سیاسی انتشار میں جمعیۃ علماء اسلام کی برتری۔ محمد اسامہ پسروری

سیاسی انتشار میں جمعیۃ علماء اسلام کی برتری

✍️ محمد اسامہ پسروری

پاکستانی سیاست اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں نظریات دم توڑ چکے ہیں، اصول پسندی مذاق بن چکی ہے، اور اقتدار کی ہوس ہر حد پار کر چکی ہے۔ جو کل ایک دوسرے کو چور اور غدار کہتے تھے، آج اقتدار کی کرسی کے لیے ایک دوسرے کے گلے لگانے کو تیار ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی جماعت اپنی تاریخ، اصول اور نظریات پر کھڑی ہے تو وہ جمعیۃ علماء اسلام ہے جو نہ صرف ماضی میں اسلامی سیاست کی ایک مضبوط علامت رہی ہے بلکہ آج بھی ملک میں سیاسی توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

آج سیاست کے بڑے بڑے برج زمین بوس ہو چکے ہیں۔ جو حکمرانی کے نشے میں مست تھے، آج راہیں تکتے نظر آتے ہیں۔ جو کل اقتدار کے ایوانوں میں اپنی طاقت کے نشے میں دھت تھے، آج عوام میں جانے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ ایسے میں جمعیۃ علماء اسلام، جسے ماضی میں نظر انداز کیا جاتا تھا، اپنی حکمت، استقامت اور سیاسی بصیرت کی بدولت ایک ناقابلِ نظر انداز قوت بن چکی ہے۔

یہ جماعت کوئی عام سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو برطانوی سامراج کے خلاف برصغیر کے علماء کی جرات مندانہ جدوجہد سے نکلی تھی۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے پاکستان میں اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے ہر محاذ پر قربانیاں دیں۔ اور آج جب سیاست کا ہر ستون ہل چکا ہے تب بھی جمعیۃ اپنی جگہ مضبوط کھڑی ہے۔

اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو واضح ہوتا ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام نے ہمیشہ نظریاتی سیاست کی ہے، جو محض اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے تھی۔ مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ وہ شخصیت تھے جنہوں نے پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کروائیں۔ ان کے بعد آنے والے اکابر، جیسے مولانا فضل الرحمن، نے اس مشن کو مزید آگے بڑھایا۔

جب ملکی سیاست بے راہ روی کا شکار ہوئی، جب اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے عوام کے جذبات کا استحصال کیا، تب بھی جمعیۃ علماء اسلام نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اصولی سیاست کو برقرار رکھا۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ وہی سیاستدان جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتے تھے جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے تعلق جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

آج جب ملکی سیاست بحرانوں کی زد میں ہے، جمعیۃ علماء اسلام ہی وہ واحد جماعت ہے جو ایک مستحکم سیاسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ چاہے پارلیمنٹ میں ہو، سڑکوں پر ہو، یا سفارتی محاذ پر—یہ جماعت اپنی اصولی سیاست کے ذریعے ملک کو استحکام دینے میں مصروف ہے۔

یہ وہ جماعت ہے جس کے قائدین نے نہ صرف میدانِ سیاست میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ عوام کو بھی بتایا کہ سیاست کا مطلب صرف اقتدار نہیں، بلکہ خدمت اور قیادت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملکی سیاست کے بڑے بڑے نام جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کے محتاج ہو چکے ہیں۔

 کیا ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟

پاکستان کی سیاست آج جس گہرے بحران میں ہے، اس میں عوام کے پاس سوچنے کا ایک اور موقع ہے۔ کیا ہم ان جماعتوں کے پیچھے چلیں گے جو صرف نعروں کی سیاست کرتی ہیں، یا پھر اس جماعت کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس کی جڑیں قربانی، اصول اور اسلامی سیاست میں پیوست ہیں؟

 جواب ہم سب کے ہاتھ میں ہے!


0/Post a Comment/Comments