افتخار چوہدری کی معطلی، وکلاء تحریک اور جمعیت علماء اسلام کا موقف وکردار

افتخار چوہدری کی معطلی، وکلاء تحریک اور جمعیت علماء اسلام کا موقف وکردار

(ضبط وتحریر: محمد زاہد شاہ۔ مدیر الجمعیۃ) 

آج 9 مارچ ہے، آج سے ٹھیک اٹھارہ سال قبل 9 مارچ 2007 کو صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اپنے صدارتی کیمپ آفس راولپنڈی میں مدعو کیا اور ان پر ان کے اختیارات کے غلط استعمال، مسں کنڈکٹ اور منصب کے منافی دیگر سنگین الزامات سے آگاہ کر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا حکم دیا۔ لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری نے الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتو صدر پرویز مشرف نے انہیں ان کے عہدے پر کام کرنے سے روک دیا اور ان کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کر دیا۔صدر جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کے خلاف 12 مارچ 2007 کو ملک بھر کے وکلا نے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس احتجاجی تحریک کا کھل کر ساتھ دیا۔ ٹی وی چینلز نے تحریک کی لمحہ بہ لحمہ رپورٹ اپنے سامعین تک پہنچانی شروع کر دی، یوں یہ تحریک پوری سول سوسائٹی کی ایک ملک گیر تحریک بن گئی اور مارچ 2009 میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اپنے عہدے پر بحالی کے بعد اختتام پزیر ہوئی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں اور ان کی اقامت گاہ اور گاڑی پر دوبارہ قومی پرچم لہرا دیا گیا۔

 وکلاء تحریک سانحہ 12 مئی اور قائد جمعیت کا بروقت انتباہ:

جسٹس افتخار چوہدری وکلاء تحریک کے دوران مختلف شہروں میں وکلاء سے خطاب کرنے گئے ،کراچی کیلئے ان کی آمد کا اعلان ہواتو جنرل مشرف کی شہہ پر ان کے استقبال کے متوازی ریلی کا اعلان ہوا۔ قومی اسمبلی میں قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے بطور قائد حزب اختلاف اپنے خطاب میں حکومت کو اس خدشے سے آگاہ کیا کہ چیف جسٹس کی کراچی آمد کے روز ایم کیو ایم کی ریلی تصادم کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔لیکن حکومت نہ مانی اور پھر وہ ہوا جس کا نظارہ پورے ملک نے کیا ،انتہائی سفاکی سے ایک درجن کے قریب انسانوں کا خون بہایا گیا ۔

قائد جمعیۃ کی کراچی آمد اور وکلاء کا معافی مانگنے کا مطالبہ:

مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد ،قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن اور دیگر قائدین وکلاء برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے 25 مئی کو کراچی تشریف لے گئے اور کراچی بار سے خطاب کیا ، اس موقع پر قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن جب خطاب کیلئے مائیک پر تشریف لائے تو وکلاء برادری میں مخصوص ذہنیت کے چند افراد نے ان پر آوازے کسے اور بیک آواز مطالبہ کرنے لگے کہ :''معافی مانگو، معافی مانگو'' (اس سے قبل قاضی حسین احمد نے ایل ایف او پر وکلاء سے معافی مانگی تھی) تاہم قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے کسی جذباتیت یا دباؤ کا شکار ہوئے بغیر نہایت متانت اور سنجیدگی کے ساتھ وکلاء کو ان کے مقام و منصب کے تقاضوں کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ آپ کا وطیرہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ عجیب بات ہے کہ آپ ایک مہمان کو بلاتے ہیں، اس کی گفتگو سنے بغیر پہلے سے اس کے بارے میں فیصلہ سناتے ہیں اور پھر اس پر آوازے کستے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ عدالت عظمیٰ نے مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جواز کیوں فراہم کیا؟ آج تک ہم نے آپ کی صفوں سے کبھی یہ نہیں سنا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر ابھی آئین پر حلف نہ اٹھانے والے جج بھی معافی مانگیں۔ قائد جمعیۃ نے کہا میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور مجھے اپنے موقف پر پورا کمانڈ حاصل ہے لہٰذا آپ ان نعروں کے ذریعے مجھے مرعوب نہیں کرسکتے۔

یاد رہے کہ وکلاء نے عدلیہ بحالی تحریک کے دوران اعلیٰ اخلاقی اقدار کا تمسخر اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تحریک کے ابتدائی دنوں میں اپنے مخالف کیمپ کے نامور وکیل نعیم بخاری کی درگت بنائی گئی، اپنے ہی ساتھی اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل احمد رضا قصوری کا منہ کالا کیا گیا، ڈاکٹر شیر افگن نیازی پر جوتوں،لاتوں اور گھونسوں کی برسات کی گئی۔ اس موقع پر اعتزاز احسن اور دیگر وکلاء قائدین ہاتھ جوڑتے رہے مگر کسی نے پرواہ نہیں کی۔ اعتزاز کیلئے ڈاکٹر شیر افگن نیازی کی جان خلاصی کرانا بڑی دشواری کے بعد ممکن ہوا۔ شریف الدین پیرزادہ کی قیمتی گاڑی (معلوم نہیں ایسی گاڑی کیلئے انہیں اپنا ضمیر کتنی بار دباؤ میں رکھنا پڑا ہوگا) کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ تمام واقعات جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ انتہائی پڑھے لکھے اور پیشہ ور حضرات کے ہاتھوں انجام پائی۔

 سترہویں ترمیم کے حوالے سے وکلاء کی قائد جمعیۃ پر ناراضگی 

وکلاء سترہویں ترمیم کی منظوری اور ایل ایف او معاہدے کے حوالے سے قائد جمعیۃ پر اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے تھے ، چنانچہ اس حوالے سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے اپنا موقف تفصیل کے ساتھ وکلاء کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون کی تشریح آپ کا حق ہے، لیکن آئین کی تشکیل اراکین پارلیمنٹ کا حق ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین آزادانہ طور پر ایک فیصلہ کرتے ہیں تو آپ ان کے اس حق کو چیلنج کرکے کہتے ہیں کہ معافی مانگو!

معافی ہم کیوں مانگیں...؟ کیا اس لئے کہ ہم نے وردی کے کردار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پرویز مشرف کو پابند کیا تھا اور اس نے ٹی وی پر آکر قوم کے سامنے کہہ دیا تھا کہ میں 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتاردوں گا۔ پھر دغا اس نے کی اور معافی ہم مانگیں؟ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ اور یہود مدینہ کے ساتھ معاہدے کئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی معاہدہ نہیں توڑا ، تمام معاہدے کفار نے توڑے۔ توکیا ہم اس کا الزام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگادیں کہ آپ نے غلطی کی تھی نعوذباللہ؟ تو پرویز مشرف کی دغا کا الزام ہمیں کیوں دیا جارہا ہے؟ اگر متحدہ مجلس عمل نے ایل ایف او کی سات شقوں پر ووٹ دیا ہے اور اس لئے وہ آپ کے نزدیک مجرم ہے تو دیگر جماعتوں نے بھی تو اسی ترمیم کی دو شقوں پر ہمارے ساتھ ووٹ دیا ہے۔ تو پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایل ایف او کی ترمیم میں شامل نہیں۔

بلوچستان حکومت سے جے یو آئی کے مستعفی ہونے کا مطالبہ:

اس موقع پر وکلاء نے بلوچستان میں (ق لیگ کی مخلوط) حکومت سے جے یو آئی کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تو قائد جمعیۃ نے کہا کہ ہم آج بھی بلوچستان اسمبلی کے موجودہ اتحاد سے نکلنے کیلئے تیار ہیں لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو آمادہ کریں کہ وہاں ہمارے ساتھ مل کر حکومت بنائیں ، ہم وزیر اعلیٰ کے عہدے کے طلبگار بھی نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن کی جس پارٹی کو وزیراعلیٰ کا منصب چاہئے ہم ان کو دینے کے لئے تیارہیں تاکہ اگر ہم حکومت کی قربانی دیں تو جمہوریت کی قربانی تو نہ دیں، کیونکہ اگر ہمارے استعفوں سے طاقت کا توازن بگڑتا ہے اور اسمبلی ٹوٹتی ہے اور نتیجے میں گونر راج لگتا ہے تو آپ ہی میں سے کچھ لوگ کھڑے ہوکر کہیں گے کہ ملائوں نے پھر جرنیلوں کو آگے آنے کا موقع دیا۔

قائد جمعیت نے کہا کہ: ہم یقینا مخلوط حکومت کا حصہ ہیں لیکن صوبائی اور وفاقی نظام میں صوبے کا اپنا ووٹ اور مرکز کا اپنا ووٹ ہوتا ہے اور ہر جگہ طاقت کا توازن مختلف ہوتا ہے۔ بینظیر کی 1988ء کی حکومت میں اے این پی مرکز میں ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھی تھی لیکن صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اس نے مخلوط حکومت بنائی تھی ، بلوچستان میں ق لیگ کا اتحادی ہونے کے باوجود ہم نے کبھی مرکز کی پالیسی وہاں نافذ نہیں ہونے دی اور جب صدر کے اعتماد کے ووٹ کی بات آئی تو ایم ایم اے نے ووٹ دینے سے انکار کردیا، سرحد اسمبلی نے انہیں شکست دی اور بلوچستان میں بھی ق لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود صرف اس وجہ سے انہیں شکست ہوئی کہ متحدہ مجلس عمل نے اس کیخلاف ووٹ دیا۔ پھر جب وردی کے حق میں قراردادیں آرہی تھیں تو پنجاب اور سندھ اسمبلیوں نے اس کے حق میں قرارداد پاس کی۔بلوچستان میں بھی ق لیگ والے وردی کے حق میں قرارداد لارہے تھے توہم نے ان سے کہا کہ ہم اختلاف کریں گے ، ان کو احساس ہوا کہ شکست ہوگی لہٰذا ان کو قرارداد واپس لینی پڑی۔ جبکہ سرحد اسمبلی جہاں ایم ایم اے کی اکثریت تھی،وہاں سے وردی کے خلاف قرارداد آئی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن کا سوال پیدا ہوا تو بلوچستان کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپریشن نہیں ہونا چاہئے ، اور یہ ق لیگ کی وجہ سے نہیں بلکہ مجلس عمل کی وجہ سے فیصلہ ہوا۔

ایم ایم اے کے حسبہ بل کے خلاف افتخار چوہدری کا کردار

 متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے صوبہ سرحد میں انقلابی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ''شریعت کونسل'' کے نام سے مفتی غلام الرحمن کی سربراہی میں ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔ اس کونسل نے اسلامائزیشن کے آغاز، کرپشن ، بدعنوانی و لاقانونیت کے خاتمے، فوری انصاف کی فراہمی اور دیگر برائیوں کے سے چھٹکارے کیلئے ممتاز قانون دانوں اور جید علماء کرام کی دن رات کوششوں سے ''حسبہ'' بل تیار کیا جو کہ 1973ء کے آئین کے تحت صوبائی حکومت کا آئینی و قانونی حق تھا صوبائی اسمبلی نے ''حسبہ بل'' اتفاق رائے سے پاس کیا ، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور اے این پی نے بھی اس کی حمایت کی جو کہ متحدہ مجلس عمل کی بہت بڑی کامیابی تھی مگر یہ بل پاس ہونے کے بعد جب گورنر کے پاس بھیجا گیا تو ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس، اور امریکی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی اور اس سے پہلے کہ گورنر دستخط کرتے صدر مملکت پرویز مشرف نے اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ اس کیس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بنچ تشکیل دی گئی، طویل سماعت کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے فیصلہ دیا کہ اس بل کی فلاں فلاں شق آئین پاکستان سے متصادم ہے چنانچہ حسبہ بل کو واپس اسمبلی میں بھیج کر اس میں ترامیم کا حکم صادر کردیا گیا۔

اس کے بعد ایم ایم اے حکومت نے اس بل پر نظر ثانی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی مجوزہ شقوں میں ترامیم کرکے دوبارہ اسمبلی میں پیش کیا، لیکن پرویز مشرف کی ایماء پرسپریم کورٹ نے اس بل کو روکنے میں بنیادی کردار اداکیا۔ یہی افتخار چوہدری بعد میں لباس خضر سے مزین ہوکر وکلاء کی آنکھوں کا تارہ بن کر بیس کروڑ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے۔

میثاق جمہوریت عدالتی نظام کی تبدیلی حوالے سے جمعیۃ موقف:

 صدر پرویز مشرف نے جب میاں نواز شریف کو جلاوطن کرکے بے نظیر بھٹو اور ان پر تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی عائد کردی تو دونوں کی سابقہ سیاسی دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے قائدین نے مل بیٹھ کر ایک دستاویز تیار کرکے آئندہ کیلئے سیاسی معاملات کے متعلق ایک سمجھوتہ کیا گیا جس کو میثاق جمہوریت کانام دے دیا گیا۔ اسی میثاق جمہوریت میں یہ بات لکھی ہے کہ ججوں کا تقرر صدر اور وزیر اعظم نہیں کریں گے بلکہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائی جائے گی وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ کس کو سپریم اور ہائی کورٹ کا جج ہونا چاہئے ، اس کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کریں گے ۔ لیکن ایسا جج نہیں ہوگا جس نے اس سے پہلے کبھی پی سی اوکے تحت حلف اٹھایا ہو۔ اب کمیشن کی تشکیل تو ہوگئی لیکن میثاق جمہوریت کا یہ حصہ کہ ''کمیشن کا سربراہ پی سی او کا حلف بردار جج نہیں ہوگا'' لیکن پی سی او کا حلف بردار نہ ہونے کی یہ شرط افتخار چوہدری کی رعایت کرتے ہوئے حذف کردی گئی۔ اس حوالے سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے یہ موقف اپنایا کہ بات شخصیات کی نہیں بلکہ اصول ، ضابطے اور قانون کی ہے ، لہٰذا ایک فرد کے حوالے سے اپنے طے شدہ میثاق میں تبدیلی نہ لائیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جسٹس افتخار چوہدری نے ایسا کمال کر دکھایا ہے جس کی بناء پر ہم اس کی سابقہ لغزش کو معاف کرتے ہیں تو پھر اتنا تو اس میں لکھ دیں کہ افتخار چوہدری کے چیف جسٹس رہنے تک یہ دفعہ قابل عمل نہیں ہوگی اور جیسے ہی ان کی مدت ختم ہو تو یہ شق آئین کا حصہ شمار ہوگی اور آئندہ کبھی بھی پی سی او کا حلف بردار کوئی جج اس کمیشن یا سپریم کورٹ کا سربراہ نہیں ہوسکے گا۔ لیکن یہ لوگ اپنے موقف پر برقرار نہیں رہے۔

  پارلیمان سے علماء کی بے دخلی کی سازش میں افتخار چوہدری کا کردار

پرویز مشرف کے دور میںجب اسمبلی کی رکنیت کیلئے گریجویشن کی شرط رکھی گئی تو نامی گرامی سیاستدان اس شرط کی بناء پر اسمبلی کی رکنیت کیلئے نااہل قرار پائے، البتہ وفاق المدارس کی اسناد چونکہ اس سے قبل ایچ ای سی کے نزدیک ایم عربی و اسلامیات کے مساوی قرار دی جاچکی تھیں، اس لئے وفاق المدارس کی اسناد کی بنیاد پر علماء کی کثیر تعداد 2002ء کی اسمبلیوں میں موجود تھی، جو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی، چنانچہ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں دینی مدارس کی اسناد پر کامیاب ہونے والے کئی علماء کو نا اہل بھی قرار دیاگیا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کو نااہل قرار دینے کی ششیں شروع ہوئیں، یہ مہم عروج پر تھی اور یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چوہدری افتخار کی سربراہی میں اس کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا صرف اعلان باقی تھا کہ ٣ نومبر ٢٠٠٧ء کو افتخار چوہدری سمیت تمام عدلیہ کی بساط کو لپیٹ دیا گیا اور اس طرح یہ سازش ناکام ہوگئی۔

    آمروں کی غیر دستوری حکمرانیوں کو قانونی جواز بخشنے والی عدلیہ کا کردار

 پاکستان میں آج جو بھی نظام جاری وساری ہے وہ غلام برصغیر کیلئے انگریزوں کا بنایا ہوا نظام تھا جس میں جرنیلوں کو اول درجہ حاصل ہے ، جبکہ عوام کو انتہائی گھٹیا درجے کی مخلوق تصور کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں ماضی میں جرنیلوں نے جب بھی اقتدار پر شب خون مارا، ججوں نے (اکا دکا مثالوں کو چھوڑ کر) جرنیلوں کو اپنا مکمل تعاون فراہم کیا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ آمروں کی غیر دستوری حکمرانیوں کو قانونی جواز بخشنے کے حوالے سے سیاہ ابواب سے بھری پڑی ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس میں ججوں نے نظریہ ضرورت متعارف کروایا۔ جسٹس مولوی مشتاق نے جنرل ضیاء الحق سے گٹھ جوڑ کر تے ہوئے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا سیاہ باب رقم کیا۔ جرنیلی ادوار میں ان ججوں کی عدالتوں کے باہر انصاف کی بھیک مانگنے والوں میں سابق سویلین وزرائے اعظم محمد خان جونیجو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف شامل رہے۔ عدلیہ کی تحریک آزادی کے سرخیل جسٹس افتخار چوہدری وہی شخص ہیں جو اس اعلیٰ عدلیہ کا حصہ تھے جس نے جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بن مانگے عطاء کیا۔ حالانکہ یہ اختیار خود اعلیٰ عدلیہ کو بھی حاصل نہیں تھا۔ اسی عدلیہ میں بیٹھے ججوں نے شریف برادران کو نااہل قرار دیاتھا لیکن جب شریف برادران کیساتھ عالمی استعماری ممالک اور پاکستان کی مقتدر قوتوں کا گٹھ جوڑ ہو گیا تو یہی عدالتیں کسی تامل کے بغیر شریف برادران کو اہل قرار دینے لگیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


0/Post a Comment/Comments