مارچ 1977 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک۔ محمد زاہد شاہ

مارچ 1977 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک

محمد زاہد شاہ۔ مدیر الجمعیۃ

7 جنوری 1977ء کو بھٹو نے قومی اسمبلی توڑنے اور عام انتخابات کا اعلان کیا۔ 14 اگست 1973 کو نافذ ہونے والے دستور کے مطابق انتخابات 5 برس بعد 14 اگست 1978 کو منعقد ہونا تھے۔ اس کے علاوہ دستور میں ایک سال تک انتخابات کے التوا کی رعایت بھی موجود تھی۔ مگر اس رعایت کا فائدہ اٹھانے کی بجائے حکومت نے اپنی آئینی مدت سے بھی ڈیڑھ برس پہلے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر ڈالا۔ اس جرات کے پیچھے کئی عوامل کار فرما تھے۔ اس وقت تک یحییٰ خان کے دور سے نافذ ایمر جنسی قائم تھی۔ اخبارات کی آزادی سلب تھی ، حالات پر حکومت کی کڑی گرفت تھی۔ بیورو کریسی ، وزیر اعظم کے اشارہ آبرو پر ناچ رہی تھی اور خفیہ اداروں کے ذریعہ معلوم کر لیا گیا تھا کہ حزب اختلاف کمزور ہے اور کسی اتحاد بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ بھٹو صاحب اپنی مقبولیت کے نقطہ عروج پر ہیں۔ بھٹو صاحب نے نئے انتخابات کے انعقاد کا اعلان اور تاریخ کا تعین اس طرح کیا کہ حزب اختلاف کو جو پہلے ہی منتشر تھی، کواپنی انتخابی مہم منظم کرنے کیلئے کم سے کم وقت ملے۔ اس وقت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ یہ تھی کہ حزب اختلاف کی جماعتیں باہمی انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں اور ان میں اتنے تضادات ہیں کہ یہ جماعتیں شاید ہی کوئی انتخابی اتحاد قائم کر کے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے مقابل متفقہ امیدوار کھڑے کر سکیں ۔ پھر حکومت نے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لئے بھی اتنا قلیل وقت دیا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کیلئے اتحاد قائم کر کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تقریبا 660 نشستوں پر متفقہ امیدواروں کی نامزدگی ایک امر محال معلوم ہوتا تھا۔ 

پاکستان قومی اتحاد کے نام سے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد وقت کی یہی قلت حزب اختلاف کے لئے ایک نعمت بن گئی۔ 

انتخابات کا اعلان ہوتے ہی باہمی رابطوں کا کام تیز تر کر دیا گیا۔ دنوں کی مسافت گھنٹوں میں طے ہوئی اور حکومت جس کام کو خارج از امکان سمجھتی تھی وہ کام سہولت سے انجام پا گیا۔ اس وقت لاہور میں ایئر مارشل اصغر خان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ ہم پیپلز پارٹی کو شکست دیں گے۔ مولانا مفتی محمود اسلام آباد سے جہلم روانہ ہو چکے تھے جہاں جمعیت کے کارکنوں کے ایک استقبالیہ سے خطاب کرنا تھا۔ پیر صاحب پگاڑو کراچی میں تھے، نوابزادہ نصراللہ خان نے ان سے رابطہ کیا۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور،این ڈی پی کے سربراہ سردار شیر باز مزاری سب سے بات ہوئی اور اپوزیش کی نو بڑی چھوٹی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کا فیصلہ کیا۔ 10 جنوری 1977 کو شمالی لاہور کے علاقہ شاد باغ میں جمعیت علماء پاکستان کے جنرل سیکرٹری جناب رفیق باجوہ کی اقامت گاہ پر شام کو اپوزیشن پارٹیوں کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جو رات گئے تک جاری رہا اور ایک بجے رات پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک نشان ایک جھنڈے تلے متحد ہونے کا فیصلہ کیا۔ جس کا باضابطہ اعلان گیارہ جنوری کومسلم لیگ ہائوس میں کیا گیا۔ مشترکہ پریس کانفرنس مولانا مفتی محمود ، ایئر مارشل اصغر خان، نوابزادہ نصر اللہ، پروفیسر عبدالغفور، رفیق باجوہ نے کی۔

