حقیقت کی سنگلاخ راہیں
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پاکستانی سیاست کے افق پر کئی نام چمکتے اور بجھتے رہے، مگر کچھ چراغ ایسے بھی ہیں جو وقت کے تھپیڑوں کے باوجود اپنی روشنی برقرار رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن انہی چند سیاست دانوں میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی بصیرت، جراتِ اظہار اور حکمتِ عملی سے سیاست میں اپنا الگ مقام پیدا کیا وہ محض الفاظ کے جوڑ توڑ سے سیاست نہیں کرتے، بلکہ ان کے فیصلے تاریخ کے دھارے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہمارے قومی بیانیے یکساں اور مستقل نہیں رہے۔ کبھی ایک مؤقف اپنایا جاتا ہے تو کبھی حالات کے مطابق اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اسی تضاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام میں کنفیوژن پھیلا اور پالیسیوں کی ساکھ متاثر ہوئی۔
مثال کے طور پر، ایک دور میں جن مسلح گروہوں کو "مجاہدین" کہا گیا، وہی بعد میں "دہشت گرد" قرار پائے۔ اس تضاد نے نہ صرف ریاستی ساکھ کو کمزور کیا، بلکہ عوام میں بے یقینی کی فضا بھی پیدا کی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ پالیسی سازی میں سنجیدگی اور استحکام ضروری ہے، ورنہ ایک کے بعد دوسرا بحران جنم لیتا رہے گا۔
پاکستان میں ہمیشہ سے مذہبی قیادت ایک مضبوط قوت رہی ہے۔ مگر حیران کن طور پر انہی علماء کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا جو امن، اعتدال اور برداشت کی بات کرتے ہیں۔ جید علماء کی شہادتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ جو لوگ شدت پسندی کی مخالفت کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں، پارلیمنٹ میں گرما گرم تقاریر ہوتی ہیں، مگر اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اقتدار کے ایوانوں میں جو کچھ نظر آتا ہے، وہ محض ایک دکھاوا ہے کیونکہ ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب ہمیشہ سے اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اگر عوامی نمائندوں کے پاس حقیقی اختیار نہ ہو، تو سیاست محض ایک تماشہ بن کر رہ جاتی ہے۔
ملک کا سب سے بڑا مگر سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ بلوچستان ہے دہائیوں سے یہ خطہ بدامنی، بے یقینی اور محرومی کا شکار ہے اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا، تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن جیسے رہنماؤں نے ہمیشہ اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اگر ریاست خود اپنے لوگوں کو ان کا جائز حق نہ دے تو علیحدگی پسند تحریکیں جنم لینے لگتی ہیں۔ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ واقعی برابر کے شہری ہیں۔
پاکستان کی سیاست اس وقت شدید کشمکش کا شکار ہے اگر یہی حالات رہے تو مستقبل مزید غیر یقینی کا شکار ہو سکتا ہے مولانا فضل الرحمٰن جیسے رہنماؤں کی موجودگی سیاست میں ایک استحکام کا تاثر دیتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ آیا ہماری ریاستی پالیسی میں بھی استحکام آ سکتا ہے یا نہیں؟
یہی وہ لمحہ فکریہ ہے جس پر غور کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں