خاموشیوں میں گونجتی آواز ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

خاموشیوں میں گونجتی آواز

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

گزشتہ کئی ماہ سے فلسطین خصوصاً غزہ شدید ترین انسانی بحران کا شکار ہے اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ان حالات میں عالمی برادری کی بےحسی تو اپنی جگہ خود مسلم دنیا کی خاموشی نے سوالات کو جنم دیا ہے۔

ایسے موقع پر اگر کسی مسلم رہنما کی آواز واضح طور پر ابھری ہے تو وہ جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ہے مولانا نے نہ صرف کھل کر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی بلکہ مسلم حکمرانوں کو ان کی خاموشی پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ان کے بیانات نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر امت کے اس عمومی احساس کی ترجمانی کرتے ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں متحرک اور متفکر ہے۔

مولانا فضل الرحمن کی فلسطین سے وابستگی وقتی نہیں وہ ماضی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف بھرپور آواز بلند کرتے رہے ہیں جب بعض عرب ریاستوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی مولانا ان معدودے چند رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور اسے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔

یہ بھی قابلِ ذِکر ہے کہ مولانا کی فلسطین سے وابستگی صرف بیانات تک محدود نہیں ان کی سیاسی زندگی کا بڑا حصہ عالمی استعمار، قادیانی لابیز، اور اسلامی اقدار پر حملوں کے خلاف مزاحمت میں گزرا ہے ختم نبوت کے تحفظ مدارس کے دفاع اور آئینی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

اس وقت جب بیشتر مسلم ممالک اسرائیل کے معاملے پر غیر واضح یا خاموش پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں مولانا فضل الرحمن کی واضح اور غیر مبہم پوزیشن انہیں دیگر رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اور علمی و دینی حلقوں میں انہیں "قائدِ ملت اسلامیہ" جیسے القابات سے بھی یاد کیا جا رہا ہے۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایسے وقت میں جب امت مسلمہ رہنمائی کے بحران کا شکار دکھائی دیتی ہے مولانا کی جرات مندانہ قیادت فکری وضاحت اور اصولی مؤقف ایک قابلِ اعتماد اور مستحکم آواز بن چکی ہے۔ 


0/Post a Comment/Comments