صدر ایوب کی گول میز کانفرنس اور مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی جرات رندانہ (11 مارچ 1969ء)
محمد زاہد شاہ، مدیر الجمعیۃ
جمعیت علماء اسلام نے جنوری 1969ء میں مشرقی پاکستان کی صوبائی کانفرنس رکھی۔ اس موقع پر ڈھا کہ میں 4 , 5 جنوری کو جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس ہوا۔ جس میں جمعیت علمائے اسلام کی مساعی کو ملک کے دونوں حصوں میں تیز تر کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ نیز ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے اشتراک عمل کی اگر کوئی صورت ممکن ہو تو ایسا کرنے کے لیے مولا نا مفتی محمود کو نمائندہ چن لیا گیا۔ ملک میں پہلے سے پاکستان تحریک جمہوریت (PDM) کے نام سے ایک اتحاد موجود تھا۔ جس میں پاکستان عوامی لیگ (نوابزادہ نصر اللہ گروپ) نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ ، کونسل مسلم لیگ، نظام اسلام پارٹی، جماعت اسلامی شامل تھے۔ لیکن (P.D.M) کے مطالبات سے ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کا امکان نہیں تھا۔ انہی تاریخوں میں پی ڈی ایم نے ڈھاکہ میں اجلاس بلایا ہوا تھا اور ان پانچ جماعتوں کے علاوہ جمعیت علماء اسلام، نیشنل عوامی پارٹی (ولی قصوری گروپ) عوامی لیگ (مجیب الرحمن گروپ) کو بھی اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ جمعیت علماء اسلام کی طرف سے مولانا مفتی محمود صاحب نے نمائندگی کی، انہوں نے اپنی جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرمایا: مثبت اور دیرپا اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ اسلام بنیاد اتحاد ہو اور علما کے 22 نکات پروگرام میں شامل کیے جائیں۔ نیز آئندہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے اس لیے کہ موجودہ نظام میں نہ تو حقیقی آزادانہ انتخابات ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ذریعہ موجودہ حاکمیت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مولانا مفتی محمود صاحب کی اس تجویز سے تو اکثر جماعتوں نے اتفاق نہ کیا لیکن آٹھ جماعتوں کا اتحاد جمہوری مجلس عمل کے نام سے 8 جنوری کو ڈھا کہ میں قائم ہو اور دس نکاتی فارمولا پر اتفاق کا اعلان کر دیا گیا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا سیاسی اتحاد تھا۔ اتحاد میں جماعت اسلامی کی شمولیت کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام میں کچھ اختلاف رائے پیدا ہوا۔ لیکن نتائج کے لحاظ سے یہ اتحاد جمعیت کے لیے نیک فال ثابت ہوا اور ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو یہ اعتماد آ گیا کہ جمعیت علمائے اسلام چند مولوی صاحبان کی جماعت نہیں بلکہ صحیح معنی میں ایک دینی سیاسی جماعت ہے۔بلاشبہ تحاد میں ان تینوں جماعتوں کی شمولیت کی بنیاد پر ہی مشرق و مغرب کا اتحاد عمل میں آیا۔ بعض اسلام دوست جماعتوں کے لیڈر ولی خان اور جمعیت کی شمولیت پر زیرلب گفتگو کرتے رہے کہ ان کانگریسی اور اسلام دشمن عناصر کو جمہوری مجلس عمل میں کیونکر شامل کیا گیا ہے۔ یہ سیاسی اتحاد اس وجہ سے بھی اہم تھا کہ اس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ایک پیج پر اکٹھی ہو ئیں جبکہ دونوں جماعتوں میں مذہبی و سیاسی مسائل میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں جماعتوں میں بظاہر کوئی نقطہ اتحاد نظر نہیں آتا تھا جس پر دونوں مل بیٹھیں۔ مگر سیاسی ماحول کے تقاضوں نے دونوں جماعتوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ملک کے بہترین مفاد کی خاطر وقتی طور پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں۔جمعیت علماء اسلام کی طرف سے حضرت مفتی محمود صاحب کو اختیار دیا گیا کہ وہ جمعیت کی طرف سے جمہوری مجلس عمل میں شریک ہوں اور صدر ایوب خان سے گفت و شنید میں بھی شامل ہوں۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب کی جمہوری مجلس عمل میں جمعیت کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام سیاسی حلقوں میں متعارف ہوئی۔
صدر ایوب کی غلط روش اور مجبوراً مذاکرات کیلئے گول میز کانفرنس کا فیصلہ
ایوب خان نے اپنے دس سالہ دور میں مخالفوں کو وطن دشمن اور غدار کہنے کی پرانی تکنیک پرزیادہ کام کیا۔ اس نے شیخ مجیب پر غداری اور ملک توڑنے کی مکروہ سازش کے الزامات عائد کر کے اسے اور اس کے ساتھیوں کو پابند سلاسل کر دیا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کی نیندیں حرام کر دیں۔ جمہوری مجلس عمل کے قیام کے وقت ایوب خاں، اس کے اخبارات اور ریڈیو یہ تاثر دیتے تھے کہ یہ چوں چوں کا مربہ ہے،ایوب خاں اس سے نہیں ڈرتا۔ چنانچہ ہاتھ دھو کر ریڈیو اور اخبارات حزب اختلاف کے پیچھے پڑ گئے مگر ایوب آمریت کی گیارہ سالہ آہنی دیوار میں اندر سے شگاف پڑ چکے تھے، چنانچہ جمہوری مجلس عمل (DAC) کے قیام کے ٹھیک تیس دن بعد یکم فروری کو صدر ایوب خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ملک کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپوزیشن کی گول میز کانفرنس بلائی جائے گی۔ اپوزیشن کو دعوت نامے جاری کر دیئے گئے کہ وہ 17 فروری کو راولپنڈی میں صدارتی ہائوس میں مذاکرات کے لیے تشریف لائیں۔ حزب اختلاف نے مذاکرات کی دعوت میں شرکت یا عدم شرکت کے لیے اپنا ایک اجلاس بلایا جو دو دن تک جاری رہا۔ متفقہ طور پر جمہوری مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے یہ طے کیا کہ صدر سے سیاسی مذاکرات اس وقت کئے جائیں گے جب درج ذیل تین مطالبات فورا تسلیم کر لیے جائیں۔
(1) ہنگامی حالات ختم کئے جائیں
(2)سیاسی قیدیوں اور حالیہ واقعات کے دوران گرفتار ہونے والوں کو فوراً رہا کر دیا جائے۔
(3) شہری آزادیاں بحال کی جائیں۔
حزب اختلاف کے ان مطالبات پر ہمدردانہ غور کا وعدہ کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ چنانچہ جمہوری مجلس عمل نے اعلان کیا کہ وہ گول میز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ ایوب خان نے اپوزیشن کو مزید اعتماد میں لینے کے لیے ریڈیو سے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس اجلاس میں حزب اختلاف اور حکومت کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے،گول میز کانفرنس کیلئے دوبارہ 9 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی۔ کافی دنوں کے تعطل کے بعد 10 مارچ 1969ء کو جب گول میز کانفرنس پھر شروع ہوئی تو ابتدائی تقریر صدر ایوب خاں نے کی۔ ان کے بعد نوابزادہ نصر اللہ خاں نے جمہوری مجلس کی طرف سے دو مطالبات پیش کیے جن کا ذکر او پر آ چکا ہے۔ مولانا مودودی نے کہا: ان دو مطالبات کے علاوہ اگر کوئی جماعت کوئی مطالبہ پیش کرے تو اس کا نقطہ نظر ہوگا اور مجلس عمل کانہ ہوگا۔ شیخ مجیب الرحمن نے نو صفحات پر مشتمل تقریر کی اور اپنے چھ نکات کو اٹھایا۔ خان عبد الولی خان نے ون یونٹ توڑنے کی بات کی۔ ائیر مارشل اصغر خان اور جسٹس محبوب مرشد نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔ میاں ممتاز دولتانہ نے ون یونٹ توڑنے کے سلسلہ میں خان عبد الولی خان کی ہمنوائی کی۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر پروفیسر غلام اعظم نے بھی کچھ مخصوص انفرادی مطالبات اٹھائے۔
