مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سماء ٹی وی پر ابصار عالم کو خصوصی انٹرویو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا سماء ٹی وی پر ابصار عالم کو خصوصی انٹرویو

22 مارچ 2025

ابصار عالم: خوش آمدید اور آج کا پروگرام ہمارا مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ جو جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے آپ نے دیکھا ہوگا کہ مولانا صاحب پاکستان کی سیاست کا محور ہے جب چھبیسویں ترمیم ائی اس کے بہت سارے کالے ناگ تھے جس کے لیے مولانا صاحب سے رابطہ کیا گیا ان کالے ناگ کو ختم کرنے کے لئے، اور مولانا صاحب نے تمام سیاسی جماعتوں کے بیہاف پہ تمام پاکستانی قوم کے بیہاف پہ چھبیسویں ترمیم کا ایسا علاج کیا جو سب کو سب قابل قبول تھا اس کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلسل فوکس پہ ہیں پی ٹی ائی چاہ رہی ہے کہ جو تحریک وہ شروع کرنے جا رہی ہیں مولانا صاحب اس کو لیڈ کریں دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جو دہشت گردی پاکستان میں ہو رہی ہے اس کا جو سب سے بڑا ٹارگٹ ہے وہ بھی مولانا فضل الرحمن صاحب ہے اور کیوں کھٹکتے ہیں وہ ہر ایک کی آنکھوں میں اس طرح، اس پہ آج ہم ان سے بات کریں گے۔ پاکستان کی سیاست میں جو ماحول بن چکا ہے اور اپ نے مولانا صاحب کی دو تقریریں سنی ہوگی خاص طور پر میں ذکر کروں گا ایک مولانا حامد الحق کی شہادت پہ، جو اکوڑہ خٹک میں انہوں نے بیان دیا اور دوسرا پاکستان کی قومی اسمبلی میں کچھ دن پہلے، قومی سلامتی کمیٹی سے پہلے تقریر کی جس کے بہت چرچے ہیں اور قومی سلامتی کمیٹی میں بھی ان کا ایک واضح موقف تھا جو شاید صحیح طرح سے باہر نہیں اسکا، ان تمام ایشوز پہ ہم بات کریں گے۔ مولانا صاحب السلام علیکم

مولانا صاحب: وعلیکم السلام

اینکر: خوش آمدید اور بہت شکریہ آپ نے ہمیں ٹائم دیا اس مصروف ماحول میں، ایک تو آپ کو ختم قرآن مبارک، آج آپ کے ہاں قرآن شریف کا ختم ہو رہا ہے۔ دوسری یہ بتائیے گا جو میں نے ابھی بات شروع کی ہے، شروع اس بات سے کرنا چاہتا ہوں کہ خیبرپختونخوا بلوچستان، دہشت گردی بہت زیادہ یہاں پہ ہو رہی ہے، مسلسل حملے ہو رہے ہیں، کوئی اس میں اب بچا نہیں ہے مسجد ہو، مدرسہ ہو، خانقاہ ہو یا کوئی بچوں کا اجتماع ہو، عورتوں کا ہو، نماز پڑھتے ہوئے ہر جگہ یہ ہو رہی ہے، لیکن ہم نے اس میں دیکھا کہ علماء کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے یہ ایک نیا پیناومنا آیا جو پہلے نہیں تھا، اور پہلے یہ تھا کہ مسلکی بنیادوں پہ یہ ہوتا تھا، یہ کیا ہے اور تو اس میں آپ کو بھی تھریٹ ہے۔ تو یہ نیا جو پیناومنا آیا ہے علماء کو ٹارگٹ کرنے کا اس کی کیا وجہ ہے؟

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، بہت شکریہ ابصار عالم صاحب آپ نے مجھے موقع دیا کچھ مسائل پر بات کرنے کا، جہاں تک پاکستان میں دہشتگردی کا لفظ ہے یا مسلح تنظیموں کا معاملہ ہے اس کی ایک تاریخ ہے اور اس میں ہماری ریاستی غلطیوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ جب سوویت یونین افغانستان میں ایا تو افغانوں نے ان کے خلاف جہاد شروع کیا اور ان کو ہمہ جہت ایک سیاسی حمایت حاصل رہی لیکن اس میں جو سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان نے ادا کیا، کوئی تیس لاکھ مہاجرین افغانستان سے پاکستان کی طرف ائے اور بالکل اسی تعداد میں تقریبا مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے لیکن ایران نے مہاجرین کو تو جگہ دی لیکن ایران کو افغانستان کی جنگ کے لیے بیس کیمپ نہیں بنایا اور وہاں کسی قسم کی کوئی جنگی جو انوالومنٹ ہے وہ اس سے انہوں نے گریز کیا۔ ہم نے پاکستان کو اس کا بیس کیمپ بنایا یہاں سے جب لفظ جہاد استعمال ہوگا تو اس کی طرف یقیناً مذہبی لوگ جائے گا، مذہب بیزار لبرلز سوشلسٹ یہ تو نہیں جائیں گے جی، جنگ کی طرف تو جا سکتے ہیں لیکن، تو اس حوالے سے وہ چودہ سال پر مشتمل ایک طویل جنگ تھی۔ اس کے بعد تو کبھی قرار ایا ہی نہیں افغانستان کے اندر، تو جب امریکہ ایا تو ہمارے سٹیٹ کی صورتحال اور تھی اور جب روس ایا تھا تو سٹیٹ کی صورتحال اور تھی۔ اور اس میں تو جو پاکستان کے اندر مجاہدین تھے وہ سٹیٹ کا ساتھ دے رہے تھے اور جب مشرف کا وقت ایا اور امریکہ کی انہوں نے حمایت کا اعلان کر دیا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ وہ بن گئے تو پھر ظاہر ہے یہ کہ دوسری سائیڈ سے پھر لوگ لڑ رہے تھے اور وہ ایک ہی بات کرتے تھے کہ روس ایا تو اس کے خلاف جہاد اور امریکہ ایا تو جہاد نہیں، اب اس کی اتحادی بن رہے ہیں، تو اس پر ہماری سٹیٹ لوگوں کو مطمئن نہ کر سکی اور زبردستی اپنا جو موقف ہے وہ، اور جنرل مشرف صاحب کو بھی ایک بین الاقوامی سپورٹ کی ضرورت تھی جس سے وہ پہلے محروم تھا لیکن جب نائن الیون ہوا اور امریکہ افغانستان کود پڑا تو امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی اور مشرف نے اس کو اپنے لیے غنیمت سمجھا کہ چلو میں ان کی ضرورت بن گیا ہوں۔ اس کا اس نے فائدہ اٹھایا۔ اس تسلسل کی بنیاد پر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں پر ایک مستقل جنگجویانہ ایک ذہنیت وجود میں اگئی ہے، اب یہاں ان لوگوں میں کئی قسم کے تنظیمیں ہیں ہم تو صرف ٹی ٹی پی کی بات کرتے ہیں زیادہ تر کہ وہ ہے یا پھر

اینکر: معافی چاہتا ہوں اگر میں تھوڑا انٹرپٹ کروں، ابھی اس وقت آپ پینتالیس سال بعد کیا آپ کے خیال میں جہاد کا لفظ اس وقت استعمال کرنا مناسب نہیں تھا؟

مولانا صاحب: نہیں ہمیں جہاد کا لفظ استعمال کرنے سے جھگڑا نہیں ہے۔ جہاد جہاد ہے، جہاد قران کا حکم ہے لیکن جہاد کے لیے حکمت عملی تدبیر تدبر ماحول، تو افغانستان اپنا ایک ملک ہے اور پاکستان اپنا ایک ملک ہے دونوں کے اپنے جغرافیائی حدود ہیں، دونوں کہ اپنے آئین ہیں اپنے قوانین ہیں اپنے حالات ہیں اپنا ماحول ہے اور جہاں پر اسلامی دنیا موجود ہے ان کی جغرافیائی تقسیم کو دنیا نے تسلیم کیا ہوا ہے۔

تو اس حوالے سے ہمیں اپنی حکمت عملی میں احتیاط کرنا چاہیے تھا ہمیں ایک خاص حدود کے اندر رہنا چاہیے تھا اور اس وقت تو ہم سب جہاد کے حامی تھے ساری دنیا جہاد کے حامی تھی تضاد اس وقت ایا جب مشرف نے امریکہ کو سپورٹ کیا اور اس کے مقابلے میں لوگوں نے پھر جہاد کو سپورٹ کیا۔

اینکر: لیکن پوری دنیا جو ہمارے اس جہاد کو سپورٹ کر رہی تھی تو اس وقت تو دنیا کا مفاد تھا نا تو ہمیں اس کے لیے ہمیں استعمال بھی کیا گیا تو ہمارا استعمال ہونا تھوڑا بہتر نہیں ہو سکتا؟

مولانا صاحب: حضرت دو چیزیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ آپ ایک نظریے کا ساتھ دے رہے ہیں ایک یہ کہ جب اس میں قیادت کرتی ہے سٹیٹ، تو سٹیٹ کو اپنے سٹیٹ کے مفادات اور ان حالات کے تحت بھی اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ میرے اپنے ذہن میں اگر ہمیں جنگ پہ ابھارا ہے یا افغانوں کو جنگ پہ ابھارا ہے یا پاکستان نے ایک بین الاقوامی گروپنگ کی جو اس کی پوزیشن ہے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے تو اس میں جنگ کا سبب تو سوویت یونین بنا تھا کیونکہ فوجیں داخل ہو گئی تھی یہاں پر اور ان کے اگر فوجیں داخل تھی تو وہ اگے بڑھ کر پاکستان کے علاقوں کی طرف بھی بڑھ سکتی تھی تو پاکستان نے یہ سمجھا کہ ہم بھی اب مجبور ہیں کہ ہم افغان مجاہدین کا ساتھ دیں اور سوویت یونین کو ہم دریائے آمو سے پیچھے دھکیل دیں تو اس وقت ایک سینیاریو اور تھا جی، لیکن آج ہم نتائج میں اکر بات کر رہے ہیں کہ کچھ ان کے ہمیں ہم پر جو منفی اثرات اس کے پڑے ہیں اس تو ڈسکس ہونا چاہیے اب تو تاریخ کا حصہ ہے۔

اینکر: آج کے دور میں آپ جو کچھ ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں برداشت کر رہے ہیں تو اسی کا نتیجہ ہے تو اس میں علماء کے بارے میں جو میں نے آپ سے پوچھا، کیا اس کے پیچھے مسلکی کی جو تفریقات ہے مثلاً جو داعش ہے اسلامک سٹیٹ آف خراسان وہ سلفی ہیں اور آپ دیوبند کو رپریزنٹ کرتے ہیں برصغیر پورے میں دیوبند ہے صوفی ازم ہے اس سیٹ کے خلاف وہ حملے کریں آپ کو تو ٹارگٹ کیا گیا، باقی جو علماء کرام کو جو مار رہے ہیں ٹارگٹ تو میں نے جتنا پڑھا ہے کتابیں لکھی انہوں نے، آپ کو کیوں ٹارگٹ کر رہے ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے اس میں مختلف جیسے آپ نے فرمایا مختلف ذہن کے لوگ ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن پاکستان میں بھی سلفی لوگ تو ہیں پاکستان میں بھی غیر مقلد تو ہیں لیکن وہ بھی سیاسی لوگ ہیں ان کی بھی ہمارے ساتھ تعلقات ہیں وہ بھی پارلیمنٹوں میں بیٹھتے ہیں وہ بھی جمہوریت کی بات کرتے ہیں وہ بھی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں یہاں ایم ایم اے موجود تھا تو تمام مکاتب فکر اس کے اندر تھے شیعہ مکتب فکر سنی مکتب فکر دیوبندی مکتب فکر بریلوی مکتب فکر اہل حدیث مکتب فکر سب اس میں موجود تھے ہم لوگ جی ، تو اس اعتبار سے ظاہر ہے جی کہ کسی بھی مکتب فکر سے وابستہ کوئی لوگ اس سے آپ اس مکتب فکر کو مور الزام نہ ٹھہرائیں بلکہ اس مکتب فکر سے نکلی ہوئی کچھ لوگ جو انتہا پسندی اور شدت کی طرف چلے گئے ہیں اور جنہوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے وہ اپنے طور پر اپنی پالیسیوں اور اپنی حکمت عملی کی ذمہ دار ہیں کوئی مسلک اس کا ذمہ دار نہیں ہے اب رہی یہ بات کہ جی جو آپ کر رہے ہیں وہی اسلام ہے اور اس کے علاؤہ جو کر رہا ہے وہ کفر ہے یہ وہ تنگ نظری انتہا پسندی رجعت پسندی یہ ایک چیز ہے جو ہمیں اس کے لیے سوچنا پڑے گا اب رہی یہ بات کہ ان کی بھی ایک صف نہیں ہے مختلف صف ہیں ان کے اور ان کے لیے بھی وہاں پر اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے لیکن چونکہ وہ میدان جنگ میں جب اپنے آپ کو شمار کرتے ہیں تو وہ اس جنگ میں اپنے مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی بناتے ہیں ہم یہاں پر سیاسی ماحول میں رہتے ہیں تو ہم اپنی حکمت عملی کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کو بناتے ہیں اور چلتے ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ، پاکستان میں اس وقت کوئی مسلکی تنازعات اور جنگ نہیں ہے ہم بہت اچھے ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں رہتے ہیں مشاورتیں ہماری ہوتی ہیں دینی مدارس کے مسائل اتے ہیں تو ہم سب مل کر بیٹھ کر بات کر رہے ہوتے ہیں یہ جو قانون سازی ہوئی تو ان قانون سازی کے اوپر جو 26ویں ترمیم کے اندر جو ہے اس سے پہ جو بحث ہوئی اس پر ہم سب اکٹھے بیٹھے رہے ہیں جی اب یہ جو ایک جنگجویانہ ذہنیت بن گئی ہے پینتالیس اڑتالیس سالوں میں اس کو ہم نے ایڈریس کرنا ہے کہ اس کو ہم تحلیل کیسے کر سکتے ہیں۔

اینکر: اچھا اس کی تحلیل پہ میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن میں پہلے ایک چیز اور جاننا چاہتا ہوں آپ جب حامد الحق کے شہادت کے بعد مدرسہ اکوڑہ خٹک گئے تو آپ نے وہاں الفاظ یوز کیے سفاک ہیں قاتل ہیں مجرم ہیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ کس طرح ڈیل کرنا چاہیے؟

مولانا صاحب: میں گزارش کرتا ہوں جی، جہاں تک ہے میری تقریر کا تعلق یہ مؤقف میرا آج کا نہیں ہے یہ دس پندرہ سال پہلے سے بھی میں یہی باتیں کرتا رہا ہوں جب میرے اساتذہ شہید ہوں گے جی، مولانا حسن جان میرے استاد تھے، مولانا نور محمد صاحب وانا کے یہ میرے والد صاحب کے شاگرد رشید تھے اور علاقے کے سب سے بڑے عالم تھے استاد الاساتذہ تھے جمیعت علماء اسلام نے ان کی حمایت کی تھی جب وہ قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے مولانا معراج الدین صاحب ہمارے پارلیمنٹیرین تھے اب مولانا حسن جان بھی ہمارے پارلیمنٹیرین تھے مولانا معراج الدین بھی ہمارے پارلیمنٹیرین تھے مولانا نور محمد صاحب بھی ہمارے پارلیمنٹیرین تھے پھر میرے خاندان کے جو خانقاہ ہے سادات ہیں ان کے چشم و چراغ تھے حضرت مولانا سید محسن شاہ صاحب جن کا دغا پیزوں میں بڑا جامعہ ہے پھر میرے مدرسے کے استاد حدیث تھے اسی خاندان سے مولانا عطا اللہ شاہ صاحب یہ سب شہید ہو گئے ہیں اور پھر مولانا مفتی نظام الدین شامزئی صاحب شہید ہوئے مولانا جمیل خان شہید ہوئے جامعہ فاروقیہ کے علماء شہید ہوئے جامعہ بنوری ٹاؤن کے علماء شہید ہوئے اب ان حالات میں میں اپنے علماء کرام کو جو شہید ہو چکے ہیں ان کو بھی شہید کہتا رہوں اور اس کے قاتل کو بھی مجاہد کہتا رہا ہوں یہ تو نہیں ہو سکتا یہ تو تضاد ہوگا جی لہذا قاتل سفاک ہے قاتل مجرم ہے انہوں نے علمائے کرام کو قتل کیا ہے اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ جس پر ہماری سوچ ہمیشہ بالکل واضح رہی ہے دوسری بات یہ ہے کہ آج اس وقت اس ماحول میں افغانستان کے اندر علماء کرام نے وہاں کے افغانی علماء کرام نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے اور اس فتوے میں انہوں نے کہا ہے کہ جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اب اگر کوئی بھی چاہے افغانستان کے اندر ہو یا باہر جنگ لڑے گا تو وہ جنگ ہوگا جہاد نہیں ہوگا یہ ان کا بھی واضح چیز آگئی ہے۔

اینکر: لیکن یہ بات وہ ٹی ٹی پی کے لیے کیوں نہیں کہتے؟

مولانا صاحب: سب کے لیے کر رہے ہیں حضرت

اینکر: لیکن وہاں پہ ان کو پھر پناہ بھی دی ہوئی ہے۔

مولانا صاحب: میں عرض کر رہا ہوں نا جی اب پناہ والی باتیں جو ہیں ذرا تھوڑا سا اس کو ایک سائیڈ پہ رکھ لیں ان چیزوں کو بھی ڈسکس کیا جا سکتا ہے جی، پاکستان کے علماء کرام نے چاہے جمیعت علماء اسلام ہو، پچیس ہزار علماء کرام پشاور میں جمع ہوئے، دس ہزار علماء کرام بلوچستان میں جمع ہوئے اور سب نے بالاتفاق قرارداد پاس کی کہ ہم آئین پاکستان کے تحت جس میں اسلام مسلمان کی بھی تعریف ہے جس میں اسلام کی بھی تعریف ہے جس میں قانون سازی کو اسلام کے تابع اور قرآن و سنت کے تابع بنایا گیا ہے اور جس میں ہمارے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کے اتفاق رائے ایا ہے تو یہ جو نئی چیزیں وجود میں ائی ہیں جس میں اسلحہ ہے جس میں بارود ہے جس میں آئین کی نفی ہے ان سب چیزوں سے ہم نے لاتعلقی کا اظہار کیا پھر تمام مکاتب فکر نے لاہور میں آل پارٹیز کانفرنس کی اور اس کا اعلامیہ میں چونکہ میں نے خود لکھا تھا، من و عمل قبول کیا گیا اور تمام علماء کرام نے اس موقف پہ اتفاق کیا جو ہمارے اکابرین کے متفقات تھے ان کو دوبارہ زیر بحث نہیں لایا جائے گا اور ہم اس نظام کے اصلاح کے لیے جو جدوجہد کر رہے ہیں اس جدوجہد کو ہم جاری رکھیں گے اور اس کے بعد وفاق المدارس عربیہ نے کوئی ڈیڑ سو علماء کرام پورے ملک کے طول و عرض سے بلائے اور انہوں نے تو پاکستان کے اندر دینی مقاصد کے لیے صحیح لیکن اسلحہ اٹھا کر اس کے لیے جنگ لڑنا اس کو غیر شرعی تک کہہ دیا تھا تو ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں ہم نے اپنے ملک کے لیے سوچنا ہے اور ہم اپنے ملک کی بھی بات کرنا چاہتے ہیں اب یہاں پر حضرت بات ہوتی ہے کہ ٹی ٹی پی ہو یا کوئی دوسری داعش ہو یا القاعدہ ہو یا کوئی اور جتنے بھی نام ہیں اس عمل سے ہمارا اگر اتفاق ہوتا تو میں یہاں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوتا میں کل پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا۔

اینکر: تو کیا یہی وجہ ہے آپ کے پاس جو تھریٹ آئی ہوئی ہے کہ آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟

مولانا صاحب: ہاں اب یہی ہے کہ اگر میرے نقطہ نظر سے آپ کا اختلاف ہے تو اپ واجب القتل ہے یہ ہے انتہا پسندی، نظر کا اختلاف ہو سکتا ہے میں اور طرح سوچ رہا ہوں آپ اور طرح سوچ رہے ہیں لیکن ہم نے ایک دوسرے کو گنجائشیں ہی دینی ہوتی ہے سیدھا جب میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں سیدھا میں کافر ہو جاتا ہوں اور سیدھا میں واجب القتل ہو جاتا ہوں یہ جو ذہنیت ہے اس کو ہم نے کس طرح تحلیل کرنا ہے۔

اینکر: دیکھیں جو تھوڑا اکوڑہ خٹک پہ حملہ ہوا ہے وہاں جو آپ نے جہاد کی بات کی روس کے خلاف جو شروع ہوا تھا اس میں مدرسہ حقانیہ کا بہت اہم رول تھا اور جو طالبان کی بہت ساری قیادت وہاں سے پڑھ کے گئے اس پہ حملہ ہونا اور ان لوگوں کی پناہ گاہ جو ہے وہ افغانستان ہے یہ تضاد نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی ہو یا داعش ہو ہیں تو افغانستان کے اندر وہاں کے طالبان حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ جہاد ختم ہو گیا لیکن جنہوں نے جہاد کی تربیت کی تعلیم دی انہی پہ حملے وہ کر رہے ہیں۔

