قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ملک کی موجودہ صورتحال پر صحافیوں سے گفتگو
16 مارچ 2025
قبائل ہیں کہ کوئی ایجنسی ایسی نہیں رہی ہے کہ جس کی جرگے میرے پاس نہیں ائے ہو اس پورے سال میں، جرگے ہوتے ہیں، ہم قراردادیں پاس کرتے ہیں، ملک کے لیے کچھ مانگتے ہیں، مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہو رہا ہو، بس یہی ہے کہ ہم جائیں، اٹھے اور پرائم منسٹر صاحب کے دفتر میں جا کر ان سے گزارش کریں کہ صاحب یہ ہمارا رونا دھونا سن لیں، ان کا کوئی فرض نہیں ہے۔ ہم اگر جلسے کر رہے ہیں، سیمینار کر رہے ہیں، بڑے بڑے جلسے ،گرینڈ جرگے کر رہے ہیں ان کو خبر نہیں پہنچ رہی، ان کے پاس کوئی ایسے انفارمیشن نہیں ہے کہ لوگ کیا چاہ رہے ہیں، کیا رونا رو رہے ہیں۔ وزیراعظم مجھے اس بات کے لیے تو فون کر سکتا ہے کہ میرے پاس ایک افطار کیجئے مولانا صاحب، لیکن وہ اس کے لیے مجھے فون نہیں کر سکتا کہ پشاور میں جو جرگہ ہوا تھا قبائل نے کیا کہا اسے، جو آپ کے پاس گھر میں جرگے ائے ہیں انہوں نے کیا کہا آپ سے، جو ملازمین آپ کے پاس ا رہے ہیں اور رو رہے ہیں بےروزگاری کی وجہ سے اس کے بارے میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ کبھی ملک کے لیے بھی رابطہ کریں نا، کبھی عوام کے لیے بھی رابطہ کریں، کبھی مزدوروں کے لیے بھی رابطہ کریں، کبھی ملازمین کے لیے بھی رابطہ کریں جو دربدر ہیں اور وہاں پر آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اپنے گھروں میں غیر محفوظ ہیں، مسجد میں غیر محفوظ ہیں، گلی کوچوں میں غیر محفوظ ہیں، اپنے حجرے میں غیر محفوظ ہیں۔ ان کا بھی ذرا کوئی سوچیں نا یہ لوگ۔
صحافی: وہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے معشیت بہتر کر دی ہے اور مہنگائی نیچے آئی ہے۔
مولانا صاحب: تو پھر کیوں نوکریوں سے ملازمین کو نکال رہے ہیں، جب معیشت بہتر کر دی ہے تو ان کی بھرتی کا نظام ہونا چاہیے نا، پھر ان کی بھی تو کوئی متبادل نظام بنائیں نا، کہیں تو ایڈجسٹ کرے ان لوگوں کو، کوئی نظام تو ہونا چاہیے، اٹھا کر پھینک دیا، اب اچھا بھلا روزگار ایک آدمی کے پیچھے چھ سات آدمی جو ہے کھا رہے ہیں، گزارا ہو رہا ہے گھر کا تھوڑا بڑا، چولہا جل رہا ہے وہ بھی بجھا دیا لوگوں کا، تو ان دعووں کے ساتھ حکومتیں نہیں چلتی۔
صحافی: دہشت گردی بھی ہو رہی ہے، معشیت عام آدمی کی خراب ہورہی ہے۔
مولانا صاحب: یہی چیزیں ہمیں پریشان کر رہی ہے۔ اب اس وقت تو رمضان شریف ہے لوگ بھی ہمارے جو ہے وہ روزوں، تراویح، اعتکاف بھی آجائے گا چند دن کے بعد، تو ظاہر ہے کہ رمضان کے اپنی مصروفیات مشغولیتیں ہوتی ہیں۔ اکثر لوگ ہمارے عمروں پہ چلے گئے ہیں۔ مدارس کے اگلے سال کا بھی انہوں نے انتظام کرنا ہوتا ہے تو کوئی اس کے لیے بھی نکلے ہوئے ہیں ادھر اُدھر، تو یہ ساری چیزیں ہیں اور یہ سیاست کر رہے ہیں ہر بات پہ سیاست کر رہے ہیں۔
مدارس کی قانون سازی ہو گئی اس کے بعد اب صوبوں میں قانون سازی نہیں کر رہے، تو لوگ خاموش نہیں رہیں گے، جب نکلیں گے ہم، پبلک آئی گی روڈوں کے اوپر، پھر کہیں گے مولانا صاحب ملک کا خیال رکھیں جی، ملک کا خیال رکھیں، ادھر ہنگامے ہیں ادھر قتل و غارت گری ہے، آپ ان حالات میں، تو پھر ایک جائز بات ہے طے شدہ بات ہے کمٹمنٹ ہے آپس کی، پھر کیوں عمل نہیں کر رہے ہے اس کے اوپر، تو پھر ہمارے پاس رونے کے علاوہ اور کیا راستہ ہوگا۔ پھر تو ٹینشن ائے گی، پھر کہیں گے فلاں فائدہ اٹھا لے گا، تو فلاں جو بھی فائدہ اٹھائے۔ آپ ہمارے فائدے کے لیے قدم اٹھائیں نا پھر، تو معاملات شدت کی طرف سیاست میں جائیں گے اور اب ہم تو سیاسی لوگ ہیں، پارلیمنٹ کے لوگ ہیں، 1988 سے اس ایوان میں کھڑے ہو کر ملک سے وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں اور بار بار حلف اٹھائے ہیں تو اس کے پابند ہیں۔ تو ہم تو پگڈنڈی پر سفر کر رہے ہیں کبھی ادھر اُدھر گرنے کا خطرہ ہوتا ہے، ادھر سے خطرہ اُدھر سے خطرہ، ایک طرف سے ہم محفوظ نہیں ہیں نہ فوج کے ہاتھوں قوم محفوظ ہے اور نہ مسلح تنظیموں کے ہاتھوں قوم محفوظ ہیں۔ لیکن کبھی بھی انہوں نے ایک اجتماعی سوچ کے انداز سے نہیں سوچا، بس بڑے بڑے محلات کے اندر چند لوگ ٹانگ پہ ٹانگ لا کے بیٹھ جاتے ہیں اور پوری دنیا پر عقل چلا رہے ہوتے ہیں۔ قوت جو ہے عقل نہیں ہے، دولت عقل نہیں ہے، صرف ایک فوجی اپروچ کافی نہیں ہے جب تک کہ اس پہ آپ سیاسی دماغ جو ہے اس کو نہیں بٹھائیں گے، جب تک آپ اقتصادی لوگوں کو نہیں بٹھائیں گے، ملک کے بہتری کے لیے جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ ڈمی سیاستدان، یہ کہنا کہ یہ سیاستدان جو ہیں یہ تو کٹھ پتلی ہے، کٹھ پتلی سیاست دان تو غلام ہوتا ہے، اس کا تو ضمیر آزاد نہیں ہے، اس کا تو دماغ آزاد نہیں ہے، اس کا تو دل آزاد نہیں ہے، وہ تو آزادی سے بات ہی نہیں کر سکتا۔ بات کرنے سے پہلے وردی کو دیکھتا ہے کہ اس کے تیور کیا بتلا رہے ہیں میں نے کیسی بات کرنی ہے، یہ ہمارے سیاستدان ہے جی، تو بے باکی کے ساتھ، نیک نیتی کے ساتھ ملک کے مفاد کو سامنے رکھ کر بات ہونی چاہیے اور یہ اقدامات کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے نا قابل برداشت ہیں یہ ان کو واپس لینے پڑیں، پھر ہم ملازمین کے تحفظ کے لیے نکلیں گے۔
صحافی: اچھا مولانا صاحب میری سوچ یا سیاسی بصیرت شائد اس طرح کی نہ ہو لیکن میری رائے یہ ہے کہ آپ، اختر مینگل، محمود اچکزئی، نواز شریف بھی خود، عمران خان یہ وہ پیڑی ہے کہ جو سیاست کی سیکنڈ لاسٹ یا لاسٹ اننگز کھیل رہے ہیں۔ جس میں آپ نے اگلی نسل کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑ کے جانا ہے۔ اس گیم کے رولز سیٹ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس گیم کے رولز سیٹ کر دے تاکہ آپ کے آگے فیملی ممبرز آتے ہیں یا کوئی بھی آپ کی پارٹی کا چلتا ہے، دوسری طرف سے نواز شریف کے فیملی ممبرز یا ان کی پارٹی میں سے کوئی آتا ہے۔
مولانا صاحب: میرا تو یہ خیال ہے جی کہ باقی سارے ایک طرف، ہر ایک کی اپنی ذمہ داری ہے۔ عمران خان کی بھی بڑا ایک فالو اف ہے ملک کے اندر، وہ بھی ایک پارٹی ہے، محمود خان بھی ہے چاہے پارٹی کی طاقت کمزور ہے لیکن بہرحال ایک فگر ہے، مینگل صاحب ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، عبدالمالک صاحب ہیں، اسفند یار ولی خان، شیر پاؤ خان ہیں۔ یہ سب سیاسی جماعتیں ہیں، یہ سیاسی لحاظ سے سوچتے ہیں اور ان شخصیات کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ لیکن اس میں جو سب سے بڑا رول اس وقت بن سکتا ہے وہ خود میاں نواز شریف صاحب کا ذاتی بن سکتا ہے۔ کہ وہ خود اٹھے اور اس ساری صورتحال کا نوٹس لیں۔
صحافی: جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوتا ہے اور اس وقت پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان ہم سے دور ہو نہیں رہا بلکہ دور ہو چکا ہے اس وقت ان کو تھوڑا سا ہوش آتا ہے سوچتے ہیں کہ کسی کے ساتھ رابطہ کیا جائے۔
مولانا صاحب: یہ ساری باتیں جب میں نے پارلیمنٹ میں کی، دیکھیے جب میں پارلیمنٹ میں بات کرتا ہوں میں حکومت کا حصہ نہیں ہوں میں نے بات کر لی ہے پارلیمنٹ میں، میں نے ایک مسئلے کی نشاندہی کی، بے باکی کے ساتھ کی، پورے اپنی تحقیق کے ساتھ کی اور حالات کو زمینی حقائق کو بالکل سمجھ کر کی ان کو نوٹس لینا چاہیے تھا نا کہ مولانا فضل الرحمن یہ بات کیوں کی۔ انہوں نے تو لوگ تلاش کیں جس طرح ٹی وی پہ ائے اور مجھے رد کیا، یہ کیا کہہ دیا یہ کیا کہہ دیا۔ اس سے معاملات حل ہوتے ہیں، اب جو میں نے کہا تھا واقعات اس کی تائید کر رہے ہیں یا تمہارے تردیدوں کی تائید کر رہے ہیں۔ حضرت میں جانتا ہوں میں جب بات کرتا ہوں، میں جن لوگوں سے باتیں لیتا ہوں، جن لوگوں سے میں سنتا ہوں، یہ ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں۔ اور پھر وہی لوگ تردید کے لیے ٹی وی پہ اتے ہیں، وہی لوگ، یہ بھی ذرا تھوڑا سمجھنے کی کوشش کریں جو خود روتے ہیں میرے سامنے کہ مولانا یہ صورتحال ہے ہماری، ہم کیا کریں۔ پھر جب یہ سارے حقائق انہی کی طرف سے مجھے معلوم ہوتی ہیں اور پھر میں اس کو پبلک میں لاتا ہوں، وہ نہیں لا سکتے بیچارے، وہ فورم پر بھی بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے، پھر انہی لوگوں کو ٹی وی پہ لا کر کہا جاتا ہے کہ مولانا صاحب کی تردید کرو۔ ایک کو میں نے کہا کہ اگر میں یہ بیان دے دو کہ یہ آپ نے مجھے کہیں ہیں تو پھر کیا کرو گے۔
صحافی: مولانا صاحب اندرونی و بیرونی جو صورتحال ہے، ہمسائیوں کے ساتھ جو صورتحال ہے، ہماری جو خارجہ پالیسی ہے اس کا جو آؤٹ کم ہے ذمہ داری تو آپ نے بتا دی کہ زیادہ کس کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا قبلہ درست کرنے کے لیے کہ ذمہ داری کس پہ عائد ہوتی ہے وہ جو پولیٹیکل فورسز ہیں، پاور ہیں ان کی کیا حکمت عملی ہے اور کیا ہوسکتا ہے۔
مولانا صاحب: دیکھیے ایک ہے میری سیاسی یا پھر ایک اصولی سوچ، ایک ہے جو زمینی حقائق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس وقت وہ لیڈ کر رہے ہیں۔ تو بد قسمتی ہے پاکستان کے بہت بڑی بدقسمتی ہے اور وہ بڑے گھمنڈ میں ہیں کہ جی ہمارے بغیر کیسے پھر ملک چلے گا، ہم سیاست دانوں کے حوالے کیسے کریں، خدا کے لیے تم اپنے گھر بیٹھ جاؤ سیاستدان بہتر ملک کو چلانا جانتے ہیں۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سب بیٹھے ہیں بات کریں، سنیں ذرا صورتحال کو اور ہم جو تجزیہ پیش کر رہے ہیں ان کو سنجیدگی سے لیں یہ کیا مطلب کہ روزانہ جو ہے وہ بیٹھ جاتے ہیں کبھی علماء کو بٹھا لیتے ہیں، کبھی سٹوڈنٹس کو بٹھا لیتے ہیں، کبھی جوانوں کو بٹھا لیتے ہیں، کبھی سیاست دانوں کو بٹھا لیتے ہیں اور پھر بادشاہ وقت کی طرح جو ہے وہ بیٹھ کر پھر اپنے فلسفے سے ان کے سامنے جھاڑتے رہتے ہیں اور ہم یہ ہے اور ہم وہ ہیں۔ وہ ہم مانتے ہیں وہ ہمیں نہ سنایا کرو۔ لیکن بیٹھیں، لوگوں کو بلائیں، لوگوں سے کہیں کہ بھئی آپ ہمیں راستہ بتائیں۔ ملک ہم سب کا ہے، میں اس پاکستان کو فوج کا ملکیت نہیں سمجھتا، یہ میرا ملک ہے اس کی ذمہ داری میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہوں۔ مجھے فکر مندی ہے، میرے دادا اس سرزمین پہ رہے ہیں، میرے والد اس سرزمین پر رہے ہیں، میں اس سرزمین پہ ہوں، میری اولاد اس سرزمین پر ہے، میرج خاندان اس سرزمین پر ہیں، میرے پوتے اس سرزمین پر ہیں۔ اس کو آگ لگانا یہ ہماری سوچ ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ہے کہ اب حالات کنٹرول سے باہر چلے جا رہے ہیں جی، اب یہ بھی ابھی فی الحال میں یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتا کہ کیا پاکستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، کس لیول پہ ہو چکا ہے۔ امریکہ کے لیول پہ ہوچکا ہے، یورپ کے لیول پہ ہو چکا ہے، پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کے لیول پہ، کس لیول پہ ہو چکا ہے۔ ہم تو بنگال کے لیے بھی لڑ رہے تھے، آخر دم تک لڑنے کی بات کر رہے تھے اور سرنڈر کر دیا۔ اتنا بڑا افغا نستان جس میں روس سرنڈر کر گیا، جس پہ امریکہ سرنڈر کر دیا، ہم پاکستان کو ادھر کھیلنا چاہتے ہیں۔
تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جی کہ ہماری بات کو سننا پڑے گا اور یہ نہیں کہ ہم خاموش رہیں گے جی، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے آدمی گھر میں بھی تو مرتا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب ایک دو سوال ہے ایک تو جو آپ کے پرانے دوست ہیں آپ بھی ذکر کرتے تھے وہ بھی کرتے تھے۔ زرداری صاحب وہ کیا کہتے ہیں کوئی رابطہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس وقت جو ہمارا بیانہ ہے چاہے دفتر خارجہ چاہے اسٹیبلشمنٹ چاہے سیاستدان، یہ جو پاکستان میں خصوصاً خیبرپختونخوا میں اس وقت ہو رہا ہے تو ایک ہی رٹ انہوں نے لگائی ہے کہ اوپنلی افغانستان سے لوگ آرہے ہیں اور پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ کا جو وزٹ تھا تو اس طرح کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں۔ جو وزٹ تھا آپ نے ان کو کیا بتایا، آپ نے یہاں آکر ان کو کیا بتایا، مطلب وہ نتائج سامنے کیوں نہیں آئے؟
مولانا صاحب: تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جو ایجنڈا میں لے کر گیا تھا وہ سٹیٹ کو اعتماد میں لے کر گیا تھا۔ اور تمام پوائنٹس ان کے سامنے میرے سامنے واضح تھے۔ اور اسٹیٹ کی طرف سے گورنمنٹ کی طرف سے وزارت خارجہ میں ہمیں بریفنگ بھی دی گئی کہاں کہاں پر معاملہ الجھا ہوا ہے۔ اور وہی ایجنڈا لے کر جب میں گیا اور اپنی کپیسٹی میں گیا، میں کوئی سرکار کی طرف سے نمائندہ نہیں تھا لیکن جب میں جانا چاہتا تھا تو میں نے کہا ملک کے لیے کوئی فائدہ اٹھاؤں وہاں سے، اور کچھ چیزیں تھی جو میرے نوٹس میں بھی تھی کہ بھئی ان ان چیزوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ ایک ہفتہ کی وہاں میری مصروفیت کے نتیجے میں، میں بھی تھا میرے ساتھ اور علماء کرام تھے ایک اچھا خاصا مقتدر علماء کا وفد تھا اس میں، وہ اس بات میں کامیاب ہو گئے کہ جو ایجنڈا ہم لے کر گئے تھے پوائنٹ ٹو پوائنٹ اس پر ہم نے اچیومنٹ کی اور بہت کچھ وہاں سے حاصل کر لیا۔
پھر یہاں پر ائے پھر یہاں بڑا عالی رتبہ اجلاس جو ہوا اور جس پہ میں نے تمام بڑوں کے سامنے اس ساری صورتحال کی ایک ایک پوائنٹ واضح کیا۔ پھر اس کے بعد میں نے ان کے سوالات سنے، ان کے سوالات کے پھر میں نے جوابات دیے، پھر اس کے بعد مجھے ایپریشییٹ کیا، پھر مجھ سے یہ بھی تقاضا کیا کہ یہ تو بڑی اچھی باتیں ہو گئی ہیں اب اس کے لیے میکنزم کیا ہونا چاہیے۔ تو میں نے ان سے کہا میکنزم تو سٹیٹ ٹو سٹیٹ معاملہ ہے، یہ تو آپ لوگوں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر طے کرنا ہے اگر کوئی مشکل اتی ہے تو وہاں بھی تعاون کرنے کو تیار ہے۔ اب چاہیے کیا تھا، میرا ہزار اختلاف ہو جائے جائے یا الیکشن کے مسئلے پر میرا اختلاف ہو گیا دوسرے سیاسی معاملات ہو گئے ہیں، میں اپوزیشن میں بیٹھ گیا جو بھی میرا فیصلہ تھا۔ حکومت کا تو فرض تھا نا کہ وہ جو ہم نے باتیں طے کی تھی اس کو ٹھیک فالو کریں، اور ان سے کہیں کہ بھئی یہ جو معاملات طے ہوئے تھے وہ تو اپنی جگہ پر ہیں آپ کی بھی کمٹمنٹ ہے ہماری بھی کمٹمنٹ ہے۔ اب حالات اس وقت یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جب ہم بات کریں گے ان سے، انہوں نے یہ زیادتی کی، انہوں نے یہ غلطی کی، یہ خلاف ورزی کی، انہوں نے یہ غلط کیا۔ وہاں بات کریں گے، انہوں نے کہا آپ کے لوگوں نے یہ غلط کیا، آپ نے یہ، اب اس میں ہم پھنس جائیں گے۔ کیا ذمہ دار ریاستیں اس طرح کے ایٹیٹیوڈ کے ساتھ معاملات طے کرتی ہیں۔ اب کتنے دنوں سے ہمارے سرحد بند ہے، ہزاروں گاڑیاں رکی ہوئی ہیں، ترکاریاں ہیں، سبزیاں ہیں، پھل ہیں سڑ رہے ہیں، تباہ و برباد ہو گئے اور یہ بس بیٹھے ہیں ہم طاقتور ہیں اور ہماری ایسی تیسی کر دیں گے۔ یہ کوئی طریقہ ہے، سٹیٹ اس طرح سوچتے ہیں، جیسے حالت جنگ ہو، حالت جنگ تو نہیں ہے، نہ کوئی جنگ ڈیکلیئر ہوئی ہے۔ پاکستان نے تو افغا نستان کو آج تک دشمن تک کا بھی لفظ استعمال نہیں کیا، برادر اسلامی ملک کا لفظ ہم استعمال کرتے ہیں اور تمام ٹرمنالجیز میں جی، دشمن اگر کبھی ہم نے کہا ہوا ہے تو ہم نے انڈیا کو کہا ہے۔ اب انڈیا کے ساتھ جنگ، نہیں نہیں جنگ مسئلے کا حل نہیں، وہاں بھی میں گیا تھا 2003 میں، پورا ایک اتفاق رائے وہاں سے لے کر ایا تھا کہ جنگ نہیں بات چیت، شملہ معاہدے کے تحت جامع مذاکرات جامع مذاکرات، جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے جی، ایران ایا اس نے ہمارے علاقے میں حملہ کیا ہم نے جواباً حملہ کیا اگلے روز، ٹھیک ہے برابر ہو گیا معاملہ، تیسری دن دونوں بیٹھیں اس کے وفود انے لگے یہاں پر ہمارے والے ان کے پاس گئے۔ اس رویے کی ضرورت افغا نستان کے ساتھ نہیں ہے کیا، ٹھیک ہے وہاں ایک عارضی حکومت ہے لیکن دنیا معاملات تو کرتی ہیں اس وقت شام میں بھی تو ایک عارضی ہے لیکن پوری دنیا کے ڈپلومیٹ جا رہے ہیں ان سے مل رہے ہیں ان کو دعوت دے رہے ہیں ان سے بات چیت چل رہی ہے حکومت جو ہے وہ یا عارضی یا مستقل لیکن ملک تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے نا، تو لوگ ملکوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ مجھے عراق کی حکومت سے اتفاق ہے یا نہیں لیکن صدام نہیں، عراق تو ہے۔ مجھے لیبیا کی حکومت سے اتفاق نہیں ہوگا لیکن قذافی نہیں ہے نا، لیبیا تو ہے، ملک تو ہے۔ اب افغانستان جو ہے وہاں پر بھی اگرچہ عارضی حکومت ہے لیکن وہاں پر بھی ہم نے دنیا معاملات کر رہی ہے چائنہ ان کے ساتھ معاملات کر رہا ہے روس معاملات کر رہا ہے، پڑوسی ممالک معاملات کر رہے ہیں، عرب ممالک معاملات کر رہے ہیں، انویسٹمنٹ کر رہے ہیں، کاروبار اور تجارت ہو رہی ہے۔ اور ہم نے پاکستان میں افغا نستان کا سفارت خانہ ان کے حوالے کیا ہوا ہے۔ افغا نستان کے قونصل خانے ہم نے ان کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔ تو اس کا معنی یہ ہے جیسے کہ ہم نے تسلیم کیا ہے جیسے کہ ہم نے ان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا ہے وجہ یہ ہے کہ افغا نستان کے ساتھ ڈیل کرنا جو ہے اس کے لیے کھڑکی تلاش کرنی ہوگی، راستوں کو بنانا ہوگا، پل تو بنانا ہوگا۔
تو یہ ساری چیزیں کرنے کے باوجود ہم معاملات کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ اب ملک کے اندر جو ہے یہ دنیا اگئی ہے اور اس کو کوئی نہ کنٹرول کر سکتا ہے اور نہ ان کے لیے وہ وسیلے استعمال کیے جا رہے ہیں جن وسیلوں کے ذریعے سے ان کو کنٹرول کیا جا سکے۔ حالانکہ وسیلے موجود ہیں ہو سکتا ہے، اگر کوشش کی جائے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
صحافی: چند دن پہلے پاکستان نے ایک دہش ت گرد امریکہ کے حوالے کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے طرف سے بڑی اپریسیش بھی آئی۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ پورے پاکستان بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہش ت گردی کی ایک نئی لہر آگئی ہے، سب سے زیادہ آپ کی جماعت کو ٹارگٹ کیا گیا اور فوجیوں کو بھی کیا جا رہا ہے۔ تو یہ معاملہ کس طرف جا رہا ہے کیا ہم دوبارہ امریکہ کو افغا نستان میں انگیج کر رہے ہیں یا پاکستان کے ذریعے معاملات آگے بڑھیں گے؟
مولانا صاحب: دیکھیے مجھے اس کی تفصیل اور پس منظر نہیں معلوم، شریف اللہ کون ہے، کیا اس کا جرم ہے، کیوں اس کو پکڑا گیا، لیکن امریکہ کے حوالے کرنا اس کے ہم ہمیشہ انتظار میں رہتے ہیں اور ایک تاثر تھا کہ شاید ٹرمپ صاحب جو ہے وہ اپوزیشن کو سپورٹ کرے گورنمنٹ کو سپورٹ نہ کرے۔ اپوزیشن اس کی تائید کی امید بھی تھی حکومت اس سے خوف کھا رہی تھی۔ اب جب ان کو ایک تحفہ دیا اور اس پر انہوں نے اپریسیشن کی اور خوشیاں اور عید منائی گئی یہاں پہ تو یہ وہ کھیل ہے جو کھیلا گیا، جس سے کہ شاید اپوزیشن کو ذرا مایوسی ہوئی ہوگی اور یہ لوگ جو ہے وہ اب وہ بانہیں جو ہیں پھولے ہوئے ہیں کہ بھئی ہم نے کمال کر دیا اور تحفہ دے دیا، انہوں نے ہمارا شکریہ بھی ادا کر لیا۔ اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ہماری خودمختاری اور خود داری کے اوپر کوئی حرف ایا، وہ تو آپ کو جناب یہ پچیس سال سے یا تیس سال سے عافیہ صدیقی حوالے نہیں کر رہی نہ آپ جرآت کر سکتے ہیں کہ ان سے اسی طرح مطالبہ کیا جس طرح سے مانگنا چاہیے، اور خود جو ہے کوئی آپ کو ایک بکرا مل جائے تو سیدھا بکرا ذبح کرنے کے لیے پیش کر دیا وہاں جاکر، تو اس طرح ہم ایسے بکروں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جس سے ہم فوراً جو ہے امریکہ کے حوالے کریں اور ان پر احسان ڈالے کہ ہم نے آپ کے مجرم کو پکڑ کر آپ کے حوالے کر دیا۔
تو یہ بڑی ایسی سیاست ہے کہ کل نہ آپ محترم ہیں نہ میں محترم ہوں بس حکمران کی حکمرانی وہ محترم ہے چاہے ناجائز حکمرانی یو اس کو بچانے کے لیے مجھے اور آپ کو بکرا بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ باقی مجھے یہ نہیں معلوم ہے کہ اس کا جرم کیا تھا، اس کی کیا نوعیت تھی، عدالتوں سے وہ گزرا ہے نہیں گزرا ہے۔ واقعی اس کا اس درجے کا جرم ہے کہ ہم مجبور ہیں کہ حوالے کر دیں یہ تفصیل شائد نہ آپ کو معلوم ہے نہ مجھے معلوم ہے۔
صحافی: جے یو آئی کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، آپ کو بھی ڈرایا جا رہا ہے؟
مولانا صاحب: یہ ظاہر ہے جی یہی سوچ ہو سکتی ہے کیونکہ دیکھیے ہم الیکشن لڑتے ہیں۔ یہ تو خیر چلو ابھی ہم تحریک کی بات کریں گے یا پبلک کو لانے کی بات کریں گے یہ اپنی جگہ پر، لیکن بہرحال الیکشن تو ہم لڑتے ہیں ہمارا عوام سے رابطہ توڑنا صبح شام آج آپ پہ حملہ ہو رہا ہے، آج آپ پہ حملہ ہو رہا ہے، یہ تھریٹ لیٹر ہے ہے، یہ ہماری اطلاعات ہے، خدا کے لیے اپ نے کمپین پہ نہیں نکلنا، آپ نے جلسہ نہیں کرنا، یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا، یہ چیزیں ہمارے مشاہدے میں الیکشن کے دوران تو ہیں پھر یہ اگر ہتھیار ہیں اور اگر ہم کہیں جاتے ہیں تو پہلے طالبان اتے ہیں وہ وہاں فائرنگ کرتے ہیں لاوڈ اسپیکر پر اعلان کرتے ہیں، پھر اگلے دن فوج اتی ہے پھر وہ فائرنگ کرتے ہیں اور عوام میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ الیکشن میں ووٹ نہ ڈال سکے اور ہم وہاں پر پبلک سے بات بھی نہ کر سکے۔
تو یہ ایک ہتھیار کے طور پر ہم پر احسان لاتے ہیں کہ حضرت ہم آپ کو نہ بتائیں یہ تو ہمارے ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم تو آپ کی جان بچانے کے لیے سارا کچھ کر رہے ہیں، دونوں پہلوؤں کے نا جی، میں نہیں ہوں مطمئن آپ سے، ابھی جب لیٹر مل رہے ہیں آپ اس کی ترکیب ٹھیک کر لیں حکومتی مداخلت سیاسی مداخلت یہ ان کا کیس ہے یا کسی اور کا کیس ہے۔ یہ کس کا کیس ہو سکتا ہے۔ اب ذرا وہ خوف ہمارے دماغوں پر مسلط کر دیتے ہیں اور دیکھیے ہمارا ملک ہے یہ، میں اس ملک کے اداروں کی اس کی انٹیلیجنس اداروں کی کچھ صلاحیتیوں کا قائل ہوں۔ دشمن کے اندر بھی انگیجمنٹ کا نظام ان کے پاس موجود رہتا ہے۔ اور ایک کامیاب منیجمنٹ ہے کہ دشمن کے اندر بھی آپ کے انگیجمنٹ کا نظام موجود ہو، تو اس نظام کا فائدہ جو ہے وہ نام کسی اور کا ہوگا فیصلہ یہ کریں گے۔
صحافی: مولانا صاحب ابھی آپ نے نواز شریف کا ذکر کیا کہ وہ اس صورتحال میں آگے آئے۔ آصف زرداری کے ساتھ بھی آپ کے اچھے تعلق ہے، شہباز شریف صاحب پرائم منسٹر ہیں اس طرح اور بھی آپ کے رفقاء ہیں، کیا آپ پاکستان کے خاطر انڈیوجولی کیا آپ ان سے ملیں گے۔ اور دوسری بات میں ملانا چاہتا ہوں کہ آپ کی باتوں اور سب کی باتوں میں مایوسی نظر آرہی ہے، امید کہاں ہے ؟
مولانا صاحب: مایوسی کا لفظ نہ استعمال کرے، ناراضگی نظر ا رہی ہیں۔ یہ تعلق جو آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آپ کا فلاں سے ٹھیک ہے جی اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس تعلق کا احترام میں نے کرنا ہے انہوں نے نہیں کرنا، وہ ہر لمحے اس بات کی کوشش کریں کہ خواہش کریں گے کہ ان کا سیاسی پلڑا ہمارے سائڈ پہ اسکے۔ یہ اختلاف بھی کرے لیکن ان کے سیاسی موقف کا فایدہ ہم اٹھائے، اس طرح تو نہیں ہوتا جی، ہم بڑے تحمل کے ساتھ بھی چلتے ہیں، اعتدال کے ساتھ چلتے ہیں، ہم مشکلات کو بھی جانتے ہیں کہ کہاں مشکلات ہیں اس میں ہم کوئی سخت قدم اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کرتے لیکن اگر مجبوراً کرنا پڑا تو پھر ہمیں سخت موقف اختیار کرنا اور بڑا طاقتور قسم کا رد عمل دینا الحمدللہ اللہ کے فضل و کرم سے پوری صلاحیت ہمارے اندر موجود ہیں۔ پھر کوئی لحاظ نہیں رکھا جائے گا جی، ہم اس حکومت کو عوام کا نمائندہ نہیں کہتے نہ صوبوں میں نہ وفاق میں
صحافی: مولانا صاحب ابھی آپ نے ایک بات کی کیا تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ، خدا نخواستہ اگر ایسی صورتحال آتی ہے بعد میں تو صرف پچھتاوا جیسے بنگال کا واقعہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ کیا وقت نہیں آیا کہ اس حکومت سے اور اس نظام چلانے والوں سے چھٹکارا کے لیے کوئی مارچ ہو، تمام سیاسی قوتوں کو اکھٹا کیا جائے عوام کو بھی امید نظر آئے گی، بلوچستان اور خیبرپختونخوا والے بھی کہیں گے کہ ہم الگ نہیں کیا جا رہا۔
مولانا صاحب: یہ ساری چیزیں ہم جاتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہماری توجہ نہیں ہے لیکن ملکی سیاست میں ایک ایسی تقسیم موجود ہے یا ماضی کی تقسیم کہ جو دھیرے دھیرے وہ اپنا وقت لے رہی ہیں قریب آنے کے لیے، یا آج کی نئی تقسیم جو انے والے مستقبل کے لیے کیا شکل پیدا کرے گی لیکن ملک کے اندر ایک سیاسی تقسیم بہرحال موجود ہے۔ اس کو ایک لمحے کے اندر تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم نے گراس روٹ پہ بھی جا کر اس کو امپلیمنٹ کرنا ہوتا ہے اور اگر کارکن کے لیول پر جا کر وہاں پر مطابقت مشکل ہو اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے میں دقت محسوس کریں تو یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں کہ پھر ہمیں کچھ سارے پہلوؤں کو دیکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے ورنہ ان شاءاللہ جمعیت علماء تنہا بھی کافی ہے اس کے لیے، کوئی ایسا مسئلہ نہیں، ان شاءاللہ
صحافی: مولانا صاحب آف دی ریکارڈ جس طرح کے اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ملتے ہیں، جس طرح آپ کہتے ہیں کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے،وہ آپ پر ایک الزام لگا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست ہار چکے تھے، لیکن بلوچستان کے پشتون ریجن کی جو سیٹ تھی وہ بھی مولانا صاحب ہار چکے تھے یہ تو ہم نے اس کے اصرار پر اس کو جتوایا۔ تو اس الزام میں کتنی حقیقت ہے؟
مولانا صاحب: لعنت ہو ایسی بات کرنے والے پر جی، جس نے میرے بارے میں اس قسم کے سوچ ظاہر کی ہو۔ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پہلے نہیں ہارا ہوں کبھی، میں نوے میں نہیں ہارا ہوں، میں تریانوے میں نہیں ہارا ہوں، تو کیا میں نے اپنی مد مقابل کے بارے میں کوئی ایسا موقف لیا ہے۔ کیا 1997 میں جو ٹو تھرڈ مجارٹی ائی تھی، رائے تو تھی، لیکن ایسی صورتحال نہیں پیدا ہوئی۔ حضرت ان لوگوں نے بالکل یہ کہنا کہ فلاں ہار گیا ہے تو اس لیے وہ چیخ رہا ہے بابا یہ چیزیں نہیں چلیں گی جی، نہ ان چیزوں سے تم فضا بنا سکو گے۔ بخدا ہم اوپر بیٹھ کر کھڑے ہو کر تمہیں بتائیں گے کہ یہ تم چوری کر رہے ہو، یہ تم میری سیٹ چھین رہے ہو، تو میں بتاؤں گا کہ جمیعت علماء اسلام کی کتنی سیٹیں کس صوبے میں چھینی گئی، مجھے حساب چاہیے۔ اور وہ انکار نہیں کر سکیں گے، میں اس حد تک ثبوت رکھتا ہوں جی، ہماری مرضی ہے ہم جس کی حکومت لائیں گے ہم جس کی حکومت بنائیں گے ہماری مرضی ہے ہم جو نتیجہ مرتب کریں گے۔ اور فضل الرحمان کے بارے میں یہ کہنا کہ تو شکست کھا چکے تھے، میں پہلے کیوں نہیں لڑ رہا ہوں، میں نویں میں ہارا ہوں میں نے کبھی ایسا شور مچایا، میں ستانوے میں بھی ہارا ہوں میں نے شور مچایا ہے، میں ڈیرہ اسماعیل خان سے ہارا، میں بنوں سے جیت گیا تو میں نے کبھی ڈی آئی خان پہ شور مچایا ہے۔ اس قسم کی چیزیں جو ہیں اس قسم کا شور مچانا یا اپنی چوری کو چھپانے کی کوشش نہ کریں جی، چوری نہیں کی ڈاکے ڈالے ہیں انہوں نے، ڈاکہ دن دہاڑے ڈالا جاتا ہے۔ اور ہم ان کے دن دہاڑے ڈاکوں کے شاھد ہیں۔ حلقہ مجھے معلوم ہے یا ان کی ایجنسیوں کو معلوم ہے، چوراہے پہ کھڑے ہو کر آپ گزر رہے ہیں میں گزر رہا ہوں تیسرا گزر رہا ہے کس کو ووٹ دینا ہے کس کی پوزیشن اچھی ہے پھر شام کو رپورٹ بنا دیتے ہیں جی، یہ پتہ تھا تو کینڈیڈیٹ کو ہوتا ہے جی، یہ پتہ تو میری پارٹی کو ہے کہ کس گاؤں میں کتنا ووٹ ہے، میرے حق میں کتنے لوگ ہیں، میرے مخالف کتنے ہیں، کون سی برادری میرے حق میں جا رہی ہے، کون سی میرے خلاف جا رہی ہے۔ ایک ایک گاؤں کی پوزیشن ہمیں معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں پہلے سے پتہ چل جاتا ہے اور پبلک جب کاغذات داخل ہو جاتے ہیں دس امیدوار ہوتے ہیں جب میدان میں نکلتے ہیں ایک ہفتے کے اندر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ مقابلہ دو آدمیوں کے بیچ میں فلاں فلاں کے بیچ میں، عوامی رائے جو ہے وہ ایک لمحے میں پتہ چل جاتا ہے۔ حضرت ہم بازار سے گزرتے ہیں، ہم دکان کے اندر دیکھتے ہیں، ہم چہرے سے بھانپ لیتے ہیں کہ یہ دکاندار جو ہے مجھے ووٹ نہیں دے رہا حالانکہ وہ بولتے بھی نہیں ہیں۔
تو جو رپورٹ ہمارے پاس ہوتی ہے اور حلقے کی جو حقیقت ہم پہ واضح ہوتی ہے اور طاقت کے توازن کو جس طرح ہم بہتر طور پر ادراک رکھتے ہیں ان کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا، لیکن چونکہ وہ ایجنسی ہے، یہ ایجنسی کی رپورٹ ہے، یہ ایجنسی کی رپورٹ ہے، ہماری رپورٹ یہ ہے، ہماری رپورٹ یہ ہے، تمہاری رپورٹ نہیں ہے تمہاری رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تم نے دھاندلی کا یہ پروگرام بنایا ہوا ہے۔ بس اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں، لہذا ان چیزوں میں ہمیں ایک لمحے کے لیے ہم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اور وقت گزارنے سے کچھ نہیں بنتا، دفع الوقتی جو ہے یہ کب تک چلے گی۔
صحافی: آپ کی دانش میں اس سارے صورتحال سے نکلنے کا حل کیا ہے؟
مولانا صاحب: حضرت حل تو یہی ہے کہ پہلے اس بات پر بیٹھے کہ ملکی سیاست کو ٹھیک کرنا ہے۔ اگر دھاندلی کی سیاست ہے تو کبھی اعتماد پیدا نہیں ہوگا۔ سب سے پہلی چیز داخلی اعتماد کو بحال کرنا ہے اگر سیاست دانوں نے میثاق جمہوریت پاس کیا وہ ایک اچھا اقدام تھا کہ ہم اختلاف بھی کریں گے لیکن ہم ایک دوسرے کے حکومتوں کو گرائیں گے نہیں، اور ان ان چیزوں پہ ہمارا اتفاق رائے ہوگا ہر وقت کے لیے ہوگا۔ ٹھیک ہے، اچھی بات ہے اور ہم ان چیزوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی کہ سیاستدان کون ہوتا ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کے لیے ایک خط طے کرتا ہے اور اس کے لیے نشان راہ طے کرتا ہے۔ حق کیا ہے اس کو، تو نئے نئے سوچ پیدا کرنا، نئے نئے اندازوں کے ساتھ دوبارہ سیاست میں شدت پیدا کرنا یہ ساری مینجمنٹ جو ہے یہ قابل قبول نہیں ہے جی، اس سے ملک خراب ہو جائے گا جی، مجھے بھی سوچنا چاہیے میرا کوئی حق نہیں ہے کہ میں کہوں کہ ملک میری مرضی کے مطابق چلیں۔ یہ ملک ہے اس میں سب لوگ ہیں اس میں ائین ہے، اس میں پارلیمنٹ ہے، اس میں کمیٹیاں ہیں، ہر پارٹی کی اس میں ان فٹ ہے۔ ہم بیٹھیں گے اس میں، بات چیت کریں گے اور بات چیت کر کے ہم مشکل کو دور کریں جی، اب یہ جو ہم مر رہے ہیں کوئی ہے پوچھنے والا، کہیں کسی طرف سے مجھے کوئی فون ایا ہے آج تک، کہ آپ کا فلاں، پارٹی کا فلاں جگہ شہید ہو گیا ہے، فلاں شہید ہوگیا یا فلاں شہید ہوگیا۔ اب ہم روزانہ لاشیں اٹھاتے رہیں گے جی، جنازے اٹھاتے رہیں گے جی، یہ جو ملتان میں پڑا ہوا ہے اس طرح تو نہیں مارا انہوں نے کہ اس کو قابل علاج تصور کیا جائے گا، زندگی اللہ بچاتا ہے تو بچا دیتا ہے۔ تو یہ بلوچستان میں ایک ہفتے کے اندر تین چار ساتھی ہمارے شہید ہوگئے۔ تراویح پڑھا، صف پہ کھڑا ہے مصلے پہ کھڑا ہے وہاں مار دیا۔ یہاں لکی مروت میں دو رکعت پڑھے تھے اور تیسری رکعت میں کھڑا تھا اس کو اٹھا کے کھینچا صف سے اور مسجد کے باہر گولی مار دی۔
صحافی: سیاست دانوں کو جو ہے وہ بیٹھ کر یہ ساری چیزیں حل کرنی چاہیے، آپ نے کہا کہ نواز شریف صاحب کو اس وقت سب سے بڑا کردار ادا کرنا چاہیے، باقی اپوزیشن کی جماعتیں حاضر بھی ہوتی ہیں وہ آپ سے اتحاد کے لیے کوششیں کرتے ہیں لیکن جو نواز شریف ہیں یا پیپلز پارٹی ہے وہ تو اس سارے نظام کی بینیفیشری ہے وہ کیوں اس رول آف دی گیم سیٹ کریں گے وہ تو جب اپوزیشن میں ہوں گے تب۔
مولانا صاحب: بالکل ٹھیک ہے پھر اس کے بعد نواز شریف اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائیں، وہ بینیفیشری ہے ملک جائے گا۔ اگر یہ بینیفیشری ہے کہ اس کا اقتدار بن گیا پنجاب میں اس کی حکومت بن گئی اگر یہ اس کو فائدہ کہتے ہیں تو پھر ملک کو جانے دو، اس کا معنی یہ ہے کہ ان کو کوئی پرواہ نہیں اس کی، پنجاب ٹھنڈا پڑا ہوا ہے میری سرزمین پہ آگ لگی ہوئی ہے ان کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ بیٹھی ہوئی ہے اتنی بڑی پارلیمنٹ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہنگامہ ہو رہا ہے کوئی بلوچستان کی بات نہیں کر رہا، کوئی کے پی کی بات نہیں کر رہا، کوئی واقعات کی بات نہیں کر رہا، تو اس کا معنی یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ نے دو صوبوں کو اپنے حال پہ چھوڑ دیا ہے نا، پارلیمنٹ کی اکثریت تو ان کے پاس ہے اور کوئی بحث نہیں کر رہا نہ حکومت کی سائیڈ سے بات ہو رہی ہے نہ اپوزیشن کی سائیڈ سے بات ہو رہی ہے۔
تو ملک کے ان حالات کو جس لیول پر نظر انداز کیا جا رہا ہے پارلیمنٹ کے لیول پر جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے اس پارلیمنٹ پہ تنقید ہو رہی ہے کہ ان حالات میں تم کن باتوں پہ بحث کر رہے ہو۔ ابھی ہم جائیں گے تقریر کریں گے، صاحب یہ تو پریزیڈنشل سپیچ جو ہے اس پہ بات کرنی ہے آپ اس سے باہر نہ جائیں، ہم نے ان کی فصاحت و بلاغت کا تجزیہ کرنا ہے کہ یہ جملہ بہت خوبصورت کہا ہے انہوں نے، یہ بات بڑی خوبصورت کہی ہے۔ یہ تو روایتی تقریریں ہیں ہم نے مسائل پہ بات نہیں کرنی، اب جو پارلیمنٹ خاموش ہے مکمل طور پر اور یہ سارے کام جو ہے وہ ہمارے چھ سات اراکین نے کرنے ہیں۔ یہ پورا ایوان اور اس کی ذمہ داری کس طرف ہے۔
تو اس طریقے سے ملک نہیں چلتے ہیں جس طرح یہ لوگ چلا رہے ہیں اور ہمارے اب حوصلے جواب دے رہے ہیں۔ مایوسی اور امید کی باتیں اب نہ کریں، سخت ناراضگی ہے اور ان ناراضگی کے ساتھ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔
صحافی: ابھی جو نئے سرے سے پی ٹی ائی کے ساتھ مذاکرات پارٹی لیول پر شروع ہے کیا اس میں کوئی میچورٹی ابھی آرہی ہے کچھ نظر آرہا ہے؟
مولانا صاحب: جی وہ ٹھیک ہے، میرے خیال میں وہ پراسس بھی صحیح جا رہا ہے، گفتگو تعلقات جس سختی کے ساتھ جو ہمارے تعلقات تھے جس میں ٹینشن بہت زیادہ تھی وہ کافی تحلیل ہوئی ہے اور ایک بہتر مستقبل کی طرف ہم جا رہے ہیں ان شاءاللہ
صحافی: تو جب حوصلہ جواب دیتا ہے تو بندہ ایکشن میں آتا ہے تو مولانا صاحب ایکشن کیا ہے؟
مولانا صاحب: رمضان گزرنے دے ان شاءاللہ، ایک دفعہ رمضان گزرنے دے، ہمیں اپنی پارٹی کا پالیسی کونسل جو ہے اس کا اجلاس کرنے دیں، پھر اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا فیصلے ہوتے ہیں کیا نہیں ہوتے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ جو دہشت گردی کے واقعات ہیں اس کا تو چلو ٹیررسٹ کے ساتھ تعلق ہے لیکن اس میں ایک چیز پہ آپ کی رائے چاہیے پی ٹی ائی پہ کریک ڈاؤن ہو رہا ہے پولیس ایکشن لے رہی ہے، ادارے ایف آئی آر کاٹ رہی ہے، گزشتہ ہفتے اختر مینگل صاحب کے جماعت کے 13 بندوں پہ ایف ائی ار کاٹی گئی اور نائب صدر ساجد ترین کو رات کو گرفتار کیا تھا۔ اختر مینگل اپنے تھانے کے باہر بیٹھے رہے۔اب وہ اس طرف تو دہشت گردی کے واقعات ہیں ہوتے رہیں ریاستی سطح میں اور ریاستی ادارے وہ جو کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔
مولانا صاحب: یہ جو سوال آپ کر رہے ہیں کہ ابھی تک اپوزیشن لوگ جو ہیں وہ بھی کوئی ایک مشترکہ فورم تشکیل نہیں دے سکے ہیں تو ہر پارٹی اپنے اپنے لیول پر فیصلے کر رہی ہے اور ہماری بڑی اپوزیشن پارٹی بھی سارے فیصلے اپنے فورم پہ کر رہی ہے، ہمارے قوم پرست جو ہیں وہ بھی اپنے فیصلے اپنے فورم پہ کر رہے ہیں، ہم بھی فیصلے اپنی فورم پہ کر رہے ہیں۔ وہ ایک ماحول کہ جس میں پورے اپوزیشن بیٹھ کر فیصلے کرتی ہے اس کی طرف ابھی حتمی طور پر ہم پہنچے نہیں ہیں اس میں جگہ ہے ابھی تک۔
صحافی: مولانا صاحب افغانستان کے ساتھ ہماری جو تلخی بڑھ رہی ہے آپ دوبارہ پھر کوئی رول پلے کریں گے اگر کوئی ڈیفائن کیا جاتا ہے کیونکہ اُدھر بھی آپ کے تعلقات ہے ؟
مولانا صاحب: یہ تو اگر حکومت یا سٹیٹ کی طرف سے کوئی رابطہ ہو جاتا ہے تو پھر ہم بیٹھ کر غور کریں گے کہ کیا ہم اس پوزیشن میں اب ہیں یا نہیں، اندر کے حقائق کیا ہیں دو طرفہ صورتحال کی جو اصل حقیقت ہے وہ کیا ہے اگر تو ایسا ہے کہ ہم واقعی اس میں ایک کامیاب رول ادا کر سکتے ہیں حالات کو دوبارہ اپنے طبعی حالت میں واپس لا سکتے ہیں تو پھر اور طرح سوچیں گے۔ اگر یہ کہ ایسی خواہ مخواہ بیچ میں پڑنے والی بات ہے اور سوائے گالیاں کھانے اور لعنت ملامت لینے کے لیے ہم نے جانا ہے تو پھر تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جی
صحافی: اچھا حضرت یہ بتائیں کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے پاکستان میں جو غیر جمہوری قوتوں کا کردار ہے سیاست میں اور باقی معاملات میں اس حوالے سے عوام میں شعور کا گراف تو بڑھ چکا ہے لیکن سیاسی جماعتوں میں یہ گراف نظر نہیں ارہا، اگر سیاسی جماعتوں میں عوام کی طرح یہی شعور پیدا ہو جائے تو یہ جتنے معاملات ہیں ان کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے کیا خیال ہے آپ کا؟
مولانا صاحب: یہ بات آپ کی بالکل صحیح ہے لوگ اب اتنے نہیں ہیں، لمحہ لمحہ کی صورتحال سے ہر آدمی آگاہ رہتا ہے۔ لیکن پالیسی لیول کے جو معاملات ہیں وہ عوام تک اس کی رسائی نہیں ہے، سیاست دانوں تک بھی اس کی رسائی نہیں ہوتی اور نہ مسلح تنظیموں کی طرف سے نہ ہمارے مسلح افواج کی طرف سے، وہ اپنے معاملات کو لوگوں کے مشاورت کے لیے سامنے رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تو پھر ظاہر ہے جی کہ اندھے پن میں جو حکومت کر رہے ہیں وہ ڈمی ہے وہ ایک کٹھپتلی ہیں۔ وہ سوچتی ہی نہیں اس بات پر کہ ہم نے کیا کرنا ہے جی، ورنہ آج کم از کم پارلیمنٹ میں یہ موضوع ہونا چاہیے تھا کہ ملک کے امن و امان پہ بات کریں، یہ موضوع ہونا چاہیے تھا کہ اؤ خارجہ پالیسی پر بات کریں، تاکہ ہر کارکن بولے ہر رکن بولے پارلیمنٹ کا، لیکن نہیں اس کی طرف توجہ ہی نہیں جا رہی کسی کی،
صحافی: مولانا صاحب یہ اس وقت بھی ڈمی تھی جب آپ پارلیمنٹ کا حصہ ہے تھے کہ نہیں اس وقت آپ کی پالیسی پہ دسترس حاصل تھی۔
مولانا صاحب: میری پالیسی میں تسلسل ہے نا، میں کسی پارٹی سے جنگ نہیں لڑ رہا ہوں میں اصول کی جنگ لڑ رہا ہوں، میں اس وقت بھی اصول کی جنگ لڑ رہا تھا اور میں اب بھی اصول کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ میں نے حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا، آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے انہوں نے حکومت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی، اتنے اتنے انہوں نے جرگے کیں، منتیں کیں تو میں نے کہا نہیں میرا اصول اس کی اجازت مجھے نہیں دیتا، حکومت نے بھی اور حکومت کے پیچھے جو قوتیں ہیں انہوں نے بھی، قسم نہیں توڑی ہم نے، میں نے کہا نہیں جاؤں گا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: میں کسی دوسری پارٹی پہ بحث کیوں کروں، جو سوال اپ کر رہے ہیں الحمدللہ یہ کپیبلٹی خود ہمارے اندر موجود ہے۔ میں نے اپنی پالیسی اپنی پارٹی کو سامنے رکھتے ہوئے بنانی ہے اور موثر بنانی ہے، کوئی ایسا نہیں کہ میں کسی سیاسی جماعت کو بھی اگر نہ بھی دکھاؤں اور خود فیصلے کر لوں تو مجھے اپنی جماعت کے ایک نشست کا انتظار ہے بس، مجھے صرف ایک پارٹی کے اجلاس کی ضرورت ہے اور وہ پالیسی فیصلہ کرے گی اس کے بعد ہم ان شاءاللہ اپنے اقدامات عملی کا اعلان کر دیں گے۔ ہمارے اصل میں ہر پانچ سال کے بعد رکن سازی ہوتی ہے، رکن سازی ہو گئی، تنظیم سازی ہو گئی، اس کے بعد ہمارے ادارے بن گئے، جنرل کونسل بن گئی، شوریٰ بن گئی، عاملہ بن گئی تو ان کی پہلی اجلاسات ہوں گے اب، تو ظاہر ہے کہ جو بھی ہم نے اگلے اقدامات کرنے ہیں ان کے ہم نے فیصلے وہاں سے لینے ہیں۔ تو وہاں تک تھوڑا ہم اگر پہنچنے دیں اگر زندہ رہے تو ان شاءاللہ
صحافی: سب سے رابطے کی امید ہے کیوں کہ آپ بھی نکل چکے ہیں اور حالات بھی ایسے ہیں؟
مولانا صاحب: رابطے تو چل رہے ہیں، رابطے پھر بھی چلتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن رابطے ہم پر اثر نہیں کرتے نا، رابطے ہم پہ اثر نہیں کرتے ہاں کوئی بات آتی ہے بسم اللہ نہیں آتی تو مہربانی، ٹھیک ہے۔ یہ جو آپ لوگوں نے بنا لیا ہے نا جی ہمارے میڈیا کے اندر بھی اوہ رابطہ ہو گیا اوہ فلاں کے ساتھ ملاقات ہو گئی، حضرت خفیہ ملاقات ان کی ضرورت ہے میری ضرورت نہیں ہے۔ میرے ساتھ چوک پہ آکے بات کریں مجھے کوئی پرواہ نہیں اس بات کی، لیکن ایک فریق بھی اگر کہتا ہے کہ آپ نے اس کو راز رکھنا ہے تو دوسرے پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ راز رکھے۔ شریعت کا مسئلہ یہی ہے کہ اگر ایک فریق بھی کہہ دے کہ بھئی یہ بات میرے اور آپ کے بیچ میں ہے تو دوسرے پر لازم ہے کہ وہ اس کو خفیہ رکھے۔ شریعت کا یہ حکم میڈیا کے اصولوں سے بالکل متصادم ہے۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ ہم خدانخواستہ ہمیں کوئی متاثر کر سکتا ہے یا ایک ملاقات ہو جائے تو بس پھر میں چاہوں وہ ان شاءاللہ کام بن گیا، نہیں بات جو بھی کرے گا سیاستدان کرے گا، جرنیل کرے گا، کوئی بڑا کرے گا، چھوٹا کرے گا، اصول برابر ہوگی تو ان شاءاللہ، کوئی تو ہو ملک میں جو اس معیار کو برقرار رکھ سکے، زندہ رکھ سکے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ جو جدوجہد کی آپ بات کر رہے ہیں جو رمضان کے بعد ہوگا اس میں آپ کہیں مصلحت کے شکار تو نہیں ہوں گے کیونکہ میں آپ کے دھرنے کو کور کر رہا تھا عمران خان صاحب کے خلاف بھی ہزاروں کارکنان لے کے ائے تو آپ نے اعلان کیا کہ ڈی چوک جائیں گے، لیکن اگلے دن آپ واپس پشاور کی طرف چلے گئے۔