مولانا مفتی محمود نے کمال عمدگی کے ساتھ اسلام کا کیس لڑا:
اب کانفرنس کی میز پر یہ سب مطالبات تو تھے مگر وہ مطالبہ کہیں نہ تھا جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا گھر بار لٹائے، جان ومال کی قربانیاں دیں ، ہزاروں سہاگ اجڑے۔ اللہ جزائے خیر دے مولانا مفتی محمود کو، کہ انہوں نے بڑی عمدگی کے ساتھ اسلام کا کیس لڑا، نہایت موثر تقریر کی اور دستور کی گاڑی کو اسلامی اصولوں کی پٹڑی پر چلانے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے اس غرض سے علماء کے وہ مشہور نکات کانفرنس کی میز پر رکھے جنہیں پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر کے جید علما کرام نے جنوری 1951ء میں بالاتفاق پیش کیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور ا نہی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر وضع کیا جائے۔ مفتی صاحب نے عقیدہ ختم نبوت کے آئینی تحفظ کی غرض سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دستور میں مسلمان کی تعریف بھی متعین کی جائے۔ ایم ایم احمد ایسے سکہ بند قادیانی ایوب خان کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے، وہ مفتی صاحب کے اس مطالبے سے بھنا اٹھے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ دستور میں جب یہ بات موجود ہے کہ پاکستان کا صدر مسلمان ہو گا تو مسلمان کی تعریف بھی متعین ہونی چاہیے۔
جرات رندانہ کا اظہار کرتے ہوئے مفتی محمود کا صدر ایوب سے مکالمہ:
صدر ایوب خوب سمجھتے تھے کہ مفتی صاحب کے اس مطالبے کی زرد کہاں پڑتی ہے، اس لئے اس موقع پر مفتی صاحب سے ان کا مکالمہ ہوا۔
صدر ایوب: کون نہیں جانتا کہ مسلمان کون ہوتا ہے؟
مفتی محمود صاحب: بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اس ملک میں خدا کے منکر ہیں، رسول کے منکر ہیں، نبوت کے منکر ہیں، ختم نبوت کے منکر ہیں، وہ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔
صدر ایوب: کوئی شخص غیر مسلم کو ووٹ نہیں دے گا۔
مفتی صاحب: آپ ایسا کریں کہ دستور کے اس دفعہ کو بھی حذف کردیں کہ ''صدر مسلمان ہوگا'' کیونکہ اس میں لازماً مسلمان ہی صدر منتخب ہوگا تو اس طرح دستور کی یہ شرط بھی لغو ہو جائے گی۔
گول میز کانفرنس کے شرکا میں سے صرف جسٹس محبوب مرشد نے اس معاملہ میں مفتی صاحب کی تائید کی اور کہا ''اصولاً یہ صحیح ہے، مسلمان کی تعریف لازماً متعین ہونی چاہیے''
اس موقع پر اگرچہ مفتی صاحب کے یہ مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تاہم یہ ضرور آشکارا ہو گیا کہ مفتی محمود پاکستان میں اسلامی سیاست کی پیشانی کا جھومر اور نہایت غیر مرعوب قسم کی شخصیت ہیں۔
13 مارچ کو یہ گول میز کانفرنس ختم ہوئی۔ صدر ایوب نے جمہوری مجلس عمل کے دو مطالبات تسلیم کر لیے اور باقی مسائل کے بارے میں کہا کہ ان کا حل اسمبلی پر چھوڑ دینا چاہیے۔
گول میز کانفرنس کے پس منظر میں جو سر گرمیاں جاری تھیں بالآخر وہ رنگ لائیں ۔ چنانچہ 25 مارچ کو و جنرل یحیٰ خان نے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا۔ اس نے اپنے پیش رووں کی طرح چکنی چپڑی باتیں کیں۔ اور کہا: میں یہ بات قطعی طور پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری سوائے اس کے اور کوئی آرزو نہیں ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو ملک میں آئینی حکومت کے قیام کا باعث بن سکیں۔ اپنے اس نصب العین پر اس نے عمل درآمد کا آغاز اس طرح کیا کہ آئین منسوخ کر دیا۔ اسمبلیاں توڑ ڈالیں۔ سیای سرگرمیاں معطل کر دیں اور اخبارات پر سنسر شپ کا پہرہ بٹھا دیا۔ اب یحیی خاں نے وہی راگ الاپنا شروع کر دیا جو ایوب خان نے اقتدار حاصل کرتے وقت الا پا تھا۔یحیٰی خان کے برسر اقتدار آتے ہی آٹھ جماعتوں کا اتحاد ختم ہو گیا۔ اس سے ملک میں ایسا سیاسی خلا پیدا ہو گیا جو آخر وقت تک پر نہ ہو سکا اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا ۔
صدر ایوب کی شاطرانہ چال اور مفتی محمود کا دو ٹوک جواب:
ہوس اقتدار کا برا ہو۔ انسان اس میں پھنس کر پاکیزہ سے پاکیزہ خیالات کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتا۔ جب ایوب خان کے اقتدار کا سنگھا سن ڈولنے لگا تو وہ خود لاہور آیا۔ یہ اندازہ کرکے کہ نفاذ شریعت کا مطالبہ اٹھانے کے باعث علما ء کو عوام میں سیاسی رسوخ حاصل ہو رہا ہے۔ اس نے اس کا توڑ سوچا دسمبر 1968ء کے آخری دنوں میں اس نے گورنز ہاس لاہور میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک شاطرانہ چال چلی اور اعلان کیا: میرا ایمان ہے کہ پاکستان میں شرعی قوانین نافذ ہونے چاہئیں۔ میں علماء سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مل جل کر بیٹھیں اور اسلامی ضابطہ حیات کا ایک ایسا جامع مسودہ تیار کریں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے لئے قابل قبول ہو اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد ملک میں نافذ کیا جائے۔''
ایوب خان نے اپنے طور پہ بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح علماء آپس میں دست دگر بیان ہو کہ عوام کی نظروں سے گر جائیں گے۔ اور اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جائے گا مگر اس کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی ۔ اور علماء نے یک زبان ہوکر ان کی ایسی خبر لی کہ وہ آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا۔ اس موقع پر مفکر اسلام مولانا مفتی محمود صاحب نے ایوب خان کے جواب میں کہا؟ مجھے تعجب ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے خلاف سازشی گروہ نے پاکستان کے یوم تاسیس سے لیکر آج تک جس بوگس دلیل کا سہارا لیا تھا آج صدر ایوب خان نے بھی اس کا اعادہ کر دیا ہے۔ میں صدر ایوب خان سے پوچھتا ہوں کہ مختلف اسلامی فرقوں کے 31 علماء کرام نے آئین کے متعلق جن اصولوں کو اتفاق رائے سے طے کیا تھا۔ صدر ایوب خاں نے انہیں اپنے دستور کا حصہ بنا یا ہے؟ عائلی قوانین میں ترمیم کے سلسلہ میں قومی اسمبلی کی سب کمیٹی نے، جس میں تین خواتین بھی شامل تھیں جو ترمیمی رپورٹ اتفاق رائے سے پیش کی تھی، کیا اسے اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا؟ گذشتہ عام انتخابات کے دوران بھی صدر ایوب خان نے اسلامی قوانین کے بارے میں سفید کاغذ پر دستخط کرنے کا اعلان کر کے قوم کو سیاہ باغ دکھائے تھے۔ لیکن آج قوم کا شعور بیدار ہو چکا ہے ، وہ اس قسم کی باتوں سے گمراہ نہیں ہو سکتی۔ اسلام میں ہر فرقہ کے شخصی قوانین کو اس کے عقیدہ کے مطابق تحفظ حاصل ہے۔ اس لئے مختلف فرقوں کی موجودگی اسلامی قوانین کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مسلم قوم اب بیدار ہو چکی ہے اور اس طرح کی بوگس اور بوسیدہ باتوں سے اسے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔
ایوب خان ان باتوں کا جواب کیا دیتے ، ان کا تو مقصد ہی کچھ اور تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک تبصرہ شائع کریں