صحافت سے غلاظت تک کا سفر ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

صحافت سے غلاظت تک کا سفر

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

آج کا دن اس بات کا ایک اور ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ اے آر وائی صحافت کے نام پر غلاظت پھیلانے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ڈمی بنا کر نہ صرف ایک جید عالمِ دین کی تضحیک کی گئی بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس چینل کے پاس نہ صحافتی اصول ہیں، نہ اخلاقی اقدار، اور نہ ہی سچائی کی کوئی پرواہ۔

جب بے غیرتی کو پیشہ بنا لیا جائے جب ریٹنگ کی بھوک ضمیر کو کھا جائے اور جب صحافت تماشہ بن جائے تب اے آر وائی جیسے چینل جنم لیتے ہیں ان کے لیے سچائی کوئی معنی نہیں رکھتی عزت کوئی قدر نہیں، اور اخلاقیات محض ایک مذاق ہے۔

 مولانا فضل الرحمٰن کی ڈمی؟ یا اپنی اوقات کا اظہار؟

اے آر وائی والوں نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ڈمی بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ ان کے پاس نہ عقل ہے نہ حیا نہ کوئی صحافتی اصول ان کے لیے کسی عالمِ دین کی توہین ایک تفریح ہے کیونکہ یہ وہ بدبخت ہیں جو عزت بیچ کر ٹی آر پی خریدنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

اے آر وائی والے وہ لوگ ہیں جو ہر روز جھوٹ بیچتے ہیں نفرت کا بازار لگاتے ہیں اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہیں پہلے سیاستدانوں کو نشانہ بنایا، پھر قومی اداروں پر کیچڑ اچھالا اور اب علماء کرام کی توہین پر اتر آئے ہیں لگتا ہے کہ بے غیرتی میں مزید ترقی کے لیے یہ لوگ اپنا نیا نصاب ترتیب دے رہے ہیں

اے آر وائی کے صحافی وہ لوگ ہیں جو صحافت کم اور غلاظت زیادہ پھیلاتے ہیں ان کا کام صرف ایک ہے جھوٹ گھڑو نفرت پھیلاؤ اور اپنے آقاؤں کو خوش رکھو یہ نام نہاد اینکر وہ درباری مسخرے ہیں جو رات کے شوز میں سرکس لگاتے ہیں اور اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔

ایسے چینل کو دیکھنا بھی اپنی عقل کی توہین ہے عوام کو چاہیے کہ اس گٹر میں گرنے سے بچیں اور اس چینل کا مکمل بائیکاٹ کریں اگر ان جیسے گِدھوں کو سبق سکھانا ہے تو انہیں نظر انداز کرنا ہی بہترین انتقام ہے۔

 غلاظت جتنی بھی سجالی جائے بدبو نہیں جاتی اے آر وائی چاہے جتنا بھی صحافت کا لبادہ اوڑھ لے اس کی حقیقت سب پر عیاں ہے یہ وہ چینل ہے جو عزت داروں پر کیچڑ اچھال کر خود کو بڑا سمجھتا ہے مگر درحقیقت یہ خود ایک گندی نالی میں پڑی لاش کے سوا کچھ نہیں جسے بس وقت کے ساتھ مزید سڑنا ہے۔


2/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں