غیروں کی محتاجی چھوڑیں خودداری اپنائیں
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
دنیا میں وہی اقوام عزت اور ترقی کی راہ پر گامزن رہتی ہیں جو اپنی معیشت کو خود کفیل بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے، ہم نے اپنی تمام تر ضروریات کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں کھانے سے لے کر پہننے تک، روزمرہ کی چیزوں سے لے کر جدید ٹیکنالوجی تک، ہر چیز کے لیے اغیار کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس رویے نے ہمیں محض ایک صارف قوم بنا دیا ہے، جو اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے بجائے دوسروں کے رحم و کرم پر رہتی ہے۔
یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ آج ہم مغربی تہذیب اور معیشت کے سائے میں اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں درآمد شدہ اشیاء پر ہمارا بے جا انحصار نہ صرف ہماری معیشت کو کمزور کر رہا ہے بلکہ ہمیں فکری، تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے بھی ایک غلامانہ سوچ میں مبتلا کر رہا ہے۔ ہم نے ہر اس چیز کو آئیڈیل بنا لیا ہے جو باہر سے آتی ہے، جبکہ ہمارے اپنے ملک کی پیداوار اور وسائل کو نظر انداز کر دیا ہے۔
ہماری مارکیٹیں غیر ملکی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ہر دوسرا برانڈ کسی دوسرے ملک سے آیا ہوا ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی، ہر نیا فیشن، ہر جدید سہولت ہمیں مغربی ممالک سے ملتی ہے اس کے نتیجے میں، ہمارا مقامی تاجر، صنعتکار، اور ہنرمند پیچھے رہ جاتا ہے ہم نے اپنی صنعتوں کو فروغ دینے کے بجائے غیر ملکی کمپنیوں کے منافع میں اضافہ کرنا اپنا معمول بنا لیا ہے۔
اس رویے کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے مقامی تاجروں اور صنعتکاروں کو ہو رہا ہے۔ جب عوام بیرونی اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں تو مقامی پیداوار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ہماری صنعتیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بے روزگاری بڑھتی ہے، غربت میں اضافہ ہوتا ہے اور قومی معیشت مسلسل دباؤ کا شکار رہتی ہے۔
ہمیں خود سے اور اپنے حکمرانوں سے سے یہ سوال پوچھنا چاہئیے کہ کیا ہمیں واقعی ہر چیز بیرون ملک سے منگوانی چاہیے؟ کیا ہماری زمین اس قدر بنجر ہو چکی ہے کہ ہم اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے ہاتھوں میں وہ صلاحیت نہیں جو بہترین مصنوعات تیار کر سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس بے شمار قدرتی وسائل موجود ہیں، ہمارے ہنرمند دنیا میں کسی سے کم نہیں، ہمارے کسان بہترین پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ہماری صنعت اگر صحیح سمت میں چلائی جائے تو عالمی سطح پر مقابلہ کر سکتی ہے۔
اگر ہمارے حکمرانوں اور ہم نے آج خود کفالت کی راہ نہ اپنائی تو آنے والے دنوں میں ہم مزید قرضوں میں جکڑ جائیں گے، ہماری معیشت پر دوسروں کا قبضہ ہوگا، اور ہم ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہیں گے۔ لیکن اگر ہم نے ابھی سے اپنی شناخت کو بحال کرنے، مقامی وسائل کو استعمال کرنے اور خود انحصاری کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت جلد ہم ایک مضبوط، خوشحال اور خود کفیل قوم بن سکتے ہیں۔ لہذا ہمارے حکمرانوں کو ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ھے جن سے بدیسی اشیاء کی خریدوفروخت کی حوصلہ شکنی اور اپنے وطن کی اشیاء کی خریدوفروخت کی حوصلہ افزائی ہو۔
ہم اپنی پہچان، اپنی پیداوار، اور اپنی زمین پر فخر کریں۔ ہمیں دوسروں کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ جب ایک قوم خود داری کا راستہ اختیار کر لیتی ہے تو کوئی بھی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے: کیا ہم ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہیں گے، یا ایک آزاد، خود مختار اور باوقار قوم کے طور پر اپنی پہچان بنائیں گے؟
ایک تبصرہ شائع کریں