10 جنوری 1977 کو لاہور میں رفیق احمد باجوہ کی قیام گاہ پر حزب اختلاف کی 9 سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں تمام باہمی اختلافات کو بھلا کر، ایک انتخابی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کا نام پاکستان قومی اتحاد (پاکستان نیشنل الائنس) رکھا گیا جسے عام طور پہ پی این اے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس اتحاد میں جو نو سیاسی جماعتیں شامل تھیں ان کے نام تھے: پاکستان مسلم لیگ ، جماعت اسلامی ، تحریک استقلال، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی، خاکسار تحریک اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس۔ اس اتحاد کا صدر مفتی محمود کو اور سیکریٹری جنرل رفیق احمد باجوہ کو نا مزد کیا گیا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نائب صدر اور پیر صاحب پگارا مرکزی پارلیمانی بورڈ کے چیئر مین مقرر ہوئے۔ 17 جنوری کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان الاٹ کئے اور اتحاد کو ''ہل'' کا نشان مل گیا جس کے بعد 23 جنوری 1977 سے پاکستان قومی اتحاد نے کراچی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔

 انتخابات میں حکومت کی جانب سے بدترین دھاندلی

 7 مارچ 1977 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی 118 نشستوں کے لئے پولنگ ہوئی۔ 19 نشستوں پر امید وار پہلے ہی بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے تھے۔ قومی اسمبلی کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب اور فاٹا میں مشترکہ طور پہ 108، صوبہ سرحد میں آٹھ ، صوبہ سندھ میں 32 اور بلوچستان کی کل نشستیں ملیں، یوں پیپلز پارٹی کو ٹوٹل 155 نشستیں ملیں، جبکہ پاکستان قومی اتحاد کو پنجاب میں آٹھ ، صوبہ سرحد میں 17 ، سندھ میں 11 ٹوٹل 36 نشستیں ملیں۔ صوبہ سرحد واحد صوبہ تھا جہاں قومی اتحاد اکثر نشستوں پر کامیاب ہوا،  بلوچستان میں چونکہ فوجی ایکشن جاری تھا ایسے ماحول میں قومی اتحاد نے بلوچستان میں حصہ لینا بے سود قرار دیا اس لیے چاروں صوبوں میں ساری نشستیں پی پی پی کے حصے میں آئیں۔ پاکستان مسلم لیگ (قیوم گروپ) کے حصے میں ایک نشست آئی ، 8 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی پاکستان قومی اتحاد نے موقف اپنایا کہ ووٹنگ میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ اتحاد نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور 10 مارچ کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔

 انتخابی دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کا اعلان

 12 مارچ کو مولانا مفتی محمود نے تحریک چلانے کے سلسلے میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور 14 مارچ 1977 سے ان نتائج کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ یوں تو یہ تحریک انتخابی دھاندلی کے خلاف تھی، لیکن بعد میں اسے تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا جو کہ 27 مئی 1977 تک جاری رہی۔ اس دوران مزدوروں ، وکلا، علمائے کرام ، طلبہ، خواتین اور بچوں کے تقریبا ساڑھے پندرہ جلوس نکلے۔ تقریبا سات سو عمارات ، دکانیں، دفاتر اور بنک نذر آتش کئے گئے۔ ڈھائی سو افراد لقمہ اجل بنے، بارہ سو افراد زخمی ہوئے اور تقریباً ساڑھے تراسی ہزار افراد پابند سلاسل ہوئے۔ تحریک کے آغاز پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے تین دن میں تین مرتبہ مولانا مفتی محمود سے رابطہ کرنا چاہا مگر مولانا مفتی محمود نے وزیراعظم سے ملاقات کے مقصد کی وضاحت چاہی، آپ سے وزیراعظم کی ملاقات نہیں ہو سکی مگر قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوا (جے یو پی) نے 13 مارچ کو بھٹو صاحب سے خفیہ ملاقات کی اس پر شدید رد عمل آیا اور انہیں نے 15 مارچ کو قومی اتحاد سے نکال دیا گیا ان کی جگہ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو سیکرٹری جنرل چنا گیا۔ تحریک کے سلسلے میں نکلسن روڈ پر قومی اتحاد کا پہلا اجلاس ہوا گرفتاری دینے والوں کی فہرست تیار ہونے لگی تو سب سے پہلے مولانا عبید اللہ انور نے مولانا زاہد الراشدی سے کہا کہ میرا نام لکھوا دو اور کہا کہ سب سے پہلے گرفتاری میں دوں گا۔ بڑی مشکل سے مولانا عبیداللہ انور کو قائل کیا کہ وہ سب سے پہلے گرفتاری نہ دیں اور مفتی محمود صاحب کے مشورے کے بعد طے پایا کہ چند روز بعد گرفتاری دیں۔

 تحریک 27 مئی 1977 تک جاری رہی۔ اس دوران مزدوروں ، وکلا، علمائے کرام ، طلبہ، خواتین اور بچوں کے تقریباً ساڑھے پندرہ سو جلوس نکلے۔ تقریباً سات سو عمارات ، دکانیں، دفاتر اور بنک نذر آتش کئے گئے۔ ڈھائی سو افراد لقمہ اجل بنے، بارہ سو افراد زخمی ہوئے اور تقریباً ساڑھے تراسی ہزار افراد پابند سلاسل ہوئے۔ ہنگاموں پر قابو پانے کیلئے حکومت نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور تین شہروں لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لاء بھی نافذ کیا۔ مگر ان ہنگاموں پر قابو نہ پایا جا سکا۔ ان ہنگاموں کا زور اس وقت ٹوٹا جب 3 جون 1977 کو حکومت اور پاکستان قومی اتحاد کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔

تحریک نظام مصطفیٰ کا آغاز اور پاکستان قومی اتحاد کے مطالبے

تحریک نظام مصطفی قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک تھی۔ پاکستان قومی اتحاد کے لیڈر عوام کے اندر رہ رہے تھے اور مسٹر بھٹو پرائم منسٹر ہائوس میں۔ قومی اتحاد نے عوام کے دلوں میں اٹھنے والی طوفانی لہروں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جبکہ مسٹر بھٹو زبردست ٹھوکر کھا گئے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے جب ١٠ مارچ کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تو پشاور سے کراچی تک عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ لوگوں کے جذبات اتنے گرم تھے کہ وہ محض بائیکاٹ پر قانع نہ رہنا چاہتے تھے۔ پاکستان قومی اتحاد نے اس تقاضے کو بھانپتے ہوئے بوگس نتائج کے خلاف ملک بھر میں عام ہڑتال کی اپیل کی جسے بے مثال پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ مطالبات اٹھائے:

 ١۔ مسٹر بھٹو مستعفی ہو جائیں۔

 ٢۔ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں۔

 ٣۔ انتخابات دوبارہ کرائے جائیں۔

 اور پھر ان مطالبات کے حق میں یکے بعد دیگرے کئی عام ہڑتالیں کرائیں۔ ملک بھر میں دفعہ ١٤٤ کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے جلوس نکالے اور گرفتاریاں دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان قومی اتحاد کے تمام نو منتخب ارکان احتجاجاً قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے۔ پاکستان قومی اتحاد کے ہر اقدام اور فیصلے کو اس کی توقع اور اندازوں سے کہیں زیادہ عوامی تائید اور حمایت حاصل ہوئی۔ پاکستان قومی اتحاد کے تمام مرکزی رہنمائوں نے مختلف شہروں میں گرفتاریاں پیش کیں۔ لوگ اتحاد کے لیڈروں پر پروانہ وار گر رہے تھے۔