مولانا صاحب: میں نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے ابصار عالم صاحب میں اس میں کسی قسم کا کوئی آخری جملہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہو اور نہ ہی ایک جملے میں سارے معاملات کو بند کرنے کے لیے میں آمادہ ہوں اس پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور میں جب افغانستان گیا تھا الیکشن سے پہلے تو انہوں نے مجھے دعوت دی اور میں اپنی پارٹی کے کپیسٹی میں وہاں جانے کے لیے آمادہ ہوا لیکن چونکہ مجھے مسائل کا پتہ تھا کچھ مشکلات تھی مہاجرین کے حوالے سے سرحدات کے حوالے سے تجارت کے حوالے سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے وغیرہ وغیرہ تو میں نے یہ سوچا کہ میں ملک کو کیوں فائدہ نہ پہنچاؤں میں اپنے ملک کی مشکل کو کیوں نہ حل کروں اس میں کوئی کردار کیوں نہ ادا کروں تو میں نے وزارت خارجہ کو حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لیا اور ان کی مشاورت سے ہم نے ایجنڈا طے کیا کہ ہم نے وہاں کن کن ایشوز پہ بات کرنی ہے اور پاکستان کو کن مسائل میں بات کر رہی ہے اور وزارت خارجہ میں ہمیں باقاعدہ بریفنگ دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ اگر آپ جا رہے ہیں اور آپ نے ان سے بات کرنی ہے تو یہ یہ چیزیں ہیں کہ جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں حل کرنی چاہیے چنانچہ میں گیا اور میں نے وہاں ایک ہفتہ گزارا میرے رفقاء میرے ساتھ تھے علمائے کرام کا وفد میرے ساتھ تھا اور ہم نے تمام ایشوز پر بات کی اور بات کر کے ہم نے مسائل حل کیے نتائج حاصل کی اس کے وہاں پر ہم نے، اور یہاں ا کر میں نے رپورٹ کیا اور اس رپورٹ کو انہوں نے تسلیم کیا قبول کیا اپریشیٹ کیا خراج تحسین پیش کیا مجھے، اب سوال یہ ہے آج کہ میرے تو ملک ہے الیکشن ہو گیا مجھے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں ہے میرا اختلاف ہو گیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ان پارٹیوں کے ساتھ بھی جنہوں نے ان کو غلط الیکشن کو تسلیم کیا اور حکومتیں بنائی اپوزیشن میں جا کر میں بیٹھ گیا اب یہ میرے داخلی معاملات پر اختلاف رائے ہیں میری اسٹیبلشمنٹ کے اندر اور میری حکومت کے اندر یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ جو ہم نے کامیابیاں حاصل کی تھی ان کو صحیح طور پر فالو کر سکیں اور اس پر معاملات کو بہتری کی طرف لے جا سکے وہاں دوبارہ معاملات خراب ہو گئے اب جب معاملات خراب ہو گئے تو حضرت بات یہ ہے کہ جو لوگ جس کے بارے میں آپ نے اشارہ کیا کہ وہاں پر بیٹھے ہوئے پناہ میں ہیں وغیرہ وغیرہ حضرت یہ وہاں کے لوگ ہمارے پناہ میں بھی تھے یہ ہم ایسے پڑوسی ہیں کہ جہاں بیس پچیس سال تو ان کے ہمارے ہاں پڑے یہ جو امریکہ کے خلاف بیس سال افغانی جنگ لڑ رہے تھے تو ایک طرف ہم امریکی اتحادی تھے دہشتگردی کے خلاف ہم نے ان کو امریکیوں کو اڈے دیے ہوئے تھے ہم نے امریکیوں کو فضائیں دی ہوئی تھیں ہمارے اڈوں سے اٹھ کر ہمارے فضاؤں سے گزر کر وہاں پر بمبار کرتے تھے دوسری طرف جو امریکہ کے خلاف لڑنے والے لوگ پاکستان میں آگئے تھے ان کو ہم کور بھی یہاں دے رہے تھے۔

اینکر: تو یہ پالیسی تھی؟

مولانا صاحب: اس پہ میں بعد میں آتا ہوں یہ سارا کچھ ہم نے کیا تو آج یہ صورتحال ہو سکتی ہے کہ جہاں ہمارے لوگ وہاں گئے تیس چالیس ہزار لوگ اور وہاں بیس سال تک لڑے تو اب ان کے ساتھ مل کر مورچوں میں لڑنے کے بعد کیا اب ان کو بندوقیں اٹھا کر وہ آپ کے حوالے کر دے کہ اب ان کو قتل کر دو ظاہر ہے جی ان کے لیے بھی مشکلات ہیں تو کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں ہم نے اتفاق رائے حاصل کیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا مقصد ایک ہی ہے لیکن آپ عجلت کا تقاضہ کر رہے ہیں اور ہم مہلت کا تقاضا کر رہے ہیں ہمیں ان چیزوں کے لیے وقت چاہیے آپ کہتے ہیں فوراً کرو یہ اس پہ ہمیں تھوڑا سا ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا اور ایک مشترکہ سٹریٹجی کی طرف ہمیں جانا ہوگا تو اس پر اتفاق رائے ہو گیا کہ جی ٹھیک ہے آپ بھی جو کچھ کر سکتے ہیں تو ہم نے آج معاملہ کیوں بگاڑ دیا مجھے اب اس کا پتہ نہیں ہے۔

اینکر: معاملہ بگاڑنے کی آپ نے بات کی کیا افغانستان سے جنگ ہونے جا رہی ہے؟

مولانا صاحب: ہم ایک افغانستان کی جنگ کو نہ روئے تو اچھا ہے ہماری پوری جو مغربی سرحد کی پٹی ہے چاہے وہ پشتونوں پر مشتمل ہے یا وہ بلوچوں پر مشتمل ہے گوادر سے لے کر پنجگور اور تربت سے لے کر ہمارے چترال تک اور باجوڑ تک اور یہ سارے علاقے جو ہے یہ پورا ہمارے ملک کے اندر کی جو انسرجنسی ہے یہ اپنا ایک الگ ایشو ہے اس کے اندر ہم افغانستان سے بھی لڑنے والی پالیسی اختیار کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیوں کا مکمل اختیار وہ اس کے اتھارٹی صرف ہماری اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور چونکہ وہ فوج ہے فوج کی تربیت جنگی ہوتی ہے وہ صرف اپنی سوچ اور اپنی اپروچ کے تحت فیصلے کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ان کا نتیجہ جو ہے جنگ کے علاوہ کچھ بھی پھر سامنے نہیں ائے گا تو ملک کے اندر بھی لڑنا ملک کے باہر بھی لڑنا انڈیا کے ساتھ نہیں لڑنا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے ایران نے ایک دن ہم پر حملہ کیا اگلے دن ہم نے وہاں اندر جا کر ٹارگٹ کیا اس کے بعد تیسرے ہم پھر آپس میں مل کر بیٹھے اس کے بعد ان کے وفود بھی آرہے ہیں ہمارے وفود بھی جا رہے ہیں یہ افغانستان کے حوالے سے ہم اس سے مختلف کیوں سوچ رہے ہیں۔

اینکر: خدشہ ہے آپ کو افغانستان کے ساتھ جنگ کا؟

مولانا صاحب: میں ابھی اس حوالے سے تھوڑا امید رکھتا ہوں کہ اس پر مزید ابھی سوچ کی گنجائشیں موجود ہیں یکدم یہ کہہ دینا کہ جنگ کا خطرہ ہے اور خطرہ ہے یہ نہ میں افغانستان کے لیے مفید سمجھتا ہوں اور نہ پاکستان کے لیے مفید سمجھتا ہوں میں اپنی گفتگو میں ضرور احتیاط برتوں گا کہ اگر ہم اس کی طرف کچھ تھوڑا سا اگے بڑھ رہے ہیں تو ہمیں قدم روک دینی چاہیے اور ہمیں ایک ہمہ جہت ایک جامع ایک حکمت کی طرف جانا چاہیے، میں دعوت دیتا ہوں حکمرانوں کو کہ وہ ذرا تھوڑا سا ان تمام معاملات پر سوچیں تمام پارٹیوں کو بلا لیں تمام تنظیموں کو بلا لیں پاکستان کے اندر سارے سوچ موجود ہیں ہماری معیشت تباہ ہو رہی ہے اس حوالے سے اکنامسٹ کو بلا لیں وہ آپ کو کیا مشورہ دے رہے ہیں سیاستدان کیا مشورہ دے رہے ہیں اور ہمارے جو ادارے ہیں ان کی بھی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے ان کی بھی اپنی رپورٹس ہوتی ہیں وہ بھی شیئر کریں سب کے ساتھ، جب تک ہم ایک جامع پالیسی نہیں بنائیں گے یہ بات غلط ہے ابصار عالم صاحب کہ وہاں جے ایچ کیو میں بیٹھ کر ایک ایجنڈا بھی بنا دیا جائے ایجنڈے کے تحت آپ حکمت عملی بھی طے کر لیں آپ اس کے نتائج بھی طے کر لیں اور پھر اکر ہمیں کہیں کہ جی اب آپ ہمیں سپورٹ کریں تاکہ قومی موقف آئے۔

اینکر: اس پہ میں مزید بات کرنا چاہتا ہوں پہلے ایک تھوڑا سا بریک، پروگرام میں دوبارہ خوش آمدید

مولانا صاحب آپ فرما رہے تھے بریک پر جانے سے پہلے کہ فیصلے ہو جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کو آکے بتابا جاتا ہے ابھی قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ بھی ہوئی ہے اس میں ہم نے دیکھا آپ نے الگ سے ایک اعلامیہ جاری کیا تو یہ مجھے بتائیے گا کہ آپ کی جو میٹنگ تھی اس میں آپ کو محسوس ہوا جو آپ پہلے بھی بات کر رہے تھے کہ افغانستان سے جنگ کا خطرہ ہے یا کوئی تیاری ہو چکی ہے کیونکہ بلوچستان میں بھی دیکھتے ہیں ہم خیبر پختون خواہ میں بھی کہ جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کے ڈانڈے وہیں سے ملتے ہیں اور ساتھ انڈیا سے بھی ملتے ہیں تو اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے نواز شریف کے لیے م بھی آپ نے کہا ہے بریک سے پہلے کہ آپ کوئی رول پلے کر سکتے ہیں نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ اس معاملے پہ نظر ڈالنی چاہیے کیا ہوسکتا ہے اب آپ یا نواز شریف کیا کر سکتے ہیں؟

مولانا صاحب: آپ یکدم سے نتیجے پہ چلے گئے میں اس سے پہلے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ان کیمرہ اجلاس بلایا جاتا ہے تو پھر وہ گفتگو وہ مباحثہ وہ مکالمہ وہ امانت ہوتا ہے ہم نے کوئی نمبرز گیم نہیں کی وہاں اسمبلی میں، ہم نے اپنے دل کی جو آواز تھی وہ پورے دیانت کے ساتھ ان تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اور خدا کرے کہ وہ ان کو اسی زاویے سے سمجھے کہ ہم نے نیک نیتی کے ساتھ جو ہمارے ذہن میں سوالات تھے جو تضادات تھے ان کی پالیسیوں میں ان کی نشاندہی کی ہم نے، لیکن مجھے اس بات کو بہت ہی شدت کے ساتھ اس کا احساس ہوا کہ اس کے مسلسل ٹکرز چلتے رہیں کہاں سے لیک ہوتی رہی کون کرتا رہا ہے ظاہر ہے کہ ہمارے پاس تو یہ صلاحیت نہیں تھی تو جس وقت ہمارے وہاں کے گفتگو میں پبلک کے اندر اس کی غلط ترجمانی کی گئی میڈیا کے ذریعے سے تو پھر ہم مجبور ہوئے کہ ہم اپنی وضاحت پبلک کے سامنے اپنے موقف کو، تو یہ ایک مختصر سا ہم نے اس کا خلاصہ جو ہے وہ تھوڑا سا پبلک کے سامنے رکھا ہے حالانکہ میں اس گفتگو کو امانت سمجھتا ہوں اور کچھ چیزیں جو شاید ہم عام طور پر پبلک میں نہیں کرنا چاہتے اور وہ ہم نے اس ماحول میں کی ہیں اور میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ بہت سی چیزیں جب تک ایک فریق کہتا ہے کہ معاملات جو ہیں وہ ابھی خفیہ ہونے چاہیے راز میں رہنے چاہیے تو دوسرے فریق پر راز میں رکھنا واجب ہو جاتا ہے شرعی مسئلہ ہے۔

اینکر: میں اس لیے بات کروں کہ آپ نے فرمایا کہ خدشہ آپ کو لگ رہا ہے کہ یہ اس طرف قدم جا رہے ہیں جنگ کی طرف، یہ خدشہ آپ کو کہاں سے لگا کیا ایسی کوئی بات ہوئی ہے وہاں پہ؟

مولانا صاحب: تو اس حوالے سے حضرت نا ہم جنگ کا مشورہ دیں گے ہم ملک کے اندر امن وامان چاہتے ہیں وہ کیسے، یہ ذمہ داری میری نہیں اور ابصار عالم صاحب یہ بہت آسان بات ہے میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں، میں آپ کے لیے بڑا آسان ٹارگٹ ہوں جب چاہیں جہاں چاہیں آپ مجھے پکڑ لیں اور مجھ سے سوالات شروع کر دے جبکہ ان سوالات کے ساتھ میرا تعلق نہیں جس جس سوال کے ساتھ جن کا تعلق ہے وہاں آپ کی رسائی نہیں ہے جن سے آپ نے پوچھنا چاہیے۔ تو میں نے یہی ان سے کہا کہ آپ ایجنڈا بھی لاتے ہیں حکمت عملی بھی لاتے ہیں پھر آپ کہتے ہیں اس کو سپورٹ کریں ابھی بھی میں نہیں سمجھتا کہ ان کی پوری حکمت عملی سے ہم آگاہ ہے لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے امن دے وہ مذاکرات کے ذریعے مجھے امن دیتا ہے مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو طاقت کا استعمال کرتا ہے طاقت کے استعمال بھی دنیا میں ہوتے رہتے ہیں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ نہیں ہوتے لیکن طاقت استعمال ہوئی 2010 سے لے کر آج 2024 تک طاقت ہی استعمال ہوئی ہے۔

اینکر: بات چیت بھی استعمال ہوئی ہے۔

مولانا صاحب: نہ بات چیت کا نتیجہ سامنے آرہا ہے نہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ سامنے ا رہا ہے۔

اینکر: وجہ کیا ہے؟

مولانا صاحب: یہی سمجھنا چاہیے نا کہ کہیں خلا ہے۔

اینکر: یہ کیا ہے خلا؟

مولانا صاحب: بات یہ ہے بنیادی کہ میرا ایک جرنل کہتا ہے کہ میں نے باڑ لگا دی ہے اور کسی کا باپ بھی ادھر سے جا سکتا ہے نہ اُدھر سے جا سکتا ہے پھر دوسرا جرنل صاحب کہتا ہے کہ میں نے باڑ اکھاڑ کے پھینک دیا ہے فضول قسم کا پاکستان کا خرچہ کیا ہوا اب جنہوں نے باڑ لگائی تھی انہی کی دور میں لوگ واپس ائے ہیں جنہوں نے باڑ لگائی انہی کے دور میں لوگ وہاں افغانستان گئے پھر جنہوں نے باڑ اکھاڑ دی ہے اب کہتے ہیں کہ جی وہاں سے لوگ ا رہے ہیں یہ وہاں سے لوگ انا اور وہاں لوگوں کا جانا وہ بھی ایک جرنل کی نگرانی میں ہو رہا ہے اور اب ان سے لڑنا بھی ایک جرنل کی نگرانی میں ہو رہا ہے تو ادارے کے اس عمل میں تسلسل کیوں نہیں ہے کل سوچ اور تھی اور ریجیم کی تبدیلی کے ساتھ پالیسی تبدیل ہو جانا سوچ تبدیل ہو جانا اور ان کو اس کا مجرم قرار دے دینا اب یہ میرے سے کرنے کا سوال ہے یہ مجھ سے پوچھنے کا سوال ہے کہ یہ میں اس کا میں جواب دوں کہ کیوں ہو رہا ہے جی، بات بنیادی یہ ہے کہ کہیں خلا تو ہے نا، جس خلا کا کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے بات اب یہ ہے کہ اب ایک ہے نظریہ اگر حقوق کی جنگ ہے اگر نظریے کی جنگ ہے اسلام کا مطالبہ ہے میرا بھی مطالبہ ہے صوبائی حقوق کا مطالبہ ہے میرا بھی مطالبہ ہے میں بھی کہتا ہوں بلوچستان کے وسائل کا مالک بلوچستان کے بچے ہیں ان کی اولاد ہے ان کے لوگ ہیں خیبر پختونخوا کے وسائل ہیں تو ان کے مالک جو ہیں خیبرپختونخواہ کے لوگ ہیں حقوق کی بات ہے ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں صوبے اپنا حق مانگ رہے ہیں پنجاب کو بھی حق ہے سندھ کو بھی حق ہے اسلام کے کوئی مطالبہ کر رہا ہے بالکل ٹھیک مطالبہ ہے ہم اسلام کے مطالبے سے بھی کوئی انکار نہیں کر رہے لیکن اس کے لیے اسلحہ اٹھانا چاہیے یا سیاسی محاذ پر ہمیں وہ بات کرنی چاہیے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ سیاسی محاذ پہ بات کرنی چاہیے۔

اینکر: اچھا اس پہ جیسا آپ نے کہا کہ مجھ سے سوال کیوں پوچھا، یہ سارا جو دور گزرا چالیس سال کا، ہم دیکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ جو بھی کیا کوئی نہ کوئی سیاسی قوت ان کے ساتھ رہی ہے کبھی ایم ایم اے کی صورت میں کبھی مسلم لیگ ن کی صورت میں کبھی پی ٹی ائی کبھی پیپلز پارٹی تو اس لیے لوگ سیاستدانوں سے تو سوال پوچھیں گے اس وقت مجھے یہ لگ رہا ہے کہ سیاست دانوں کا اور اسٹیبلشمنٹ کا آپس میں مس ٹرسٹ ہے اس لیے کسی نتیجے پہ نہیں پہنچا جا رہا، کسی جوائنٹ سٹریٹجی کو فائنلائز نہیں کیا جا رہا ہے کیا یہ درست ہے؟

مولانا صاحب: اس میں کوئی شک نہیں ہے دیکھیے ایم ایم اے جو تھا وہ فوج کے ساتھ نہیں تھی لیکن اس نے ملک کے اندر سیاسی خلا پُر کیا تھا اب جب جنگ چھڑی تو آپ کو پتہ ہے سب سے بڑے مظاہرے میں نے کی ایم ایم اے نے کی ہے جنگ ہم نے لڑی مشرف کے ساتھ، میں جیل میں رہا، قاضی حسین احمد جیل میں رہے، ہمارے کارکن جیل میں رہے، ہمارے کارکن لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، کہ آپ نے امریکیوں کو اڈے کیوں دیے ہیں جی، تو سب سے مد مقابل زبردست مخالف قوت جو تھی وہ ہم ہی تھے پیپلز پارٹی اگر مخالف تھی تو وہ انٹرنل پالیٹکس کے حوالے سے تھی مسلم لیگ اگر مخالف تھی تو وہ انٹرنل پالیٹکس کے حوالے سے تھی اور جو افغانستان کے حوالے سے اور امریکہ کے وہاں مداخلت کے حوالے سے مشرف کے مقابلے میں براہ راست کوئی قوت سامنے ائی تو وہ ایم ایم اے تھی اور اس کے اندر جمیعت علماء سب سے زیادہ واضح طور پر تھی اب اس فرق کو لوگ نہیں سمجھتے کہ داخلی سیاست کے حوالے سے رویے کا کیا انعام ہوتا ہے بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے رویے، اس فرق کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں ضرورت ہوگی اور اس دور میں جب ہم جائیں گے تو یہ دونوں چیزیں جو ہیں وہ بڑی کھل کر سامنے آجاتی تھی۔

اینکر: اچھا آپ نے ابھی ذکر کیا نواز شریف صاحب کو بھی اپنا رول پلے کرنا چاہیے آپ کے خیال میں نواز شریف صاحب کے ساتھ جو ہوا ہے پچھلے پندرہ بیس سال میں اس کے بعد وہ کیا رول پلے کرے جب انہوں نے رول پلے کرنے کی کوشش کی ان کی تو رول ہی ختم کر دیا اب آپ کیا سمجھتے؟

مولانا صاحب: رول ختم نہیں کرنا چاہیے نا کسی کا جی اگر رول ہم ختم کریں گے دیکھیں کچھ لوگ سینیئرز ہوتے ہیں اس کا کسی مجلس میں بیٹھنے سے مجلس کی وقار پیدا ہوتی ہے اب ان کے ساتھ ہمارا سیاسی اختلاف بھی ہے وہ حکومت کر رہے ہے اور ہم ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن سیاست میں حضرت کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ اختلاف رائے کے باوجود ان کو سینیئر تسلیم کیا جاتا ہے اور توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بڑے ہونے کے ناطے وہ کوئی ایسا کردار ادا کرے کہ جو مسائل کے حل کی طرف ایک امید کی بات ہو سکتی ہے تو میں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا ہے آج بھی میرے دل میں ان کے لیے احترام موجود ہے لیکن یہ ہے کہ وہ بالکل ہی ایک سین سے غائب ہو گئے ہیں اور کوئی ان کا بظاہر بڑا کردار ان کا سامنے نظر نہیں ارہا ہے اگر وہ اپنے کچھ ذمہ داریوں کو لے کے اگے بڑھتے ہیں۔

اینکر: کیا ایکسپکٹ کرتے ہیں، آپ کے خیال میں کیا ان کو ذمہ داری لینی چاہیے؟

مولانا صاحب: نہیں میں ایکسپکٹ نہیں کر سکتا کیونکہ اب دوسرے کسی لیڈر کے بارے میں یہ کہنا کہ تم نے یہ بھی کرنا یہ بھی کرنا ہے یہ شائد مناسب نہیں ہے تو ان کا رول ہے یہ جو ہمارے ہاں جو معاملات بگڑے ہوئے ہیں الیکشن خراب ہو گئے ہیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے 2018 کا الیکشن متنازعہ،پھر 2024 کا الیکشن متنازعہ، تو پاکستان میں جمہوریت تو ہار گئی تو جمہوریت شکست کھا رہی ہے اور جب جمہوریت شکست کھائے گی تو پھر انتہا پسندی اور شدت پسندی جو ہے وہ وہ کامیاب ہو گئی۔

اینکر: مولانا صاحب اس وقت جو ماحول ہے انتہا پسندی کا اس میں آپ اور دوسری جو اپوزیشن جماعتیں وہ کہہ رہی ہیں عید کے بعد ہم تحریک کا آغاز کریں گے تو آپ سمجھتے ہیں کہ اس ماحول میں جہاں پہ بلوچستان خیبر پختونخوا میں جنگ جاری ہے افغانستان سے جنگ کے خدشات ہیں اس میں پاکستان کی تمام اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں جو ہیں وہ ایک تحریک شروع کرتے ہیں یہ آپ کے خیال میں پی ٹی ائی جو چاہ رہی ہے آپ ان کے ساتھ مل کے تحریک شروع کریں گے اس ماحول میں؟

مولانا صاحب: دیکھیے تحریک تو ہم نے پہلے بھی اکیلے چلائی پی ڈی ایم تھا تب بھی جمعیت تحریک چلا رہی تھی باقی قائدین تو کنٹینر پر ہی اتے تھے اور میٹنگوں میں شریک ہوتے تھے اور اب بھی اپوزیشن جو ہے وہ میٹنگوں میں شریک ہوتی ہے ایک دوسرے کے ساتھ ہم بات چیت بھی کر رہے ہیں پارٹیز پہ بھی چائے پارٹی ہو گئی افطار پارٹی ہو گئی اس میں بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں بات چیت بھی چلتی رہتی ہے اور ایک اچھا ماحول جو خاص طور پر جے یو ائی اور پی ٹی ائی کے درمیان ایک تلخ ماحول تھا آج وہ ایک اعتدال پہ انے کی طرف جا رہا ہے رویوں میں نرمیاں آرہی ہیں اور اس میں ہمیں ایک دوسرے کو کچھ سمجھنے کی بھی مواقع مل رہے ہیں تو یہ ایک اچھی سمت ہے جس کی طرف سفر ہو رہا ہے۔

اینکر: بعد میں بھی یہ رویے ایسے ہی رہیں گے؟

مولانا صاحب: میں اس کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھنے کی بات کر رہا ہوں عارضی طور پر بات نہیں کر رہا ہوں۔

اینکر: نہیں آپ تو رکھ رہے ہیں پی ٹی آئی کے بھی آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی یہ خواہش ہے کہ یہ رویہ بہتر ہو جائے؟

مولانا صاحب: اسی سوال کو ختم کرنے کی میں کوشش کر رہا ہوں تو یہی چیزیں جو ہیں ہمیں اگے بڑھانے ہوں گی صرف یہ نہیں کہ میں ایک محدود وقت کے لیے ایک محدود فائدے کے لیے تو دوستی کروں اور پھر اگے جا کر پھر کہوں کہ جب میرا مطلب اب پورا ہو گیا ہے تو ضرورت نہیں ہے، اختلاف تو رہیں گے اب اختلاف تو پیپلز پارٹی سے بھی میرا ہے مسلم لیگ ن سے بھی ہے نیشنل پارٹی سے بھی ہے بلوچوں کے قوم پرست جماعتوں سے بھی ہے لیکن دوستیاں بھی ہیں تعلق بھی ہے احترام بھی ہے اٹھنا بیٹھنا بھی ہے وہ چیزیں یہاں پر بھی ہونی چاہیے جب ہم دونوں اپوزیشن میں ہیں تو کوئی پارٹی دو اپوزیشن نہیں کرتی، یا حکومت کرنی ہوگی یا اپوزیشن کرنی ہوگی اپوزیشن کا اپوزیشن تو یہ دونوں چیزیں نہیں چلتی جی، ہمیں حالات سے بھی سیکھنا ہے اور ہم نے حالات کا فائدہ بھی اٹھانا ہے۔

اینکر: اچھا ابھی آپ یہ جو کچھ لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پی ٹی ائی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ طے ہو رہے ہیں، حکومت مشکل میں جائے گی کیوں کہ حکومت اس طرح پرفارم نہیں کر پا رہی جس طرح اسے سیاسی محاذ پہ کرنا چاہیے آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کی اگر یہ سٹریٹجی ہے تو یہ ٹھیک ہے اور ایسا کچھ ہو جائے گا؟

مولانا صاحب: یہ متضاد قسم کی چیز ہے خبریں اتی ہیں اور یہ اس قابل نہیں ہے کہ میں اس پر تبصرہ کروں ہوائی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں نا کوئی اس کے پیچھے ثبوت نہ اس کے پیچھے کوئی حالات کہ رابطے ہیں نہیں ہیں بات ہو رہی ہے نہیں ہو رہی باتیں جو دنیا میں ہر جگہ ہوتی رہتی ہے کون سی کون سی دنیا کہ جہاں کوئی نہ کوئی بات نہ ہو رہی ہو لیکن وہ باتیں باتیں ہی ہوتی ہے۔

اینکر: آپ کے خیال میں عمران خان صاحب کا رول سیاست میں ہے تو کیا ہوگا؟

مولانا صاحب: یہ تو انہوں نے خود ہی طے کرنا ہے ان کی پارٹی ہے ان کا اپنا ایک مستقبل ہے کیا مستقبل ہے کیا نہیں ہے لیکن سیاست کے اندر حضرت ہمیں وہ گنجائش رکھنی چاہیے کہ کسی محاز پہ بیٹھ کر ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور بات چیت کر سکیں۔

اینکر: تو اس میں عید کے بعد جو ان کا تحریک چلانے کا ارادہ ہے اور آپ کو چاہ رہے ہیں کہ آپ قیادت کریں اس تحریک کی۔

مولانا صاحب: نہیں عید کے بعد کا جو معاملہ ہے شائد ان کی طرف سے تو کوئی ایسی بات نہیں ہے لیکن جمعیت علماء اسلام نے اپریل میں اپنی جنرل کونسل کا اجلاس بلا لیا ہے ہمارے جنرل کونسل جو ہے وہ تقریبا کوئی چودہ سو اراکین پر مشتمل ہے پورے ملک سے مندوب اتے ہیں اس میں اور اس نے پالیسیز طے کرنی ہے کیونکہ ہمارے ابھی تازہ ہی پچھلے سال رکن سازی ہوئی پھر تنظیم سازی ہوئی اور اسی میں ہماری جو سب سے بڑی کونسل ہے جنرل کونسل وہ وجود میں ائی پھر اس کے بعد شوریٰ وجود میں ائی ہے تو اس کے بعد مجلس عاملہ ہے۔ تو اس کا پہلا اجلاس ہوگا انتخابی اجلاس کے بعد اور اس کے سامنے ہم یہ ساری صورتحال رکھ کر مستقبل کی پالیسیوں کی منظوری لیں گے ان سے، اس کے بعد پھر جو ہے حکمت عملی طے کریں گے۔

اینکر: ایک تو آپ نے الیکشن کہہ رہے ہیں کہ چرائے گئے آپ کے اور پی ٹی ائی بھی کہہ رہی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تمام جماعتیں سوائے آپ کی جماعت کے اقتدار میں ہے پی ٹی ائی کی اس وقت خیبر پختونخوا میں حکومت ہے تو انتخاب چرایا کس نے اور خیبر پختونخواہ میں آپ کا خاص طور پر انتخاب کس نے چرایا اور دوسرے پورے ملک میں؟

مولانا صاحب: دیکھیے ایک بات بڑی واضح میں کہنا چاہتا ہوں جی ہم سیاسی لوگ اپس میں ویسے لڑتے ہیں جن کو اقتدار ملتا ہے ان کو بھی مینج کیا جاتا ہے جن کو باہر کیا جاتا ہے ان کو بھی مینج کیا جاتا ہے اب کارستانی تو ہے ساری کی ساری اسٹیبلشمنٹ کی اور ہم سیاستدان ایک دوسرے کے گریبان پھاڑ رہے ہوتے ہیں تو میں تو واضح طور پر جی پہلے دن سے اس اسمبلی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ کہہ رہا ہوں عوام کا نمائندہ نہیں اور اگر الیکشن کو مینج کیا گیا ہے تو وہ صرف یہ نہیں ہے کہ وفاق میں کیا گیا ہے صوبوں میں بھی کیا گیا ہے اور ہماری خیبر پختونخواہ کی جو مینڈیٹ ہے یہ بھی عوامی مینڈیٹ نہیں ہے یہ بھی اسی طرح بنائی گئی مینڈیٹ ہے تو ہمارا موقف جو ہے بالکل تسلسل کے ساتھ وہی ہے جو دو ہزار اٹھارہ میں تھا اور آج بھی وہی ہمارا موقف ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ائی لیکن چونکہ اب ہم دونوں اپوزیشن میں ہیں اور اصولی طور پر الیکشن پر عدم اعتماد پی ٹی ائی کا بھی ہے اور ہمارا بھی ہے لیکن یہ ہے کہ اب جب ہم الیکشن پہ اعتراض کر رہے تھے تو اس زمانے میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی تھی اور ہمارے ساتھ تحریک میں بھی تھے تو اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہو گئی ہے۔

اینکر: تو اچھا آخر میں یہ بتا دے کہ بلوچستان کا مسئلہ جو ہے وہ بہت سنگین ہوگیا ہے اور آپ نے بھی ایک تقریب میں فرمایا کہ چھ سات اضلاع جو اگر اناؤنس کر دیں علیحدگی کا تو وہاں پہ رٹ اف گورنمنٹ نہیں ہے تو یونائٹڈ نیشنز بھی انٹریکشن کرے گی اس صورتحال میں لوگوں کے دل میں ایک وہم یا خوف بھی ہے پاکستان کو کہ شاید بلوچستان کو الگ کرنے کی کوئی سازش ہو رہی ہے یا کوئی کاروائی ہو رہی ہے تو اس صورتحال میں اب کیا حکومت کیا مشورہ دیں گے، عوام کو کیا مشورہ دیں گے؟

مولانا صاحب: ابصار عالم صاحب میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور ہمارا ایک ماحول ہے اور جو حالات جس منطقے میں ہیں جو حالات ہیں ہماری پارٹی وہاں کے قریب تر ہے تو ظاہر ہے جی کہ حالات کو دیکھ کر ایک رائے تو بنتی ہے ہماری اور جو صورتحال میں آپ کو اتنی بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو پٹی دنیا میں جہاں بھی ہو بیس سال سے چالیس سال سے پینتالیس سال سے مسلسل جنگ کے زد میں ہو اور وہ ایک فوکس پورے جنگ کا فوکس وہ علاقہ ہو یہ جو ایک لمبی جنگ کسی ایک علاقے میں اتنی طویل ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی حوالے سے جغرافیائی تبدیلیوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے یعنی آپ خود سوچیں یقیناَ کچھ قومیں ہوتی ہیں جو بڑی استقامت کے ساتھ وہ اپنی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھ لیتی ہے مثال کے طور پر آپ بار بار سنتے رہے ہوں گے اور ہم بھی سنتے رہے ہیں کہ افغانستان تقسیم ہو سکتا ہے اور افغان اور خراسان دو نام جو ہے اس علاقو میں اور یقیناً کچھ لوگوں نے وہاں پر افغانستان کو تقسیم کرنے کی باتیں کی بھی، میں نے خود پاکستان کے ایک قوم پرست کے زبان پہ خود سنا جب وہ طالبان کے خلاف تھے اور وہاں جو رجیم تھی اس کی تائید کر رہے تھے مجھے کہا انہوں نے مجلس میں کہا کہ اگر طالبان دوبارہ آئے تو پھر مملکت خراسان ناگزیر ہوگا افغانستان تقسیم ہو جائے گا لیکن ملا عمر کے زمانے میں بھی ہر چند کے شمال ان کے ساتھ نہیں تھا اس وقت، لیکن پھر بھی ان میں تقسیم کے فلسفے کو ناکام بنایا اور آج بھی وہاں پر افغانستان کی تقسیم کے، اب یہ کسی میں تو یہ سکت ہے کہ وہ وحدت برقرار رکھے اب یہ اپنے بارے میں سوچنا ہوگا۔

اینکر: کیا ہم وحدت برقرار رکھنے کی سکت ہے؟

مولانا صاحب: ہم رفتہ رفتہ کمزور ہوتے جا رہے ہیں ہماری جو سٹیٹ رٹ ہے وہ کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔

اینکر: اس کا علاج؟

مولانا صاحب: اس کا علاج یہ ہے کہ ہمیں مشاورت کے ذریعے سے حکمت عملیوں پر پالیسی پہ نظر ثانی کرنی ہوگی، فیصلے کرنے سے پہلے مشورہ اور جنگجویانہ ذہنیت جو ہے اس کو کس طرح تحلیل کریں کس طرح کمزور کریں اس کے ایک راستہ نہیں ہے کئی راستے ہو سکتے ہیں ہمیں سارے راستوں پہ کام کرنا چاہیے اور سیاسی ذہن جو ان علاقوں میں موثر ہے اس سیاسی ذہن کو لا کر، ہمیں اتھارٹی نہیں چاہیے ہمیں کہ آپ نے ایک پپٹ جو ہے وہ سندھ میں بٹھا دیا ایک بلوچستان میں بٹھا دیا کسی کو کے پی میں بٹھا دیا کسی کو پنجاب میں بٹھا دیا کسی کو وفاق میں بٹھا دیا اور آپ خوش ہو رہے ہیں کہ بس اب تو قانون سازی آئین سازی میرے ہاتھ میں ہے اور جو میں فیصلہ کروں گا یہ لوگ تو میری ہی تائید کریں گے اس کو پھر پبلک نہیں مانتی نا، اب بلوچستان میں کیا وہاں کی جو گورنمنٹ ہے یا اسمبلی میں جو لوگ ہیں وہ عوام کے سامنے جانے کی پوزیشن میں ہیں جو ہمارے بلوچ قوم پر سیاسی رہنما تھے جو ذہن رکھتے ہیں سیاست کرتے ہیں آئین کو مانتے ہیں وہ بھی آج وہاں کے حالات کے تحت سے مغلوب ہو چکے ہیں ان کی وہ سیاسی توانائیاں جو ہیں وہ دم توڑ رہی ہیں اور یہی صورتحال اگر یہی پشتونخوا میں بھی بنتی ہے کہ ہم کوئی رول ہی ادا نہ کر سکیں اور ہماری توانائیاں دم توڑ جائیں تو پھر ایک جنگ ہی تو مسئلے کا حل نہیں ہے یہ جنگ انڈیا میں مسئلے کا حل نہیں ہے یہ جنگ ایران کے ساتھ مسئلے کا حل نہیں ہے تو پھر افغانستان میں کیسے مسئلے کا حل ہو سکتا ہے۔

اینکر: بہت شکریہ، آپ سے بڑا مزہ ایا ان شاءاللہ دوبارہ بھی اپ سے بات کریں گے۔

مولانا صاحب: بڑی مہربانی 

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat

 

Maulana Fazl ur Rehman Exclusive Interview With Absar Alam | SAMAA TV 22 March 2025

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا ابصار عالم کو خصوصی انٹرویو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, March 22, 2025

0/Post a Comment/Comments