مولانا صاحب: پندرہ دن ہم نے گزارے، الیکشن کی تاریخ لے کر اٹھے، آپ کو بتاتا چلوں کہ ہم اس وقت الیکشن کی تاریخ لے کر اٹھے تو الیکشن کی تاریخ لے کر اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ دغا کی، پیچھے ہٹ گئے۔ چوہدری صاحبان بھی کہتے ہیں کہ ہاں وہ ہمارے پاس امانت ہے وہ کیا امانت ہے یہی تھی نا، ورنہ کہہ دیتے کہ کوئی امانت نہیں ہے بیچ میں، لیکن یہ کہ امانت ہے اور ہمارے پاس ہے یہ جو بار بار اس کا ذکر کرتے تھے تو کوئی چیز تھی۔
صحافی: ابھی اگر آئے تو کیا لے کر جاؤگے؟
مولانا صاحب: ابھی ہم نے اس طرح کے سیاست شروع نہیں کی، ابھی تک اس لیول پہ گئے نہیں ہیں۔
صحافی: اس وقت ایک تاثر پایا جاتا ہے کامران مرتضیٰ کی پی ٹی آئی کو لیکر سٹیٹمنٹ آئی ہے یہ تاثر پایا جاتا ہے اور یہ غلط بھی ہوسکتا ہے، دونوں صورتیں ہو سکتی ہے کہ کامران مرتضیٰ کو آپ نے خود پی ٹی آئی کے حوالے سے ایک قدم آگے لے کر کریز سے بڑھ کر بیانات دے سکتے ہیں یا جو بھی چیزیں ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے صفوں میں بھی اختلاف پایا گیا ہے اور آپ کے حوالے سے سخت رائے
مولانا صاحب: دو چیزیں میں بتاؤں آپ کو، دیکھیے میں کس حد تک یہ بات کروں نہ کروں، اصل چیز یہ ہے کہ پی ٹی ائی کے لیڈرشپ جیل میں ہے، باہر یکسوئی نہیں، اب اس طرح کے گدلے پانی میں داخل ہونے کے لیے تو 100 دفعہ سوچنا پڑتا ہے۔ تو ایک ہے مجموعی ماحول کے جو تلخیاں کسی زمانے میں تھی سخت رویے تھے اس میں تو کافی فرق اگیا ہے، بات چیت کریں، کس سے کریں، کس وقت کریں، کون اتھارٹی ہے یہ مسئلہ ہے۔ میں تو خود احتیاط کرتا ہوں اپنے لیول پر اگر کوئی ان کا بندہ ہمارے خلاف بیان دیتا ہے تو میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے آپ لوگوں نے بھی سوال کیے ہوں گے کہ بھئی یہ ان کا معاملہ ہے اگر میرے خلاف کسی نے بیان دیا ہے تو پارٹی خود نوٹس لے اس کا، کیونکہ میں پارٹی سے بات کر رہا ہوں میں کسی شخصیت سے بات نہیں کر رہا ہوں۔ تو پارٹی خود اس کا نوٹس لے لیکن بعض اوقات کچھ چیزوں کی وضاحت کے لیے اگر وقتی طور پر کامران صاحب کو کسی کے بیان کے جواب میں کچھ وضاحت کرنی پڑی ہے تو وہ اس وضاحت کی حد تک ہوتی ہے اور وہ بھی کرنی پڑتی ہے کیونکہ پھر ابہام رہ جاتا ہے کچھ چیزوں کا، تو وہ معمول کی سیاست کا ایک حصہ ہوتا ہے اس میں کوئی کسی کے ساتھ جھگڑا کرنا یا تلخی پیدا کرنا نہیں، لیکن بعض دفعہ ایسے بیانات کسی ایک حادثہ کی طرف سے ا جاتے ہیں کہ اس پر بدلے میں مقابلے میں کچھ چیزیں آن ریکارڈ ذرا واضح کرنے پڑتے ہیں تو کامران صاحب نے اسی حد تک بات کی ہے۔
صحافی: اس کو ہم یہ نہ سمجھے کہ ان بیانات کو کے کر آپ کا عمران خان کے ساتھ اگے رابطہ ہو سکتا ہے اس میں کوئی دراڑ پڑ جائے گی یہ جو چھوٹے موٹے بیانات ہوتے ہیں؟
مولانا صاحب: نہیں نہیں ابھی تک تو کوئی ڈرار نہیں ہے۔لیکن کوئی دراڑ ائی نہیں ہے یعنی ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جو رکاوٹ بن جائے یعنی جب ان کے بیانات میرے خلاف اس کو ہم رکاوٹ نہیں بنا رہے تو پھر اگر اس کے جواب میں کوئی وضاحت دینی ضروری سمجھی گئی اور وہ بھی ہم ایک دوسرے ساتھی کے ذریعے کر لیتے ہیں تو انہوں نے کوئی اس کا نوٹس نہیں لیا اور وہ اپنا جو رابطے میں ہیں وہ رابطے میں رہتے ہیں۔
صحافی: ایک اور چیز پی ٹی ائی کے اندر ایک علی امین گنڈاپور، شیخ وقاص اکرم، بیرسٹر گوہر بھی اسی صف میں رکھ لیں یہ افراد موجود ہیں جو کہ موجودہ نظام میں اتحاد میں آپ کے ساتھ چلنے میں تھوڑا سا خوف محسوس کر رہے ہیں دوسری طرف اسد قیصر ہے علیمہ خان بھی خود ہے، عمران خان کی طرف سے ہدایات کے مطابق سلمان اکرم راجہ بھی ہے تو کیا ایسے میں کس گروپ کو فوقیت دیں گے یا کس طرح عمران خان کی بات کو آپ حتمی سمجھیں گے کہ ان کے ساتھ ہم رابطے میں ہیں تو لہذا عمران خان ہی یہ کہہ رہا ہے؟
مولانا صاحب: بہرحال جو لوگ ہمارے ساتھ رابطے میں ہے ہم ان سے گفتگو کرتے ہیں ہم نے کمیٹی بھی بنائی ہوئی ہے سب کمیٹی بھی بیٹھتی ہے بات کرتی ہے اسی لیے ہم کسی انڈیویجول کے بیان کا پارٹی کی سطح پر جواب نہیں دیں گے البتہ اگر کوئی کسی ایسی بات کی کوئی وضاحت ہو جائے ذرا تھوڑی سی کہ اصل بات کیا تھی تو اس وقت اگر کامران صاحب نے بات کی ہے باقی ہم کسی کا وہ نوٹس نہیں لیتے اور وقاص جو ہے وہ جنگ کے ہیں شیخ وقاص صاحب اور میرا ان کے ساتھ اس دور میں جب کہ ہمیں اسمبلی میں ائے ہے ملاقات نہیں ہے اور نہ رابطہ ہوا ہے پتہ نہیں وہ شکل و شباہت اور رویے دونوں حوالوں سے کیوں تبدیل ہوا ہوا ہے یہ ان کا مسئلہ ہے لیکن میں خاندانی لحاظ سے ان کو جانتا ہوں اور میں ان کا ہمیشہ احترام کرتا ہوں ان کے بزرگوں سے ہمارے بزرگوں کا تعلق رہا ہے اور ہمیں اس کا ہمیشہ لحاظ ہوتا ہے۔ تو نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ بھئی جو ہمارا کسی کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہوتا ہے تو اس میں ہم قدامت پسند ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب کے پی کے کہ جو حالات ہیں تو حکومت کا کیا رول آپ سمجھتے ہیں؟
مولانا صاحب: کے پی میں کوئی حکومت نہیں ہے کہ پی میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ اس وقت کوئی تھانہ نہیں ہے کوئی پولیس نہیں ہے مغرب کے غروب سے پہلے سے پولیس ختم ہو گئی ہے اور صبح سورج نکلتے تک پولیس نہیں ہوگی، تھانوں کے اندر چلے جاتے ہیں اپنے آپ کو سیکیور کر لیتے ہیں، پبلک جانیں اور مسلح لوگ جانے۔ سڑکیں ان کے ہاتھ میں ہے گاڑیاں ان کے ہاتھ میں ہیں اور ہم اپنے انڈیویجول جو ہمارے کوئی ایفرٹس ہو سکتے ہیں کہ بھئی یہ چیزیں ٹھیک نہیں ہے یہ نہیں ہونے چاہیے کوئی دوست سامنے اجاتے ہیں ان سے کہتے تھے کہ بھئی یہ چیزیں آپ کیوں خراب کر رہے ہیں جی، تو اگر ہم کچھ تھوڑا سا خود کچھ ہی سنبھال لیں تو سنبھال لیتے ہیں۔ اپنے تعلقات کی وجہ سے کسی شخصیت کو استعمال کرکے بیچ میں ورنہ تو کچھ بھی نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت سب سے پہلے یہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے ملک اپنی جگہ پر قائم ہوتا ہے۔ اس کے استحکام کا کوئی سوال نہیں ہوتا، کہیں کمزوریاں آتی ہیں تو ٹھیک ہے نوٹس لے لیا جاتا ہے وہ چیزیں حل ہو جاتی ہیں لیکن زیادہ تر فوکس کرتے ہیں سیاسی اختلافات پہ، گورنمنٹ ٹو اپوزیشن، اپوزیشن ٹو گورنمنٹ چلتا رہتا سارا سلسلہ، لیکن یہاں تو اس وقت سٹیٹ خطرے میں ہے تو پریاریٹی اس وقت تو ہماری یہی ہے اب اگر کسی کو اس کا احساس نہیں ہے اس لیے احساس نہیں ہے کہ وہ لاہور میں بیٹھا ہوا ہے یا ملتان میں بیٹھا ہوا ہے یا وہ یہاں پنڈی اسلام آباد میں بیٹھا ہوا ہے یہاں کی زمین ٹھنڈی ہے تو یہ پھر یہ تو پاکستان نہ ہوا جی ،
