریب عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، ہر علاقہ میں تاجروں کی من مانی ہے، اپنی مرضی کی مقررکردہ قیمتیں ہیں، شہرناپرساں میں جو تاجر جس طرح قیمت لگائے کوئی پوچھنے والا نہیں، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہورہا ہے، ادنیٰ ملازم سے لے کر اعلیٰ افسر تک سب کا مقصود سرکاری وسائل لوٹ کر مال بنانا ہے جس کی وجہ سے کرپشن کی انتہا ہوچکی ہے، سرکاری دفاتر میں سر عام رشوت کالین دین چل رہا ہے، نوکر شاہی کے پرزے عیش وعشرت کے اسباب جمع کرنے میں نان سٹاپ، مصروف ہیں۔ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ خود ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں، لیکن ان پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں، کرپشن کا سدباب کون کرے گا جب تمام پرزے ہی کریشن میں ملوث ہوں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے ہضم کئے جارہے ہیں، اسی ناکامی کو چھپانے کے لئے ایک بار پھر صوبائی کابینہ میں ردوبدل کی خبریں میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں، سپیکر بابر سلیم سواتی سمیت دیگر وزراء کو فارغ کرکے نئے چہروں کو سامنے لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ محکمہ صحت میں نیا سکینڈل سامنے آیا ہے جس میں 17 ہزار کے مرمتی کام پر 7 کروڑ روپے نکالے گئے ہیں، ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ پشاور میں نکاسی آب نالے کی مرمت پر 17 ہزار روہے خرچ کئے گئے ہیں جبکہ اکاؤنٹ سے 7 کروڑ روپے نکالے گئے ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ کس طرح صوبے کے وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹا جارہاہے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔
بلدیاتی نمائندگان کے تین سال گزر گئے مگر انہیں نہ کوئی اختیار دیاگیا اور نہ انہیں ایک پیسہ کا فنڈ ملا، جو فنڈ دیاگیا تھا وہ صرف پی ٹی آئی کے نمائندوں تک محدود تھا جس پر دیگر جماعتوں کے ممبران نے گزشتہ دنوں پشاور میں کئی دنوں تک شدید احتجاج کیا انہیں صوبائی حکومت کی طرف سے شدید تشدد کانشانہ بھی بنایا گیا۔صوبہ مالی لحاظ سے انتہائی بدترین دور سے گزر رہاہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری سے بھی پی ٹی آئی حکمرانوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تیسری حکومت حاصل کرکے بھی وہ تین سوڈیم کیا تین سو حوض بھی نہ بناسکی، اپنی بداخلاقی، بدزبانی اور تکبرانہ چل چلن کی وجہ سے مرکزی سے بھی صوبہ کا حصہ حاصل نہ کرسکی، صوبوں کا وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن ازحد ضروری ہے لیکن یہاں صوبے اور مرکز کے درمیان انڈیا پاکستان والی صورت حال ہے،وزیراعلیٰ کو چاہئے تھا کہ مرکز کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرکے عوام کو مشکلات سے نکال دیتا مگر اس کی زبان میں اس قدر نفرت انگیز زہر بھرا ہوا ہے کہ اس کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی ایک بات بھی عوام کو مشکلات سے نکالنے میں معاون مددگار نہیں بن سکتی۔اب تو پی ٹی آئی والے خود اس سے تنگ آ چکے ہیں اس سے صوبائی صدارت کا عہدہ چھین کر جنید اکبر کے حوالے کردیا گیا اور کچھ دن تو یہ خبر بھی گردش کررہی تھی کہ اس کو وزارت کی کرسی سے بھی ہٹایا جارہاہے اورکسی سنجیدہ شخص کو وزارت علیا کی کرسی پر بٹھانے کی کوششیں جاری ہیں، اگر اس طرح ہو جاتا تو یہ صوبہ خیبرپختونخوا اور اس کی عوام پر عمران نیازی کا بہت بڑا احسان ہوتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔پولیس میں اصلاحات کے دعویداروں نے پولیس کو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کردیا ہے،آج پولیس گاڑیوں اور پٹرول کے لئے نوحہ کناں ہیں۔ صوبہ بھرمیں بدانتظامی، کرپشن، قتل وغارت، بھتہ خوری اور دیگر جرائم سونامی کی طرح روزبروز بڑھتے جارہے ہیں، ایک خبر کے مطابق پی ٹی آئی نے صوبہ میں امن وامان قائم کرنے میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی سے مدد مانگ لی، ظاہر بات ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ عوام کے منتخب نمائندے نہ ہو اور جعلی طور پر کسی کے رحم وکرم پر اسمبلیوں میں براجمان ہوں تو وہ عوامی مسائل کیسے حل کرسکتے ہیں، قائدجمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے ببانگ دہل کہا ہے خیبرپختونخوا میں فارم نمبر 47 کی حکومت ہے اور گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما شوکت یوسف زئی نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ 30۔35 ارکان اسمبلی حلف نامہ جمع کرکے ممبر بنے ہیں جس سے جمعیت علماء اسلام اور قائد جمعیت کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ صوبہ میں لوگ اسمبلی میں آئے نہیں لائے گئے ہیں یہ عوام کے نمائندے نہیں بلکہ فرشتگان کے نمائندے ہیں جو ملکی حالات تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
13 جنوری کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں سیاسی جماعتوں کو سربراہان سے ملاقات کرکے شرکاء سے دہشت گردی کی لعنت کے خلاف ایک سیاسی آواز اور عوامی حمایت پر اتفاق رائے حاصل کیا۔ سیاسی نمائندوں نے نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مسلح افواج اور ایل ای اے کی غیر متزلزل حمایت کی اور دہشت گرد گرپوں کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف سیاسی رنگوں سے بالاتر ہوکر ایک متحدہ محاذ کی ضرورت پر اتفاق کیا۔وزیراعلیٰ اور گورنر بھی اس موقع پر موجود تھے۔
صوبہ میں پی ٹی آئی حکومت نے نگران دورمیں بھرتی کئے گئے ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے کے صوبائی اسمبلی سے ایک بل بھی منظور کرلیا ہے جس کی روسے نگران دور میں 22جنوری 2023ء سے 29 فروری 2024ء تک سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کئے گئے ملازمین کو فارغ کیاجائے گا اس طرح پی ٹی آئی حکومت نے ہزاروں لوگوں کے چولہے بجانے اور انہیں بے دست وپا کرکے بھوکا مارنے کا پروگرام بنارکھا ہے، یہ پی ٹی آئی حکومت کی انتہائی انتقامی کاروائی ہوگی اگر ان ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔ہمارے ملک کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں ہر پارٹی والے اپنے جیالوں کو بھرتی کرنے کے لئے اس قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ پچھلے ادوار میں بھی اس قسم کی ظالمانہ کاروائیاں ہوئی ہیں۔
گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اعظم خان سواتی رہائی کے بعد مانسہرہ آئے تو انہوں نے کہا کہ مانسہرہ میں بدترین کرپشن ہورہی ہے اور یہ بھی کہا کہ یہ کرپشن سرکاری افسران نہیں بلکہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کررہے ہیں اور میں عمران خان سے اڈیالہ جیل میں جاکر ملاقات کروں گا اور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھوں گا،یہ ایم این ایز اور ایم پی ایز پر انتہائی شدید قسم کا الزام ہے جوکسی مخالف نے نہیں بلکہ اپنے ہی ایک سینئر رہنما نے لگایا ہے۔یہی صورت حال پورے صوبہ میں ہے، پختون خوا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ اس کے وسائل یا تو کرپشن کی نذر ہورہے ہیں یا پی ٹی آئی کے جلسوں اور دھرنوں پر ضایع کئے جارہے ہیں۔ صوبہ پر مسلط اس پسماندہ ذہنیت نے عوام کو سو سال پیچھے دھکیل دیاہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں