بھونکنے والے دانشور اور یہود کے فکری کتے
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
جب بھی ملت کے اصل علماء کسی درد کو آواز دیتے ہیں کسی سچ کو بیان کرتے ہیں امت کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک خاص نسل کے کالم نگار، یوٹیوبر، ٹوئیٹر کے انقلابی اور مغربی جوتے چاٹنے والے دانشور فوراً بھونکنا شروع کر دیتے ہیں جیسے ہی کسی عالم دین نے بائیکاٹ کی بات کی یا جہاد کا فتویٰ دیا ان کے دماغ کی تاریں جل گئیں اور لبوں سے کف اُگلنے لگے "یہ سازش ہے"، "یہ نفرت انگیزی ہے"، "یہ شدت پسندی ہے"، "یہ پروپیگنڈا ہے"۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کبھی فرانس کے بائیکاٹ کو "بچگانہ ردعمل" کہا کبھی ڈنمارک کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو "رجعت پسند" کہا اور کبھی غزہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو "انتہا پسندانہ بیانیہ" قرار دیا۔ یہ دانش کے ٹھیکے دار آج یہودی فکر کی گود میں بیٹھ کر وہی بول بول رہے ہیں جو صہیونی میڈیا چاہتا ہے ان کے پیٹ میں تب درد ہوتا ہے جب ایک مولوی فلسطین کی حمایت میں لب کھولتا ہے ان کا جگر تب پھٹتا ہے جب کوئی مفتی کہتا ہے کہ یہ وقت خاموشی کا نہیں جہاد کا ہے۔
ارے او دانشور! تم کون ہوتے ہو فتویٰ کے قابل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے والے؟ نہ تم نے دین پڑھا، نہ حدیث کی سیاہی سونگھی، نہ قرآن کے رموز سمجھے اور بات کرتے ہو کہ "یہ مولوی فتنہ پھیلا رہے ہیں"؟ تمھارے لیے تو شاید جہاد صرف ایک فلمی سین ہے اور بائیکاٹ صرف سوشل میڈیا کی ہیش ٹیگ، مگر جن کے دل میں امت کا درد ہے وہ جانتے ہیں کہ دشمن کا ہر نوالہ ہمارے سکوت کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے۔
یہ طنز نہیں تلخ حقیقت ہے کہ آج کا سب سے بڑا المیہ وہ "مسلمان" ہیں جو دشمن کے الفاظ اپنے منہ میں ڈال کر امت کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں جو اپنے ہی علماء کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور فیس بک لائیو میں بیٹھ کر یہود کی بولی بولتے ہیں افسوس! جنہیں امت کا محافظ ہونا چاہیے تھا وہی آج اس کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
یہ تحریر ان سب کے منہ پر ایک تیز طمانچہ ہے جو اسلام کی بقا کے بیانیے کو "انتہاپسندی" کہہ کر مسترد کرتے ہیں اور غزہ کے معصوم بچوں کے قاتلوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اگر ان جیسے "عقل کے دیوتا" ہمارے فیصلے کریں گے تو پھر کل مسجد اقصیٰ کو بھی دشمنوں کے حوالے کر دیں گے اور کہیں گے "معاشی بہتری کے لیے لازم تھا"۔
ایک تبصرہ شائع کریں