صحافی: خیبرپختونخواہ میں جو کراس بارڈر کی وجہ سے اس وقت معاملات خراب ہیں، بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند کی تحریک خوفناک لیول اختیار کرتی جارہی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ان کو انگیج کرنا چاہیے، ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے؟
مولانا صاحب: ظاہر ہے کہ سیاسی گفتگو، سیاسی روابط ملک کے اندر رہتے ہوئے تو مسلسل جنگ مسئلے کا حل نہیں ہوتا، اس میں تو معاملات اور خراب ہو رہے ہیں۔ آپ کے ریلوے کو روک لیا، متضاد خبریں متضاد دعوے وہ آرہے ہیں اور اگر صرف ایک بیانیہ کو نہ دیکھا جائے ہر ایک بیانیے جو سامنے رکھا جائے تو یہ ناقابل بیان واقعہ ہے جی، یہ ملک کے لیے تباہ کن واقعہ ہے۔ پھر اس میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر کوئی خارجی قوت اس میں ملوث ہے تو اسکا راستہ کیسے روکنا ہے، صرف پبلک کی ہمدردیاں حاصل کرنا یا دوسرے کے بیانیے کو کمزور کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہوتا، حقائق کی بنیاد پر ہمیں اس کے لیے سٹریٹجی بنانی پڑے گی۔
صحافی: یہ بتائیں کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ستر پچھتر سال سے ہم جس نظام کے تحت چل رہے ہیں وہ ہمارے لوگوں اور عوام کی ترقی کا ضامن نہیں ہوسکتا، کیا نظام کی تبدیلی یا جو جمہوری سسٹم کے نام پر ہم سسٹم چلا رہے ہیں۔
مولانا صاحب: ستتر سال تجربے کے بعد آپ کا یہ سوال جو ہے نا یہ بہت چھوٹا لگتا ہے 77 سال کے تجربے کے بعد اس سوال یہ پیدا ہوگا کہ ابھی ہم آزاد ریاست ہیں یا نوآبادیات ہیں۔ ایک دن کی بات تو ہے نہیں، دس دن کی بات تو ہے نہیں، دس سالوں کی بات تو ہے نہیں، تو اس سارے پہلو جو ہیں بڑے سنگین قسم کے اسان نہیں ہے۔
صحافی: مولانا صاحب آپ کی ناراضگی ریاست یعنی اسٹیبلشمنٹ سے ہے زیادہ یا آپ کے جو رفقاء سیاسی ہے ان سے ہے اور دوسرا کہی وہی بات تو پھر سے شروع نہیں ہو رہی عالمی طاقتیں پروکسی وار
مولانا صاحب: جہاں تک ناراضگی کوئی ناراضگی نہیں ہوتی سیاست میں ایک موقف ہوتا ہے کہ میں کس کو اس سارے خرابی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں، میں اسٹیبلشمنٹ کو اس خرابی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں اور جن لوگوں نے کمپرومائز کیا ہے اس کو بے بس سمجھتا ہوں، کٹھ پتلی سمجھتا ہوں، چاہے وہ پارلیمنٹ ہے چاہے وہ گورنمنٹ ہے چاہے وہ کیبنٹ ہے یہ چیزیں جب تک ہمارے ملک میں رہیں گی اور جب تک ہمارے ملک کے اندر ہم ہر لمحے جو ہے کمپرومائز کرتے رہیں گے کبھی جمہوریت نہیں اسکے گی ایسے پی لوگوں کرب سے گزرتے ہیں، باہمی اختلافات سے گزرتے ہیں، دشمنیوں سے گزرتے ہیں، تلخیوں سے گزرتے ہیں۔ اور ان کے ووٹ کا کوئی نتیجہ نہیں ہے نتیجہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ اور جہاں تک ہے پراکسی وار، حضرت ہم نے پاکستان کو پروکسی لیول سے نکالنا ہوگا اس وقت تک ہم پروکسی لیول پہ ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنے ملک میں دوسروں کی جنگ لڑی ہے۔ فغانستان میں کسی کو یہ شکلیں پسند نہیں ہے تو اب ان کی ذمہ داری پھر ہم لے رہے ہیں، حالات جب خراب ہو جاتے ہیں پھر تو آپ کو بیانیہ دینا پڑتا ہے، بیانیہ تو زبردست قسم کا ہم دے دیتے ہیں اس پہ تو ہم کوئی گدر چھوڑتے ہی نہیں ہے جی،
صحافی: آپ کے پرانے دوست زرداری صاحب کچھ کہتے ہیں، کوئی بات چیت ہوتی ہے؟
مولانا صاحب: زرداری صاحب بس انجوائے کر رہے ہیں۔ واحد شخصیت ہے جو پوری صوبائی اسمبلی اور پریزیڈنسی کو خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سیاست میں صرف ہم ریکارڈ نہیں بنا سکیں گے باقی سارے بنا لیتے ہیں۔
صحافی: سر اس حکومت اور سسٹم کا آپ کیا دیکھ رہے ہیں کب تک چلے گا؟
مولانا صاحب: سسٹم سے تو ہم لڑ رہے ہیں جنگ ہے چل رہی ہے ان شاءاللہ، سسٹم کو تو ٹھیک کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں ہم لوگ، اس ملک میں آئین بھی برائے نام ہو گیا ہے اگر برائے نہ ہو جائے گا پھر ملک کا کہاں رہے گا ہماری تو ساری کمٹمنٹ جو ہے وہ ائین پہ کھڑی ہے اگر ائین کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو پھر تو آمریت ہے، پھر تو ڈکٹیٹرشپ ہے، بادشاہت ہے۔ تو ان چیزوں سے اگر ہم نے نکلنا ہے تو ایک صحیح سمت کا تعین ہم نے مل کر کرنا ہوگا۔ اس طرح نہیں چلے گا یک طرفہ، اور ٹھیک ہے زور زبردستی چلے گی تو پھر یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ تو زور زبردستی کا نتیجہ ہے کہیں سے تو کوئی بڑاس نکلتی ہے نا جی، جیسے میں نے آپ سے عرض کیا کہ اب جو سندھ کے ڈاکو ہیں وہ ایسے نہیں کہ آدھی ڈاکو ہیں، جاگیرداروں کے جبر اور ظلم کے پنجے سے نکل کر بنے ہے۔ تو ہر جگہ پہ کوئی ردعمل تو ہے نا، لیکن رد عمل ہم سوچتے ہیں کہ نہیں ائین کے اندر ہونا چاہیے لیکن لوگ چلے جاتے ہیں۔
صحافی: ایک اہم معاملہ ہے آپ نے کہا کہ سیاست میں دھاندلی کو ختم کرنا ہوگا الیکشن صاف شفاف ہونے چاہیے، الیکشن کمیشن کے دو ممبر اور چیف چھبیس جنوری کو ریٹائر ہو رہے ہیں اگرچہ آئین ان کو کام کی اجازت دیتا ہے لیکن آئین یہ بھی کہتا ہے 215/4 کہ پینتالیس دن کے اندر اپوائنٹمنٹ ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔
مولانا صاحب: دیکھیں یہ بڑے لوگ ہیں اگر بڑے لوگ بھی اس منصب پر پہنچنے کے بعد یہ تاثر ہمیں دیں کہ مجھے نوکری چاہیے اور میں بس ہر قیمت پر اس پوسٹ سے چمٹا رہوں گا، کیا یہ ان کے شایان شان ہے ہر چند کے قانون کہتا ہے کہ اگر حکومت کہے تو وہ جب تک نئی سیٹ اپ نہیں اتی وہ کام کرتے رہیں گے ان کو چھوڑ دینا چاہیے تھا، بیت سے جج چلے گئے ہیں کہ نہیں قانون مجھے بھلا اجازت دیتا ہے لیکن میری بھی کوئی ایک سٹیٹس ہے میری بھی کوئی حیثیت ہے میں نہیں کروں گا یہ کام، تو ان کو تو بس میرا خیال نوکریاں ہی چاہیے نوکری ملی ہوئی ہے۔ تو جس نے ساری زندگی اپنی جیب سے گاڑی میں پٹرول نہیں ڈالا اب وہ گھر جائے گا تو اپنی جیب سے پٹرول ڈالے گا عادت ہی نہیں ہے اس کو، پھر ایکسٹینشن مانگتے ہیں۔
صحافی: اس وقت نظریں جے یو آئی پر ہے کہ جو ڈیڈ لاک کا ووٹ ہے وہ تو آپ کے پاس ہوگا اگر کمیٹی بنتی ہے ؟
مولانا صاحب: وہ تو بہرحال آگے دیکھیں گے اس کا کیا بنتا ہے۔
صحافی: ایک بات جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں کہ عید کے بعد پی ٹی ائی اور جے یو ائی مل کر کسی احتجاج کی طرف بڑھ سکتے ہیں، مارچ کی طرف بڑھ سکتے؟
مولانا صاحب: یہ ساری چیزیں اس پارٹی کی جو پالیسی ساز ادارہ ہوتا ہے اسی میں ڈسکس ہوں گے کہ اب ہم کہاں تک پہنچے ہیں اگے کیا کرنا ہے تو دونوں پہلوؤں برابر برابر ہوگئے۔
اللہ آپ کو خوش رکھے جی بہت اچھا کیا آپ تشریف لے ائے۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی اسلام آباد میں صحافیوں سے اہم گفتگوقائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی اسلام آباد میں صحافیوں سے اہم گفتگو
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, March 16, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں