قوم کی آزادی اور غلامی کی بنیاد چار چیزیں
تحریر: حافظ علی گل سندھی
دنیا میں جس بھی قوم کے مذکورہ چار راستے محفوظ ہیں وہ قوم دنیا میں عزت و ترقی کے معراج پر ہوتی ہے،اور دنیا میں وہ قوم آزاد قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔لیکن جس قوم کے وہ چار راستے محفوظ نہیں اور ان راستوں پر غیر اقوام قابض ہوں تو وہ قوم دنیا میں غلام قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔
آئیے مختصراً ان راستوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تعلیم
زیادہ دور جانے کے بجائے متحدہ ہندوستان سے دیکھتے ہیں۔ انگریز بہادر نے سن سولہ سو (سن 1600) عیسوی میں ایک تجارتی کمپنی کی بنیاد رکھی جو کئی عشروں بعد "ایسٹ انڈیا کمپنی" کے نام سے مشہور ہوئی اور اس وقت متحدہ ہندوستان پر مغل شہنشاہ غالباً جہانگیر خان کی حکومت تھی جو اپنے عروج کے زمانے پر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ اچھے بچوں کی طرح ملکی قوانین پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنی تجارت پر توجہ دی اور (1730ع) کے بعد ایک دہوکہ کے تحت بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کو شہید کرکے بنگال میں اپنی حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔
اس کے بعد پہر ایک صدی سے زائد کا عرصہ انگریز بہادر نے منہ سے مومن اور اندر میں ابلیس کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے گزارا۔یعنی ظاہراً تو وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ ہم ملکی قوانین کے وفادار ہیں لیکن باطناً وہ اپنی گھناؤنی سازشوں کے ذریعے ملکی نظام اپنے ہاتھ میں کرنے خواہاں تھے اور دن رات منصوبہ بندی میں مصروف العمل تھے۔
بالآخر انگریز سرکار کی مراد پوری ہوئی اور ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو 17 اکتوبر 1858ع کو ہندوستان سے قید کرکے رنگون بھیج دیا گیا جہاں دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کا آخری شہنشاہ 7 نومبر 1862ع کو کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج نما قید خانے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
اب آتے ہیں اصل موضوع پر، جب انگریز متحدہ ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس حکومت کو قائم رکھنے اور اس کو دوام بخشنے کے لئے سب سے پہلے انہوں نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنا تعلیمی نظام ہندوستان میں متعارف کروایا۔
چنانچہ اس کام کے لئے لارڈ میکالے نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ لومڑی کی چال چلتے ہوئے پالیسی اپنائی کہ آپ جس بھی مذہب، مسلک، عقیدے، نظریے کے حامل ہو! آپ اس پر پابندی سے عمل پیرا رہو اور اپنی عبادات و ریاضات میں آپ بالکل آزاد ہیں بس صرف ایک کام آپ نے کرنا ہے اور وہ یہ کہ اپنی متاعِ عزیز (اولاد) کو ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں اور ان کو اچھا بھلا شہری بنا کر ان کو حکومتی کاموں میں معاونت کیلئے اپنے ساتھ ملازمت پر رکھ لیں اور اس سے آپکی آمدنی بھی بڑھے گی اور آپ کا گھرانہ علاقے میں ایک خوشحال گھرانوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہ تھی وہ انگریز سرکار کی پہلی پالیسی جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانس لیا اور نتیجتاً پوری قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی چلی گئی اور احساس بھی نہ ہو سکا۔
انگریزوں کو ہندوستان سے گئے ہوئے 76 سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ ایسا تعلیمی نظام ہم پر مسلط کر گئے کہ کہنے کو تو ہم آزاد ہیں لیکن آج تک ہم اس نظامِ تعلیم سے جان نہیں چھڑا سکے۔
آج کہنے کو تو پاکستان اسلامی جمہوری ریاست ہے لیکن کورٹ کچہری ہو یا ایوان بالا ہر دوسری جگہ بات انگریزی زبان میں ہوگی،قرآن کو تب بھی کورٹ کچہری میں جانے کی اجازت نہیں تھی آج بھی نہیں ہے،دینی طبقہ اس وقت بھی پریشانیوں میں مبتلا تھا آج بھی ہے، میں انگریز کے عقل پر حیران ہوتا ہوں کہ وہ ایسا چمکیلا نظام بنا کر گیا کہ آج اس کے بغیر آدمی خود کو آدھا انسان سمجھتا ہے عام لوگوں کی دیکھا دیکھی خود مولوی حضرات نے بھی آہستہ اپنے مدارس میں اس نظام کو قبول کرنا شروع کردیا ہے میں اس چیز کو انگریز کی فتح اور ہماری شکست سے تعبیر کرتا ہوں۔
دولت
شہنشاہ جہانگیر سے ملکہ ازابیلا نے ہندوستان میں تجارتی کمپنی قائم کرنے کے لئے معاہدہ کیا اور وہ کمپنی ہندوستان کی سرزمین پر اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے بظاہر تجارت لیکن پس پردہ وہ ہندوستان کے معدنی ذخائر پر قبضہ جمانے کی خواہاں تھی انگریز اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہندوستان کی سرزمین بڑی زرخیز اور خوشحال ہے کیونکہ یہ سفید چمڑی والے گورے تو برفانی علاقوں میں رہنے والے تھے اور اپنی سرزمین پر وہ تجارت کرنے کے قابل نہیں تھے اسلیے جب انہوں نے برصغیر کی سرزمین کا مطالعہ کیا اور سروے کرنے سے جب ان پر اِس قوم کی خوشحالی کے راز عیاں ہوئے تو انگریزوں کی رال ٹپکنے لگی چنانچہ اسی لئے انہوں نے اپنی پہلی تجارتی کمپنی کی بنیاد ہندوستان میں رکھی اور آہستہ آہستہ وہ پورے برصغیر کی دولت و حکومت پر بلا شرکت غیرے مالک ہوگئے۔
14 اگست 1947 کو پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور 15 اگست کو ہندوستان نے آزادی کا جشن منایا۔
آج پاکستان کی عمر کا چہترواں سال چل رہا ہے اور ہر سال 14 اگست کو ہم ناچ ناچ کر گنگھروں توڑ دیتے ہیں اور ڈانس کر کر کے اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کوئی خاندانی ڈانسر ہوں لیکن آج پاکستان کی معیشت انگریزوں کے ہاتھ میں ہے آج پاکستان کا بجٹ بنانا آئی۔ایم۔ایف کا کام ہے،ہماری تمام پالیسیوں کا خالق امریکہ ہے،روپیے کی قدر میں کمی ہو یا اضافہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے،ورلڈ بینک ہو یا ایشین بینک 25 فیصد سود پر قرضہ ہمیں تب ملے گا جب امریکہ منظوری دیگا، تیل، گیس، بجلی، خوردونوش کی اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کا کام ہو یا ہماری زراعت کے نرخوں کو کم کرنے کا کام ہو یہ تمام کام امریکہ و یورپی یونین کی ذمے داری ہے،پاکستان میں 2024 کی حکومت کس کو ملی گی اور اس کے پانچ سال کے بعد پھر اگلی حکومت کون کرے گا یہ ذمے داری بھی امریکہ کی ہے ہمارے والے صرف ناک کی نوک پر چشمہ رکھ کر اور ہاتھ میں امریکہ کی طرف سے بنی ہوئی پالیسیز پڑھ کر سنانے کے لئے ہیں۔
یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ آپ اگر بنظرِ انصاف میری باتوں کا مطالعہ کریں گے اور پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائیں گے تو ان شاءاللہ میری آپ کو میری باتیں محض افسانہ نہیں بلکہ کھلی ہوئی کتاب کی مانند ملیں گی اور آپ کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا واقعتاً ہم آج بھی اس غلامی کے دور میں جی رہے ہیں۔
حیثیت
انگریز ہندوستان میں تعلیم و دولت پر تو قبضہ جمانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے لیکن پہر بہی وہ ہندوستانی مسلمانوں پر مکمل تسلط نہیں قائم کرسکے اسکی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان علم و ادب کا مرکز رہا ہے اور بڑے بڑے جبال العلم اس زرخیز دہرتی نے پیدا کیے ہیں اسلیے ان جبال العلم علماء اور تصوف کے میدان میں یہاں نایاب موتی پائے جاتے تھے انہوں نے عوام الناس کے قلوب کو علم و ادب کی روشنی سے منور کردیا تھا اس وجہ سے انگریز بہادر کو اپنا تسلط برقرار رکھنے میں دقّت پیش آرہی تھی۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریز نے مسلمانوں کے ساتھ ایک نئی چال چلتے ہوئے مسلمانوں میں سے ہی ہر طبقے میں سے افراد کو چنتے ہوئے انہیں خصوصی 'حیثیت' سے نوازا اور یہاں سے القاب یافتہ طبقے کا وجود پڑا۔
آج آپ کو یہ جو خان،نواب،منسٹر،سردار،رئیس،وڈیرے،پیر اور مولویوں میں سے جو 'شمس العلماء' جیسے اشخاص دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں یہ تمام کے تمام انگریز بہادر کے آگے اپنی دُم ہلاتے تھے اور انگریزوں کے گھوڑوں کو نعل وغیرہ پہناتے تھے اور اس چیز پر بڑا فخر کرتے تھے اسلیے انگریز ان کی اس چاپلوسی سے محظوظ ہوتے تھے اور ان کو قابو میں رکھنے کیلئے انگریزوں نے پیسہ جو انکے باپ دادے کی ملکیت نہیں تھا پانی کی طرح بہایا،انکو القابات سے نوازا،جاگیریں حوالے کیں اور ان لوگوں نے سادہ لوح مسلمانوں کو انگریز کی غلامی میں ایسا جکڑا کہ آج ہم ہاتھ پاؤں مارنے سے بھی رہ گئے اور آج تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
تعلقات
چنانچہ انگریز نے اپنی مکاری و عیاری سے قائم کی گئی سلطنت کو دوام بخشنے کے لئے چوتھا کام یہ کیا کہ 'تعلقات' کو اپنی مرضی کے ساتھ منسلک کردیا۔۔
یعنی کس سے تعلق رکھنا ہے اور کس سے توڑنا ہے یہ کام انگریز کی اجازت اور مرضی سے مشروط تھا اگر سرکار کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا قائل ہے تو وہ سرکار کی گرفت میں آجاتا تھا اور ایسے کئی واہیات قسم کے لوگ انگریزوں کی نمک حلالی کرتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوتے تھے اگر کوئی قابلِ اعتراض بات سامنے آجاتی تو انعام کہ غرض سے وہ اپنے آقاؤں تک بات پہنچا کر اپنے مسلمان بھائی کی مخبری کرتے اور چند ٹکوں کے عیوض اپنا ایمان بیچتے تھے۔۔
بہرحال! یہ وہ طبقات ہیں اور یہی وہ پالیسیاں تھیں جو انگریز سرکار نے تشکیل دی تھیں اور اس قوم کے چند طبقات کے محدود اشخاص نے اپنی دکانداری چمکانے اور اپنے جہنم کو بہرنے کیلئے پوری قوم کو ایسی غلامی میں جکڑوایا کہ پون صدی گزرنے کے بعد بھی ہم غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور کم از کم میں تو انگریزوں کی ذہانت کو داد دیتا ہوں کہ وہ ایسا نظام اور ایسے اشخاص پیدا کرکے گئے کہ باوجود غلامی کی زندگی بسر کرنے کے ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔
کبھی موقع ملا تو ان شاءاللہ یہ ثابت کروں گا کہ آج بھی وہ ہی لوگ ہم پر مسلط ہیں جو انگریز کے گھوڑوں کے نعل پہنایا کرتے تھے۔
ایک تبصرہ شائع کریں