تحریک کی شدت اور کراچی حیدر آباد اور لاہور میں مارشل لاء

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک ایک ہیبت ناک طوفان کی شکل اختیار کر گئی۔ جس کے سامنے مسٹر بھٹو کی حکومت کاغذ کی نائو کی طرح ہچکولے کھانے لگی۔ انتظامیہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس طوفانی مدو جزر پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی۔ جس پر مسٹر بھٹو نے تشدد کے ساتھ اس تحریک کو دبانے کا فیصلہ کیا اور گورنر ہائوس لاہور میں اپنے پارٹی کارکنوں کو تشدد کی شہ دی۔ اس سے اگلے روز رتن سینما اور لاہور ہوٹل کی عمارت سے مسٹر بھٹو کا پڑھایا ہوا سبق عملاً دہرایا گیا۔ حکومت کو ہر جگہ منہ کی کھانا پڑی۔ محدود اندازے کے مطابق ایک ہزار افراد نے اس تحریک میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ اپریل کے تیسرے ہفتے تک جب ملک کے تمام شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں روز کا معمول بن گئیں تو حکومت نے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور حیدر آباد میں مارشل لا نافذ کر کے سرسری سماعت کی فوجی عدالتیں بھی قائم کر دیں۔حکومت کے اس اقدام کو ملک غلام جیلانی نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کیلئے ایک پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ۔ اس بنچ کے سامنے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مارشل لا کے نفاذ کے حق میں دلائل دیئے اور کہا کہ مارشل لا ملک میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے لگایا گیا ہے اور فوجی کارروائیاں قانون کے عین مطابق ہیں۔ 2 جون 1977 کو لاہور ہائی کورٹ کی فل بینچ نے متفقہ طور پر مارشل لا کے نفاذ کو ماورائے آئین اقدام قرار دیا اور وفاقی حکومت کو مارشل لا کے نفاذ کے اعلان کو واپس لینے کے لئے کہا۔ ایسا ہی ایک فیصلہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی دیا جس کے بعد حکومت نے یہ اعلان واپس لے لیا لیکن اٹارنی جنرل یحیی بختیار نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ اس مقدمے کی سماعت کرتی جنرل ضیا الحق نے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کر کے حکومت کی بساط ہی لپیٹ دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی یحیٰ بختیار جو حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جزوی مارشل لاء کے نفاذ کے حق میں رطب اللسان تھے تھوڑے ہی دنوں بعد نصرت بھٹو کیس میں مارشل لاء کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دینے کے حق میں دلائل کا انبار لگارہے تھے۔ 

مفتی محمود رحمہ اللہ کی گرفتاری ہری پور جیل دارالعلوم بن گیا

اس دوران حکومت نے مفتی محمود صاحب کو تین دفعہ گرفتار کیا۔ آخری بار لاہور سے گرفتار کر کے پہلے پنڈی اور پھر ہری پور جیل میں رکھا گیا۔ جہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا اور ہری پور جیل ،جیل نہیں دارالعلوم بن گیا، اسیری کے دوران انہیں دینی کتب کے مطالعے کا بے حد موقعہ ملا۔ جیل میں کچھ کتب مولانا مفتی محمود صاحب خود پڑھایا کرتے تھے۔ مفتی صاحب نے جیل میں نماز جمعہ کے جواز کے دلائل نہایت واضح طور پر پیش کیے جس پر انتظامیہ کو اجازت دینا پڑی مفتی صاحب جمعہ پڑھاتے تقریر بھی کرتے، لوگ بہت متاثر ہوئے ابھی تین خطبات دیے تھے کہ سہالہ منتقل کر دیے گئے ہیں۔ 

تحریک نظام مصطفےٰ کے دوران مولانا فضل الرحمن کی گرفتاری

مارچ 1977ء کے وسط میں سرحد اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر قومی اتحاد نے پشاور میں سرحد اسمبلی کا گھیرائو کا اعلان کرتے ہوئے تمام راستے بند کر دیئے، مولانا فضل الرحمن اس وقت اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم تھے اور موقوف علیہ پڑھ رہے تھے جس روز اسمبلی کا گھیراؤ تھا۔ وہ مردان میں تھے اور وہاں سے پشاور پہنچے۔ پولیس نے اسمبلی ہال جانے والے راستے بلاک کر رکھے تھے تاکہ عوام نہ پہنچ سکیں لیکن لوگ مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی چوک پہنچ گئے جہاں بہت بڑا جلسہ ہوا۔ جس کے بعد احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس یونیورسٹی ٹائون سے لے کر پشاور شہر تک کئی میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ پولیس عوام کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر سہمی ہوئی تھی اور سامنے کھڑی تھی۔ مولانا ایوب جان بنوری اور مولانا عبدالباری جان جے یو آئی سرحد کے رہنما تھے۔ جو بڑھاپے کے باعث پیدل چلنے سے قاصر تھے اس لئے جلوس کی قیادت خود بخود مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ آگئی۔ صدر میں ڈین ہوٹل کے قریب پولیس اور مظاہرین میں ٹکرائو ہوگیا۔پولیس نے مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کو گھیرے میں لیا۔ لیکن ان کے ساتھی پولیس کے سامنے ڈھال بن گئے۔ تاہم سخت مقابلے کے بعد مولانا فضل الرحمن اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کرکے شرقی تھانہ پشاور پہنچادیا۔ گرفتاری کے وقت اور پولیس کی بس میں ڈالتے وقت کسی کو پتہ نہ تھا کہ یہ مولانا فضل الرحمن اور سابق وزیراعلی سرحد مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ تاہم رات کو متعدد پولیس افسران نے انہیں پہچان لیا۔ رات بھر مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کو تھانہ شرقی پشاور کی لاک اپ میں رکھا گیا اور اگلے روز ہری پور جیل بھیج دیاگیا۔ 

یہ مولانا فضل الرحمن کی دوسری گرفتاری تھی، اس سے قبل 1974 کی تحریک ختم نبوت میں اس قت گرفتار ہوئے جب آپ ملتان میں اپنے ساتھیوں اور اساتذہ ہ کو چھڑانے کیلئے پولیس چوکی پر پہنچے پولیس نے آپ کو گرفتار کرکے رات کو تھانے میں رکھا اور پھر جیل بھیج دیا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت اکیس سالہ پر جوش نوجوان اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طالب علم تھے۔ ملتان میں تحریک ختم نبوت کے دوران انہیں سات روز جیل میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کرایا گیا۔ 

 14 فروری 1981ء کو لاہور میں جمعیت کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے لاہور پہنچے، وہاں سے ملتان روانہ ہوئے، راستے میں سید امیر حسین گیلانی کے ہاں اوکاڑہ میں رکے کھانا وہاں کھایا۔ وہاں سے ساہیوال پہنچے تو پولیس نے ان کی گاڑی روک کر بتایا کہ ان کی نظر بندی کے احکامات ہیں۔ مولانا عبدالواحد کوئٹہ اور مولانا محمد خان شیرانی آپ کے ہم سفر تھے۔ ان تمام راہنماؤں کو ساہیوال کے ایک ریسٹ ہائوس میں لے جایا گیا جہاں رات رکھنے کے بعد انہیں میاں چنوں لے گئے۔ اور اگلے روز وہاں رکھنے کے بعد رات کے وقت صرف مولانا فضل الرحمن کوایک گاڑی میں سوار کرکے میانوالی روانہ کردیا گیا۔ جبکہ دیگر دونوں رہنمائوں مولانا عبدالواحد اور مولانا محمد خان شیرانی کو رہا کردیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو پولیس کی گاڑی میں رات تین بجے میانوالی لایا گیا۔ جہاں انہیں جیل بھیجنے کی بجائے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ پولیس انہیں کندیاں ریسٹ ہائوس لے گئی۔ جہاں وہ ایک ہفتہ قید تنہائی میں رہے۔

جون 1982ء میں مولانا فضل الرحمن کو تقریباً تین ماہ سے زیادہ عرصہ تک انہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ پھر جیل بھج دیا گیا۔ جیل میں قید تنہائی دی گئی۔ جبکہ سات ماہ تک سی کلاس میں رکھا گیا پھر بی کلا س دے دی گئی۔ اس طرح مجموعی طور پر انہوں نے گیارہ ماہ جیل میں گزارے اور طویل قید تنہائی کاٹی۔ جیلوں میں قید اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا اور مجموعی طور پر پانچ سال اسیری کی زندگی گزاری۔ 7 جون پشین میں گرفتاری ہوئی 8 جون صبح کو جیک آباد، 9 جون کو جیک آباد سے ڈیرہ غازی خان اور 16 ستمبر کو عبدالخیل سے ڈیرہ جیل منتقل کیا۔ اپریل کے آخر میں رہائی ہوئی۔ 

ایم آر ڈی نے 14 اگست 1983 سے باقاعدہ تحریک کا آغاز کرکے گرفتاریاں دینے کا اعلان کیا تو حکومت نے 10 اگست کو مولانا فضل الرحمن کو پشاور سے گرفتار کرلیا اور ہری پور جیل میں رکھا جہاں آپ فروری 1984ء تک قید رہے پھر گھر پر عبدالخیل میں نظر بند کیا اور مارچ 1984 میں رہا ہوئے۔

 دسمبر 1984ء میں ضیاء الحق نے فراڈ ریفرنڈم کا اعلان کیا،اسی روز پشاور میں ناصر خان چوک میں جلسہ ہوا۔ جس میں مولانا فضل الرحمن نے ریفرنڈم کو مسترد کیا۔ ان دنوں جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا اسعد مدنی پاکستان کے دورے پر تھے، مولانا مفتی محمود کی تعزیت کیلئے عبدالخیل تشریف لائے۔ انہیں رخصت کرنے ڈیرہ جاتے ہوئے راستے میں مولانا فضل الرحمن کو گرفتار کرلیاگیا۔ اس طرح فوجی حکمرانوں نے نے ایک معزز ترین غیر ملکی مہمان کی موجودگی میں یہ گرفتاری کرکے ملکی و قار کو بے حد نقصان پہنچایا۔ 

 امریکہ مردہ باد ریلیوں کے سلسلے میں ایک ریلی 4 ستمبر 1999 کو جنوبی وزیرستان میں منعقد کی گئی، وزیرستان میں ایف سی آر کا سہارا لے کر 3 ،اور 4 ستمبر کی درمیانی شب حکومت نے مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی رہائش گاہ سے گرفتار کرکے چشمہ کینا ل ریسٹ ہائوس میں نظر بند کردیا۔ ملک بھرمیں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے بھی اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ٥ ستمبر کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ٢٤ گھنٹے کا الٹی میٹم دیدیا گیاکہ اگر ٢٤ گھنٹے میں مولانا فضل الرحمن رہا نہ ہوئے تو شاہرہ ریشم بند کردی جائے گی مولانا عبدالغفور حیدری نے صوبائی جماعتوں کو ہدایات جاری کردیں کہ اگر چھ ستمبر تک قائد جمعیت کو رہا نہ کیاگیا تو ٧ ستمبر سے پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع کردئے جائیں ،حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور چھ ستمبر سے پہلے ہی مولانا فضل الرحمن کو رہا کردیا گیا۔

 6 اکتوبر 2001ء قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کو تین ماہ کے عرصے کے لئے ان کی رہائش گاہ میں نظر بند کردیا گیا اس ضمن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی ناظم میجر ریٹائرڈ لطیف اللہ خان علی زئی نے نظر بندی کے احکامات جاری کردیئے۔

 8 اکتوبر 2001ء مولانا فضل الرحمن نے ہنگو میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرنا تھا مگر انہیں دوبارہ ان کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں نظر بند کردیا گیا۔ 

14 اکتوبر 2001ء کو مولانا فضل الرحمن کو رات دس بجے ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیاگیا۔ پہلے ضلعی ناظم میجر لطیف اللہ علی زئی نے حکومتی فیصلے کے مطابق رہائی کا حکم سنایا ، مولانا کے گھر کے باہر سے پولیس کا پہرہ بھی اٹھا لیا گیا جس کے بعد انہوں نے مفتی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں خطاب کیا جب گھر آئے تو انہیں رات د س بجے دو بارہ نظر بند کرکے پولیس کا پہرہ لگادیاگیا۔

 26 جون 2004ء .کو قائد جمعیۃ امن مارچ میں شرکت کے لئے کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں موجود سرکاری اہلکاروں نے آپ کو صوبائی حکومت کا حکم نامہ دکھایا اور جہاز سے باہر نہ آنے دیا، جب تمام مسافر اتر گئے تو سب سے آخر میں قائد جمعیۃ کو حراست میں لے لیا گیا اور چوبیس گھنٹے محبوس رکھنے کے بعد دوسرے طیارے کے ذریعے سندھ بدر کرکے اسلام آباد روانہ کردیا گیا۔

     قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اور جنرل ضیاء کا شب خون

 قومی اتحاد کی قیادت کے بھٹو کیساتھ مذاکرات جاری تھے اور بھٹو قومی اتحاد کے مطالبات مان کر دوبارہ انتخابات کرانے پر آمادہ ہوچکے تھے کہ بھٹو کابینہ کے ایک اہم شخص کی مخبری سے جنرل ضیاء کی قیادت میں فوجی جنتا نے راتوں رات اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر بعد ازاں نواب محمد خان کے قتل کا مقدمہ چلا اور ان کی اپنی بنائی ہوئی فیڈرل سیکورٹی فورس کے سربراہ مسعود محمود نے وعدہ معاف گواہ بن کر بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا نے کی کاروائی ممکن بنائی ۔بھٹو کو پھانسی ہوئی، ضیائی مارشل لاء کے خاتمے کے بعد بھٹو کیخلاف عدلیہ کے فیصلے کو عدلیہ سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات نے عدالتی قتل قرار دیا۔ بہت سے سیاسی کارکنوں کے بقول بھٹو کو پھانسی امریکی اشاروں پر دی گئی کیونکہ امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ اگر ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کیا گیا تو آپ کو عبرت کی خوفناک مثال بنا دیاجائے گا۔ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا، ڈاکٹر قدیر خان کو کام کرنے کیلئے وسائل اور سہولتیں دیں۔ ایک مسلمان ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا خواب دیکھنا ان کا جرم قرار پایا، کم وبیش یہی نقطہ نظر بھٹو کے بعدان کی پارٹی کا رہا ۔یوں بھٹو کے قتل کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بھی جو ڑا جاتا ہے۔۔

مارشل لاء کے نفاذ کے حوالے سے مولانا مفتی محمود کا دوٹوک موقف

مفتی صاحب جمہوری سوچ کے سیاستدان تھے وہ فرمایا کرتے تھے لوڑی لنگڑی جمہوریت مارشل لاء سے بہتر ہے۔ ایک دفعہ دوران گفتگو جب ان سے دریات کیا گیا کہ اگر بھٹو کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے تو کیا ہوگا؟ آپ نے پورے اعتماد کے ساتھ فرمایا کہ میں نرم شرائط پر بھٹو سے معاملات طے کر لوں گا لیکن مارشل لاء نہیں آنے دوں گا۔ مفتی صاحب کی رائے یہ تھی کہ مارشل لا کی حکومت میں شمولیت نہ کی جائے مگر قومی اتحاد کی دو جماعتیں شمولیت کا فیصلہ کر چکی تھی ، 1978ء میں قومی اتحاد نے فیصلہ کیا کہ مارشل لا کی وزارت قبول نہیں کریں گے۔ اس پر ضیاء الحق کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا،جنہوں نے ایک بیان میں اتحاد کے رہنماں پر بڑی شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں ۔اس کے بعد مسلم لیگ نے اپنے طور پر حکومت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا اس پر غور کرنے کے لیے قومی اتحاد کا اجلاس 19 جولائی سے 78 ء کو کراچی میں رکھاگیا۔ اس اجلاس میں مفتی محمود صاحب سے کہا گیا کہ جو جماعت آپ کا کہا نہیں مانتی تو اسے اتحاد سے نکال دیں۔مفتی نے کہا کہ : ایک جماعت نہیں دو جماعتوں کو نکالنا پڑے گا جماعت اسلامی والے بھی حکومت میں جا رہے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


0/Post a Comment/Comments