حافظ حسین احمدؒ – جمعیۃ کا دبنگ سپاہی۔ ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

حافظ حسین احمدؒ – جمعیۃ کا دبنگ سپاہی

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ شخصیات تاریخ کے صفحات سے نہیں بلکہ خود تاریخ کے سینے سے نمودار ہوتی ہیں۔ وہ کسی ایک دور، ایک جماعت، یا ایک علاقے کی نمائندہ نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک نظریہ، ایک فکر، اور ایک عہد کی علامت بن جاتی ہیں۔ حضرت مولانا حافظ حسین احمدؒ ایسی ہی ایک شخصیت تھے — ایک دبنگ مقرر، ایک نڈر سیاستدان، ایک بے باک صحافی، اور ایک فکری مجاہد۔ آج وہ ہم سے جدا ہوگئے، مگر ان کا نام، ان کی یادیں، اور ان کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 

مولانا حافظ حسین احمدؒ صرف ایک عالمِ دین نہیں، بلکہ ایک پورے عہد کا عنوان تھے۔ وہ بولتے تو ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجاتا، ان کا تبصرہ ایک سرخی بن جاتا، اور ان کے جملے تاریخ رقم کر دیتے۔ وہ الفاظ سے نہیں، بلکہ دلائل سے حملہ کرتے تھے۔ ان کی زبان میں وہ کاٹ تھی کہ بڑے بڑے سیاسی برج ان کے جملوں کے آگے سرنگوں ہوجاتے۔

کون بھول سکتا ہے وہ وقت جب پارلیمنٹ میں انہوں نے حکومتی وزراء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ باتیں کہہ دیں جنہیں کہنے کی جرات بہت کم لوگوں میں تھی؟ کون فراموش کرسکتا ہے وہ لمحات جب انہوں نے اپنی تحریروں سے اہلِ صحافت کو انگشت بدنداں کر دیا؟ ان کا انداز ایسا تھا کہ مخالف بھی سننے پر مجبور ہوتا، اور ساتھی بھی داد دیے بغیر نہ رہتا۔

بلوچستان کی دھرتی نے بہت سے سپوت پیدا کیے، مگر حضرت مولانا حافظ حسین احمدؒ جیسا بیباک اور حق گو راہنما کم ہی دیکھا گیا وہ بلوچستان کے مظلوموں کی آواز بنے، وہ ہمیشہ پسماندہ طبقے کے حقوق کے لیے لڑتے رہے، وہ ان نام نہاد پالیسی سازوں پر کڑوی تنقید کرتے رہے جو بلوچستان کو محض نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ مگر ان کا احتجاج کبھی فقط لفظی نہ رہا—انہوں نے ہر فورم پر، ہر محفل میں، اور ہر موقع پر عملی جدوجہد کی۔

وہ جمعیۃ علماء اسلام کے صرف ایک رہنما نہیں، بلکہ اس جماعت کی تاریخ کا ایک سنہری باب تھے انہوں نے جمعیۃ کے مقدمے کو جس جرات، تدبر اور دانشمندی کے ساتھ لڑا، وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ نہ بکنے والوں میں سے تھے، نہ جھکنے والوں میں سے۔ وہ نہ وقتی مفادات کے اسیر تھے، نہ اقتدار کی ہوس میں پڑنے والوں میں سے۔

سیاسی میدان میں وہ مخالفین کے لیے ایک چیلنج تھے۔ وہ اتحاد کے داعی بھی تھے، اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ بھی ان کی نگاہ ہمیشہ آنے والے وقت پر رہی، اور وہ ہر معرکے میں ایک ایسی قیادت کا خواب دیکھتے رہے جو اسلامی اقدار کی محافظ ہو۔

کئی سالوں سے وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے، مگر بیماری نے ان کے عزم کو کبھی شکست نہ دی۔ وہ آخری سانس تک متحرک رہے، فکری نشستوں میں شریک رہے، قومی و بین الاقوامی معاملات پر اپنی بصیرت بکھیرتے رہے مگر آج وہ خاموش ہوگئے وہ زبان جس نے ہمیشہ حق بولا وہ آنکھیں جو ہمیشہ سچائی کی پہرہ دار رہیں اور وہ شخصیت جو ہمیشہ بے خوف رہی آج ہم سے جدا ہوگئی۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ مرتے نہیں، وہ تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔ حضرت مولانا حافظ حسین احمدؒ کا نام ہمیشہ ان جری اور بے باک علماء کی فہرست میں جگمگاتا رہے گا جو نہ مصلحت کا شکار ہوتے ہیں، نہ خوف کا وہ ایک عہد تھے، اور آج وہ عہد اپنے انجام کو پہنچا۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، اور ان کے پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله دارًا خيرًا من داره، وأهلاً خيرًا من أهله، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر ومن عذاب النار، آمین


0/Post a Comment/Comments