وطن سے محبت کی قیمت بڑی بھاری چکانی پڑی ہے
تحریر: حافظ علی گل سندھی
اگر وطن سے محبت ایمان کی علامت ہے تو اس وقت وطن عزیز میں مذہبی طبقے سے بڑھ کر کوئی بھی ایماندار نہیں ہے۔
اگر جان دیکر خود کو محب وطن ثابت کرنے کی بات ہے تو سب سے بڑا محب وطن مذہبی طبقہ ہے۔
اگر وطن کی سالمیت و بقاء کیلئے کوئی طبقہ سختیاں جھیلتے ہوئے بھی 'مردہ باد' کا نعرہ نہیں لگاتا تو بلاشبہ وہ مذہبی طبقہ ہے۔ بقول شاعر:
وطن سے محبت ہے جرم اپنا
یہ جرم تا زندگی کریں گے۔
اے اہلِ اقتدار! آپ نے ایک ایسے طبقے کو پسِ دیوارِ زنداں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو مرتے دم بھی اپنے مریدین و معتقدین کو یہ درس دیتے ہوئے جاتا ہے کہ، ہمیشہ اپنے دیس سے وفادار رہنا۔
آخر آپ کب تک اس ظلم و بربریت کی فضاء کو قائم رکھو گے؟ کب تک معصوم لوگوں کا خون بہاتے رہو گے؟ کیوں کہ:
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، چلتا ہے تو جم جاتا ہے
اربابِ اختیار و اقتدار سے میرے دو سوالات ہیں
ایک، میرا جرم بتایا جائے؟
دوم، میرا قاتل سامنے لایا جائے؟
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ سے لیکر مولانا حامد الحق رحمہ اللّٰہ کی شہادت تک ہزاروں جبال العلم و کبار علماء کرام کی شہادت پاکستانی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔
پاکستان کی نمبر ون ایجنسیاں جن کو پہاڑوں میں رینگتی ہوئی چیونٹی بھی نظر آجاتی ہے کیا ان کو اتنے مصروف ترین شہر اور اتنے بڑے ادارے میں جمعۃ المبارک کے بابرکت دن میں وہ نطفہ حرام نظر نہیں آیا جس نے خدا کے گھر کے تقدس کو پامال کیا اور معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی؟
ایجنسیز والو، وردی والو، پالیسیاں بنانے والو، بند کمروں میں شراب و شباب سے شغل لگا کر مذہبی طبقے کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کرنے والو، کان کھول کر سن لو!
یہ جو علماء کے نامعلوم قاتل ہیں، ہمیں خوب معلوم ہیں۔
لیکن دعا دو اس بوڑھے ببر شیر مفکر اسلام مفتی محمود رحمہ اللّٰہ کے حقیقی جانشیں کو جس کو اللہ نے ایسا جگر دیا ہے جو ہزاروں صدمے سہنے کے بعد بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہا ہے۔
ایک ایسا نڈر اور بہادر جو اپنوں اور بیگانوں کے ستم سہہ کر بھی اپنے ابابیلوں کو کنٹرول کیے ہوئے ہے وگرنہ ان سرفروشوں کا تو نعرہ ہے۔
وہ سنگِ گِراں جو حائل ہے رستے سے ہٹا کر دم لیں گے
گر عزت سے جیئے تو جی لیں گے ورنہ جامِ شہادت پی لیں گے۔
لیکن آخر کب تک یہ تماشا چلتا رہے گا؟
آخر کب تک ہم اپنے علماء و مشائخ کے جنازے اٹھاتے رہیں گے؟
کیا کسی کے احسان کا بدلہ اس سے جان لیکر دیا جاتا ہے ؟
یہ تو وہ طبقہ ہے جو تہجد کی نماز ہو یا پنج وقتہ، ختم قرآن ہو یا ختم بخآری، سیاسی جلسہ ہو یا اصلاحی، عالم ہو یا طالب، جمعہ ہو یا عید یہ جب بھی دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو سب سے پہلی دعا جو لب پر آتی ہے وہ یہ کہ
یا اللہ اس دیس کی حفاظت کرنا، جو تبلیغی اجتماعات سے لیکر جمعے کے خطابات تک اپنی قوم کی اصلاح اور وطن سے وفاداری کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر ایسے طبقے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں؟
خدارا ذرا نہیں پورا سوچیئے اور ان خدا کے درویش بندوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیجئے ورنہ یاد رکھو اگر یہ روٹھ گئے تو خدا بھی تم سے روٹھ جائے گا۔
یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے
یہ چمن ہمارا ہے ہم ہیں نغمخواں اس کے
ایک تبصرہ شائع کریں