عروجِ تنخواہ، زوالِ عوام
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
ملک کے معاشی منظرنامے میں شدید تبدیلیاں اور تشویشناک موڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مہنگائی کے بے رحم جال نے عام آدمی کو نچلے درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے، جبکہ حکمران اپنے ذاتی آسائشوں میں اضافہ کے لیے عوام کی مشکلات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے وزراء، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں میں غیر متناسب اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ مستند ذرائع کے مطابق اب ان کی نئی تنخواہ پانچ لاکھ انیس ہزار روپے مقرر کر دی گئی ہے، جبکہ پہلے وفاقی وزیر کو دو لاکھ روپے اور وزیر مملکت کو ایک لاکھ اسی ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ مزید برآں، وفاقی وزیر کی تنخواہ میں 159 فیصد اور وزیر مملکت و مشیر برائے وزیراعظم کی تنخواہوں میں 188 فیصد تک اضافہ منظور کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ عوام کے لیے ایک تکلیف دہ حقیقت اور حکمرانوں کی دوغلی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں غریب عوام روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہیں منتخب حکمرانوں نے اپنی ذاتی آسائشوں میں اضافے کے ذریعے عوام کی بنیادی مشکلات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ بجلی، گیس، پانی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہر گھر کی معیشت کو دھچکے میں ڈال دیا ہے، مگر حکومتی بیانات کے باوجود عوام کی تکالیف کا کوئی دیرپا حل سامنے نہیں آیا۔
اس اضافے سے قومی خزانے پر غیر متناسب بوجھ پڑنے کے ساتھ ساتھ ملک پہلے ہی بڑھتے ہوئے قرضوں کے بحران میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف معاشی عدم توازن کو مزید بڑھا دے گا بلکہ عوام میں حکمرانوں پر سے اعتماد ختم کر دے گا۔ اس تناظر میں حکومت کو چاہیے کہ وہ وزراء کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کے بجائے سرکاری اخراجات میں کمی کرے، غیر ضروری پروٹوکول کو ختم کرے اور وسائل عوامی بہبود کے منصوبوں پر مرکوز کرے۔
اگر عوام اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تو حکمران اپنے مفادات کے لیے مزید ایسے فیصلے کرتے رہیں گے جو قوم کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اجتماعی شعور پیدا کریں اور ہر اس اقدام کی مخالفت کریں جو ملک کے مجموعی مفاد کے خلاف ہو۔ ایک منصفانہ اور خوشحال مستقبل کے لیے ہمیں خود میدان میں آ کر اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔
ایک تبصرہ شائع کریں