حافظ حسین احمد کی واپسی اور دیگر سیاسی شخصیات کی جمعیت میں شمولیت
حافظ مومن خان عثمانی
حضرت مولانا حافظ حسین احمد ملک کے مشہور سیاست دان اور سینئر پارلیمنٹیرین ہیں، آپ کوئٹہ کے ایک علمی اور روحانی خانوادے میں 1951ء کو پیدا ہوئے، آپ کے والد مولانا عرض محمد جید عالم دین، جمعیۃ علماء سے وابستہ روحانی شخصیت تھے، حافظ صاحب نے بچپن میں قرآن پاک حفظ کیا، فقہ میں اعلیٰ تعلیمی نصاب مکمل کرکے درس نظامی کی سند حاصل کرتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے فاضل عربی کی ڈگری بھی حاصل کی، فراغت کے بعد اپنے مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ میں درس وتدریس سے وابستہ ہوئے، حافظ صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1973ء میں کیا، 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد PNA میں بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک، تحریک نظام مصطفی میں بھر پور حصہ لیا، 1988ء میں جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے چاغی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں جمعیۃ علماء اسلام کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر مقرر ہوئے، اس کے بعد دو دفعہ سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے، 2002ء میں متحدہ مجلس عمل بنی تو اس کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے ممبر بن کر قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر مقرر ہوئے، آپ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں،حافظ صاحب کی زندگی سیاست میں گزری ہے دو دفعہ ایم این اے اور دو دفعہ سینیٹر رہے ہیں، قادرالکلام خطیب، نکتہ شناس سیاست دان اور جمعیۃ علماء اسلام میں اہم مناصب پر رہ چکے ہیں، حافظ صاحب مولانا محمد خان شیرانی کی امارت میں انہی کی وجہ سے کافی عرصہ تک قیادت کی طرف سے زیر عتاب بھی رہے ہیں اور اس دوران ان سے دیگر سیاسی پارٹیوں نے رابطے بھی کئے، اور پیش کشیں بھی کیں مگر حافظ صاحب نے سب کچھ ٹھکرا کر جمعیت کے ساتھ اپنی وابستگی کو قائم رکھا۔ حافظ صاحب کو دو سال قبل جمعیت علماء اسلام کی پالیسی سے انحراف کی وجہ سے مولانا محمد خان شیرانی، مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک سمیت جماعت سے خارج کیا گیا تھا، اس دوران دیگر تین منحرف ارکان پی ٹی آئی کی پالیسیوں سے سو فیصد متفق ہوکر عمران خان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ساتھ چلنے کا عزم کرگئے، کئی اجلاسوں اور جلسوں میں عجیب وغریب کی قسم کی باتیں کرکے اپنی زندگی بھرکی کاوشوں کی نفی کرکے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال گئے، مگر حافظ حسین احمد اپنی علالت کی وجہ سے ان چیزوں سے محفوظ رہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ علماء کرام کی صف میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی، حافظ حسین احمد زمانہ طالب علمی کے دور میں جمعیت سے وابستہ ہوئے، تمام تحریکات بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر تحریک میں قائدانہ کردار اداکیا، جمعیت علماء اسلام میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے بعد اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ حافظ حسین احمد کی ذات تھی، کارکن ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بہت ہی محظوظ ہوتے تھے یہی وجہ تھی کہ جب دو سال قبل انہیں جمعیت سے نکالا گیا تو جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کو بہت دکھ اور افسوس ہوا،جب وہ میڈیا پر آکر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کی نفی کرتے اور جمعیت کی قیادت پر نکتہ چینی کرتے توہم جیسے کارکن سر پکڑ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے تھے، 9 دسمبر کو جونہی حافظ صاحب کی دوبارہ شمولیت کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو کارکنوں کی خوشی کی کوئی انتہانہ رہی ہر کارکن کی خوشی دیدنی تھی، گھر کا آدمی جب بچھڑنے کے بعد واپس آکر گلے لگتا ہے تو اس بے انتہا خوشی ہوتی ہے اور یہی حالت جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کی تھی کہ وہ حافظ صاحب کی دوبارہ شمولیت پر خوشی سے نہال ہوئے، 9 دسمبر کو صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کی رہائش گاہ پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے گرم سرد حالات میں جمعیت علماء اسلام کے لئے قربانیاں دینے والے، مخالف کو دندان شکن جواب دینے والے، ہر محاذ پر جمعیت علماء اسلام کے لئے لڑنے والے فقیر منش سیاست دان اور اپنے دیرینہ دوست کو دو سال بچھڑے رہنے کے بعد پھر سے گلے لگا کر اپنے دوستوں کی عزت واحترام کا ثبوت پیش کیا، اور دیگر دوستوں کو بھی پیغام دیا کہ اگر آپ لوگو بھی بغیر کسی شرط کے جمعیت علماء اسلام میں واپس آنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے بھی دروازے کھلے ہیں، حافظ صاحب کو کافی عرصہ سے گردوں کا عارضہ لاحق ہے،وہ صاحب فراش ہیں،چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے ہیں، موصوف بڑے بزلہ سنج اور نہایت ہی حاضر دماغ انسان ہیں، بیانات کو مزاحیہ انداز میں پیش کرنے میں لاجواب اور مخالف کو حیران وپریشان کرنے میں لاثانی ہیں پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر آپ کے مزاحیہ واقعات وبیانات مشہور ومعروف ہیں۔ 2005ء کے زلزلہ کے بعد مانسہرہ میں قراقرم ہوٹل کے سامنے روڈ پرجماعت الدعوہ کی طرف سے ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں جنرل حمیدگل،جنرل ظہیر الاسلام بھی شریک تھے حافظ صاحب جب تقریر کے لئے اُٹھے تو فرمایا کہ آج ہمارے پاس سٹیج پر دوجنرل موجود ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ دونوں ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں آئے ہیں، جلسہ کے اختتام پر کھانے کے لئے تشریف لے گئے حافظ صاحب کھانا کھارہے تھے کہ شیعہ مکتب فکرکے مولانا عبدالجلیل نقوی نے حافظ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا حسین بھائی! ہم جارہے ہیں۔حافظ صاحب نے برجستہ جواب دیا ٹھیک ہے بھائی یہ تو آپ کی پرانی روایت ہے کربلا میں بھی آپ حسین کو چھوڑ کر گئے تھے اور یہاں بھی حسین کو چھوڑ کر جارہے ہیں، اس پر پوری مجلس کشت زعفران بن گئی مولانا عبدالجلیل نقوی نے کہا خداکے لئے کہیں تو معاف کرلیا کریں۔پرویز مشرف کے دور میں جب انتخابات ہوئے اور مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اسمبلی میں پہنچیں تو ایل ایف او پر حکمران جماعت مسلم لیگ ق اور اپوزیشن جماعتوں میں بڑا اختلاف رونما ہو،ا ڈیڑھ دو سال تک اپوزیشن سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرتی رہی، حزب اختلاف کی جماعتوں نے سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں اور سینے پر سٹکرز لگا رکھے تھے جن پر لکھا ہوا تھا ”ایل ایف او نامنظور“ حافظ صاحب اسمبلی میں پہنچے تو وہ سٹکر ان کو بھی لگا ہوا تھا سامنے سے مسلم لیگ ق کی خاتون رہنما کشمالہ طارق آگئیں اور حافظ صاحب سے کہنے لگیں کہ حافظ صاحب!اس سٹکر سے ”نا“ ہٹادیں تو بہت اچھا لگے گا۔حافظ صاحب نے کہا آپ ہاں کردیں تو ہم نا ہٹادیں گے جس پر وہ شرم کے مارے منہ لٹکائی ہوئی دوسری طرف نکل گئیں۔ حافظ صاحب کی دوبارہ شمولیت ایسے حالات میں ہوئی ہے کہ بلوچستان کے نامی گرامی سیاست دان بھی جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوکر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کو اپنا سیاسی امام تسلیم کرچکے ہیں، 7 دسمبر 2022ء کو بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی نے بڑے غور وخوض کے بعد قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا،نواب اسلم رئیسانی بلوچستان اسمبلی کے امیر ترین ممبر ہیں علاقہ سراوان کے رئیسانی قبیلے کے سربراہ اور بلوچستان میں بے انتہا سیاسی اثرورسوخ کے مالک سیاست دان ہیں،ان کے علاوہ گزشتہ دنوں مولانافضل الرحمن کے دورہ بلوچستان کے موقع پر جن سینئر سیاست دانوں نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا ہے ان میں سابق صوبائی وزیر داخلہ نوابزادہ میر ظفر اللہ زہری، صوبائی وزیر امان اللہ نوتزئی، صوبائی وزیر حاجی غلام دستگیر بادینی، سردار ظفر اللہ گچکی اور ان علاوہ دیگر درجنوں قومی عمائدین شامل ہیں جنہوں نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کرکے مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور ان کی پالیسیوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا،حافظ حسین احمد کی دوبارہ شمولیت اور دیگر بااثر اور سینئر سیاست دانوں کا جمعیت علماء اسلام کا حصہ بننے سے بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام ایک مضبوط قوت ابھر کر سامنے آئے گی، ویسے تو بلوچستان میں شروع ہی سے جمعیت علماء اسلام ایک مضبوط قوت ہے اور بلوچستان نے ہمیشہ مرکز اور صوبہ میں جمعیت علماء اسلام کو نمائندگی دی ہے،بلوچستان کی سیاست میں جمعیت علماء اسلام کا ہمیشہ فیصلہ کن کردار رہاہے، جمعیت کے بغیر نہ وہاں کوئی حکومت بنی ہے،نہ چلی ہے اور نہ ہی جمعیت کے بغیر کوئی حکومت ختم ہوسکی ہے، لیکن یہ دائرہ کار زیادہ تر پشتون علاقوں تک محدود تھا اب ان بلوچ رہنماؤں کی شمولیت سے امید ہے کہ جمعیت علماء اسلام بلوچ علاقوں میں بھی ایک موثر قوت بن کر سامنے آئے گی جس سے بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام سب سے بڑی طاقت بن کر آنے والے انتخابات میں حیران کن نتائج دے گی۔ اس سے قبل 5 دسمبر کو صوبہ خیبرپختونخواہ میں بھی جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کی ایک لہر چلی ہے،جہاں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں مفتی محمود مرکز کے اندر منعقدہ شمولیتی پروگرام میں مردان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر دلاور خان،اعظم خان اور عدنان خان سمیت کئی سیاسی رہنما جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کر چکے ہیں اور آنے والے وقت میں اس سے بڑھ کر اعلیٰ پیمانے پر شمولیتی پروگراموں کی امید ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں