جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کیوں ضروری؟
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پاکستان اس وقت جس نظریاتی، سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایک ایسی قیادت سامنے آئے جو محض اقتدار کی نہیں، بلکہ دین، قوم اور ملک کی حقیقی خیر خواہ ہو۔ مگر بدقسمتی سے سیاست کے میدان میں وہی چہرے بار بار سامنے آ رہے ہیں جو قوم کو سبز باغ دکھا کر اقتدار میں آتے ہیں اور پھر اپنے مفادات میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی جماعت ملک کو موجودہ گمبھیر صورتحال سے نکال سکتی ہے تو وہ جمعیۃ علماء اسلام ہی ہے کیونکہ یہ جماعت نہ صرف سیاست میں اصولوں کی امین ہے بلکہ دینِ اسلام کے تحفظ، آئینی بالادستی اور عوامی حقوق کے دفاع کے لیے بھی سب سے مضبوط آواز ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج پاکستان کو کسی اور سیاسی جماعت کی نہیں، بلکہ ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو اسلام کی سربلندی کو اپنی سیاست کا محور بنائے، جو اقتدار کے لیے نظریات کا سودا نہ کرے۔ جو پاکستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھے، اور جو سامراجی ایجنڈوں اور ایجنٹوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو یہی وہ بنیادی اوصاف ہیں جو جمعیۃ علماء اسلام کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں مقتدر قوتیں ذاتی مفاداتی اور کرپشن زدہ لوگوں کو سیاستدان بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں یہ کرپشن و ذاتی مفادات کے غلام سیاستدان نما بونے نظریے کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ھے کہ سیاسی جماعتیں بدلنا، اصولوں کی قربانی دینا، عوام سے جھوٹے وعدے کرنا، اور اقتدار کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا یہاں عام روایت بن چکی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جماعت آج بھی اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے، تو وہ *جمعیۃ علماء اسلام* ہے۔ اس کی قیادت نے ہمیشہ اسلامی اقدار، آئینی دفعات اور قومی سالمیت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی ہے، چاہے اس راہ میں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں۔
یہ جماعت اقتدار کے حصول کے لیے کبھی نظریاتی سودے بازی پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اس نے ہمیشہ اپنے کارکنوں میں وہ جذبہ پیدا کیا جو کسی بھی تحریک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے کارکن کسی وقتی مفاد یا اقتدار کے لالچ میں میدان میں نہیں نکلتے، بلکہ ان کا مقصد ہی دین کی سربلندی اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں اسلامی قوانین کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی، جب بھی ختم نبوتؐ کے قانون پر حملہ ہوا، جب بھی مدارس کے خلاف سازش کی گئی، جب بھی مغربی آقاؤں کے دباؤ میں آکر پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی گئی، تو جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن سب سے پہلے میدان میں اترے اور ہر محاذ پر اپنا کردار ادا کیا۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ آج پاکستان کو جمعیۃ کے انہی مخلص کارکنوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہ کارکن جو اسلام، پاکستان اور عوام کی حقیقی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وہ کارکن جو سیاست کو محض ایک پیشہ یا کاروبار نہیں سمجھتے، بلکہ اسے دینی خدمت اور قومی ذمہ داری سمجھ کر میدان میں اترتے ہیں۔ وہ کارکن جو اقتدار کے بھوکے نہیں، بلکہ ملک و ملت کے لیے قربانی دینے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ آج جب سیاست میں ہر طرف خود غرضی، موقع پرستی اور نظریاتی انحراف کا بازار گرم ہے، ایسے میں اگر کوئی جماعت اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے، تو وہ صرف جمعیۃ علماء اسلام ہے۔
یہ جماعت نہ صرف پاکستان کے آئین و قانون میں موجود اسلامی دفعات کی محافظ ہے، بلکہ یہ عوامی مسائل کا حل بھی پیش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدان صرف نعروں اور دعووں تک محدود رہتے ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو عوامی مسائل پر چیختے چلاتے ہیں، مگر جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں، ان کا سب کچھ بدل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کو ان جماعتوں پر اعتماد نہیں رہا جو دہائیوں سے سیاست میں موجود ہیں مگر ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی جماعت واقعتاً ایک متبادل کے طور پر سامنے آ سکتی ہے تو وہ جمعیۃ علماء اسلام ہے، کیونکہ یہ جماعت اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں، ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹی رہی ہے۔
پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو بیرونی طاقتوں کے دباؤ میں نہ آئے، جو پاکستان کو مغربی ایجنڈے کے تحت چلانے کی بجائے اسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کرے، جو صرف دعوے نہ کرے بلکہ عملی طور پر دین کی حفاظت کرے، جو عوام کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہو، اور جو ملک کو بیرونی قرضوں، استعماری سازشوں اور سیاسی انتشار سے نکال کر ایک مستحکم اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہو۔
یہی قیادت آج جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر اس شخص کو جو دین سے محبت رکھتا ہے، جو پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کا خواہاں ہے، اور جو ایک حقیقی نظریاتی سیاست کا حامی ہے، اسے چاہیے کہ وہ جمعیۃ علماء اسلام کی تقویت کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اقتدار کے کھیل میں الجھی ہوئی سیاست سے نکل کر ایک نظریاتی سیاست کا حصہ بنیں۔ اگر پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے، اگر اس ملک کو بیرونی مداخلتوں سے پاک کرنا ہے، اگر عوامی مسائل کو حل کرنا ہے، اگر پاکستان کو اس کے اصل نظریے کی طرف واپس لانا ہے، تو پھر ہمیں ایک ایسی قیادت کو آگے لانا ہوگا جو واقعی پاکستان کے لیے سنجیدہ ہو۔
یہ وقت ہے کہ ہم جمعیۃ علماء اسلام کے پیغام کو ہر گھر تک پہنچائیں، اس کے نظریے کو مضبوط کریں، اس کے کارکنوں کے دست و بازو بنیں، اور پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ آج ملک عزیز کو کسی اور جماعت، کسی اور سیاستدان، کسی اور نظام کی نہیں، بلکہ جمعیۃ علماء اسلام کے سچے، دیانتدار اور مخلص کارکنوں کی ضرورت ہے!
ایک تبصرہ شائع کریں