قومی وحدت اور اجتماعی دانش کی ضرورت
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پاکستان ایک نظریاتی اور جغرافیائی وحدت رکھنے والی ریاست ہے لیکن موجودہ حالات میں اس وحدت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مولانا فضل الرحمن صاحب نے اپنے بیان میں اسی حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ اگر ملک میں جاری عدم استحکام اور بدامنی کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کے لیے اجتماعی سیاسی بصیرت اور مشاورت ناگزیر ہے۔ صرف سیاسی قیادت کی حکمتِ عملی اور تدبر ہی ایسے مسائل کا دیرپا حل نکال سکتا ہے جبکہ وقتی اور مصنوعی اقدامات دیرپا استحکام کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
پاکستان میں جمہوری عمل اور سیاسی قیادت کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے جب بھی تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ملک میں استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہوئی لیکن جب جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور فیصلے چند مخصوص حلقوں تک محدود ہو گئے تو اس کے نتائج قوم نے عدم استحکام اور بے یقینی کی صورت میں دیکھے۔
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور اس کی مضبوطی کا انحصار وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی اعتماد پر ہے اگر جمہوری اصولوں کو مضبوط کیا جائے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور سیاسی قیادت کو فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے تو موجودہ چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ وقت باہمی مشاورت اور دور اندیش فیصلوں کا ہے۔ قیادت کی بصیرت اور اجتماعی فہم و فراست ہی وہ راستہ ہے جس سے پاکستان کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے قومی وحدت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں ملک میں ایسا ماحول پیدا ہوگا جہاں تمام طبقات اور ادارے مل کر ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔
ایک تبصرہ شائع کریں