ریاست ماں جیسی یا سوتیلی ماں جیسی؟ محمد اسامہ پسروری

ریاست ماں جیسی یا سوتیلی ماں جیسی؟

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

پاکستان اس وقت سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کے ایسے دلدل میں دھنس چکا ہے جہاں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عوام کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

حکمران ترقی کے نعرے لگاتے ہیں، اپوزیشن مظلومیت کا رونا روتی ہے، اسٹیبلشمنٹ خاموشی سے اپنی چالیں چل رہی ہے، اور عوام بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔

اقتدار کی کرسی پر بیٹھے حکمران خود کو بااختیار ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں، مگر فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔

معیشت کو استحکام کا نام دے کر عوام کو بہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔

روپے کی قدر کو مصنوعی سہارا دے کر وقتی طور پر معاشی بہتری کا تاثر دیا جا رہا ہے، مگر زمینی حقائق اس سراب کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

رمضان المبارک جو رحمت، برکت اور ہمدردی کا مہینہ ہونا چاہیے، پاکستان میں ہر سال ایک نئے معاشی عذاب کے ساتھ آتا ہے۔

دنیا بھر میں مقدس مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں تاکہ روزہ دار سہولت کے ساتھ عبادات میں مشغول رہ سکیں مگر یہاں معاملہ الٹا ہے۔

جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آتا ہے، بازاروں میں مہنگائی کا طوفان آ جاتا ہے۔

آٹا، چینی، دودھ، گوشت، سبزیاں، اور پھل غریب کی پہنچ سے باہر ہو جاتے ہیں۔

منافع خور اور ذخیرہ اندوز سرگرم ہو جاتے ہیں، حکومت بیانات دینے تک محدود رہتی ہے، اور عوام اپنی قوتِ خرید کھوتے چلے جاتے ہیں۔

سستے رمضان بازاروں کا دعویٰ ہوتا ہے، لیکن وہاں بھی کم درجے کی اشیاء مہنگے داموں بیچی جاتی ہیں، اور عوام قطاروں میں دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔

جو ملک رمضان میں بھی عوام کو ریلیف نہ دے سکے، کیا وہ ریاست ماں جیسی کہلانے کے لائق ہے؟

اپوزیشن سیاست کو ذاتی مفادات کا ذریعہ بنا چکی ہے۔

جو آج جیل میں ہیں، کل اقتدار میں ہوں گے، اور جو آج حکمران ہیں، کل وہی واویلا مچائیں گے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی۔

انتخابات ہمیشہ "تاریخ کے شفاف ترین" ہونے کے دعوے کے ساتھ آتے ہیں، مگر نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے—الزامات، دھاندلی کے شور، اور عوامی رائے کے استحصال کا تسلسل۔

اسٹیبلشمنٹ وہ کردار ہے جس پر سب بات بھی کرتے ہیں اور ڈرتے بھی ہیں۔

فیصلہ ساز کون ہے یہ سوال اب معمہ نہیں رہا۔

ہر سیاسی بساط وہی بچھاتے ہیں، مہرے وہی چلاتے ہیں، اور جب ضرورت پڑے، پوری بساط لپیٹ کر ایک نیا کھیل شروع کر دیتے ہیں۔

جو بھی ان کے اصولوں کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے، اسے یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے یا نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

عوام کب تک تماشائی بنے رہیں گے؟

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کب تک اس کھیل کا حصہ بنے رہیں گے؟

کیا وہ ہمیشہ بے بسی کے ساتھ حالات کو برداشت کرتے رہیں گے؟

اگر عوام نے اب بھی اپنی آواز بلند نہ کی، تو تاریخ گواہ ہے کہ ان کے مستقبل کے فیصلے ہمیشہ کے لیے بند کمروں میں ہوتے رہیں گے اور وہ صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔



0/Post a Comment/Comments